| تحریر: ظفراللہ |
بیروزگاری کی سرکاری تعریف ہی اس طرح سے کی جاتی ہے کہ اعداد و شمار میں بیروزگاروں کی تعداد کم نظر آئے۔ بیروزگاری ایک سماجی کینسر ہے جس کی مختلف شکلیں اور اقسام ہمیں نظر آتی ہیں اور جس کی درست تشخیص ضروری ہے۔ موثر علاج کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مرض کی حقیقت پسندی پر مبنی تشخیص کی جائے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مرض کی حقیقی وجوہات تلاش کی جائیں تاکہ بیماری کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
ایسا نہیں ہے کہ انسانوں میں ہمیشہ سے بیکاری اور بیروزگاری سماجی عنصر کے طور پر موجود رہی ہو یا ان کا مقدر ہو بلکہ مختلف عہدوں اور نظاموں میں ملکیت کی مختلف شکلیں اس کا تعین کرتی ہیں۔ بقول کارل مارکس ’’سرمایہ داری کے بطورایک معاشی نظام کے حاوی ہونے سے پہلے بے روزگاری اور بیکاری کی یہ شکلیں نہیں ملتیں جو آج ہمیں نظر آتی ہیں۔ ہاں یہ ضرورہے کہ جنگوں اور قدرتی آفات کے نتیجے میں طویل المدت بے روزگاری کے ادوار نظر آتے ہیں۔ قدیم معاشروں میں ان تمام لوگوں کو بہر صورت کام کرنا پڑتا تھا جو کام کے قابل ہوتے تھے ورنہ ان کو فاقوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس بات کے بہت کم امکانات تھے کہ کوئی شخص بغیر کوئی کام کیے زندہ رہ سکتا تھا۔ بھکاریوں اور بیکار لوگوں کے لیے سماجی رویے قا بلِ نفرت ہوتے تھے۔‘‘
لیکن آج ٹیکنالوجی اور جدید پیداواری طریقوں کی موجودگی میں بے روزگاری کا مطلب کچھ اور ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلے روزگار انسانوں کا متلاشی تھا آج انسان روزگار ڈھونڈ رہے ہیں۔ شکار کے زمانے سے لیکر قرونِ وسطیٰ کے زرعی معاشروں تک، بے پناہ افرادی قوت کی ضرورت کی وجہ سے لوگ بیکاری اور بے روزگاری سے نا آشنا تھے۔ اگرچہ روزگارکی شکلیں بھی بہت ظالمانہ، غیر انسانی اور غلامی پر مبنی تھیں لیکن سرمایہ داری کے اندر بھی کوئی پر کشش، قابلِ فخر اور ’’با عزت‘‘ روزگار نہیں ہے۔ پر کشش لباس میں ٹیکنالوجی کے ذریعے محنت کرنے سے استحصال ختم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ گھناؤنا بن جاتاہے۔ سرمایہ دارانہ عروج و زوال کے معاشی چکر کے باوجود، بے روزگاری سرمایہ دارانہ نظام کا مستقل مظہر ہے۔ حتیٰ کہ بہترین معاشی حالات میں بھی بے روزگاری موجود رہتی ہے۔ مارکس نے ’’سرمایہ‘‘ میں پیشین گوئی کی تھی کہ ’’زیادہ منافعوں کی ہوس سرمایہ داروں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کم سے کم مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کر یں جس کے نتیجے میں غریبوں اور بے روزگاروں کی ’ریزرو صنعتی فوج‘ مجتمع ہوتی ہے۔ ایک طرف دولت کا بے تحاشہ اجتماع ہوتا ہے اور دوسری طرف غربت اور محرومی کا۔‘‘
براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور روزگار
ماضی میں سرمایہ دارانہ عروج و زوال میں بیروزگاری کی مختلف کیفیت رہی ہے۔ معاشی زوال کے دنوں میں پیدا ہونے والی بے روزگاری کچھ عرصے بعد دوبارہ معاشی ابھار کے دوران غائب ہو جاتی تھی۔ لیکن پچھلے دو عشروں میں اور بالخصوص 2008ء کے بحران کے بعد معاشی طرز میں تبدیلی کی وجہ سے بے روزگاری کا مظہر زیادہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ یہ بے روزگاری مارکس کی ’’ریزرو صنعتی فوج ‘‘ جیسی نہیں ہے جومعاشی ابھار میں سرمایہ داروں کو سستی لیبر کے طور پر میسر آتی تھی۔ بلکہ یہ ایک مستقل اور نامیاتی بیروزگاری ہے جو معاشی ابھار کی کیفیت میں بھی ختم نہیں ہو سکتی۔ سرمایہ دار شرح منافع میں بڑھوتری کے لیے ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں رہتے ہیں۔ منافعوں میں اضافہ، پیداوار کی لاگت میں کمی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے جس کا سب سے آسان طریقہ متغیر سرمائے ( مزدور) کو مستقل سرمائے (مشین) سے بدلنا ہے۔
