تحریر: کامریڈ فاطمہ:-
کارل مارکس نے تقریباً سو سال پہلے سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز ، ابھار اور زوال کی وضاحت کر دی تھی، کیونکہ مارکس اس نظام کے طریقہ پیدوار کو جان گیا تھا۔ کسی بھی نظام معیشت کا بنیادی مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ وہ پیداواری ذرائع کو کس طرح استعمال کرے، پیداوار کا مقصد کیا ہو اور کن طریقوں سے حاصل کی جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداواری ذرائع نجی ملکیت میں ہوتے ہیں اور انکو نجی مفاد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پیداوار کا مقصد لوگوں کی ضروریات پوری کرنا نہیں بلکہ اس نظام میں اشیا خریدوفروخت کیلئے پیدا کی جاتی ہیں اور صرف وہی اشیا پیدا کی جاتی ہیں جن پر کم لاگت اور زیادہ نفع حاصل ہو۔ ذرائع پیداوار بھی وہی استعمال کئے جاتے ہیں جو کم لاگت پر زیادہ اشیا تیار کر سکیں۔ اگر مزدوروں کی طلب زیادہ ہو اور مشینوں کی نسبت ارزاں ہو تو مزدور زیادہ استعمال ہونگے اور اگر مشینیں مزدوروں کی نسبت ارزاں ہوں تو مشینوں کا استعمال زیادہ ہو گا۔ اس بات سے قطع نظر کہ مزدور بے روزگار ہو جائیں گے، اس نظام میں اشیا صرف ان لوگوں کے لئے پیدا کی جائیں گی جن کے پاس قوت خرید یا قدر تبادلہ ہو ۔ جن کے پاس قوت خرید نہیں وہ محروم رہیں گے۔ ذرائع پیداوار نجی ملکیت میں ہوتے ہیں اس لئے دو طبقات جنم لیتے ہیں، ایک طبقہ جو ذرائع پیداوار قابض ہوتا ہے اور دوسرا اس سے محروم ہوتا ہے۔ موخر الذکر طبقہ زندہ رہنے کیلئے اپنی قوت محنت کو اول الذکر طبقے کو بیچتا ہے۔ دونوں طبقات کے بیچ اپنے اپنے مفادات کے لئے کشمکش موجود رہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا محرک منافع ہے۔ جو اکثریتی محنت کش طبقے کے استحصال کا باعث بنتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ نظام بھی اپنے آغاز کے وقت ایک ترقی پسندانہ کردار رکھتا تھا۔ ابتدا میں انفراسٹرکچر اور بہتر معیار زندگی پر توجہ دی گئی لیکن اس نظام کا بنیادی محور چونکہ منافع ہے اس لئے اسکے حصول کیلئے اس نظام نے ہر طرح کی قومی ، ریاستی حدود کو روندتے ہوئے بے پناہ ترقی کی۔ سرمایہ دارانہ نظام کا ابتدائی عرصہ اٹھارویں صدی سے انیسویں صدی کے آغاز تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں 1850ء سے 1873ء تک کا عرصہ طویل معاشی ترقی کا ہے جس نے یورپ اور امریکہ میں مزدور طبقے کو مضبوط کیا۔ جس سے سماج میں پر امن تبدیلی اور ترقی کیلئے ایک جھوٹی امید پیدا ہوئی۔ بورژوا ماہرین معاشیات نے رجائیت پر مبنی مفروضے قائم کئے اور اسے آخری نظام قرار دیا، ان کے خیال میں اس نظام میں لچک کی خوبی ہے اور یہ بدلتے تقاضوں کے ساتھ خود کو آسانی سے ڈھال لیتا ہے۔ رسد و طلب کی آزادانہ قوتوں سے یہ نظام خود بخود مسائل حل کر لیتا ہے لیکن سرمایہ داری میں یکے بعد دیگرے آنے والے معاشی بحرانوں ، کساد بازاریوں اور افراط زر جیسے مسائل نے ان خوش فہمی پر مبنی مفروضوں کے غلط ثابت کر دیا۔ مارکس نے بہت پہلے اس اتار چڑھاؤ کی وضاحت کر دی تھی۔ بحران سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی جزو ہوتے ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی پیداوار کے ساتھ شرح منافع کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے اور بحران پھوٹ پڑتا ہے۔ جس میں مراجعت کے وقفے آسکتے ہیں لیکن مستقل استحکام ممکن نہیں ، جیسے 1873ء کا بحران کم ترقی کا زمانہ تھا، 1922ء سے 1929ء تک تیز ترقی اور عروج کا زمانہ تھا، اس استحکام کے عہد میں اس قسم کے نظریات پنپنے لگے کے سرمایہ داری نے تمام مسائل حل کر لئے ہیں۔ مارکس کو فضول اور بے کار قرار دیدیا گیا۔
جس دن یہ تھیسس مارکیٹ میں آیا اسکی دوسری صبح وال سٹریٹ کا کریش ہوا او رسرمایہ داری کی تاریخ کا بدترین اور گہرا بحران آیا۔ بورژوا ماہرین معاشیات بھی یہ ماننے پر مجبور ہو ئے کہ بحران سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت ہے۔ ان بحرانوں سے نکلنے کیلئے سرمایہ دار مختلف پالیسیاں بناتے رہتے ہیں۔ مثلاً معیار زندگی اور اجرتوں میں کٹوتیاں کر کے بیل آؤٹ پیکجز دے کر اور مزدور طبقے کا خون پسینہ نچوڑ کر ۔ لیکن بحران کے دنوں میں یہ اقدامات مزید بحران کا باعث بن جاتے ہیں اور محنت کشوں کی تحریک پھٹنے کا سندیسہ بھی ہو سکتے ہیں۔ سرمایہ داری کا کوئی بحران آخری نہیں ہوتا سرمایہ دار بحران سے نکلنے کیلئے کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ بحران بڑے پیمانوں پر انسانیت کو غربت اور قحط جیسی حالتوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ اسوقت پیداواری قوتیں پیداواری ڈھانچے سے متصادم ہو رہی ہیں۔ اس استحصالی نظام سے چھٹکارا عالمی محنت کش طبقے کی جڑت سے ہی ممکن ہے۔