عورت کی پکار!

| تحریر: راہول |

پچھلے کچھ دنوں سے’’وومین پروٹیکشن بل‘‘ (تحفظ نسواں ایکٹ) میڈیا کے چند اہم موضوعات میں سے ایک رہا ہے ، پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے سے لیکر ابھی تک یہ بل مسلسل تنازعات کا باعث بنتا جارہا ہے۔ جہاں ایک طرف لبرلز کی خوشی کا تخمینہ لگانا مشکل ہے وہاں دوسری طرف مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کی جیسے نیندیں اڑ گئی ہوں۔ نوبت یہاں تک آن پڑی کہ اس مسئلے پر 35 جماعتوں کی آل پارٹی کانفرنس تک منعقد کروا لی گئی اور اس بل کو ’’بیکار‘‘ اور ’’خواتین کی مشکلات میں مزید اضافے‘‘ کا باعث قرار دیا گیا۔
1094790-cartoon-1464368119-898-640x480ویسے تو ہر نارمل انسان اس اقدا م کو بہتر ہی قرار دے گا لیکن ملاؤں کی رجعتی سوچ کو شاید عورت کی حفاظت اور اسے انسانی درجہ ملنے کی باتیں بھی خطرہ محسوس ہونے لگتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسی سلسلے میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ نے عورتوں پر تشدد کے متعلق 75 صفحات پر مبنی ایک اور بل تجویز کیا ہے جس میں عورتوں پر’’ ہلکا تشدد‘‘ جائز قرار دیا گیا ہے۔ نظریاتی کونسل کے بارے میں وسعت اﷲخان نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ’’ اگرچہ وہ ایک مشاورتی ادارہ ہے اور اس کے فیصلے بائنڈنگ نہیں اور اس کا بنیادی کام یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ یا حکومت یا کوئی سرکاری ادارہ کسی معاملے یا مسودے پر کوئی رائے طلب کرے تو نظریاتی کونسل اس پر فقہی رائے دے۔ پھر یہ رائے لینے والے کی صوابدید ہے کہ وہ اس پر پورا عمل کرتا ہے یا جزوی۔ لیکن پچھلے چند برس سے دیکھا جا رہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنے طور پر ہر معاملے پر رضاکارانہ رولنگ دینے لگی ہے‘‘۔ اس قسم کے واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں سائنس آج کائنات تسخیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو دوسری طرف اس ’’مملکت خداداد‘‘ کا جیسے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عورت کو پیٹا جائے یا نہ پیٹا جائے!بنیادی طور پر عورت کو قید کرنا اور اسے ایک انسان تصور نہ کرنا اسے ملکیت اور جنس سمجھنے والی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
عورتوں پر تشدد اور انہیں جنسی طور پر حراساں کرنے کے واقعات نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی یہ رجحان کچھ کم نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا میں ان واقعات کی تعداد یہاں سماجی محرومی، ثقافتی پسماندگی اور گھٹن کی نفسیات کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر صرف پاکستان میں ان واقعات کی تعداد کو دیکھا جائے تو عورت فاؤنڈ یشن کے مطابق صرف پنجاب میں 2013ء میں 5800 سے زائد کیس عورتوں پر تشدد کے متعلق رپورٹ کئے گئے جبکہ ایک بڑی تعداد ایسے واقعات کی ہے جنہیں کبھی کوئی رپورٹ ہی نہیں کرتا۔ اسی طرح 2011ء میں Thomson Reuters Foundation کے پولز کے مطابق گھریلو زیادتی ، معاشی تفریق اور تیزاب حملوں کی وجہ سے پاکستان عورتوں کے لئے دنیا کا تیسراسب سے خطرناک ملک بن چکا ہے۔ کم عمری میں شادی اور اس جیسی کئی غیر انسانی روایات آج پاکستان کا معمول ہیں۔ OXFAM کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان میں 11 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 سال کی عمر سے قبل کردی جاتی ہے‘‘ جو کہ ان کی صحت اور تعلیم کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں نو عمر لڑکیوں کو زندہ جلانے کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں، پہلے ایبٹ آباد اور پھر مری میں یہ وحشت برپا کی گئی۔ شاید یہ اعداد و شمار ان حضرات کا منہ بند کرنے کے لئے کافی ہوں جنہیں اس ملک میں عورتوں پر تشدد کوئی خاص مسئلہ محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو ایک اور رائے آج کل بہت زیادہ ہوا پکڑتی نظر آرہی ہے ، سول سوسائٹی اور لبرل حلقوں کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان میں عورتوں کے تحفظ کے قانون بنا دیئے جائیں توتمام مسئلے ایسے حل ہوجائیں گے جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ یہ تمام خواتین و حضرات جوکہ مغربی ممالک کی بیہودہ نقل کے تمام تر ریکارڈ توڑ چکے ہیں اور ایک بھونڈی نقل کے اثر میں یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ’’مغرب میں عورت آزاد ہے‘‘ وغیر، ان کے لئے عرض ہے کہ برطانیہ کے Health and Social Care Information Centre کے مطابق برطانیہ میں عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پچھلے دس سالوں میں دو گنا ہوتے ہوئے 925 تک جا پہنچے ہیں۔ اپنے پارٹنر کے ہاتھوں ہر ہفتے دو سے زائد عورتیں انگلینڈ اور ویلز میں قتل ہوتی ہیں، اسی طرح Newyork Times میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ہر سال فرانس میں 223,000 خواتین اپنے پارٹنرز کی جنسی اور نفسیاتی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں ، جن میں صرف 2014ء میں 134 خواتین اپنے خاوند کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ یہ اعداد کسی ایشیائی ملک کے نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کے ہیں، ان سے یہ ثابت ہوتا کہ بنیادی طور پر قانون بنانے کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ بنائے گئے قانون غیر فعال ہو سکتے ہیں۔ قانون کے متعلق سولون دی گریٹ نے شاید با لکل صحیح کہا ہے کہ یہ’’ اس مکڑی کے جال کی طرح ہے جس میں کوئی چھوٹا جانور تو پھنس جاتا ہے لیکن بڑا اور طاقتور اسے پھاڑ کر آگے نکل جاتا ہے‘‘۔
اصل مسئلہ عورتوں کے متعلق اس رجعتی نفسیات کا ہے جس کے تحت سماج میں عورت کو اپنے استعمال کی کوئی جنس سمجھنے کی نفسیات پائی جاتی ہے۔ اس نفسیات کی جڑیں ایک طبقاتی سماج اور بالخصوص سرمایہ داری کے اندر پیوست ہیں۔ عورت کی آزادی سے منسوب آج کئی ساری تھیوریز مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ایک طرف سول سوسائٹی کے شغل میلے ہیں، لبرل ازم کی وحشت اور بیہودگی ہے اور عورت کے کپڑے اتارنے کو آزادی قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف عورت کو چار دیواری میں قید کرنے کو ہی اس کا مقدر اور ’’حفاظت‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ دونوں نظریات ایک ہی سکے کے دو رخ اور ایک ہی رجحان کی دو انتہائیں ہیں۔
اگر پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں بچیاں زیادہ ہیں۔ اس ملک کا شمار دنیا میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ یہاں اس وقت پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تقریبا 5 کروڑ بچے اسکول نہیں جاسکتے جن میں سے 55 فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے جبکہ اس وقت ایک کروڑ تیس لاکھ بچیاں ایسی ہیں جنہوں نے کبھی تعلیمی درسگاہ کا منہ تک نہیں دیکھا۔ اس قسم کے مسائل پر جہاں ایک طرف ملاؤں اور رجعتی عناصر کی جانب سے عورتوں کی تعلیم کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے وہاں این جی اوز کا موم بتی مافیا عورتوں کی بے بسی اور مفلسی کو مغربی ممالک میں بیچ کر اپنی جیبیں گرم کرنے میں سرگرم ہے۔
جنسی تفریق کے حوالے سے بھی یہ ملک دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے۔ Global Gender Gap Index 2015 کے مطابق پاکستان دنیا کے 145 ممالک میں سے 144 ویں نمبر پر ہے۔ یہ انڈیکس World Economic Forum کی جانب سے تیار کیا جاتا ہے جس میں عورتوں اور مردوں کے درمیان تفریق کا چار حوالوں سے جائزہ لیا جاتا ہے جس میں معاشی شراکت، تعلیم، صحت اور سیاسی اختیار شامل ہیں۔ پاکستان ان چاروں معاملات ہی میں بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ لیبر فورس سروے 2014-15ء کے مطابق یہاں مردوں کے 67.8 فیصد کے مقابلے میں عورتوں کی لیبر فورس میں شرکت 22 فیصد ہے ، اجرت کے حوالے سے یہاں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں ایک ہی کام کے 23 فیصد کم پیسے ادا کئے جاتے ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں کئی اداروں میں عورتوں کی تعداد بہت ہی کم کرتے ہوئے ان سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ صرف 0.3 فیصد عورتیں اداروں میں بطور منیجر، 6.4 فیصد بطور پروفیشنل اور 0.9 فیصد ٹیکنیکل شعبے میں فرائض سرانجام دیتی ہیں۔
Gender Gap کا مسئلہ چھوٹے ممالک کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ عالمی طور پر عورتوں کی اجرتیں مردوں کے مقابلے میں 4 سے 36 فیصد تک کم ہیں۔ United Nations Framework Convention on Climate Change (UNFCCC) کے مطابق اس وقت بین الاقوامی طور پر موجود غریب افراد کی تعداد میں 70 فیصد خواتین ہیں۔ یعنی خود سرمایہ داروں کے اپنے بنائے گئے ادارے اب مایوس کن اعداد و شمار جاری کررہے ہیں اور سرمایہ داری کے تحت کسی بہتری کی نوید سنانے سے قاصر ہیں۔ World Economic Forum نے جنسی بنیادوں پر تنخواہوں کے فرق کے متعلق کہا ہے کہ اسے ختم ہونے میں 118 سال لگیں گے!سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام اتنے عرصے تک قائم رہے گا؟ اور اگر رہے گا تو کیا انسانیت کا وجود باقی رہ پائے گا!
بنیادی طور جنسی تفریق اور جنسی بنیادوں پر استحصال اور جبر کا ذمہ دار کوئی فرد یا قانون سازی کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی یہ پورا نظام ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں اگر عورتوں کو کچھ سماجی آزادیاں ملی ہیں تو اس کے پیچھے پورا تاریخی پس منظر اور سب سے بڑھ کر محنت کش خواتین کی طویل جدوجہد ہے۔ آج پسماندہ ممالک میں پسماندہ رویے اور اقدار عورت کی زندگی کو عذاب بنائے ہوئے ہیں تو ترقی یافتہ ممالک میں اس کیفیت کی دوسری صورتیں ملتی ہیں۔ اس نظام پر غور کریں تو آج ایک طرف ایک فیصد امیر افراد نے دنیا کی 99 فیصد دولت پر قبضہ کررکھا ہے تو دوسری طرف محنت کش طبقات سے تعلق رکھنے والے اربوں انسان غربت اور محرومی کی بیڑیوں میں بندھے ہیں۔
عورت کی سماجی آزادی کی بنیای شرط اس کی معاشی آزادی اور خودمختیاری ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ آزادی سماج میں بنیادی تبدیلی یعنی سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ناممکن ہے اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت سے آزادی سے مشروط ہے۔ عورتوں اور مردوں کی معاشی آزادی کا سوال کوئی ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ یکجا ہے اور جنسی نہیں بلکہ طبقاتی جدوجہد سے منسلک ہے۔ تاریخ کے ہر انقلاب میں عورت کا کردار کلیدی رہا ہے۔ اکثر اوقات عورت کی للکار مردوں کو جاگنے پر مجبور کرتی ہے اور انقلابات کا آغاز ہوتا ہے۔ جس سماج میں عورت آزاد نہ ہو وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتا لیکن سرمائے سے انسانی سماج کی آزادی کے لئے طبقاتی جدوجہد میں عورت کی ہراول شمولیت لازم ہے۔

متعلقہ:

وحشت کا معمول