نام نہاد معاشی عروج کے دور میں معاشی اشاریوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور حقیقت کو عوام سے چھپا کر رکھنا اس نظام کے خواریوں کا کام رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق 2008ء سے ایک دہائی پہلے دنیا میں 12 کروڑ افراد بے روزگار تھے۔ 2009ء میں ILO کے مطابق 20 کروڑ لوگ بے روزگار تھے۔ یہ اعدادو شمار بھی باقی سر کاری اعدادو شمار کی طرح گھٹا کر پیش کیے گئے ہیں۔ اگر ہم اس میں ہر قسم کا جبری کام کرنے والوں، اپنی صلاحیت سے کم تر کام کرنے والوں اور نوکری نہ ملنے پر مجبوراً اپنا کام دھندہ کرنے والوں کو شامل کریں تو ڈیڑھ ارب لوگ عالمی سطح پر بے روزگار ہیں۔ اسپین میں 24 فیصد لوگ بے روزگار ہیں جبکہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 57 فیصد ہے۔ یونان میں ہر تین نوجوانوں میں سے دو بے روزگار ہیں۔ اسی طرح فرانس میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں ہر ماہ جتنی نئی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں اس سے زیادہ تعداد میں لوگ بے روزگار ہوجاتے ہیں۔ پچھلے سات سالوں میں جو نئی نوکریاں پیدا ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر غیر مستقل اور عارضی ملازمتیں ہیں۔ ماضی کی طرح مستقل ملازمتیں اب قصہ ماضی ہو چکی ہیں۔
پاکستان کی طرح کے بے شمار پسماندہ ممالک میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI) کی اصطلاح کا استعمال بہت عام ہے۔ بہت سی نام نہادمقبولِ عام نئی اور پرانی سیاسی پارٹیوں کی قیادت بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ’’FDI‘‘ کی اصطلاح کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو بے وقوف بناتے نظر آتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں جتنی بھی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے در حقیقت اس سے روزگاربڑھنے کی بجائے ختم ہوا ہے۔ نجکاری کے ذریعے قومی اداروں کو عالمی اجارہ داریوں کے ہاتھ بیچا گیا، اس کے نتیجے میں ہزاروں محنت کشوں کو نوکریوں سے بر طرف کرکے بے پناہ منافع کمایا گیا۔ یہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری Labour Intensive کی بجائے Capital Intensive تھی۔
Labour Intensive سرمایہ کاری میں پیداواری عمل میں زیادہ سے زیادہ محنت کشوں کے ذریعے پیداوار کی جاتی تھی جس کے ذریعے بے روزگاری اتنے بڑے عفریت کی شکل میں سامنے نہیں آتی تھی۔ آج Capital Intensive سرمایہ کاری کے ذریعے کم سے کم افرادی قوت استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اشیا اور خدمات پیدا کی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ ایسے روبوٹس بنائے جا چکے ہیں جو ہوٹلوں میں بیروں کے متبادل کے طور پر کام کریں گے۔ تمام سرمایہ داروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم اُجرتیں دے کر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کریں جس کے لیے وہ افرادی قوت پر انحصار کی بجائے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر تے ہیں جس سے تیز رفتار پیداوار اور زیادہ شرح منافع کا حصول ممکن ہوتا ہے (وقتی طور پر)۔ اس کے علاوہ یونین سازی، ہڑتال اورپیداواری عمل میں ’’رخنہ اندازی‘‘ کرنے والے دیگر عوامل کے خاتمے میں بھی مدد ملتی ہے۔
سرمایہ داری کی اس کیفیت میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا تو درکنار، پہلے سے موجود روزگار کی سطح کو بر قرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔ آج کے زائد پیداوار کے بحران میں نئے کارخانے لگنے کی بجائے پرانے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ قوت خرید اور منڈی میں طلب میں کمی کی بدولت پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بحران سرمایہ داری کے معمول کے عروج و زوال کا چکر نہیں ہے بلکہ ایک نامیاتی اور ساختی بحران ہے۔ نظام کی بنیادیں کھوکھلی ہیں جس کا نتیجہ مزید بربادی اور بے روزگاری کی شکل میں ناگزیر ہے۔
زیادہ آبادی اور بے پناہ بے روزگاری سرمایہ داری کے لیے نہایت مفید چیز ہے۔ جہاں ایک طرف سرمایہ داروں کو ہر وقت سستی لیبر مہیا ہوتی ہے وہاں پہلے سے با روزگار محنت کشوں پر دباؤ رہتا ہے جس کی وجہ سے اجرتوں میں اضافے کے کوئی مضبوط مطالبات سامنے نہیں آتے۔ پہلے سے روزگار پر موجود لوگوں کو ہر وقت بیروزگاری کا دھڑکا لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ کم اجرتوں پر زیادہ سے زیادہ محنت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ’’صنعتی ریزروفوج‘‘سرمایہ داری کی پیداوار اور اس کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ذریعے سرمائے کا اجتماع ممکن ہوتا ہے۔ منافع کے اس نظام میں اس فوج کوکم یا ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ مستقل حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
