بحران زدہ برازیل میں انتخابات، مضمرات کیا ہوں گے؟

تحریر: راہول

کل برازیل میں صدارتی انتخابات کا دوسرا رائونڈ ہونے جا رہا ہے۔  لاطینی امریکہ کے اِس سب سے بڑے اور اہم ملک میں 7 ا کتوبر کو صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس مرحلے میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سوشل لبرل پارٹی (PSL) کے صدارتی امیدوار اور سابق فوجی افسر ’زائل بولسنارو ‘نے 46 فیصد ووٹوں سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ان کے قریب ترین حریف بائیں بازو کی ورکرز پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار’ فرنانڈو حداد ‘ہیں جوکہ 29 فیصد ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ پہلے انتخابی مرحلے میں حصہ لینے والے ایک درجن امیدواروں میں سے کسی بھی امیدوار کو پچاس فیصد ووٹ نہ ملنے کی بنا پر اب یہ دونوں امیدوار 28 اکتوبر کو انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہونگے۔ سولہ سال یا اس سے زیادہ عمر رکھنے والے 14 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے تقریباً 79.4 فیصد لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ برازیل میں رواں سال صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ نائب صدر، نیشنل کانگریس ، ریاستی اور فیڈرل ڈسٹرکٹ کے گورنر اور نائب گورنر اور مقننہ کے چیمبر کے لئے بھی انتخابات ہورہے ہیں اور ان میں سب سے اہم صدارتی انتخابات ہیں۔ ماہرین کے مطابق بولسنارو اٹھائیس اکتوبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں آسانی سے برازیل کے نئے صدر منتخب ہوجائیں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی سنگینی میں بولسنارو کی فتح برازیل سمیت دنیا بھر میں ٹرمپ، ڈیوٹرٹے، مودی اور عمران خان و دیگر کے بعد ایک اور بدترین اضافہ ہوگی اور آنے والے عرصے میں مذکورہ حضرات کی طرح برازیل میں بھی کم و بیش وہی صورتحال جنم لے گی جو اس قسم کی قیادتوں کی بدولت دنیا بھر میں آشکار ہوئی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بعض ماہرین زائل بولسنارو کو اس کی جارحانہ پالیسیوں اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی بنا پر پہلے ہی عمران خان سے تشبیہ دے رہے ہیں، جبکہ بعض ماہرین اسے برازیلی ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں۔ بولسنارو بھی انہی لیڈران کی طرح برازیل میں بدعنوانی کا ’’سخت ناقد‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کی نجکاری کا بھرپور حمایتی بھی ہے۔ اسی حوالے سے اگر دیگر ممالک کے تجربات کو سامنے رکھا جائے تو برازیل میں بھی حکمران طبقہ تباہ کن معاشی صورتحال کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام پر ڈالنا چاہتا ہے۔ یہاں ماضی میں حاصل کی گئی تمام تر سہولیات کو کٹوتیوں کے ذریعے ختم کرنے اورمحنت کش عوام پرمعاشی حملے تیز کرنے کے لئے مقتدر قوتوں کے پاس بولسنارو سب سے موزوں انتخاب ہے۔ اگرچہ بولسنارو کی جیت میں سب سے بھاری شکست ماحولیات کو ہو گی۔ اس نے پہلے ہی ایمیزون کے جنگلات کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات ختم کرنے اعلانات کیے ہیں تاکہ دنیا کے پھیپھڑے کہلائے جانے والے ان جنگلات کی اراضی کو سرمایہ کاروں کی نظر کیا جا سکے۔ ٹرمپ کی طرح بولسنارو نے بھی پیرس معاہدے سے دستبرداری کا عندیہ دیا ہے۔

بولسنارو

بولسنارو کی حالیہ متوقع کامیابی کے پیچھے گزشتہ دو سالوں کے واقعات کا خاصا کردار رہا ہے۔ ان انتخابات سے قبل برازیل میں 2014ء میں بائیں بازو کی ’ڈلما روسیف ‘صدر منتخب ہوئی تھیں۔ روسیف سے پہلے انہی کی ورکرز پارٹی کے لولا ڈی سلوا 2003ء سے 2011ء تک صدر رہے تھے۔ انہی کے دو ر اقتدار میں برازیل کی شرح نمو متواتر ترقی کرتی رہی اور ڈی سلوا عوام میں تیزی سے پذیرائی حاصل کرتے رہے۔ لولا ڈی سلوا کو گزشتہ سالوں میں بدعنوانی کا مجرم قرار دیا گیا ہے او ر انہیں نو سال تک کی سزا سنائی گئی جس کے بعد سے وہ اب تک قید میں ہیں۔ مختلف تجزیہ کاروں کے مطابق سلوا اس وقت اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے جب ان کی مقبولیت عروج پر تھی۔
سلوا کی دستبرداری کے بعدڈلما روسیف کے خلاف مواخذے کی مہم چلائی گئی اور انہیں 2016ء میں معزول کردیا گیا اور نائب صدر’ مشیل تیمیر ‘نئے صدر بنے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں میں سلواحالیہ الیکشن سے قبل نمبر ایک پر تصور کئے جارہے تھے اور آج انتخابات میں اگر وہ شریک ہوتے تو شاید جیت بھی جاتے کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے خلاف بغیر ثبوتوں کے مقدمہ درج کیا گیا۔ سلواصدر کے عہدے کے لئے ان الیکشن میں بڑے دعویدار تھے اور انہوں نے اس ضمن میں سپریم کورٹ سے الیکشن لڑنے کی اجازت بھی مانگی تھی۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کی حمایت بھی کی تھی لیکن الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے جب انہیں اجازت نہیں دی تو انہوں نے ’فرنانڈو حداد ‘کو اپنی پارٹی کا امیدوار قرار دیا۔
یہاں ہمیں برازیل اور پاکستان کے انتخابی معاملات میں خاصی مماثلت نظر آتی ہے جہاں اپنے چہیتے ’’سیاستدان‘‘ کو انتخابات میں کامیاب کروانے کے لئے مقتدر قوتوں کی جانب سے باقی سبھی کو دوڑ سے الگ کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔

ورکرز پارٹی کے امیدوار فرنانڈو

برازیل معاشی طور پر گزشتہ چند سالوں کے دوران بیشمار مسائل میں گھرا رہا ہے۔ تیز رفتاری سے ترقی کرتی معیشت اب بدحالی کا شکار ہے اور عوام حالیہ انتخابات سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں کہ ان انتخابات کے بعد ملک ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ برازیل میں سینئر صحافی ’شوبن سکسینا ‘کے مطابق ڈلما روسیف کے بعد برازیل میں شدید سیاسی اور اقتصادی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کی رفتار سست ہو گئی اور اب یہ منفی میں چلی گئی ہے۔ ان کے مطابق ’’ایسا اس لیے ہوا کیونکہ اس سال بدعنوانی کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔ روسیف کی اچھی شہرت تھی اور ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھا لیکن انہیں عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ حالیہ انتخابات میں معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ کروڑوں افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور ملک میں سرمایہ کاربھی نہیں آ رہے۔ ‘‘
برازیل لاطینی امریکہ کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ لاطینی امریکہ کی سب سے بڑی معیشت کی حیثیت رکھتا ہے اور خود کو ایک علاقائی طاقت تصور کرتا ہے۔ اسے نئے صنعتی ممالک کی فہرست میں بھی شمارکیا جاتا ہے۔ 21 کروڑ آبادی رکھنے والا یہ ملک چند سال قبل اپنی تیز ترین معاشی ترقی کی بنا پر برکس ممالک میں شریک کیا گیا بلکہ برکس (BRICS) کی ابجد ہی برازیل سے ہوتی ہے۔ یہ دنیا کی دیگر ترقی پذیر معیشتوں کے لئے ایک رول ماڈل کے طور پر گردانا جاتا رہا۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے برازیل کی معیشت بحران کا شکار ہے جو پھر سرمایہ داری کے عالمی بحران کی ہی ایک کڑی ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کے پروفیسر’ اولیور اسٹینکل ‘کے مطابق ’’آج برازیل اس مقام پر نہیں جہاں چار سال قبل تھا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ اب دنیا کے سامنے خود کے ایک رول ماڈل گردانے جانے کی حیثیت کھو چکا ہے۔ ‘‘
برازیل کی معیشت پچھلے دو سالوں سے شدید کساد بازاری کا شکار تھی حالانکہ اس سال یہ اس سے نکل آئی ہے لیکن حقیقی شرح ترقی ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ برازیل کی معاشی ترقی کو دیکھ کر آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی مالیاتی ادارے اس کو ایک کامیاب ماڈل کے طور پر جتاتے تھے لیکن گزشتہ چند سالوں میں اس کی معاشی ترقی کا پول کھل کر سامنے آگیاہے اور اب وہ تمام ادارے اس بحران زدہ صورتحا ل پر ششدر ہیں۔ تباہ کن معاشی صورتحال کے بدترین اثرات لوگوں کی زندگیوں پر پڑ رہے ہیں اور آبادی کا بڑا حصہ غربت کا شکار ہے۔ اگر مختلف اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو ’IBASE‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 ء میں 52 لاکھ لوگ شدید غربت کا شکار تھے جبکہ جولائی 2017ء تک یہ تعدادایک کروڑ بیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً پچیس فیصدآبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہے۔ برازیل کے شمال مشرقی علاقے شدید غربت سے دوچار ہیں جہاں تقریباً 81 لاکھ لوگ بدترین غربت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ بیروزگاری میں گزشتہ دو سالوں سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ برازیلین انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی اینڈ سٹیٹسٹکس کے مطابق اس وقت بیروزگاروں کی شرح 13.7 فیصد یعنی ایک کروڑ 28 لاکھ لوگوں سے تجاوز کرچکی ہے جو 2014 ء میں اپنی کم ترین سطح پر تھی اور انہی دنوں میں برازیل نے خود کو اقوام متحدہ کے ’Hunger Map‘ سے بھی حذف کرلیا تھا۔ دراصل ڈی سلوا نے اپنے پہلے دور اقتدار میں ان گھرانوں کے افراد جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں کے لئے فیملی گرانٹ کااجرا کیا تھا۔ اس گرانٹ سمیت کئی اور منصوبوں کی بدولت لاکھوں لوگ ان اصلاحات سے مستفید ہوئے اور برازیل اس کیٹگری سے خارج ہوگیا۔ لیکن مسلسل بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے نتیجے میں اب ان تمام اصلاحاتی پراگرامز کا خاتمہ کیا جارہا ہے اور آج ایک بار پھر برازیل اقوام متحدہ کے ہنگر میپ کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر نابرابری بھی برازیل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ستمبر میں آکسفیم انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق برازیل میں موجود صرف چھ افراد کے پاس دس کروڑ غریب ترین باسیوں جتنی دولت موجود ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ نسلی بنیادوں پر بھی یہ تفریق دیکھی جاسکتی ہے۔ سب سے کم آمدن رکھنے والے افرد میں 78.5 فیصد افراد سیاہ فام جبکہ 20.8 فیصد افراد کا تعلق سفید فام لوگوں سے ہے۔ دراصل اس غربت اور بیروزگاری نے کئی دیگر سماجی برائیوں کو جنم دیا ہے اور لوگ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں میں بھی ایک دوسرے کو قتل کرتے نہیں ڈرتے۔ صرف گزشتہ سال 63,880 افراد کو مختلف وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا جوجرائم میں پچھلے برسوں کی نسبت ایک بڑا اضافہ تھا۔ یوں دنیا کے بیس سب سے پرتشدد شہروں میں سے سات شہروں کا تعلق برازیل سے ہے۔

بولسنارو، جس کی جیت کے امکانات واضح ہیں، کے خلاف ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

یہ ساری صورتحال واضح کرتی ہے کہ برازیل اس وقت شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ دراصل یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کا نامیاتی بحران ہے جس کا اظہار دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اوقات میں ہورہا ہے۔ برازیل کے سرمایہ دار طبقات کی یہ خوش فہمی ہے کہ وہ بولسنارو سے منشا کے مطابق اقدامات کروالیں گے۔ پہلے ہی بولسنارو کا تعلق فوج اور ایجنسیوں سے جوڑا جارہا ہے جس کی بدولت اس کی مقبولیت میں کمی ممکن ہے اوریہ کہنا کسی طور پر بھی غلط نہیں ہوگا کہ برازیل میں بھی پاکستان کی طرح اپنے پہلے کچھ دنوں میں ہی بولسنارو محنت کش عوام پر شدید حملے کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان حملوں کے نتیجے میں ایک بغاوت بھی جنم لے سکتی ہے۔ اسی طرح سب سے بڑی تبدیلی غیر ملکی پالیسی میں آئے گی۔ جہاں ایک طرف ڈی سلوا انڈیا اور چین کے ساتھ برکس میں سرگرم تھی وہیں بولسنارو اسے ختم کرسکتا ہے جس سے معاشی بحران مزید گہرا ہو گا۔ اس معاشی بحران کے نتیجے میں ایک تحریک پھٹ سکتی ہے جسے روکنے کے لئے بولسنارو کا نحیف اقتدار بہت چھوٹا ثابت ہوگا۔ پہلے انتخابی مرحلے میں کامیابی کے فوراً بعد ہی اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ طبقاتی مسائل کے ساتھ ساتھ ’LGBT‘ کمیونٹی، خواتین اور ماحولیات پر اس کی پالیسیاں اور اس کے بیانات کئی مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔
برازیل کے عوام کی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کی ایک بھرپور تاریخ ہے اور عوام نے ہر محاذ پر جدوجہد کرکے ان آمروں کو شکست سے دوچارکیا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت اور اصلاحات کے ڈھونگ بھی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو بولسنارو جیسے دائیں بازو کے پاپولسٹ کا ابھار بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی ناکامی کا نتیجہ ہی ہے۔ بولسنارو کے خلاف بھی ’ایلی ناؤ‘ نعرے کے تحت تحریک نے زور پکڑا ہے جس کا مطلب ہے ’’یہ (بولسونارو) نہیں چاہئے!‘‘ ان مظاہروں میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی ہے۔ آنے والا وقت برازیل میں طبقاتی تضادات میں مزید شدت اور سماج میں انتشار سے لبریز ہو گا۔