اداریہ جدوجہد:-
ملک بھر میں زکوٰۃ، خیرات اور فطرانے کے لئے این جی اوز اور سماجی، سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے مابین ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بھیک کی یہ مہم مسجدوں، گلی محلوں، دیہاتوں اور شہروں سے شروع ہو کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک پہنچ چکی ہے۔ مختلف سیاسی و سماجی شخصیات، فنکار، کھلاڑی اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہرت یافتہ افراد اس عمل میں پیش پیش ہیں۔ ہر وہ معاشرہ، چاہے اس کی مذہبی و ثقافتی روایات کچھ بھی ہوں، جب طبقاتی استحصال کی وجہ سے بدترین مالیاتی تفریق، محرومی اور بیگانگی کا شکار ہوجاتا ہے تو حکمران طبقات اور ان کے کاسہ لیس دانشوروں اور ’سماجی کارکنان‘ کی جانب سے خیرات اور بھیک کے ذریعے محرومی اور غربت میں کمی کا پرچار کیا جاتا ہے۔ سماج پر مسلط حکمران طبقات اپنی اخلاقی اور مذہبی اقدار کے ذریعے یہی درس دیتے ہیں کہ خیرات دینے والے خواتین و حضرات بہت نیک، پارسا اور افضل ہوتے ہیں۔ درحقیقت خیرات کا یہ سلسلہ طبقاتی تضادات اور امارت و غربت کے تصادم کو ماند کر کے استحصالی نظام کو تقویت دیتا ہے۔ تمام تر جعلی عاجزی و انکساری کے باوجود خیرات دینے والوں کے رویوں میں رعونت، تکبر اور برتری کا رجحان غالب ہوتا ہے۔ دوسری طرف وقتی طور پر ہی سہی لیکن خیرات لینے والوں کی نفسیات میں محکومی اور احساس کمتری کا سرائیت کرجانا ناگزیر ہوتا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا:
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی
خیرات کسی مجبور انسان کو صرف جسمانی طور پر مجروح نہیں کرتی بلکہ اس کی روح، احساس، نفسیات، سوچ اور رویوں کو گھائل کر دیتی ہے۔ بھیک کی لعنت محروموں کی شخصیت، انکی سماجی حیثیت، ان کے ثقافتی معیار اور افکار کو مسخ کردیتی ہے، ذہین کند اور استحصال کے خلاف لڑنے کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔
آج دنیا میں بے شمار خیراتی ادارے کام کررہے ہیں۔ دنیا کے دو امیر ترین افراد بل گیٹس اور وارن بفٹ کی سرپرستی میں اربوں ڈالر کے خیراتی منصوبے دنیا کے غریب ممالک میں مختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں۔ اسی طرح الزبتھ ٹیلر سے لے کر مائیکل جیکسن تک اور جارج کلونی سے لیکر انجلینا جولی تک، دنیا کے مشہور اور امیر ترین فنکارخیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں یا لے رہے ہیں۔ بل گیٹس کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ ہزاروں جنم میں بھی خرچ نہیں کرسکتا لیکن دولت اور منافعوں کی اندھی ہوس کے تحت اس میں اور اضافہ کیا جارہا ہے۔ دولت کی کثرت اور خیرات کے درمیان ایک دلچسپ رشتہ موجود ہے۔ خاص طور پر شوبز کی دنیامیں، دولت میں اضافے کے لئے شہرت کا پھیلاؤ ضروری ہے۔ کرتوت کچھ بھی ہوں لیکن خیرات سے ’نیک نامی‘ اور شہرت میں اضافہ ہوتا ہے، مداحوں میں اضافے سے منڈی میں بھاؤ بھی بڑھتا ہے۔ تیسری دنیا کے عوام کا بد ترین استحصال کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی ساکھ برقرار رکھنے اور شرح منافع میں اضافے کے لئے ایسے ہی طریقے استعمال کرتی ہیں۔ ۔ یوں خیرات ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ سے لے کر ایڈورٹائزنگ کمپنیوں، مذہبی تنظیموں اور این جی اوز تک، سب اس کاروبارمیں حصے دار ہیں۔ اس کاروبار میں سب فریق فائدہ اٹھاتے ہیں اور نقصان کا اندیشہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
