| تحریر: لال خان |
پچھلے کچھ عرصے میں جہاں پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں اور ریاستوں کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور دوستی دشمنی کے بیانات میں شدت آرہی ہے، وہاں افغانستان سے آئے ہوئے (1979 ء کے بعد کے عرصے میں) مہاجرین کی واپسی کا عمل اتنا ہی پیچیدہ اور متضاد نظرآرہا ہے۔ ہزاروں واپس بھی گئے ہیں لیکن لاکھوں جانے سے انکاری ہیں کیونکہ آج کے افغانستان میں ان کا گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ۔ اس پر بھی سیاست ہورہی ہے۔ کیونکہ جب کوئی مسئلہ حل نہ ہورہا ہو تو اس پر ہمارے حکمران صرف سیاست ہی کرسکتے ہیں۔ یہ عملی طور پر اس قدر لاغر اور نااہل ہوچکے ہیں کہ عوام کے کسی بنیادی مسئلے کو حل کرنے کی نہ صرف صلاحیت کھوچکے ہیں بلکہ ان مسائل کے دیوہیکل حجم اور اپنی ریاستی واقتصادی صلاحیتوں کو دیکھ کر ان مسائل پر صرف تبصرے کرسکتے ہیں اور کسی سنجیدہ حل کی ہمت ہی ہارچکے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ مسائل، چاہے وہ اقتصادی وسماجی ہوںیا خارجی اورداخلی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہوں، انکے ذمہ دار وہ حکمران ہی ہوتے ہیں جو ان پالیسیوں کو مرتب کرتے ہیں اور اپنے بالادست طبقات کے مفادات کے لیے ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا عذاب عوام کو نسلوں بھگتنا پڑتا ہے۔
ایسی ہی ایک پالیسی سے اس جرم کا ارتقاب ہوا جس سے تین نسلیں گزر جانے کے باوجودآج بھی افغانستان، پشتونخواہ اور بلوچستان کے عام انسانوں کی زندگی دشواریوں اور اذیتوں کا شکار ہے۔ جب لسانی، ثقافتی اور تاریخی اقدارہی ایک ہوں تو پھر ان عام انسانوں میں بیرونی یا مقامی کی تفریق تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔ پشتونخواہ اور بلوچستان میں پھیلے ہوئے کیمپوں میں جو’’ افغان‘‘ رہتے ہیں وہ زیادہ تر مظلوم اور ستائے ہوئے عام انسان ہی ہیں۔ دولت مند اور کاروباری’’افغان‘‘ نہ تو ان کیمپوں میں رہتے ہیں اورنہ ہی ان کو پاکستان یا افغانستان میں رہنے کے لیے کسی اجازت نامے یا سرکاری کاغذکے حصول میں کبھی کوئی دشواری اٹھانا پڑتی ہے۔ آج کے دورمیں سب سے بھاری اور فعال سفارش پیسے کی سفارش ہی ہوتی ہے۔ وہ دوربھی گزرگیا ہے جب برادری، علاقے، زبان یا مذہبی فرقے کی بنیاد پر سفارش کسی حد تک کارگر ہوا کرتی تھی۔ یہ تووہ دورہے جس میں سرمائے کی جارحیت نے ہر رشتے اور ناطے کو منڈی کی جنس بنا کر رکھ دیا ہے۔ افغانستان کی حکومت کے پاس نہ صلاحیت، نہ طاقت اور نہ ہی اتنی ریاستی نظم ونسق کی وسعت ہے کہ وہ افغانستان کے اندر کوئی فیصلہ کن اقدام یا کردار ادا کرسکے۔ سامراجی سنگینوں کے سائے تلے پلنے والی یہ گماشتہ حکومت بھی یہاں کے حکمرانوں کی طرح اس مسئلہ پر صرف سیاسی بیان بازی ہی کر سکتی ہے۔ ایک نحیف سا افغان قوم پرستی کا رحجان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کابل اور چند دوسرے شہروں کے درمیانے طبقات تک محدودہے۔ اس حکومت کی حاکمیت بھی انہی علاقوں تک محدودہے جہاں سامراجیوں کی فوجی طاقت سے اس کاتسلط قائم ہوا ہے۔ یا پھر بہت سے ایسے جنگجو سردار ہیں جنہوں نے اپنی اپنی قومی ونسلی بنیادوں پر مختلف علاقائی حاکمیتیں قائم کی ہوئی ہیں، جیسے قبائلی نظام میں مختلف قبیلوں کی جاگیریں ہوا کرتی تھیں۔ فرق یہ ہے کہ آجکل ’رشید دوستم‘ جیسے لوگ، قبائلی سردار ہونے سے زیادہ مافیا ڈان بن چکے ہیں جو منشیات کے کاروبار سے لے کر دہشت گردوں کے گروہ تک پالتے ہیں۔ وہ کابل میں استوار کی جانے والی ہر سرکار سے سودے بازی اورحصہ داری کی بنیاد پر اپنی وفاداریاں فروخت کرتے ہیں جن کو بدلنے میں وہ قطعاً کسی اخلاقی یا سماجی قدر کے مرہون منت نہیں ہوتے کیونکہ معیار صرف پیسہ اور خزانے ہیں۔ اشرف غنی ایک افغان عورت (جس کی نیشنل جیوگرافک میں چھپنے والی تصویر سے وہ دنیا بھر میں جانی جانے لگی تھی) کو ایک فلیٹ تو دے سکتا ہے لیکن ان لاکھوں افغانوں کی واپسی کا اس کے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے۔
یہاں آنیوالے غریب افغانوں کاافغانستان میں اگرکچھ رہ بھی گیاتھاتووہ کب کا مذہبی دہشت گردوں اورمافیا سرداروں کے قبضہ گرہوں نے ہڑپ کرلیاہوگا۔ جس طرح افغانستان کے یہ سردار، مرکز سے کسی قانونی یا آئینی تعلق کی بجائے سودے بازی اور بلیک میلنگ کا تعلق رکھتے ہیں، اسی طرح کابل کے کٹھ پتلی حکمران حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک، مختلف سامراجی عزائم کے کمیشن ایجنٹ ہی ہوتے ہیں۔ وفاداریاں اور بیانات انکے بھی کبھی ایک اور کبھی اس کی متحارب ریاست کے بارے میں مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ پہلے اشرف غنی کو پاکستانی ریاست کی ٹریننگ کی ضرورت تھی اور سیدھے جی ایچ کیو پہنچاہوتا تھا، اب مودی اوربھارتی بالادستی کے گیت گائے جارہے ہیں۔
لیکن ان افغان مہاجرین کو دربدرکرنے اورانکی نسلوں کوبرباد کرنے کا ذمہ دار کون تھا؟ افغانستان کی تاریخ میں حکومتیں بدلنا کوئی بڑامسئلہ نہیں رہا ہے۔ لیکن 1978ء کے ثور انقلاب کے بعد جس وحشیانہ جارحیت سے امریکی سامراج نے اس انقلابی حکومت کے خلاف ڈالر جہاد کی یلغار کروائی تھی، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ روسی تو انقلاب کے 19 ماہ بعد افغانستان میں داخل ہوئے تھے اور وہ افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کی حمایت کرنے نہیں بلکہ اس کوگرانے کے لیے افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے بائیں بازو کی حکومت کے صدرحفیظ اللہ امین (جن کا تعلق خلق پارٹی سے تھا) کو قتل کیا۔ اس سے پیشتر افغان ثور انقلاب کے بانی اور قائد نور محمد ترکئی کو قتل کروایا گیا۔ اس لیے یہ سوائے رجعتی پراپیگنڈے کے اور کچھ نہیں ہے کہ افغان انقلاب ماسکو نے کروایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلق پارٹی کی قیادت نے ماسکو کی حمایت اور اس کی پالیسی کے خلاف ماسکو کے حلیف محمد داؤد کا تختہ الٹ کر یہاں ایک انقلاب کے ذریعے دولت اورجہالت کے ظلم واستحصال کے خاتمے کا جرات مندانہ آغاز کیا تھا۔ سامراج نے یہ مداخلت اس انقلاب کی اصلاحات سے خطے کے دوسرے ممالک میں عوام کی بغاوتوں کے ابھرنے کے خوف اور یہاں پر امریکی تسلط کو لگنے والی کاری ضرب کے پیش نظر کی تھی۔ پاکستان کی ریاست اورسرزمین کو اس میں ایک ڈسپوزیبل آلے کی طرح استعمال کیا گیا تھا۔ ضیا الحق نے اپنی بربریت پر اسلامی خول چڑھا کر یہاں کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے خلاف ایک وحشت ناک آمریت مسلط کی، جس کا مقصد شریف خاندانوں جیسے سرمایہ داروں کو انکی قومیائی ہوئی فیکٹریاں واپس دلوا کر اپنے ٹولے کے لیے بھاری رقوم اینٹھنے کا کاروبار چلانا تھا۔ جس طرح امریکی سامراج نے افغانستان میں اس خونریزی کو اپنے جارحانہ مقاصد کے لیے استعمال کیا، اسی طرح ضیا الحق نے اسی ڈالر جہاد کو مالیاتی اور طاقت کے اجتماع کے لئے استعمال کیا تھا۔ لیکن جہاں اس خانہ جنگی میں ہزاروں مارے گئے وہاں لاکھوں بے گھر ہو کر ملک بدر ہوئے اورآج تک انہی اذیتوں کا شکار ہیں۔ گلبدین حکمت یار سے لے کر اسامہ بن لادن اور ملا عمر تک، یہ وہ نام ہیں جن کو سامراجیوں اور ضیائی جنونی آمریت نے عوام کے خلاف پالا اور استعمال کیا تھا۔ افغان مہاجرین کا مسئلہ ضیاالحق کے جرائم کی طویل فہرست میں سے ایک کڑی ہے۔
پاکستان کا آئین ضیا کی سیاہ کار ترامیم سے داغدار ہے۔ مذہب کے نام پر اور دوسری پسی ہوئی پرتوں کے خلاف قوانین آج بھی جاری ہیں۔ سیاست اور ریاست کی پالیسیوں میں تیس سال بعد بھی ضیا الحق کا گھناؤنا سا یہ منڈلا رہا ہے۔ تمام پارٹیوں پر اس کی باقیات کا غلبہ ہے۔ سماجی قدروں میں اس کی مسلط کردہ رجعت آج بھی جاری ہے۔ لیکن یہ مسائل اب اتنے بگڑ چکے ہیں کہ افغان مہاجرین کے مسئلے سے لے کرعائلی قوانین اور مزدور دشمن پالیسیوں کا خاتمہ اس نظام میں ممکن نہیں ہے۔ اگر افغان مہاجرین کو اتنی خستہ حالی کی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے تو پشتونخواہ اور بلوچستان میں کونسی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ بھوک، ننگ، افلاس، محرومی اور مظلومی کا رشتہ ان افغان مہاجرین اور مقامی عوام کا ایک ہے۔ اسی ذلت کے بندھن میں ان کے پاس اپنی محنت کی صلاحیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ہر چیز لوٹ لی گئی ہے اور لٹ رہی ہے۔ ان کو ایک طبقاتی یکجہتی میں جڑکر اس نظام کے خاتمے کی لڑائی لڑنا ہوگی۔ ملکیت کے مروجہ رشتوں کے انفرادیت سے اشتراکیت میں بدلنے سے اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے حصول سے ان کوسانس لینے اور کچھ سہل ہونے کا موقع تو ملے گا۔ پھر ان کی مرضی ہے کہ وہ کس ملک میں کیسے رہیں، کیونکہ پھر ان کے پاس صرف ایک دیس نہیں ایک کھیت نہیں جیتنے کو سارا جہاں ہوگا۔