خواتین کے مسائل اور ان کا حل، ملک بھر میں اجلاس

کسی بھی معاشرے کی آبادی کے تقریباََآدھے حصے کی بھرپور شمولیت اور دلچسپی کے بغیر اس معاشرے کی انقلابی بنیادوں پر تبدیلی اور ترقی کا تصوربھی ناممکن ہے، اسی لیے انقلابی اوزار یعنی انقلابی پارٹی کی تعمیر میں خواتین کی شرکت بنیادی اہمیت کی حامل اور ہمارے مارکسی فرائض کااہم ترین حصہ ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں اجلاس اورمیٹنگز کا انعقاد کیا گیا جس میں سماج کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کی۔

رحیم یار خان
رپورٹ: حنا کاشف
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے زیر اہتمام مورخہ 14 ستمبر 2014ء بروزمنگل ’’خواتین کے مسائل اور نجات کا راستہ ‘‘ کے موضوع پر خواتین کی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں چئیر پرسن کے فرائض کامریڈ حنا نے سر انجام دیے۔ کامریڈ انعم پتافی نے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام سمیت تمام ذاتی ملکیت پر مبنی طبقاتی معاشروں میں خواتین دوہری غلامی کا شکا ررہی ہیں۔ ایک طرف تو خواتین کو اس مردانہ معاشرے میں قدم قدم پر امتیازی سلوک اور استحصال کا سامنا کرناپڑتاہے اور دوسری طرف یہی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے جبر کا شکار ہوتی ہیں۔ جہاں انہیں گھروں سے لے کر کام کرنے والی جگہ تک ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فیکٹریوں کے غیر انسانی ماحول اور حالات میں بہت بڑی تعداد میں خواتین کا سستی لیبر کے طور استحصال کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس منافع خوری کے نظام میں عورت کو بھی جنس (Commodity) کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف حکمران اور سرمایہ داری کے دلال تشہیر کے ذریعے عورت کا استحصا ل کرتے ہیں وہیں پر دولت کے پجاری اس کے تمام انسانی حقوق غصب کر کے اسے گھر کی چار دیواری میں مقید کر کے رکھتے ہیں۔ اور پھر اسی معاشرے میں ہی سرمایہ دا ر اور اپر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ہی عورتوں کے حقوق اورآزادی کی علمبردار بنا کر آزادی نسواں کی باتیں کی جاتی ہیں، جس سے سامراجی فنڈز پر چلنے والی این جی اوز کے مالکان اپنی جیبیں گرم کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس عورت کی آزادی کے لیے نہ ہی پروگرام ہے اورنہ ہی ان کی کوئی نیت ہے۔ لیکن اس سب ڈرامے میں عورت کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ عورت کا استحصال طبقاتی نظام کی پیداوار ہے اور اس کا حل بھی اس طبقاتی نظام کے خاتمے سے ہی منسلک ہے۔ حقیقی بنیادوں پر خواتین کی سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی آزادی صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے، اور اس کے حصول کے لیے خواتین کوانقلابی پارٹی کی تعمیر میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ میٹنگ میں یونی لیور، شعبہ صحت کی محنت کش خواتین، طالبات کے علاوہ گھریلو خواتین نے بھی شرکت کی۔

فیصل آباد، گوجرانوالہ
رپورٹ: صبغت وائیں
16 ستمبر کو گوجرانوالہ میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں موجودہ دور میں خواتین کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر بحث کی گئی۔ کامریڈ عصمت نے فیصل آباد سے اور کامریڈ انعم پتافی نے ملتان سے خصوصی شرکت کی۔ اجلاس میں 29 خواتین نے شرکت کی جب کہ مردوں میں ناول اور افسانہ نگار خالد فتح محمد، ڈاکٹر طارق جاوید شعبہ اردو سے، کامریڈ صبغت اور عظیم حسن نے بمعہ اہلیہ کے شرکت کی۔
بحث کا آغاز کامریڈعصمت نے کیا اور مجموعی طور پر خواتین کے مختلف میدانوں میں کارنامے بتائے اور اس مغالطے کو رد کیا کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں کسی بھی طور سے پیچھے ہیں۔ کامریڈ فروانے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ نہ صرف گھر کے باہر عورت مسائل کا شکار ہے بلکہ گھر کے اندر بھی اس کا استحصال کم نہیں ہو رہا۔ اس کو تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت نہیں۔ اگر اجازت مل بھی جائے تو عموماً کم فیس والے ’’گھٹیا‘‘ سرکاری اداروں ہی میں ملتی ہے۔ اور لڑکی کی نسبت لڑکوں کی صحت کا بھی زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بچیوں کی شرح اموات لڑکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ آخر میں سوویت یونین کی عورتوں کے بارے میں بتایا کہ وہاں مرد عورت میں فرق نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے ایک تو اس نے عظیم الشان ترقی کی دوسری طرف وہاں کی عورتوں عظیم کارنامے بھی سرانجام دئے۔ کامریڈ سلمیٰ نے بتایا کہ عورت کو اس کے بچپن ہی میں دبا دیا جاتا ہے۔ اس کو یہی تربیت دی جاتی ہے کہ مرد، خواہ وہ باپ ہے یا بھائی جو کہے وہ ماننا ہی اس کا اعلیٰ ترین فریضہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خاص طور پر محنت کش عورتوں کو مزدوری کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ عورت کو ٹرانسپورٹ کے بہت سے مسائل ہیں، تعلیمی اداروں وغیرہ میں جانے کے لئے سڑکوں پر سے گزرنا ہوتا ہے اور سڑکوں پر لڑکے اور مرد عورتوں اور لڑکیوں کو تنگ کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی دھکے دیتا ہے تو کوئی آوازے کستا ہے۔ اور ان لڑکوں کے ایسا کرنے کی سزا بھی لڑکی کو دی جاتی ہے کہ تم نے ہی کچھ ایسا کیا ہو گا۔ اور اگر نہیں بھی کیا تو بھی گھر بیٹھو کیوں کہ زمانہ بہت خراب ہے وغیرہ۔ مزید بتایا کہ دنیا کے عقلمند ترین انسان سقراط کے استادوں میں ہمیں تین عورتوں ہی کے نام ملتے ہیں (ڈایوٹیما، ایس فیشیا اور اوریکل آف ڈیلفی کی پائتھیا کا۔ اس کے علاوہ بھی ایک اور استاد جونیا کا نام بھی ملتا ہے، اور وہ بھی عورت ہی تھی) لیکن آج عورت کو بے وقوف ہی سمجھا جاتاہے۔ اس کے بعد کامریڈ مدیحہ نے ماضی کا ذکر چھیڑتے ہوئے مادرانہ نظام کے متعلق بتایا جب عورت گھرانے کی سربراہ تھی اور مرد کو شادی کے بعد اس کے گھر آنا ہوتاتھا۔ زرعی انقلاب کے ساتھ عورت کی تاریخی شکست کے بعدآج یہ حالات ہیں کہ اس ترقی کے دور میں بھی جب عورت یا لڑکی بیمار پڑتی ہے تو علاج کے بجائے جادو ٹونے اور دم درود کو ترجیح دی جاتی ہے اور لڑکے کے بیمار ہونے پر اس کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ کرن نے بتایا کہ لڑکی اور لڑکے میں اتنا فرق موجود ہے کہ اگر کوئی لڑکی موبائل پکڑ لے تو اس کو ڈانٹا ڈپٹا جاتا ہے۔ اور کامریڈ اقرا نے وہاں محلے کی عورتوں کو (جن میں زیادہ تر محنت کش عورتیں تھیں) مدنظر رکھتے ہوئے بتایا کہ اسلام نے بھی آکر عورت کو حقوق دیئے تھے۔ جن میں آج کی اس پاکستانی سرمایہ داری نے اضافہ کرنے کی بجائے انہیں زیادہ سلب کیا ہے۔ کامریڈ ناصرہ نے اس بحث کو ایک نیا رخ دیا کہ آج کل میڈیا جس چیز کو عورت کا بنیادی مسئلہ بنا کے پیش کررہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ’’ کتنی خوبصورت ہے اور اگر نہیں، تو کیسے خوبصورت بن سکتی ہے‘‘۔ اس بورژوا حسن کا ایسا معیار سامنے آیا ہے کہ سرمایہ دار کی تجوری کا پیٹ بھرے بغیر اس کا معمولی سا حصول بھی ممکن نہیں۔ لیکن عورت کا اصل مسئلہ تو ’’خوبصورت‘‘ یا ’’بدصورت‘‘ ہونا ہے ہی نہیں۔ عورت کا اصل مسئلہ تو معاشی ہے۔ اگر وہ معاشی لحاظ سے آزاد ہو گی وہ معاشرے میں ایک اچھا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اور یہ جو ہمیں روز بتایا جاتا ہے کہ اگر ہر فرد اپنی سوچ تبدیل کر لے تو معاشرہ تبدیل ہو جائے گا ایک غلط سوچ ہے، اس کے برعکس اگر معاشرے کو تبدیل کر دیا جائے تو افراد تبدیل ہو جائیں گے۔ اور افراد کے اچھا ہونے کی تبدیلی صرف نظام کو تبدیل کر کے ایک سوشلسٹ معاشرہ قائم کر کے ہی ممکن ہے۔ اس کے بعد جناب خالد فتح محمد صاحب نے انتہائی مختصر اور جامع بات کی۔ انہوں نے تمام خواتین سے مخاطب ہو کے کہا کہ انہوں نے ساری باتیں سنی ہیں اور لڑکیوں نے بہت ہی شاندار انداز میں موضوع پر بات کی ہے لیکن اگر ہم اسی طرح دو تین ماہ بعد میٹنگ کر کے چلے جایا کریں تو بات نہیں بنے گی۔ آپ میں سے ہر لڑکی اور ہر عورت کو چاہیے کہ وہ واپس جا کر یہ باتیں اپنے ارد گرد کرے اور باقاعدہ میٹنگز میں آکر سیکھنے سکھانے کے عمل کو بھی جاری رکھے۔ اس کے بعد کامریڈ صبغت نے بتایا کہ ہم نے اپنی زندگی میں اپنے ارد گرد دو طرح کے لوگ دیکھے ہیں ایک تو وہ جو کہ کہتے ہیں کہ خدا نے مرد کو حاکم بنا کے پیدا کیا ہے اور عورت کی قسمت میں یہی لکھ دیا گیا ہے کہ وہ مرد کی غلامی کرے۔ دوسرے وہ جو کہ خواتین کے تمام مسائل کا ذمہ دار مرد کو ٹھہراتے ہیں اور عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ پہلے لوگ قدامت پرست اور بنیاد پرست ہیں جبکہ دوسرے لبرلز، آزاد خیال اور فیمی نسٹوں کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ ہم مارکسسٹ بھی عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن ہماری آزادی کا مفہوم وہ نہیں جو کہ بورژوا لبرلز کا ہے کہ عورت کپڑوں سے آزاد ہو جائے اور مردوں سے آزاد ہو جائے وغیرہ۔ ۔ ۔ بلکہ ہماری آزادی کا معنی یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر آزاد ہو۔ وہ باعزت روزگار حاصل کر سکے۔ اسے نقل و حمل کی مرد کی طرح آزادی ہو۔ جس طرح ہمارا جسم اعضا پر مشتمل ہے۔ اگر تمام اعضاء ایک کلیت میں کام کرنے کی بجائے اپنی اپنی کرنے لگیں تو انسان کچھ بھی نہ کر سکے گا۔ اسی طرح ہم مرد عورت بھی قدرت کی اسی لازمیت میں بندھے ہیں۔ ہم نے بھی مل کر ہی رہنا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ گو کہ ہم حیاتیاتی طور پہ مختلف ضرور ہیں لیکن ہم میں کسی قسم کی اونچ نیچ نہیں ہے۔ ایک دوسرے سے مختلف ہونا اعلیٰ اور ادنیٰ نہیں ہوتا۔ یہاں عورت کی تاریخی شکست کی بات کی گئی تھی۔ تاریخی شکست اسے اس لئے ہوئی تھی کہ اس کاپیداوار سے براہ راست تعلق توڑ دیا گیا تھا۔ گو کہ عورت کے بغیر پیداوار آج بھی ممکن نہیں، لیکن یہ بالواسطہ تعلق ہے۔ جو کہ عورت کو غلام بناتا ہے۔ سوشلزم میں عورت کا پیداوار سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ جو اسے حقیقی آزادی سے ہمکنار کرتا ہے۔ آخر میں کامریڈ انعم نے تمام بحث کو سمیٹتے ہوئے بتایا کہ انسانی دکھوں کا کاروبار کرنے والی این جی اوز نے آج تک عورت کو محض مظلومیت کا استعارہ بنا کر پیش کیا ہے، کبھی جدوجہد اور جرت کو استعارہ نہیں بنایا کیونکہ ایسی تصویرکشی سے ہی ان کے اکاؤنٹ بھرے جاتے ہیں۔ کامریڈ نے بتایا کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام میں تمام پیداوار کا مقصد مسلسل بڑھتی ہوئی شرح منافع کا حصول ہے اور اس میں چیزیں انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے نہیں بنائی جاتی بلکہ صرف اتنی ہی پیداوار کی جاتی ہے جس سے فوری اور بے تحاشا منافع کمایا جا سکے، جبکہ سوشلسٹ معاشرے میں منصوبہ بند معیشت میں پیداوار کا مقصدصرف انسانی ضرورتوں کی تکمیل ہو گا، جس میں ہر مرد و زن اپنی قابلیت کے مطابق کام کرے گا اور ضرورت کے مطابق حاصل کرے گا، محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول سے چلائی جانے والی منصوبہ بند معیشت ہی وہ سماجی ڈھانچہ کھڑا کر سکتی ہے جسے پہلی بار عورت کی غلامی کی تمام مادی بنیادیں ختم کر دی جائیں گی اور اسے برابر انسان کا درجہ مل سکے گا، اسی لیے دنیا بھر کی خواتین کی حقیقی آزادی سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے اسے کامیاب کرنے میں ہی پنہاں ہے۔

لاہور
رپورٹ: یاسمین زہرہ
لاہور میں 18 ستمبر 2014ء کو عالمی مارکسی رحجان کے پاکستانی سیکشن کے شعبہ خواتین کی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا، جس میں ’’پاکستان کے مخصوص دقیق حالات کے پیشِ نظر خواتین کو درپیش مصائب اورنوجوان و محنت کش خواتین کی وسیع پرتوں تک سوشلزم اور طبقاتی جدوجہد کا پیغام پہنچانا‘‘ کو موضوع بحث بنایا گیا۔ بحث کا آغا زکرتے ہوئے نیشنل وومن ورک آرگنائز کامریڈ انعم نے تنظیم کے اندر اور باہر موجود خواتین کی حالات پرگہرائی اور تفصیل سے بات رکھی۔ کامریڈ نے خواتین پر ہونے دوہرے تہرے استحصال کی نوعیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خواتین پر ہونے والے جبر و استحصال کا خاتمہ اور ان کی حقیقی آزادی ذاتی ملکیت سے پاک غیر طبقاتی معاشرے کی تعمیر سے ہی ممکن ہے، جس میں خواتین سے منسلک تمام گھریلومشقت پر مبنی ذمہ داریوں کو سماجی ذمہ داریوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ جس محنت کا انہیں نہ کوئی معاوضہ دیا جاتاہے اور نہ ہی کوئی ہفتہ وار چھٹی ملتی ہے کہ جس سے یہ سماج میں کوئی اہم پیداواری کردار ادا کر سکیں۔ دوسری طرف وہ خواتین جو گھر سے باہر کوئی محنت مزدوری کرتی ہیں تواُس صورت میں بھی وہ اپنے گھریلو کاموں سے آزاد نہیں ہوپاتی اور انہیں واپس آکر گھر کے کام اور بچوں کی پرورش و نگہداشت کرنی پڑتی ہے۔ اس معاشرے میں مجموعی طور پر عورت کو ’نچلے ‘درجے کاانسان سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ جسم و روح سے ماورا ’ جنس‘ جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ گلیوں، سڑکوں، پبلک ٹرانسپورٹ، بازاروں، کام کی جگہوں سمیت ہر جگہ ان کے ساتھ بد سلوکی کی جاتی ہے اور اسے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کامریڈ یاسمین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو جس طرح سماج میں دیکھا اور ان سے جوبرتاؤ کیا جاتا ہے اس کا تعلق براہ راست اور بلواسطہ طور پر ذاتی ملکیت سے ہے۔ غلام داری سے سرمایہ داری تک مختلف نظاموں میں اس استحصال کی فقط نوعیت اور شدت میں ہی تبدیلی آئی ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر کے ذریعے سے ہی خواتین کی آزادی ممکن ہو سکتی ہے۔ کیونکہ آزادی کبھی مانگنے سے نہیں، بلکہ چھیننے سے ملا کرتی ہے۔

اسلام آباد
رپورٹ: سندس نور
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے زیر اہتمام 20 ستمبر 2014ء کو ’’محنت کش خواتین کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کے عنوان سے پروگرام کاا نعقاد کیا گیا، جس میں نرسز کی بڑی تعداد کے علاوہ نمل کی طالبات نے بھی شرکت کی۔ کامریڈ سدرہ نے چیئر پرسن کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے پروگرام کا آغاز کیا اورپی ٹی یو ڈی سی کے اغراض و مقاصد پر بات رکھی۔ کامریڈ حنا نے عالمی سطح پر چلنے والی تحریکوں میں خواتین کے کردارپر روشنی ڈالتے ہوئے فرانس کے بورژواانقلاب سے حالیہ عرب انقلاب میں خاص کر مصری خواتین کی جدوجہد کا احوال بیان کیا۔ کامریڈ نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں خواتین کا بڑی تعداد میں محنت کش طبقے کے طور پر اجاگر ہوتے کردار پر بھی بات رکھی۔ صادیہ بشیر نے خاص کر نرسنگ کے شعبے سے وابستہ محنت کش خواتین کی حالات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ نرسز اور مریضوں کے مابین تناسب انتہائی غیر ہموار ہونے کی وجہ سے کام کے اوقات کار اور کام کا دباؤ شدید نوعیت کا ہے اور سب کے باجود بھی تنخواہیں بہت کم ہیں جس کی وجہ سے گھریلو اخراجات کو پورا کر پانا نا ممکن ہوجاتا ہے۔ کامریڈ ہمازین نے این جی اوز کے کردار پر بات رکھتے ہوئے بتایا کہ خواتین کی آزادی کی علمبردار یہ تنظیمیں محض انسانی دکھوں کا کاروبار کر رہی ہیں، انہیں اگر موقع میسر بھی آئے تو تب بھی سماجی حالات بہتر نہیں کر سکتی کیونکہ موجودہ نظام میں بہتری کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، خواتین کی حقیقی نجات صرف اس کو ختم کر کے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ نمل سے کامریڈ طیبہ نے طالبات کے عمومی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ مہنگی تعلیم نے پہلے ہی والدین کی کمر توڑ دی ہے، اس کے باوجود بھی جو لڑکیاں تعلیمی اداروں تک پہنچ جاتی ہیں انہیں رہائش سے لے کر، کھانے اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی طرف سے طالبات کو ہراساں کرنے والے واقعات بھی دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سب کے بعد اگر تعلیم مکمل کر لی جا ئے تو زیادہ تر بچیوں کو نوکری کرنے کی بجائے ان کی شادی کروا دی جاتی، لیکن دوسری طرف جوطالبات اعلیٰ ڈگریاں لینے کے بعد نوکری کرنا بھی چاہیں تو انہیں محنت کی منڈی میں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ آخر میں کامریڈ انعم نے پروگرام کا سم اپ کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح سے عورت کی غلامی کا آغاز نجی ملکیت اور معاشرے کی طبقاتی تقسیم کے ساتھ ہوا، اورجبر کی داستان کا یہ سلسلہ آج تک بھی جاری ہے، سرمایہ داری نظام آسان استحصال کے طور پر عورت کو گھر سے نکال کر فیکٹری میں تو لے آیا لیکن اسے گھریلو ذمہ داریوں سے مبرا نہیں کیا جس کی وجہ آج عورت نا صرف طبقاتی بنیادوں پر بلکہ صنفی بنیادوں پر بھی استحصال کا شکار ہو رہی ہے، نجی ملکیت پر مبنی اس سفاک طبقاتی نظام کے خاتمے سے ہی عورت کی نجات کا راستہ ممکن ہو سکتا ہے اوراس لڑائی میں محنت کش خواتین کی متحرک شمولیت نسل انسانی کی آزادی گہوارا ثابت ہوگی۔

سوات
رپورٹ: کامریڈ خکلاہ
22 ستمبر 2014ء کو مینگورہ سوات میں خواتین کی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا، جس میں انتہائی نا مصائب حالات کے باوجود بھی 18 خواتین نے شرکت کی، جن میں چھ لیڈی ہیلتھ وزٹرز بھی شامل تھیں۔ خواتین کے استحصال اور ان کی دوہری تہری غلامی کے حالات اور ان کی وجوہات پر کامریڈ انعم نے بہت تفصیلی بات رکھی کہ کس طرح اس مردانہ معاشرے میں خود مرد بھی حکمرانوں کے غلام ہیں، لیکن خواتین دونوں کی غلامی کرتی چلی آرہی ہیں، انہیں اپنی رائے رکھنے تک کا حق نہیں ہوتا، دوسری طرف تربیت بھی اس طرز پر کی جاتی ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد پہلے اپنے والد کے خاندان اور پھر شوہر کے خاندان کی خدمت کرنا ہے، ان کا ملکی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ اپنی مرضی کے مطابق ووٹ بھی ڈال سکتی۔ لیکن حقیقت یہ کہ خواتین کا سیاست سے گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ جب حکمران طبقات مہنگائی کرتے ہیں تو اس سے براہ راست گھر کا چولہا متاثر ہوتا ہے جو عورت کی ذمہ داری ہوتی ہے، حکمرانوں کی تمام پالیسیاں معاشرے کو متاثر کرتی ہیں خواتین جس کا حصہ ہوتی ہیں، اس لیے خواتین کو ان معاملات پر اپنی رائے دینے چاہیے اس میں حصہ ڈالنا چاہئے۔ کامریڈ نے پنجاب میں ہیلتھ ورکرز کے حالات پر روشنی ڈالی، پنجاب حکومت کے خلاف چلنے والی ان کی شاندار جدوجہد کا احوال بیان کیا، ان کی تحریک کی کمزوریوں پر بھی بات رکھی اور کامریڈز کی ان تحریکوں میں شمولیت اور کردار کا بھی بتایا۔ کامریڈ کائنات نے والدین کی طرف سے بیٹی اور بیٹے کے درمیان رکھے جانے فرق پر روشنی ڈالی۔ کامریڈ سیاست نے عورت پر پیدائش سے شروع ہوکر مرنے تک جو ظلم کیا جاتا ہے اس پربات رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں آج تک بیٹی کی پیدائش کو نحوست کی علامت مانا جاتا ہے جبکہ بیٹے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ بیٹی اور بیٹے کی خوراک میں بہت فرق رکھا جاتا ہے، تھوڑا بڑے ہونے پر اسے کتابوں کی بجائے جھاڑو اور برتن دے کر گھر میں قید کر لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم سب مل کر اس نظام کے جدوجہد کریں تو یہ حالات بدلے جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں۔ اس کے بعد کامریڈ نگینہ، ناہید اور میراج نے بھی بات رکھی۔ پروگرام کا سم اپ کرتے ہوئے کامریڈ انعم نے بتایا کہ مزدور وں کی محنت کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا کا نظام چل رہا ہے اس لیے اس کو روک کر ختم کرنے کی صلاحیت بھی مزدوروں کے پاس ہے، محنت کش خواتین اور مرد مل کر اس دنیا کو سچی جنت بنا سکتے ہیں اور یہی ہماری ساری جدوجہد کا مقصد ہے۔ پروگرام کے آخر میں ہیلتھ ورکرز بہت پُر جوش انداز میں کامریڈز کی جدوجہد کا ساتھ دینے اور اس کا حصہ بننے کا اعلان کیا اور کہا ہم یہ باتیں اور یہ پیغام باقی ہیلتھ ورکرز تک پہنچائیں گی اور انہیں بھی اس جدوجہد کا حصہ بننے پر آمادہ کریں گی۔

کشمیر
رپورٹ: آمنہ فاروق
مورخہ 25 ستمبر2014ء کو مظفرآباد میں خواتین کی ایک میٹنگ کی گئی جس میں تقریباً دس خواتین نے شرکت کی جن میں سے زیادہ کا تعلق پرائیویٹ سکول سیکٹر سے تھا۔ میٹنگ کو چیئر کامریڈ آمنہ نے کیا۔ میٹنگ کا ایجنڈا تھا ’’خواتین میں انقلابی کام کی اہمیت‘‘ اس ایجنڈے پر کامریڈ انعم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی انقلابی تحریک کو اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس میں خواتین کی شمولیت نہ ہو اور کسی بھی ملک کی پچاس فیصد آبادی کو نظر انداز کر کہ انقلاب کو مکمل نہیں کیا جا سکتا۔
کامریڈ نے مزید کہا کہ خواتین اس نظام کے ہاتھوں زیادہ پس رہی ہیں زیادہ بھیانک استحصال کا شکار ہیں اور ان کی حقیقی نجات کا راستہ بھی کوئی الگ نہیں بلکہ مرد محنت کشوں سے ملکر اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں ہی خواتین کی نجات بھی ممکن ہے۔ اس کے بعد سوالات کا سیشن ہوا۔ سوالات کی روشنی میں کامریڈ نوشین نے کنٹری بیوشن کرتے ہوئے خواتین کو سرگرم کرنے اور کام کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خواتین کے ایشو کو لے کر ہر شعبے میں ان کے پاس جانا چاہیے ان کے مطالبات کو اپنی جدوجہد کے ساتھ جوڑتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہیے۔ ان کے مسائل پر لکھنا چاہیے۔ اس کے بعد کامریڈ عصمت، کامریڈ ریحانہ، کامریڈ فاطمہ نے کنٹری بیوشن کئے، کامریڈ انعم نے میٹنگ کا سم اپ کیا۔
29 ستمبر 2014ء کو راولاکوٹ میں میٹنگ کی گئی جس میں دس خواتین نے شرکت کی جن میں کامریڈ نے فرداً فرداً کام کے دوران آنیوالے مسائل پر تفصیلاً بات کی اور کام کو از سر نو منظم کرنے کے حوالہ سے ٹارگٹ لئے۔ کامریڈ انعم نے میٹنگ کو سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر موجود تمام کامریڈز میں وہ سپرٹ اور توانائیاں موجود ہیں کہ اگر ان کو بھرپور استعمال کیا جائے تو خواتین کے کام کو نئی اٹھان مل سکتی ہے۔
کامریڈ نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کامریڈز کو مضامین لکھنے چاہئیں۔ اس عزم کے ساتھ میٹنگ کا باقاعدہ اختتام کیا گیا کہ کانگریس تک خواتین کی ممبرشپ کو دگنا کیا جائیگا۔