[رپورٹ: عمران کامیانہ]
چھ ہفتے قبل بلدیہ ٹاؤن کراچی میں واقع علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری میں ناقص حفاظتی انتظامات اور انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کے باعث لگنے والی آگ میں 259(سرکاری طور پر)مزدور جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے حوالے سے جرمن ویب سائٹ سپیگل نے اپنی ایک رپورٹ میں نئے انکشافات کیے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے مزدوروں کی اصل تعداد ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آ سکی۔حکومت اور فیکٹری انتظامیہ اس سلسلے میں بار بار اپنے بیان بدل رہے ہیں جبکہ متاثرہ فیکٹری کے بچ جانے والے مزدوروں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔بچنے والے مزدوروں کے مطابق فیکٹری میں کام کرنے والے مزدورپورے ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اوردور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے مزدور ایسے ہیں جن کی ہلاکتوں کا علم ان کے خاندانوں کو ابھی تک بھی نہیں ہے۔فیکٹری میں کام کرنے والی ایک خاتون کے مطابق ہر مزدور سے اوسطاً 14گھنٹے کام لیا جاتا تھا جبکہ زیادہ سے زیادہ اجرت 7000روپے ماہانہ تھی۔ ایک وقت میں فیکٹری کے اندر سینکڑوں مزدور موجود ہوتے تھے اور فیکٹری کا ماحول کسی جیل سے مختلف نہیں تھا۔شفٹ شروع ہونے کے بعد فیکٹری کے مختلف کمروں کو، جہاں مزدور کام کر رہے ہوتے تھے، تالے لگا دئے جاتے تھے جبکہ کھڑکیوں پر سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔سیفٹی اور Fire Exit کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں تھاجبکہ الیکٹرک وائرنگ کا نظام انتہائی بوسیدہ اور غیر معیاری تھا۔ان حالات میں جب فیکٹری میں آگ لگی تو بہت سے مزدوروں کے لئے جل کر ہلاک ہونے سے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔آگ لگنے کے بعد فیکٹری انتظامیہ تیار شدہ مال بچانے میں مصروف ہو گئی اورسینکڑوں مزدور مدد کے لئے چیختے چلاتے اور کھڑکیوں کی سلاخیں توڑنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ چونکہ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کی باقاعدہ رجسٹریشن اور ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا لہٰذا انتظامیہ کے لئے مرنے والوں کی اصل تعداد کو چھپانا نہایت آسان ہے اور حقائق شاید کبھی منظرِ عام پر نہ آسکیں۔
علی انٹرپرائزز جرمنی میں واقع ایک ریٹیل کمپنی Kik کے لئے جینز تیار کرتی تھی جوکہ Okay برینڈ کے نام سے فروخت ہوتی تھی۔جرمن کمپنی نے علی انٹرپرائزز سے اپنے تعلق کا اعتراف صرف تب کیا جب کچھ مزدور تنظیموں نے اس سلسلے میں ٹھوس اور ناقابلِ تردید شواہد فراہم کئے۔علی انٹرپرائزز میں کام کرنے والے ملازمین کے مطابق فیکٹری کے 90فیصد آرڈر Kik سے آتے تھے۔علی گارمنٹس فیکٹری میں ایک دن کی اجرت 150سے 200روپے دی جاتی تھی جبکہ جرمنی میں صرف ایک جینز 16یورو (تقریباً2000روپے) میں فروخت ہوتی ہے۔علی انٹر پرائزز اور Kik کے درمیان کاروباری تعلقات افشاں ہونے کے بعد Kikکو دنیا بھر میں مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایاجا رہا ہے اور ساکھ کے ساتھ ساتھ جرمن کمپنی کا کاروبار بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ان حالات میں گزشتہ ہفتے Kik کے ایگزیکٹو مائیکل اریٹز نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ Kikہلاک ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں کےلئے 1930یورو فی کس دینے کا ارادہ رکھتی ہے جوکہ تقریباً 240000روپے بنتے ہیں۔اس سے قبل حکومتِ پاکستان اور سندھ حکومت نے بھی متاثرہ خاندانو ں کے لئے 7لاکھ روپے فی خاندان امداد دینے کا وعدہ کیا تھالیکن جن خاندانوں کو یہ چیک دئے گئے ہیں ان کے مطابق بنک انہیں تسلیم کرنے سے ہی انکار کر رہے ہیں۔ باقی لواحقین ایسے ہیں جن کے پاس بنک اکاؤئنٹس سرے سے موجود ہی نہیں ہیں اور حکومتی چیک ان کے لئے بے کار ہیں۔