لیکن اس کاروبار کے سیاسی، سماجی اور معاشی عزائم کیا ہیں؟ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کا اجتماع محنت کے استحصال کے بغیر ناممکن ہے۔ غریبوں کو غریب تر کیے بغیر امیر، امیر تر نہیں ہو سکتے۔ خیرات بذات خود وسائل کی نا جائز تقسیم پر مبنی غیر مساوی اور استحصالی معاشرے کی غمازی کرتی ہے۔ محنت کشوں کے استحصال، سٹہ بازی، سٹاک ایکسچینج کے جوئے، ذخیرہ اندوزی اور مالیاتی ہیرا پھیری کے دوسرے طریقوں سے لگائے گئے دولت کے انباروں میں سے چند ٹکڑے خیرات کے لئے مختص کر دینے سے غربت تو ختم نہیں ہوسکتی لیکن غربا کے لئے ’خدائی وسیلہ ‘بن کر وقتی طور پر استحصال کا جواز ضرور ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف بھیک کی اس لعنت سے محنت کشوں میں پیدا ہونے والا احساس کمتری اور بیگانگی استحصالی نظام کے خلاف مزاحمت کو کمزور کرتا ہے۔
آج یہ نظام جس بحران کا شکار ہے اس کی غمازی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ وافر اناج کی پیداوار کے باوجود دنیاکے بہت سے خطوں میں عوام قحط کا شکار ہیں۔ خوراک سے وابستہ ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا کے ہر انسان کے لئے ضرورت سے زائد خوراک فراہم کر سکتی ہیں لیکن بھوک موجود ہے۔ دنیا کی بڑی فارما سوٹیکل کمپنیاں کرہ ارض پر موجود ہر انسان کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن کروڑوں لوگ ہر سال قابل علاج بیماریوں سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ فاسل فیول جلا کر ماحول کو تباہ کئے بغیر ضرورت سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن توانائی کا بحران دنیا بھر میں سنگین ہوتا چلا جارہا ہے۔ پیداواری قوتیں اس قدر ترقی کر چکی ہیں کہ موجود ٹیکنالوجی کے زیر اثر 49 ارب انسانوں کو زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں لیکن 7 ارب انسانوں کی اکثریت بھی محرومی کا شکار ہے۔ ٹیلر کالرج کا یہ شعر صورتحال کا بہترین عکاس ہے کہ ’’ہر طرف پانی ہی پانی ہے، لیکن پینے کو ایک بوند بھی نہیں۔‘‘ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت، منافع اور شرح منافع کی ہوس آج انسانیت کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس نظام میں کوئی اصلاح اب ممکن نہیں۔ ریاستیں سامراجی اجارہ داریوں کے سامنے بے بس ہیں۔ نہ ہی مقامی سرمایہ داروں کی بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کو روکا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں طاقتور قانون کے جال کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ یہ کارپوریٹ اجارہ داریاں اور سرمایہ دار اگر ٹیکس ادا کریں گے تو ان کے شرح منافع اور منڈی میں مقابلے کی صلاحیت پر ضرب لگے گی۔ اسی طرح جاگیر داروں پر ٹیکس لگایا جائے گا تو اس زبوں حال انفراسٹرکچر اور بحران زدہ زرعی نظام میں زرعی آمدن گر جائے گی نتیجتاً سٹہ بازی اور ذخیرہ اندوزی زور پکڑے گی جس سے حالات بد تر ہوجائیں گے۔ چنانچہ یہاں کے نااہل حکمرانوں اور ریاست کے پاس خیرات اور بھیک کی لعنت کو پروان چڑھانے کے سوا کوئی حل موجود نہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کا نام اب تبدیل کر کے ’پاکستان انکم سپورٹ پروگرام‘ رکھ دیا گیا ہے، اور اس طرح کے دوسرے منصوبے اس بات کی علامت ہیں کہ سامراجی قرضوں سے چلنے والی یہ ریاست اور اس پر براجمان حکمران، عوام کو باعزت طور پر ضروریات زندگی فراہم کرنے کی بجائے بھکاری بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن محنت کش عوام کے جن ہاتھوں کو یہ حکمران خیرات کے لئے پھیلنے پر مجبورکر رہے ہیں وہ ان کے گریبانوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور ان سے اقتدار چھیننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ وقت، عہد اور معروض بدلے گا۔ بغاوت محنت کشوں کی شریانوں میں خون بن کر دوڑے گی، بھیک کے لئے پھیلے ہوئے یہی ہاتھ اس نظام کو پاش پاش کریں گے!
یہیں سے اٹھے گا شور محشر۔ ۔ ۔ یہیں پہ یوم حساب ہوگا!