منصوبہ بند معیشت اور روزگار
سابقہ سوویت یونین میں سوویت لیبر ایکسچینج کے نام سے ایک ادارہ تھا جو بے روزگار افراد کی رجسٹریشن کے لیے 1921ء میں قائم کیا گیا تھا۔ 13 مارچ 1930ء کو میکینک مائیکل شکونوف آخری رجسٹرڈ بے روزگار مزدور تھا جس کی تعیناتی کے احکامات کے بعد یہ ادارہ بند کر دیا گیا تھا۔ سوویت یونین میں بے روزگاری مکمل طور پر ختم اور روزگار کی شرح 100 فیصد ہو گئی تھی۔ یہ کسی طلسماتی شکتی سے نہیں بلکہ منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کے ثمرات تھے جس میں پیداوارکے بنیادی مقاصد بدل گئے تھے۔ منافع پر مبنی پیداوار کی بجائے منصوبہ بندی کے ذریعے انسانی فلاح اور بہبود کے لیے پیداواری عمل سے نسلِ انسانی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی ریاست وجود میں آئی جہاں بے روزگاری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ 13 سال کے انتہائی قلیل عرصے اور انقلاب کے آغاز میں بے تحاشہ مشکلات کے باوجود وہ کیا گیا جو سرمایہ داری اپنی سینکڑوں سال کی تاریخ میں نہیں کر پائی اور نہ کر سکتی ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت میں ہورہا تھا جب امریکہ سمیت پو ری سرمایہ دار دنیا 1930ء کی دہائی کے عظیم معاشی بحران سے دوچار تھی۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ معیشتیں سکڑ رہی تھیں اور سوویت یونین میں پانچ سالہ منصوبوں کے تحت انسانی تاریخ کی تیز ترین صنعت کاری ہورہی تھی۔
1929ء میں 3 فیصد سے بڑھ کر امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 1933ء میں 25 فیصد ہوگئی تھی (سرکاری طور پر)، لوگ گندگی کے ڈھیروں سے خوراک تلاش کر کے بھوک مٹاتے تھے۔ جدید امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ لوگ امریکہ سے آسٹریلیا، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کی طرف اپنے آبائی علاقوں میں نقل مکانی کر رہے تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس عہد میں بڑی تعداد میں امریکی اور یورپی مزدور اور انجینئرز روزگار کی تلاش میں سوویت یونین بھی گئے تھے جہاں نہ صرف تمام لوگوں کو روزگار مہیاتھابلکہ بے روزگاری ایک جرم بن گئی تھی۔ لوگوں کی زندگیاں سہل ہو رہی تھیں۔ اوقات کار میں کمی، خواتین کو زچگی کے دوران رخصت سمیت بہت سی مراعات سرمایہ دارانہ معاشروں سے کہیں پہلے ممکن ہو رہی تھیں۔ سوشلسٹ معیشت (اپنی بیوروکریٹک شکل میں ہی سہی) پہلی مرتبہ مادی ترقی کے ذریعے دنیا بھر کے محروموں اور محکوموں کے دماغوں کو مسخر کر رہی تھی۔ سوویت محنت کش طبقے کی لازوال محنت کے ذریعے پیدا ہونیوالی قدرِ زائد محنت کش طبقے کی ہی زندگیوں کو تبدیل کر رہی تھی۔ پہلی دفعہ مارکس کے نظریات عالمی سطح پر مقبول ہوکر پوری دنیا کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
آج سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ عالمی محنت کش طبقہ 1917ء کے روس سے پہلے کی کیفیت میں چلا گیا ہے۔ سٹالن ازم، سوشل ڈیموکریسی اور محنت کش طبقے کی اصلاح پسند قیادتوں کی غداریوں کی وجہ سے سر مائے کو محنت پر عار ضی غلبہ حاصل ہوا ہے۔ آنے والے دنوں میں محنت کش طبقہ اگر سرمائے کا جبر توڑ کر اس پر فتح پاتا ہے تو بالشوازم کی عظیم روایات کا از سر نوابھار ہو گا۔ سوشلسٹ انقلاب کی کسی ایک ملک میں فتح دنیا بھر میں دھماکہ خیز انقلابی واقعات کا پیش خیمہ بنے گی۔ اکتوبر انقلاب کی حاصلات سے کہیں آگے اور بلند سطح پر معیارِ زندگی کو لے جانے کے مادی حالات آج موجود ہیں۔ پیشہ اور روزگار مجبوری کی بجائے انفرادی شوق، جستجو اور تکمیلِ ذات کا ذریعہ بنے گا۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اوقاتِ کار کو انتہائی مختصر کرکے تفریح اور تحقیق کے لیے بے پناہ وقت میسر آئے گا۔ جنت کے مبہم اور غیر مرئی تصور کی بجائے اس زمین پر حقیقی جنت تعمیر ہوگی۔ انسان پہلی دفعہ انسان بنے گا!
متعلقہ: