| تحریر: لال خان |
لاہور کی سندر انڈسٹریل سٹیٹ کی چار منزلہ فیکٹری کے انہدام کے تیسرے دن بھی درجنوں لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ’حکام‘ ملبے کو باحفاظت طریقے سے ہٹانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس دلخراش سانحے میں سرکاری طور پر 43 افراد کی لاشیں اب تک نکالی جا چکی ہیں۔ بدھ کی شام منہدم ہونے والی راجپوت پولیسٹر پولیتھین بیگ فیکٹری کے اس ملبے سے 102 افراد کو زندہ نکالا گیا ہے۔ ملبے کے نیچے دبے افراد کے زندہ بچنے کی امید اب بہت کم ہے۔ پنجاب کے امدادی کاموں کے سربراہ ارشد ضیا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ملبے کے نیچے زخمیوں کے ملنے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن ہم لاشوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ فیکٹری کے اس حصے میں ہمیں مزید 25 لاشیں نکالنی ہیں۔‘‘ اس رپورٹ کے مطابق، ’’یہ واضح نہیں ہے کہ عمارت کے انہدام کے وقت اس میں کتنے لوگ موجود تھے یا اس وقت کتنے افراد، زندہ یا مردہ، پھنسے ہوئے ہیں لیکن حکام نے بتایا ہے کہ فیکٹری کے انہدام کے وقت کم سے کم 150 افراد موجود تھے۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق تیس سے زیادہ لوگ اب بھی ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘
بہت سے زندہ بچ جانے والے مزدوروں نے حکومتی اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کیا ہے اور حادثے کی جگہ پر موجود پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے کارکنان نے بتا یا ہے کہ وہاں 500 مزدور دو شفٹوں میں کام کرتے تھے اور ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے مزدوروں کی تعداد چار سو سے کم نہیں ہے۔ ان میں سات آٹھ سال کے بچے بھی شامل ہیں اور بیروزگاری کا عذاب بہت سے مزدوروں کو جنوبی پنجاب کے پسماندہ دیہاتوں سے یہاں لایا تھا۔ حادثے کی جگہ کو سول اور ملٹری پولیس کی بھاری نفری کے ذریعے گھیرے میں لیا گیا ہے اور میڈیا کو محدود رسائی ہی دی گئی ہے۔ سندر انڈسٹریل سٹیٹ میں 435 فیکٹریاں ہیں اور شاید ہی کسی فیکٹری میں ٹریڈ یونین کا نام بھی موجود ہو۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم فیکٹری مالک یا صنعتی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے حکومتی محکموں کی غفلت کے ثبوت ڈھونڈ رہی ہے۔ کئی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگر فیکٹری مالک محنت کشوں کی پیشگی وارننگ پر کان دھرتا تو اس حادثے سے بچا جا سکتا تھا۔ چند دن پہلے جب نئی نصب شدہ مشینوں کو چلایا گیا تو مزدوروں نے مالک کو عمارت میں شدید لرزش کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ جمعہ کو مزدوروں نے ایک مرتبہ پھر مالک کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا لیکن انہیں چپ چاپ کام کرنے کو کہا گیا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ سابقہ نوآبادیاتی ترقی پزیر ممالک کی ’ابھرتی ہوئی معیشتوں‘ میں فیکٹری عمارات کا انہدام، محنت کشوں کو زندہ جلا دینے والی آگ، تاحیات معذور کر دینے والے حادثات، مالکان کے کرائے کے غنڈوں کا تشدد وغیرہ معمول ہے۔ پاکستان میں ایسے بہت سے واقعات کی رپورٹنگ ہی نہیں ہوتی۔ بلدیہ ٹاؤن یا سندر اسٹیٹ جیسا بڑا واقعہ منظر عام پر آجائے تو حکمران اور ان کے گماشتے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا میں محدود اور مسخ شدہ تصویر کشی کی جاتی ہے اور پھر فوراً سے پہلے ہی نان ایشوز کے ذریعے پردے سے غائب کر دیا جاتا ہے تاکہ ہوس میں غرق بے حس سرمایہ داروں کے ان وحشیانہ جرائم کے خلاف محنت کشوں کی بغاوت کا امکان بھی پیدا نہ ہو۔
ذرائع ابلاغ کے اکثر تجزیوں میں سطحی اورمن گھڑت وجوہات پیش کی جاتی ہیں۔ انتظامی غفلت، سرکاری عہدیداروں کی جانب سے نگرانی اور کنٹرول کی کمی کو ایسے کارپوریٹ قتل عام کی وجوہات گردانا جاتا ہے۔ کسی میں اس سرمایہ دارانہ نظام پر بات کرنے کی ہمت نہیں ہے جس کے جبر و استحصال سے یہ ہولناک ’حادثات‘ جنم لیتے ہیں۔ ہر ایسے واقعے کے بعد ہلاک شدگان اور زخمیوں کے لیے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے، اسی کارپوریٹ طبقے کے نمائندہ حکمران اور’ ’مخیر حضرات‘‘ اپنے فوٹو سیشن کرواتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے متاثرین کی لاشوں کو بھی سیاسی اور مالی مفادات کے استعمال کرتا ہے۔
’’واقعے کا نوٹس‘‘ لینے والے حکمرانوں نے ہی سرمایہ کاروں کو یہ ’مراعات‘ دی ہیں کہ کوئی بھی لیبر انسپکٹر ان کی فیکٹریوں میں دی جانے والی اجرت، کام کے حالات کار اور انفراسٹرکچر کے معائنے کو نہیں آئے گا۔ محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے والے ایسے اقدامات کے لئے کارپوریٹ میڈیا پر بڑی بے ضرر سی اصطلاح ’’ڈی ریگولیٹڈ لیبر‘‘ استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا حقیقی مطلب ہے کہ محنت کشوں کے ساتھ جو بھی سلوک کرو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ اکثریتی فیکٹریوں میں شاید ہی کوئی مستقل ملازم ہوگا، تمام لیبر دہاڑی یا کنٹریکٹ پر ٹھیکیدار کے ذریعے بھرتی کی جاتی ہے، جنہیں کوئی قانونی حقوق حاصل نہیں ہوتے۔ ایسے میں میڈیکل انشورنس، پنشن، چھٹی یا سوشل سکیورٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کام کے اوقات کار 12 سے 16 گھنٹے ہیں۔ اس سانحے کا شکار ہونے والے مزدوروں کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 9 ہزار روپے تھی، یعنی حکومت نے جو شرمناک ’کم از کم اجرت‘ مقرر کی ہے وہ بھی نہیں ملتی ہے۔ اکثر صنعتوں میں بچوں اور خواتین سے تین تا چھ ہزار روپے ماہانہ پر کام لیا جاتا ہے۔ یہ حالات چھوٹے صنعتی یونٹوں میں ہی نہیں ہیں بلکہ اب تو نیسلے اور لیور برادرز جیسی بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنز بھی تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ پر کام لیتی ہیں۔
پاکستان میں جتنی بھی صنعت کاری ہوئی ہے اس کا کردار اتنہائی غیرہموار اور سماجی طور پر متضاد نوعیت کا ہے۔ بنیادی انفراسٹرکچر ناپید یا پھر زبوں حالی سے دوچار ہے۔ ایسی خستہ حال عمارات میں قائم صنعتی یونٹ عام ہیں جنہیں ’موت کے کارخانے ‘ہی کہا جا سکتا ہے۔ اپنے وجود کے 68 سالوں بعد پاکستان کا سماج بدترین پسماندگی اور جد ید ترین ٹیکنالوجی کا امتزاج ہے۔ کمزور مالیاتی اور تکنیکی بنیادوں کے حامل سرمایہ دار طبقے نے کم سے کم سرمایہ کاری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع نچوڑنے کے سامراجی سیٹ اپ کو ہی آگے بڑھایا ہے۔ انگریز کا چھوڑا ہو ا انفراسٹرکچر درحقیقت کہیں زیادہ مضبوط اور کارگر تھا۔ ’’آزادی‘‘ کے بعد ہونے والی بربادی نے سماج کے آگے بڑھنے اور نمو پانے کی معاشی، سماجی اور مادی بنیادیں ہی ختم کر دی ہیں۔ توانائی سے لے کر آبپاشی، صحت اور تعلیم تک، ہر شعبہ نیم مردہ کیفیت میں ہے۔ فیکٹریوں کی زبوں حالی سب سے بڑھ کر مستقل سرمائے میں کمزور سرمایہ کاری کی غمازی کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت دیوالیہ ہے جس کی وجہ سے سرمایہ دار طبقہ دور رس سرمایہ کاری کرتا ہی نہیں ہے، دو تہائی معیشت ویسے ہی حکومتی ریکارڈ سے ماورا ہے، پاکستان کی سرمایہ داری روز اول سے ہی اتنی بیماراور بوسیدہ ہے کہ ٹیکس، بجلی، گیس کی چوری کے بغیر مقامی سرمایہ دار اپنی شرح منافع ہی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ بوسیدہ پاکستانی سرمایہ داری کے تحت جنم لینے والی جدیدیت نے پسماندگی کو مزید بگاڑ دیا ہے جس سے ثقافت، اخلاقیات اور رویے مسخ ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ٹریڈ یونین قیادت کی غداریوں نے محنت کش طبقے کی بدحالی کو شدید تر کر دیا ہے۔ آج کوئی ایسی سیاسی پارٹی وجود نہیں رکھتی جو برائے نام ہی مزدوروں، کسانوں اور مظلوم عوام کی نمائندگی کرے۔
عوام کا اس سیاسی ڈھانچے پر اعتماد اٹھ چکا ہے اور عمومی طور پر محنت کش اور نوجوان رائج الوقت سیاست سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ نفرت سلگ رہی ہے، سندر اسٹیٹ جیسا کوئی بھی ایک واقعہ اسے عوامی بغاوت میں تبدیل کر سکتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ محنت کش طبقہ اور نوجوان کب اٹھیں گے، مسئلہ یہ ہے کہ کیا ایسی طاقتور انقلابی قوت موجود ہوگی جو اس بغاوت کو قیادت اور نشان منزل دے سکے؟ تمام سیاسی پارٹیاں جتنی بے نقاب اور ساکھ سے عاری ہیں اس کے پیش نظر انقلابی تحریک کا کردار زیادہ لڑاکا اور غضبناک ہوگا۔ حکمران سیاست کی کوئی پارٹی یا شخصیت اس پوزیشن میں نہیں کہ ’’جمہوریت‘‘ یا کسی اور پرفریب نعرے سے ایسی تحریک کو زائل کر پائے۔ ایسے میں انقلابی سوشلزم کے نظریات سے لیس انقلابی پارٹی کی تعمیر، تاریخ کا اولین تقاضا بن چکا ہے۔
متعلقہ:
لاہور: سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں فیکٹری زمین بوس، حقائق کیا ہیں؟