[تحریر: راشد خالد]
لوڈشیڈنگ کا عذاب کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا چلاجا رہا ہے۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 14 گھنٹے سے زائد ہے جب کہ دیہاتوں میں تو صورتحال انتہائی دگرگوں ہے جہاں بجلی اپنے وجود کا احساس دلانے 24 گھنٹوں میں سے محض 2، 4 گھنٹے ہی اپنی صورت دکھانے آتی ہے۔ ہر ایک انسان اس سے متاثر ہے۔ بجلی کی لوڈشیدنگ کی وجہ سے استعمال کے پانی کی قلت بھی جنم لے رہی ہے جس سے عوام کی حالت ابتر ہو چکی ہے۔
پاکستان میں اس وقت بجلی کی پیداوار کی صلاحیت 23500 میگاواٹ ہے لیکن بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار 14000 میگاواٹ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اس مصنوعی قلت کی ذمہ داربجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں (انڈی پینڈنٹ اور رینٹل پاور پلانٹس)ہیں۔ کل پیداواری صلاحیت میں نجی شعبے کا حصہ تقریباََ 7000 میگاواٹ ہے۔ بجلی پیدا کرنے والیریاستی اداروں کی پیداوار میں 4000 سے 7000 میگاواٹ تک کا شارٹ فال ہے۔ ایک لمبے عرصے سے ان پاور پلانٹس کی دیکھ بھال اور مرمت کے کام کا تسلی بخش انداز میں نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ پاور پلانٹس اپنی پیداواری صلاحیت کا تقریباََ ایک تہائی حصہ کھو چکے ہیں۔
سب حکمران دعوے تو کرتے ہیں مگراس عذاب سے چھٹکارے کا نسخہ کوئی نہیں رکھتا۔ نئے ڈیم بنانے کی شیخیاں بگھار کر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے دانشور بھی اس مسئلے کا یہی حل بتاتے ہیں مگر کوئی بھی مسئلے کی حقیقی وجوہات پر بات نہیں کرتا۔ بجلی کے بحران کی اصل وجہ کسی طور بھی پیداواری صلاحیت میں کمی نہیں ہے۔ کچھ لوگ گزشتہ حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے سب الزام کرپشن کے سر تھوپ دیتے ہیں اور سرکلر ڈیٹ کے اندھے کنویں کی باتیں کرتے ہیں۔ مگر سرکلر ڈیٹ کے خاتمے سے کیا یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام عوام کے مسائل کی حل کی صلاحیت ہی کھو چکا ہے۔ تمام تر پالیسیاں عوام کی سہولت کی بجائے منافع کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کی بنیادی وجہ بھی منافعے کی یہی حوس ہے۔
اگر 1980ء کی دہائی تک پبلک سیکٹرمیں بجلی کی پیداوار اور ترسیل کو دیکھا جائے تویہ دو ہی اداروں یعنی واپڈا اور کے ای ایس سی پر منحصر تھا اور اس کی کارکردگی آج کی نسبت کہیں زیادہ قابل اعتماد اور تسلی بخش تھی۔ مگر 90ء کی دہائی میں IPPs کے آنے کے بعد سے مسائل نے جنم لینا شروع کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ IPPs تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور یہ بجلی پیدا کرنے کا مہنگا طریقہ ہے۔ اس کی نسبت بجلی کی پیداوارکے سستے طریقے موجود ہیں مگر چونکہ یہ منافع بخش نہیں ہیں اور ان پر زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے یہ پرائیویٹ ادارے ان طریقوں کو استعمال نہیں کرتے۔ پانی اور کوئلے سے انتہائی سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک اندازے کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں کوئلے سے 40 فیصد، گیس سے 19 فیصد، ایٹمی توانائی اور پانی سے 16، 16 فیصد اور تیل سے صرف 7 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ مگر پاکستان میں گیس سے 41 فیصد، تیل سے 19 فیصداور پانی سے 37 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے جبکہ کوئلے اور ایٹمی توانائی سے بجلی کی پیداوار محض بالترتیب0.16 فیصد اور 2.84 فیصد ہے۔ ایسے میں نجی کمپنیوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ چاہیں تو بجلی پیدا کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔ ان نجی کمپنیوں کے پورے ملک میں 23 پاور پلانٹس ہیں اور ان میں سے بیشتر قرضوں کے ذریعے لگائے گئے ہیں۔ یہ قرضے ان نجی کمپنیوں نے نہیں بلکہ پاکستانی ریاست نے ادا کرنے ہیں۔ مثال کے طور پر 1994ء میں حبکو، جس کی پیداواری صلاحیت 1292 میگاواٹ ہے اور سب سے بڑا نجی پاور پلانٹ ہے، کی تعمیر کے لئے 1.6 ارب ڈالر کی رقم ورلڈ بینک ریاست نے قرضہ کی صورت میں حاصل کی اور تمام تر رِسک فیکٹرز کی ذمہ داری بھی ریاست پر تھی۔ یہ توانائی کے شعبے کی تباہی کا آغاز تھا۔ اس کے بعد لگنے والے زیادہ تر نجی پاور پلانٹس میں بھی سرمایہ کاری کا یہی طریقہ استعمال کیا گیا۔ سرمایہ کاری ریاست نے کی، قرض پاکستانی عوام نے چکائے جبکہ منافع نجی کمپنیوں نے کمایا۔ اس کے بعدیہ سلسلہ جاری رہا اورشخصیات اور کمپنیوں کو بڑی فیاضی سے نوازا گیا جس سے بجلی کی پیداوار کے لئے مہنگے طریقوں پر انحصاربڑھتا گیا۔
بجلی کی پیداوار کے لئے تیل پر جتنا انحصار بڑھتا ہے بجلی کی قیمت میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا ہے۔ تیل کی قیمتوں کے عالمی مارکیٹ میں مسلسل چڑھاؤ کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 1994ء سے اب تک تیل کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی صورتحال کو مزید خراب کرتی جا رہی ہے۔ 2005ء سے 2011ء تک تیل کی قیمت 236 ڈالر فی ٹن سے تجاوز کر کے 639 ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کی وجہ سے تیل کی درآمد کی لاگت 21087 روپے فی ٹن سے بڑھ کر 70930 روپے فی ٹن تک پہنچ گئی۔ اس طرح صرف 6 سال میں تیل سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت میں 236 فیصد اضافہ ہواہے!
2011-12ء میں تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی کی ترسیل پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو 15.94 روپے فی کلو واٹ ہاور(KWh) (بجلی کا ایک یونٹ) کی قیمت پر کی گئی جبکہ اس کے مقابلے میں گیس سے پیدا ہونے والی بجلی 4.24 روپے، نیوکلیئر پاور 1.13 روپے اور پانی سے پیدا ہونے والی بجلی صرف 0.16 روپے فی کلو واٹ ہاور کی قیمت پر فراہم ہوئی۔ جبکہ صارفین کے لئے اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت اوسطاً 8.89 روپے ہے۔ پیداواری لاگت اور قیمت میں یہ فرق ہی سرکلر ڈیٹ کی بنیادی وجہ ہے۔
سرکلر ڈیٹ نے بڑے مسئلے کے طور پر 2005ء میں سر اٹھانا شروع کیا جب یہ 84 ارب روپے تک پہنچا۔ اس کی بڑی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود مشرف حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنا اور بجلی پر حکومتی سبسڈی تھی۔ اس کے بعد سرکلر ڈیٹ میں لگاتار اضافہ ہوتا گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008ء سے2011ء تک بجلی کی قیمتوں میں34 سے 74 فیصد(بجلی کے استعمال کی شرح کے مطابق) تک اضافہ کیالیکن اس اضافے کے باوجود بجلی کی لاگت اور قیمت کے مابین فرق ختم نہیں ہو سکاجس کے نتیجے میں سرکلر ڈیٹ اس وقت 872 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس سرکلر ڈیٹ کا صرف22 فیصد صارفین کے ذمہ ہے۔ سرکلر ڈیٹ میں 2006ء کے بعد 788 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو GDP کا تقریباََچار فیصد بنتاہے۔ نیپرا کے مطابق اگر یہ کیفیت برقرار رہتی ہے تو سرکلر ڈیٹ میں سالانہ 550 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔ پہلے اضافے کی یہ شرح 350 ارب روپے سالانہ تھی۔ یعنی سرکلر ڈیٹ کوصرف موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لئے عوام کو سالانہ 550 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر بجلی کا بحران مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔ عوام کو بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے ہی بجلی کے بحران کی وجہ سے قومی پیداوار سکڑ رہی ہے۔ گہرا ہوتا ہوا توانائی بحران، بدترین معاشی بحران کی صورت میں اپنا اظہار کرے گااور حکومت مزید بیرونی قرضوں کا سہارا لینے پر مجبور ہو گی۔ بیرونی قرضے شاید وقتی طور پر تو بحران کو کچھ کم کر دیں مگر طویل مدت میں ان سے معاشی تباہی مزید بڑھے گی۔
اس صورت حال میں حکمرانوں کے دعوئے کتنے کھوکھلے، بے بنیاد اور حقیقت سے عاری لگتے ہیں۔ نئے ڈیم بنانے کی صلاحیت یہ ریاست بہت پہلے کھو چکی ہے۔ بڑے ڈیم بنانے کے لئے درکار سرمایہ اس ریاست کے پاس موجود نہیں ہے۔ جو چھوٹے پراجیکٹس زیر تعمیر ہیں ان کے معیاراور تکمیل پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ اس وقت تک جن ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر کے لئے پیپر ورک مکمل کیا جا چکا ہے ان میں سے سب سے زیادہ پیداوار اور کم لاگت کا منصوبہ بنجی ہائیڈرل پاور پراجیکٹ ہے۔ اس منصوبے سے 7100 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کی لاگت کا تخمینہ 6800 ارب ڈالر کا ہے۔ آئی ایم ایف کی قسطوں پر چلنے والی ریاست ایسے منصوبے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔
ایسے میں لوڈ شیڈنگ کا فوری حل نجی شعبے میں کام کرنے والے تمام تر پلانٹس کو قومی ملکیت میں لینے کے علا وہ اور کچھ نہیں ہے۔ بولیویا میں کچھ عرصے پہلے ایوو مورالس کی بائیں بازو کی حکومت نے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو قومی تحویل میں لیا ہے جس سے بجلی کی قیمت میں60 فیصد کمی ہو گئی۔ لیکن سرمایہ داری اور سامراج کی دلالی کرنے والے پاکستانی حکمرانوں ایسا نہیں کر سکتے۔ ان حکمرانوں کے مفادات عوام کی فلاح سے متضاد ہیں۔ نواز لیگ دائیں بازو کی سرمایہ دارانہ پارٹی ہے۔ اس کی حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی نجکاری کی پالیسی کو برقرار رکھے گی، بلکہ اس میں مزید تیزی لائی جائے گی۔ اپنی پہلی حکومتوں میں کی گئی نجکاری کو نواز لیگ نے ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ بجلی کے بحران پر قابو پا سکیں گے یا اس میں کوئی کمی کر لیں گے، محض خام خیالی ہی ہو گی۔
لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بحران سمیت تمام تر معاشی و سماجی مسائل کا خاتمہ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے خاتمے سے مشروط ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تمام تر اداروں کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دے کر ہی تمام تر بحرانوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
متعلقہ:
برق گرتی ہے تو۔۔۔؟
لوڈ شڈنگ: روشنی کی دعوے دار اشرافیہ نے پاکستان کو اندھیروں میں ڈبو دیا
نواز لیگ کی حکومت: چراغ تلے اندھیرا