فیکٹری کے بچ جانے والے ایک مزدورکے مطابق ’’یہ رقم دینے کا وعدہ Kik کئی ہفتوں سے کرتی آرہی ہے لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، ہم بیروزگار ہو گئے ہیں اور میں کسی دوسری گارمنٹس فیکٹری میں کام ڈھونڈ رہا ہوں‘‘۔جبکہ مزدور یونین کے نمائندوں کے مطابق Kikصرف دھوکہ دہی اور غلط بیانی سے کام لے رہی ہے اور ’’ابھی تک ہمیں یہ پتا نہیں چل سکا کہ Kikکا کوئی نمائندہ ہمیں کہاں مل سکتا ہے‘‘۔
دوسری طرف گارمنٹس فیکٹری مالکان کی تنظیم ’’ پاکستان ریڈی میڈ گار منٹس مینو فیکچرر اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن‘‘ کے نمائندے شہزاد سلیم نے انتہائی ڈھٹائی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ گارمنٹس فیکٹری مالکان پر تنقید نا جائز ہے۔موصوف کے مطابق ’’بنگلہ دیش میں تو مزدوروں کو اس سے بھی آدھی اجرت ملتی ہے‘‘۔ان ظالم سرمایہ داروں کے مطابق فیکٹری مالکان مزدوروں کے قتل کے ذمہ دار نہیں۔ جبکہ پاکستان ٹریڈ یونین دیفنس کمپئین کی ملک گیر احتجاجی تقریبات میں آئے ہوئے تمام مزدور راہنماؤں نے فیکٹری مالکان اور حکومتی اہلکاروں کو اس بھیانک قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور انہیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’KiKکمپنی جرمنی میں گزشتہ 18سال سے کام کر رہی ہے اور سستی گارمنٹس بیچنے کے لیے مشہور ہے۔کمپنی دیگر کمپنیوں کی مسابقت میں قیمتیں کم کرتی ہے جس کے باعث اس کے منافعوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔اس کی سالانہ آمدن ایک ارب یورو سے بھی زیادہ ہے اور اس وقت اس کے یورپ کے 8ممالک میں تین ہزار سے زیادہ سٹور ہیں‘‘۔ لیکن ان تمام منافعوں کے پیچھے بنگلہ دیش اور پاکستان میں محنت کشوں کا انتہائی خوفناک استحصال موجود ہے۔ جسے اس فیکٹری میں لگنے والی آگ نے دنیا کے سامنے آشکار کیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار اور منافعوں میں اضافے کی بنیاد محنت کش طبقے کا استحصال ہے۔قانون بنانے والے اور ان پر عملدرآمد کروانے والے بھی سرمایہ دار طبقے کے ہی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ایسے میں محنت کش طبقے کو ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جہاں اس کی زندگی صرف سرمایہ دار کے منافع کے لیے خام مال کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔آج پاکستان میں حکمرانوں کی جانب سے تیزی سے مزدور دشمن قوانین بنائے جا رہے ہیں اور سرمایہ داروں کو ہر ممکن تحفظ کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔ ایسے میں کراچی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری جیسے مزید واقعات کا رونما ہونا حیرت انگیز نہیں ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محنت کش طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر کے نہ صرف کام کے بہتر حالات کار کی جدوجہد کی جائے بلکہ اس جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک لے جاتے ہوئے سرمایہ دار نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام صنعت اور معیشت کے کلیدی شعبے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیے جائیں۔صرف اسی طریقے سے اس ظلم اور بربریت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
متعلقہ: