ہندوستان: نوٹوں کا ناٹک!

| تحریر: عمر شاہد |

نریندر مود ی کی طرف سے 8 نومبر کو 500 اور1000 روپے کے کرنسی نوٹو ں پر پابندی کا فیصلہ عوام کی اکثریت کے لئے ایک زلزلے سے کم ثابت نہ ہوا۔ اس فیصلہ کو مودی سرکار کی طرف سے کرپشن، بالخصوص کالے دھن کے خلاف ایک اہم سرجیکل سٹرائیک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے کے بعد راتوں رات 2000 ارب امریکی ڈالر کے برابر بھارتی روپے غیر قانونی قرار دے دیے گئے۔ ہندوستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں بینکوں کے سامنے نوٹ تبدیل کروانے والوں کی لمبی قطاروں کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کی پہلے سے تلخ پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بیرون ملک سے کالے دھن کی ملک واپسی اور سنہرے مستقبل کے بلند دعوے کئے تھے۔ لیکن ان دعوؤ ں کی حقیقت فوراً ہی عوام کے سامنے عیاں ہو گئی، مودی کے حکومت میں آتے ہی سرمایہ دار وں نے اپنے اس آلہ کار پرمزدور دشمن قوانین لاگو کرنے اور انکو زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ بجائے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے مودی نے نان ایشوز اور ناٹکوں کا سہارا لیا۔ اسی طرح موجوہ فیصلہ بھی محض ایک ناٹک ہی ثابت ہوگا۔

45f3e5ee-ac8f-11e6-a45e-e639c32a4ac5_660x385
نوٹ تبدیل کروانے والوں کی ایسی قطاریں پورے ہندوستان میں نظر آ رہی ہی۔

پچھلی حکومت میں بھی رضاکارانہ طور پر آمدنی کے ظاہر کرنے کی سکیم چلائی گئی جبکہ موجودہ وزیر خزانہ ارن جیٹلی نے بھی کچھ اس طرح کی سکیمیں چلائیں لیکن ان سکیموں نے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج نہ دیئے۔ ایک لمبے عرصے سے ہندوستانی سماج میں بڑھتی ہوئی کرپشن، کالے دھن اور ناہمواری کے خلاف بے چینی پائی جا رہی ہے۔ عوام کی بڑی اکثریت مروجہ نظام سے خائف ہو چکی ہے۔ اے ٹی کیرنے (A.T.Kearney) کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 90 فیصد مالیاتی تبادلے کیش کی شکل میں ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا، جبکہ بھارت کے جی ڈی پی کا 25 فیصد حصہ بلیک اکانومی پر مشتمل ہے، ملک میں مشکل سے ہی ایک سے تین فیصد افراد براہ راست ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہندوستانی ریاستی کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق 1000 ارب ڈالر سے زائد رقم جو اس وقت سوئزرلینڈ سمیت دیگر بینکوں میں پڑی ہوئی ہے، اس کا ذکر کرنا بھی اب مودی نے اپنی تقاریرمیں چھوڑ دیا ہے۔ اس بڑے پیمانے پر موجود کالے دھن کو پکڑنے اور اس کا خاتمہ کرنے کا سرکارکا ارادہ، حوصلہ اور امید بھی نہیں ہے تو حالیہ اقدام جیسی کاروائیوں کا شکار پھر وہی عام آدمی بنتا ہے جو پہلے ہی سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت کا شکار ہے۔ راتوں رات نوٹوں پر پابندی سے کئی ایک مقامات پر درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی خود کشیوں کی رپورٹیں سامنے آئیں۔ گارڈین اخبار نے اس صورتحال کو کچھ یوں بیان کیا، ’’امیر وں کو زیادہ اذیت نہیں پہنچے گی کیونکہ انہوں نے اپنی کرپٹ کمائی کو شیئرز، سونے اور پراپرٹی کی شکل میں تبدیل کر لیا ہے جبکہ ملک کے 1.3 ارب افراد اپنا سب کچھ کھو دیں گے کیونکہ ان کے لئے بنک میں جانے اور گھنٹوں لائنوں میں لگنے کے لئے نہ تو وقت ہے اورنہ ہی اتنی سکت۔ پالیسی کے نفاذ کے ایک ہفتہ میں ہی درجنوں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔‘‘
پچھلے عرصہ میں کارپوریٹ میڈ یا پر بھارت کی تیز تر ترقی کے بارے میں شادیانے بجائے گئے۔ بھارت نے 7 فیصد تک کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ حاصل کیا لیکن اس نام نہاد ترقی سے محض چند لاکھ افراد ہی مستفید ہو سکے۔ ویلتھ X کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ارب پتیوں کی تعداد 2014 ء میں 2.5 لاکھ تھی جبکہ 2018ء تک یہ تعداد 4.37 لاکھ ہو جائے گی اور 2023ء تک اس تعداد میں ممکنہ طور پر دُگنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جہاں ایک طرف تو ارب پتیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہاں اسی تناسب سے غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ امیر امیرتر اور غریب مزید غریب ہوئے ہیں۔ انڈیا کی وسیع مڈل کلاس اس سارے عمل میں سکڑنے کی طرف جارہی ہے۔ کریڈٹ سوئیس گروپ کے مطابق ہندوستان میں ایک فیصد امیر ترین افراد ملک کی 58.4 فیصد دولت پر قابض ہیں جبکہ دو سال قبل 2014ء میں ان کا حصہ 49 فیصد تھا۔ SECCکی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی آدھی سے زیادہ آبادی کو دو وقت کھانا نصیب نہیں ہے۔ رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا کہ ہندوستان کی آدھی آبادی گھر نہ ہونے کی وجہ سے کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں۔ 70 فیصد آبادی کے پاس ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں جبکہ85 فیصد دیہی آبادی نے سکول کی کبھی شکل تک نہیں دیکھی۔ گلوبل ہنگر انڈیکس2016ء کے مطابق دنیا میں خطرناک طورپر بھوک سے متاثرہ ممالک میں ہندستان 118 میں سے 97ویں نمبر پر ہے جبکہ جنوبی ایشیامیں افغانستان اور پاکستان کے بعد ہندوستان کا نمبر آتا ہے۔ دنیا کے ایک تہائی سے زائد غذائی قلت کے شکا ر بچوں کا تعلق ہندوستان سے ہے، ان میں آدھے سے زیادہ بچے کم وزن کی بیماری کا شکار ہیں۔ غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی نمو نارمل بنیادوں پر نہیں ہو سکے گی۔
نرنیدر مودی ’اچھے دن‘ کے نعرے کے ساتھ حکومت میں آیا تھا لیکن جلد ہی اسکی پالیسیاں عیاں ہو گئیں۔ اس وقت مود ی سرکا ر کی اصلیت بے نقاب ہو چکی ہے، مڈل کلاس کی ایک وسیع پرت بھی سوچنے پر مجبور ہو ئی ہے۔ معاشی حوالوں اور نمبروں کی قلعہ بازیوں سے دوسری طرف حقیقی طور پرصورتحال بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کا اکتوبر کا تجارتی خسارہ 10.16 ارب ڈالر تھا جبکہ اس سے پچھلے ماہ 8.34 ارب تھا جوکہ اس سال کے آغاز سے ہی مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے عرصہ میں برآمدات میں 15 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ہندوستا ن میں گاڑیاں بنانے والوں کی تنظیم SIAM کی رپورٹ کے مطابق صرف اپریل سے ستمبر تک موٹر سائیکلوں کی فروخت میں 4 فیصد سے زائد کمی نوٹ کی گئی۔ اسی طرح نام نہا د زراعت کی ترقی کا اندازہ مالی سال کے دوران ٹریکٹر کی فروخت میں 20 فیصد کمی سے لگا یا جا سکتا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے واضح کیا کہ اس سال ستمبر تک بینکوں میں قرضوں کے ناقابل واپسی ہونے کی شرح بڑھ کر 26.8 فیصد ہو گئی۔ اسی طرح مارگن سٹیلنے کی ریسرچ کے مطابق رواں سال تعطل کے شکار ترقیاتی پراجیکٹس میں اضافہ ہوا جبکہ موجودہ پیداواری صلاحیت بھی زیر استعمال میں نہیں۔ گورنر ریزرو بنک رگو رام راجن کے مطابق فیکٹریاں اس وقت اپنی پیداواری صلاحیت کی نسبت 30 فیصد کم پیداوار کر رہی ہیں جبکہ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق اس عرصہ میں پیداواری صنعت 9 فیصد سے ترقی کر رہی ہے۔ ملک کی آدھی آبادی کا دارومدار زراعت پر ہے لیکن محکمہ موسمیات نے واضح کیا کہ 2014ء سے 2016ء تک پچھلے 115 سالوں میں کم ترین مون سون ریکارڈ کی گئی اوربارشو ں کے تناسب میں خاطر خواہ تبدیلی دیکھی گئی، یہی وجہ تھی کہ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اسی عرصہ میں کسانوں کی خود کشیوں میں 40 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت نے پچھلے عرصہ میں صرف ایکسائز ڈیوٹیوں کی مد میں 68.6 فیصد اضافہ کیا جس کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکسوں کی وصولی کی شرح میں 36 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ بھارت میں اصل ترقی محض چند مکیش امبانی، رتن ٹاٹا جیسے سرمایہ دار ہی کر سکے ہیں۔ ماضی میں بلند ترین گروتھ ریٹ کے باوجود روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوئے۔ بھارت کے سرکاری لیبر بیورو کے’ روزگا ر اور بیروزگاری‘کے تازہ سروے کے مطابق زیادہ تر افراد کے لئے روزگار کی حالت بدتر ہوئی ہے۔ سروے کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں بیروزگاری کی شرح میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس میں بالترتیب 8.7 فیصدخواتین اور 4.3 فیصد مردوں میں بیروزگاری کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گریجویٹ اور اس سے زیادہ قابلیت کے حامل افراد میں بیروزگاری کی شرح 28 فیصد بتائی گئی جبکہ مجموعی بیروزگاری کی شرح کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں محض 17 فیصد افراد ہی تنخواہ دار ہیں یا مستقل آمدن کا ذریعہ رکھتے ہیں، جبکہ آبادی کے 80 فیصد حصے کے پاس مستقل آمدن کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔ آبادی کے بڑھنے کی شرح کے لحاظ سے بھارت کو ہر ماہ ایک ملین (دس لاکھ) نئی ملازمتیں پیدا کرنا پڑیں گی لیکن گزشتہ پورے سال میں محض پانچ ملین نئی ملازمتیں ہی پیدا کی جا سکیں۔
ایک لمبے عرصہ سے آبادی کی وسیع اکثریت کو معاشی عمل سے باہر نکال دینے کے بعد بڑی مڈل کلاس کا چرچا کیا گیا۔ ملک میں مڈل کلاس کی تعریف کے مطابق سالانہ 20 ہزار روپے سے ایک لاکھ کمانے والا مڈل کلاس میں شمار ہو گا۔ اس تعریف کی بنیاد پر حکومتی دعوے کے مطابق 12 فیصد مڈل کلا س موجود ہے جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ 6 فیصد سے بھی کم ہے۔ معاشی انڈیکیٹر ایک تاریک مستقبل کا منظر پیش کر رہے ہیں، حقیقی ترقی کمزور ترین بنیادو ں پر قائم ہے، نجی سرمایہ داروں کی طرف سے خاطر خواہ نئی سرمایہ کاری نہیں کی جارہی۔ مودی سرکار کی طرف سے کارپوریٹ سیکٹر کو وسیع مراعات دینے کے باوجودسرمایہ داروں کی توقع کے مطابق بلند شرح منافع نہیں ہے، یہی وجہ تھی کہ ریزرو بنک آف انڈیا کے گورنر کو مجبوراً شرح سود میں کمی کرنا پڑی۔ لیکن اس فیصلے سے بجائے حقیقی سیکٹر میں سرمایہ کاری ہونے کے زیادہ منافع کے لئے رئیل اسٹیٹ اور سٹاک ایکسچینج جیسی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ جس سے ان سیکٹروں میں وقتی طور پر بلندی دیکھی گئی۔ یہ کوئی حادثہ نہ تھا کہ دنیا میں چین کے بعد بھارت کے سروس سیکٹر کا بلند ترین گروتھ ریٹ ہے، 2013ء تک 9 فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ کل جی ڈی پی کا 65.9 فیصد حصہ سروس سیکٹر پر مبنی تھا جبکہ کل روزگار میں اسکا حصہ 44 فیصد تھا۔
