PIA میں بیوروکریسی کی لوٹ مار اور محنت کشوں کا بدترین استحصال

[تحریر: زین گورمانی، پی آئی اے کراچی]
پاکستان کی قومی ایئر لائن آج کل نیوز چینلز اور اخبارات میں اپنی تاریخ کے بد ترین خسارے اور بد انتظامی کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑنے کے حوالے سے نمایاں ہے۔ یہ قومی ادارہ اپنے قیام سے لے کر آج تک ہمیشہ حکمران طبقات اور دولت مند اشرافیہ کو ہر آسائش اور برق رفتارسفری سہولیات مہیا کراتا رہا ہے، ساتھ ہی پاکستان کے سب سے بڑے ذریعہ آمدن محنت کشوں کی برآمد کا بہترین ذریعہ رہا ہے مگر دوسری جانب اس ادارے کا مزدور اور محنت کش طبقہ ہرگزرتے دن کے ساتھ استحصال، ظلم اور بے بسی کا شکار ہورہا ہے۔ پی آئی اے کا مزدور آج جن مسائل کا شکار ہے انکا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
جس بنیادی ظلم کا شکار اس ادارے کا مزدور طبقہ آج ہے وہ انتہائی قلیل تنخواہیں اور انکا سیلری سٹر کچر ہے۔ آج ہو شربا مہنگائی کے اس دور میں یہاں کے مزدور کی گزر بسر انتہائی مشکل ہو کے رہ گئی ہے۔ وفاقی بجٹ میں وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں کئے جانے والے انتہائی قلیل اور شرمناک اضافے کا اطلاق اس ادارے کے مظلوم ملازمین پر نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے یہاں کا مزدور طبقہ بنیادی اشیاء صرف کی خریداری کا متحمل بھی نہیں رہا۔ اس کے علاوہ اسی خسارہ زدہ ادارے میں پچھلے طبقے کے محنت کش ملازمین اور انتظامی عہدوں پر تعینات افسران کی تنخواہوں میں موجودہ تفاوت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک انجینئر کی ماہانہ تنخواہ ایک ٹیکنیشن کی تنخواہ سے چار گنا زیادہ ہے، جس میں وقتاًفوقتاً مزید اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ نچلے طبقے کے ملازمین کو ادارے کے خسارے میں مبتلا ہونے کا عذر پیش کیا جاتا ہے۔
دوسرا اہم اور ہولناک حد تک بڑھتا ہوا مسئلہ یہاں کے مزدور کی سیفٹی ہے۔ مزدور طبقے کی کام کے دوران جسمانی حفاظت کا یہاں سرے سے کو ئی تصور اور انتظام موجود نہیں ہے۔ جہاں منافع اور مالیاتی سرمائے کے حصوں کی ہوس اور جنون عروج پر ہو وہاں انسانوں کا تحفظ قطعی کو ئی معنی نہیں رکھتا۔ ماضی قریب میں انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں کئی حادثات ناقص حفاظتی اقدامات کے باعث ہوئے جس میں تین مزدور جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ کرنٹ لگنے، مناسب اور موزوں ایکوپمنٹ نہ ہونے کے باعث بلندی سے گر جانے، بھاری سامان کی کرینوں کے خراب ہونے کی وجہ سے انسانوں کے ذریعے منتقلی کے باعث حادثات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
ایوی ایشن انجینئرنگ دنیا بھر میں اپنی حساسیت اور انسانی جانوں کے براہ راست منسلک ہونے کی وجہ سے سیفٹی اور بالخصوص ہیومن سیفٹی کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ متعدد بین الاقوامی ادارے عہد حاضر میں ایسے موجود ہیں جو بنیادی طور پر کسی بھی ایئر لائن کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں ہونیوالے آپریشنز اور مینٹینس میں سفیٹی کے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی بنیادی پہلو کو نظر انداز کرنے کے باعث پی آئی اے متعدد بار اپنے لائسنس ان اداروں سے منسوخ کراچکی ہے جس کا ذکر کئی بار ذرائع ابلاغ میں بھی آچکا ہے۔ مگر یہاں کی انتظامیہ کے کانوں پر ابھی تک جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ آج بھی ورکرز کو ڈرا دھمکا کر ناقص ورکنگ کنڈیشنر میں کام نکلوانے کو اپنی مثالی منجمنٹ تصور کرتی ہے۔
ڈیلی ویجز ملازمین بھی اپنے مقدر پر ماتم کناں ہیں۔ ایک محدود اندازے کے مطابق پی آئی اے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں تقریباً 1200 کے قریب ڈیلی ویجز مزدور کام کر رہے ہیں۔ جو ٹھیکے داری نظام کے تحت انتہائی قلیل اجرت میں بیس تیس سا لوں سے ذلت کی نوکری کر رہے ہیں۔ ان مزدروں کو ہر سیاسی و غیر سیاسی حکومت اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی ہے۔ یہ مزدور ادارے کی طرف میڈیکل، پنشن، چھٹیاں یا دیگر کسی مراعات کے مستحق قرار نہیں پاتے۔ ان کی اجرتوں میں اضافہ تو درکنار اکثر کٹوتیاں ہی کی جاتی ہیں۔ مزدور کی اجرت کم از کم پندرہ ہزار روپے کا دعوی کرنے والے پاکستان مسلم لیگ نواز نے اقتدار میں آتے ہی اس وعدے سے انحراف کیا۔ حالیہ بجٹ میں بھی جو بیہودہ دس ہزار کا اعلان کیا گیا ڈیلی ویجز ملازمین کو اس کا مستحق اور اہل بھی نہیں قرار دیا گیا۔ ان مزدورں کی تنخواہیں بارہا مرتبہ انتظامیہ اور ٹھیکیدار کی باہمی کشمکش کی وجہ سے ادا نہیں کی جاتی۔ جس کے باعث یہ لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔
اسٹرکچر حالت انتہائی محدوش ہے۔ میڈیکل کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کا دعوی کرنے کے باوجود میڈیکل سینٹر میں دوائیں نا پید ہیں۔ میڈیکل سینٹر میں ڈاکٹروں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ جس کے باعث طویل قطاریں لگی ہو ئی ہیں۔ ماسوائے اینٹی بائیوٹک کے فارمیسی میں کو ئی دوسری دوا موجود نہیں جس کے باعث یہاں کا محنت کش باہر کے مہنگے علاج پر بھاری پیسہ خرچ کرنے پر مجبور ہے۔
پورے ادارے میں کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں عام افراد کے لئے پینے کے صاف پانی کا کو ئی انتظام سرے سے موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ادارے کے اندر موجود کینٹنوں میں دیئے جانے والا کھانے کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ جس کا ٹھیکہ عرصہ دراز سے ایک ہی ٹھیکیدار کو دیا گیا ہے جو کہ انتظامیہ اور نام نہاد CBA کی آشیر باد سے یہاں کے مزدوروں میں بیماریاں بانٹ رہا ہے۔ جبکہ اسی مد میں پی آئی اے انتظامیہ یومیہ (کاغذوں کی حد تک) لاکھوں روپے سبسڈی دیتی ہے۔
ٹرانسپورٹیشن میں بھی صورتحال دگر گوں ہے۔ موٹر ٹرانسپورٹ بھی مکمل طور پر ٹھیکیداری پر دے دی گئی ہے۔ اکثر مزدور یہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں گنجائش نہ ہونے کا عذر پیش کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث وہ مہنگے کرائے بھر کر روزانہ یہاں نوکری کرنے پہنچتے ہیں اور پھر واپس جاتے ہیں۔ جبکہ آئے روز CNG کی بڑھتی قیمتوں، ہڑتالوں اورامن و امان کی انتہائی مخدوش صورتحال کے سبب انہیں شدید ذہنی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔
یہ تمام صورتحال پی آئی اے کے مزدور طبقہ کی ذلت آمیز تصویر کی کسی حد تک عکاسی کرتی ہے۔ ایسا ادارہ بھلا کیسے منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے کیونکہ یہ حکمران اسے تباہ کرنے پر تلے ہیں تاکہ اس کے اثاثوں کی آپس میں بندر بانٹ کر کے اپنی ذاتی دولت اور جائیداد میں اضافہ کر سکیں۔
جس نظام میں منافع کے حصول کا واحد ذریعہ یہاں کے محنت کش طبقے کے احساسات، شعور اور خواہشات کوکچل کر حاصل کیاجاتا ہو وہاں کا محنت کش ان حالات کے جبر کے سامنے ایک المناک تصویر کی صورت موجود ہے۔ مگر وہ اتنا بے بس نہیں کہ ذلت اورظلمت کی اس زندگی کو اپنا مقدر مان لے۔ یہاں کا مزدور طبقہ اپنی عظیم روایات سے پوری طرح آگاہ ہے اور اسی عظیم ترین اثاثے کی بنیاد پر وہ خود کو بدلے گا۔ اس نظام کو بدلے گا اور اس پورے سماج کو بدل ڈالے گا۔ وہ اس نظام کی تمام تر سفاکیوں کو اٹھا کر باہرپھینکے گا اور اپنے اجتماعی شعور اور بلند سوچ کے ذریعے تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو کامیابیوں اور کامرانیوں کی نئی بلندیوں اور نئی منزلوں تک پہنچائے گا۔
آج یہ حکمران عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدہ کر کے آئے ہیں اور انہوں نے آتے ہی اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے PIA کی نجکاری کااعلان کر دیا ہے جس سے مزدروں کے اندر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت ہے کہ محنت کش پہلے PIA کے اندر اتحاد کامظاہر کرتے ہو ئے نجکاری کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بنیں گے اور پھر دیگر اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ ملکر جہدوجہد کا اعلان کرنا ہو گا۔ اور یہ لڑائی اب کسی ایک ادارے کی نہیں ہوگی بلکہ محنت کش طبقے کی لڑائی ہوگی۔
آئیے آگے بڑھیں اور ہمارے ساتھ ملکر اس لڑائی کا حصہ بنیں اور اس نظام کو اکھاڑ کر پھینکیں۔ ہم ہوں گے کامیاب!