کالے دھن کے خلاف کیا گیا یہ اقدام ایک بھونڈے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ کالے دھن کے سوداگر کبھی کیش کے مرہون منت نہیں ہوتے بلکہ ان کے پاس اپنے مال کو ٹھکانے لگانے کے لئے چور دروازے موجود ہوتے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بھارت کی بلیک اکانومی کا حجم اس وقت 460 ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکا ہے۔ یہ حجم ارجنٹائن اور تھائی لینڈ جیسی معیشتوں کے مجموعی جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ملک کی کل رئیل اسٹیٹ کا 30 فیصد حصہ کالے دھن پر مبنی ہے۔ اسی طرح بارکلے انسٹیٹیوٹ کے مطابق ملک میں موجود کل کاروبار میں سے 75 فیصد کاروبار غیر رسمی معیشت سے تعلق رکھتا ہے جس کو دنیا کی سب سے بڑی غیر رسمی معیشت کہنا غلط نہ ہو گا۔ نریندر مودی کی کالے دھن کے خلاف سرجیکل سٹرائیک محض درمیانے درجے اور غریب افراد کی زندگیوں پر سرجیکل سٹرائیک کے مترادف ہے۔ بڑے سرمایہ داروں کو کیش رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قوی امکان ہے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں میں پانچ سو یا ہزار کے نوٹ دیکھے ہی نہ ہو، اسی طرح ملک کی 80 فیصد سے زائد آبادی نے بھی یہ نوٹ کبھی نہیں دیکھے کیونکہ یہ کبھی انکی دسترس میں آئے ہی نہیں۔ زیادہ تر کالا دھن کیش کی شکل میں مجتمع نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کسی ایک ریاست کے تابع ہوتا ہے۔ سرمایہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کسی ریاستی حدود کی قید کے بغیر سفر کرتا ہے۔ بھارت کے محکمہ ٹیکس کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں کالے دھن کی ضبطگی کے لئے مارے گئے چھاپوں میں محض 5 سے 6 فیصد ہی کیش کی شکل میں برآمد کیا جا سکا۔ جن افراد کے پاس بڑی تعداد میں کالا دھن ہوتاہے وہ سرمائے کو مختلف شکلوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مشہور میگزین فوربز کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں امیر ترین افراد نے آف شور بینکنگ کی مد میں دنیا میں 21 ہزار ارب ڈالر چھپا رکھے ہیں۔ اس سب کے علاوہ دنیا میں ہارورڈ اور سٹین فورڈ سے فارغ تحصیل اکاؤ نٹنٹس کی ایک بڑی فوج بھی تھوڑی سی فیس کے بدلے کالے دھن کو سفید بنانے کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جارج سورس، کارلوس سالم جیسے کھرب پتیوں کے نام سامنے آتے ہیں جو کہ ایک سوئی تک نہیں بناتے، صرف مالیاتی ہیرا پھیری کے ماہرین کے ذریعے اپنی دولت کو بڑ ھا رہے ہیں۔
سکہ زر بند کی پالیسی مودی سے بھی پہلے کچھ ممالک میں اپنائی گئی ہے۔ ہر جگہ کالے دھن کے خاتمہ کی بجائے اس کو مزید فروغ ملا۔ مثال کے طو ر پر جنوری 1991ء میں روس میں گوربا چوف نے بھی کالے دھن کے خاتمہ کے لئے 50 اور 100 روبل کے نوٹوں پر پابندی لگائی تھی لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو ’کارپٹ بمباری‘ سے تعبیر کیا ہے جس کا شکار ایک بار پھر غریب ہی بنے ہیں۔ چھوٹے دکانداروں یا ریڑھی بانوں کے پاس روزمرہ کا سامان بھی تیزی سے ختم ہو رہا ہے جس کی وجہ محض چھوٹے نوٹوں کا بروقت نہ ملنا ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی کا گزارہ ہی ’دیہاڑی‘ پر ہے لیکن محض نوٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو کئی مزید دن فاقوں میں گزارنا پڑسکتے ہیں۔ اس طرح کئی جگہوں پر بچوں کو سکول کی فیس بروقت ادا نہ کرنے کی وجہ سے وقتی طور پر سکولوں سے خارج ہوناپڑا۔ اسی طرح درجنوں زائد افراد محض لائنوں میں کھڑے ہونے یا دوائی نہ لینے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ سرمایہ داری میں تعلیم، صحت جیسی سہولیات کے لئے بھی پیسے چاہیے۔ یہ سرمایہ داری کا ظلم نہیں تو اور کیا ہے! جہاں پر انسانی ضروریات کی بھی تجارت کی جا تی ہے۔ کھڑی فصل لئے کسان اضطراب کے عالم میں مبتلا ہیں کیونکہ ان کی فصلیں منڈی میں بک نہیں پا رہی۔ مودی نے اپنے خطاب میں عوام سے 50 دن کے لئے قربانی مانگی لیکن غربت، لاچارگی، لاعلاجی او ر خالی شکم اس نظام میں ہمیشہ غریبوں کا مقدر ہے۔
نوٹوں کو کالعدم کرنے کے بعد کالے دھن کی ایک نئی صنعت معرض وجود میں آچکی ہے، ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پرانے نوٹ 20 فیصد مارجن پر وصول کئے جا رہے ہیں جبکہ نئے نوٹوں کو بیچا جا رہا ہے۔ ابھی تک یہ سلسلہ جاری تھا کہ بھوپال، گجرات اور دیگر علاقوں میں نئے 2000 روپے کے نوٹوں میں سرکاری ملازمین رشوت لیتے گرفتار ہوئے اور ایک اور جگہ پولیس نے نئے جعلی نوٹوں کی ایک بڑی تعداد کو پکڑا ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق 80 فیصد آبادی کا بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں اور عین ممکن ہے کہ اکثریتی آبادی نے بینک کی شکل بھی نہ دیکھی ہو۔ دیہی بھارت میں ابھی بھی ضروریات زندگی کے حصول کے لئے مہاجن کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ان مہاجنوں سے عوام اپنی زندگی بھر کی غلامی کے بدلے وقتی معمولی ضروریات کی تکمیل کے لئے بلند شرح سودپر قرضے حاصل کرتے ہیں۔
مارکس نے کہا تھا کہ انقلاب کو آگے بڑھانے کے لئے بعض اوقات رد انقلاب کے کوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مودی سرکار یہی تاریخی فریضہ بھارت میں سرانجام دے رہی ہے، مودی کی پالیسیوں نے عوام کی اکثریت کے سامنے سرمایہ داری کے عذابوں کو عیاں کردیا ہے۔ ہندوستان میں ایک لمبے عرصے کے بعد تاریخ کے میدان میں ایک بار پھر محنت کشوں نے طبقاتی بنیادوں پر علم بغاوت بلند کیا ہے۔ اس سال دو ستمبر کو 18 کروڑ محنت کشوں نے بھارت بند کر کے ثابت کیا کہ ابھی بھی طبقاتی جنگ کی چنگاری موجود ہے۔ ایک طرف مزدور تحریک دوبارہ سرگرم ہو رہی ہے تو دسری طرف جواہر لال یونیورسٹی میں اٹھنے والی طلبہ تحریک نے سرکار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ دلت نوجوانوں کی جدوجہد کا طبقاتی مطالبات کی بنیاد پر آگے بڑھنا معاشرے میں اہم پیش رفت ہے۔ دلت، آدی واسیوں اور مذہبی اقلیتوں کا نسلی یا مذہبی بنیادوں کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر جڑت کے ساتھ جدوجہد کا آغاز مودی سرکار کے لئے خطرے کی علامت ثابت ہو سکتی ہے۔ باقی ممالک کی طرح بھارت میں بھی حکمرانوں نے ہمیشہ مذہبی منافرت، فرقہ پروری اور قوم پرستی کا سہارا لے کر محنت کشو ں کی جڑت کو توڑنے کی کوشش کی۔ بے زمین دلت نوجوان روہت ویمولا کی خود کشی کے گرد بننے والی تحریک نے حکمرانوں کے روایتی سیکولراز م کے نعروں کی حقیقت کو عیاں کیا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں ابھرنے والی تحریک نے سرکار کو سنجیدہ اقدام اٹھانے پر مجبور کیا۔ مودی نے حکومت میں آنے کے فوراً بعد اپنے آپ کو سخت گیر دائیں بازو کا لیڈر ثابت کرنے کی بجائے آزاد خیال اور ماڈرن جمہوری صدر کے طور پر پیش کیا۔ اس دوران اس نے مختلف غیر ملکی حکمرانوں کے ساتھ ڈپلومیسی کا ناٹک کھیلالیکن بھارت کی نحیف سرمایہ داری میں موجود تضادات نے اسکو جلد ہی بے نقاب کر دیا۔ سرمایہ دارانہ مفادات کی خاطر اس نے اپنے آقاؤں کی تابعدار ی کرتے ہوئے علاقائی سامراجی عزائم کو جلا بخشی جس میں نیپال کا بائیکاٹ، بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیان بازیاں، افغان حکومت کو حیران کن مالیاتی پیکج کے وعدے، سری لنکا کی نئی جابر حکومت کو تامل عوام پر مزید ظلم ڈھانے کی منظوری اور بنگلہ دیش کے ساتھ نیا محاذ کھولنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اندرونی محاذ پر گائے کے گوشت اور ہندوقوم پرستی کو نئی جلا بخشی گئی، اسی طرح اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے سکہ زر بند کی پالیسی کو لاگو کرنا ہے۔ لیکن پے درپے تحریکوں نے اس مصنوعی دھواں سکرین کو یکسر تبدیل کر دیا۔
بھارت میں اس وقت صرف بی جے پی نہیں بلکہ عوام ہر حکمران پارٹی سے نالاں ہیں۔ کانگریس کے پچھلے حکومت کے دوران کئے گئے اقدامات کی وجہ سے یہ عوام کی نظروں میں مزید گرگئی ہے۔ لوگوں کی اس قدر غصہ ہے کہ وہ مرکز کے بعد ہر ریاست میں کانگریس کو سزا دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ کرناٹک کے علاوہ باقی ہر جگہ حکومت سے باہر ہو گئی ہے۔ راہول گاندھی سے جو توقعات تھیں وہ بھی جلد ہی اس کے کردار کے ساتھ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ بد عنوانی مخالف تحریک اورلوک پال کے مدعے پر وجود میں آنے والی اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی سے بھی عوام نالاں دکھائی دے رہے ہیں۔ پوری پارٹی کا دل، دماغ اور طاقت دہلی پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ پارٹی کے امیش سنگھ کے اسٹنگ آپریشن کے بعد ہر ریاست میں پارٹی دو حصو ں میں بٹ چکی ہے، زیادہ تر بانی پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان فرق صرف طریقہ کار کا ہے مثلاً کانگریس نے اپنے دور حکومت میں کول بلاکس پرائیویٹ کمپنیوں کو دئیے، وہیں پر بی جے پی نے نیلامی کے ذریعے یہی کول بلاکس پرائیویٹ کمپنیوں کو ٹھیکے پر دئیے۔ کانگریس اور بی جے پی کی زوال پذیری کے خلا کو پر کرنے کے لئے ملائم سنگھ، نتیش کمار، لالو یادو، دیوے گوڑا اور کے سی تیاگی مل کر جنتا پریوار بنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہندوستا ن کے معروض میں جہاں ایک طرف طبقاتی بنیادوں پر صف بندیاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف تحریکیں ایک نقطہ پر مرکوز نہیں ہو رہیں۔ ایک انتشار پذیر معاشرے میں جہاں ایک طرف دائیں بازو کی تمام پارٹیاں رد کی جا چکی ہیں تو وہاں ہی ایک متباد ل کی تلاش شدت اختیارکر چکی ہے۔
بورژوا معیشت دانوں کی سوچ کا دیوالیہ پن عیاں ہے، مارکسسٹ واضح کرتے ہیں کہ ذاتی ملکیت کے خاتمے اور سماجی طور پر ایک انقلاب کے بغیر کوئی حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔ ’غیر رسمی معیشت‘ کو دھارے میں لانے کی سوچ مودی کی نہیں بلکہ ایک سرمایہ دارانہ فکر کے زوال کی عکاسی کرتی ہے۔ بھارت سمیت پوری دنیا میں عالمی معاشی بحران کے بعد ’امیروں پر ٹیکس لگاؤ‘، ’ٹیکس نیٹ بڑھاؤ‘اور ’معیشت کو ڈاکومنٹ کرو‘ جیسے یوٹو پیائی حل پیش کئے جارہے ہیں مگر سرمایہ دارانہ حدود میں مقید ہو کر یہ حل کوئی بہتری لانے کی بجائے اس بحران کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ سیاست، معاشرت، اخلاقیات وغیرہ کا انحصار آخری تجزیہ میں ٹھوس مادی حقائق پر ہوتا ہے۔ اسی طرح بینکوں، مالیاتی اداروں کا مقصد بنیادی انفراسٹرکچر کی بڑھوتری اور معاشرے کو ترقی دینے کی بجائے منافع ہوتا ہے۔ مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب میں واضح کیا تھا کہ سرمایہ دار کا حتمی مقصد شرح منافع کا حصول ہوتا ہے۔ اس میں ا ن کی مدد جدید دور کے ڈھونگ اور فریب پر مبنی مالیاتی ادارے کرتے ہیں۔ بینک، مالیاتی ادارے محض روپے کی ہیر پھیر کے سوا کوئی کام نہیں کرتے لیکن پھر بھی یہ بلند منافع کمانے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہی مالیاتی ادارے ہیں جو کہ کالے دھن کی پیدائش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لینن نے اپنی کتاب ’سامراج سرمایہ داری کی آخری منزل‘ میں واضح کیا تھا کہ ’’بینک کاری جتنی زیادہ ترقی کرتی ہے اورجتنے کم اداروں میں اس کا ارتکاز ہوتا ہے اتنے ہی زیادہ بینک طاقتور اجارہ دار بنتے جاتے ہیں جن کے اختیار میں تمام سرمایہ داروں اور چھوٹے کاروباریوں کا سارانقد سرمایہ اور کسی ایک ملک میں اور متعدد ملکوں میں ذرائع پیداوار اور خام اشیا کے وسائل کابھی زیادہ بڑا حصہ ہوتا ہے۔‘‘ لینن نے مزید بیان کیا کہ سامراج کی منزل کے بعد سرمایہ داری کی حقیقی طاقت اس کے مالیاتی سرمایہ میں مرکوز ہوتی ہے۔ اس پر لینن نے لکھا کہ ’’مالیاتی سرمایہ چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر اور عملی طور پر اجارہ داری بن کر کمپنیاں قائم کرکے، کاغذات زر جاری کرکے اور ریاستی قرضوں وغیرہ سے زبردست اور برابر بڑھتا ہوا نفع کماکر مالیاتی اولیگارشی کے تسلط کو مضبوط کرتا ہے اور اجارے داروں کے مفادکے لئے پورے سماج پر خراج عائد کرتا ہے۔‘‘ انسان کے مختلف ادوار میں زر کی مختلف شکلیں موجود رہی ہیں۔ زر کوئی لازوال چیز نہیں بلکہ ایک لمبا تاریخی سفر طے کرنے کے بعد کرنسی نوٹوں کی شکل میں ہمارے تک پہنچا ہے۔ آسان لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ زر کا وجود ہمیشہ سے نہیں تھا او ر نہ ہی یہ ہمیشہ رہے گا۔ لینن سے کسی نے پوچھا کہ کمیونسٹ سماج میں زر کا کیا مستقبل ہو گا اس نے جواب دیا کہ ’ان سونے چاندی کے سکوں کو ٹوائلٹ کے فرش بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔‘ کمیونزم میں انسان اپنی ضروریات کی غلامی سے آزا د ہو کر حقیقی معنوں میں آزاد ہو گا۔
ہندوستان کے سماج میں بڑھی ہوئی بے چینی اور محنت کشوں کی صف بندیاں ایک بالشویک پارٹی کی ضرورت کو محسوس کر رہی ہیں۔ جہاں کمیونسٹ پارٹیو ں اور بی جے پی کی پالیسیوں میں رنگ و شکل کے سوا کوئی فرق نہیں رہ گیا وہیں پر ایک نئی نسل پروان چڑھ چکی ہے جو کہ سیاسی میدان میں پیش قدمی کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں ہندوستان کا سوشلسٹ انقلاب نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے منظر نامہ کو تبدیل کر سکتا ہے۔ جب پرولتاریہ تاریخ کے میدان میں فیصلہ کن لڑائی میں اترے گا تب یہ تمام تعصبات، گرم لوہے پر پانی کی طر ح اڑ جائیں گے۔ محنت کش طبقہ ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرے گا جہاں پر کسی انسانی ضرورت کے لئے کسی کرنسی نوٹ کا محتاج نہ ہو نا پڑ ے۔ یہاں حقیقی معنوں میں انسانیت پروان چڑھے گی۔

متعلقہ:

نوٹ بدلنے سے حالات نہیں بدلتے!