[تحریر: لال خان]
آج کے عہد کا سب سے گہرا تضاد انتہاؤں کو چھوتی ہوئی معاشی ناہمواری ہے۔ بہتات میں بھی قلت ہے۔ دولت کے انبار چند ہاتھوں میں مجتمع ہورہے ہیں۔ ذرائع پیداوار اور جدید ٹیکنالوجی میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ کرہ ارض پر موجود تمام انسانوں کی ضروریات سے کہیں زیادہ پیداوار کی جاسکتی ہے لیکن نسل انسان کی اکثریت غربت، محرومی اور ذلت میں غرق ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ کارل مارکس ہی تھا جس نے آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل سرمایہ دارانہ نظام کی اساس واضح کرتے ہوئے لکھا تھاکہ’’ایک جانب دولت کا ارتکاز درحقیقت عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے۔‘‘
مارکس کی دوسری اہم پیش گوئی یہ تھی کہ سرمائے کے عالمگیر حیثیت اختیار کرجانے سے قومی ریاست متروک اور کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں اربوں ڈالر ہر روز قومی ریاست کی سرحدوں کو روندتے ہوئے دنیا بھر میں سفر کررہے ہیں۔ تضاد ہے کہ قومی ریاست کی تاریخی متروکیت کے باوجود، انقلابی تحریکوں کو کچلنے اور استحصالی ڈھانچے کی حفاظت کے لئے اسے قائم رکھنا حکمران طبقے اور سامراج کی مجبور ی ہے۔ انقلاب یا سماجی انتشار کے ادوار میں استحصالی طبقہ اپنی حاکمیت اور ملکیت کی حفاظت کے لئے ریاست کو زیادہ جابر بناتا ہے۔ ایسے ادوار میں بورژوا قوم پرستی ایک رد انقلابی رجحان بن کر ابھرتی ہے۔
بہت کم تناظر ایسے ہیں جنہیں ڈیڑھ صدی کے نسبتاً طویل عرصے نے درست ثابت کیا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت نے مارکسزم کو کارل مارکس کے عہد سے بھی زیادہ معقول اور قابل عمل بنا دیا ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن، اسلحے، مالیات اور خوراک سے وابستہ صرف 190 ملٹی نیشنل اجارہ داریاں 85 فیصد عالمی معیشت پر قابض ہیں۔ دنیا ایک معاشی اکائی بن چکی ہے جو عالمی منڈی اور سامراجی ریاستوں کے ہاتھوں یرغمال چھوٹی بڑی درجنوں لاغر اور مغلوب سیاسی اکائیوں پر مشتمل ہے۔ گلوبلائزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس کی قوت محرکہ منافع ہے جس کی وجہ سے غربت اور معاشی ناہمواری میں اضافہ ہورہا ہے۔
منافع پر مبنی اس معاشی نظام کے طبقاتی تضادات سماجی انتشار، بغاوت اور بعض اوقات انقلابات کو جنم دیتے ہیں۔ انقلابی تحریکیں اگر اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکیں تو سیاسی جمود اور خلا پیدا ہوتا ہے جسے مذہبی بنیاد پرستی اور قومی شاونزم جیسے رجعتی رجحانات پُر کرتے ہیں، دہشت گردی اور تشدد زور پکڑ جاتے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ریکارڈ سازی کا عمل شروع ہونے کے بعد سے 2013ء کا سال دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے حوالے سے سر فہرست تھا۔ 2014ء میں صورتحال اور بھی بدتر ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
عدم مساوات آج اس خوفناک سطح پر پہنچ چکی ہے کہ صرف 85 امیر ترین افراد کے پاس ساڑھے تین ارب لوگوں سے زیادہ دولت ہے۔ کارپوریٹ گدھ اس سیارے کو نوچ نوچ کر پھولتے جارہے ہیں۔ 2008ء میں عالمی سرمایہ داری کے کریش کے بعد شروع ہونے والے معاشی بحران کے باوجود بھی دولت کا ارتکاز نہ جاری ہے بلکہ تیز ہوگیاہے۔ جون 2011ء میں ’’بزنس انسائیڈر‘‘ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں فارچون، سی این این اور آئی ایم ایف کے ڈیٹاسے ان امریکی کارپوریٹ کمپنیوں کے مالیاتی حجم کا اندازہ لگایا گیا تھا جو ریاستوں سے زیادہ امیر ہوچکی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم نے 25 ایسی امریکی کارپوریٹ کمپنیوں کا پتا چلایا ہے جن کی 2010ء کی آمدن، ممالک کی کل داخلی پیداوار (GDP) سے بھی اربوں ڈالر زیادہ تھی۔‘‘ رپورٹ میں کچھ مثالیں پیش کی گئی تھیں: ’’یاہو (Yahoo!)کا مالیاتی حجم منگولیا سے زیادہ ہے، منگولیا کا جی ڈی پی: 6.13 ارب ڈالر، یاہو کی آمدن: 6.32 ارب ڈالر… ویزا (Visa Inc) کا مالیاتی حجم مبابوے سے زیادہ ہے۔ ای بے (eBay) کا مالیاتی حجم میڈاگاسکر سے زیادہ ہے… نائیکی کی آمدن ( 19.16 ارب ڈالر) پیراگوئے کے جی ڈی پی(18.48ارب ڈالر) سے زیادہ ہے۔ میکڈونلڈز (McDonald’s) کا مالیاتی حجم لیٹویا سے زیادہ ہے، لیٹویا کا جی ڈی پی: 24.05 ارب ڈالر، میکڈونلڈز کی آمدن: 24.07 ارب ڈالر۔ امازون کی آمدن ( 34.2 ارب ڈالر) کینیا کے جی ڈی پی (32.16 ارب ڈالر) سے زیادہ ہے۔ مارگن سٹینلے کا مالیاتی حجم ازبکستان سے زیادہ ہے… پیپسی (Pepsi) کا مالیاتی حجم اومان سے زیادہ ہے، اومان کا جی ڈی پی: 55.62 ارب ڈالر، پیپسی کی آمدن: 57.83 ارب ڈالر۔ ایپل (Apple) کا مالیاتی حجم ایکواڈور سے زیادہ ہے، ایکواڈور کا جی ڈی پی: 58.91 ارب ڈالر، ایپل کی آمدن: 65.23 ارب ڈالر۔ پراکٹر اینڈ گیمبل (P&G) کا مالیاتی حجم لیبیا سے زیادہ ہے… مائیکروسافٹ کی آمدن 62.48 ارب ڈالر جبکہ کروشیا کا جی ڈی پی 60.59 ارب ڈالر ہے… فورڈ کا مالیاتی حجم مراکش سے زیادہ ہے… جنرل موٹرز کا مالیاتی حجم بنگلہ دیش سے زیادہ ہے…جنرل الیکٹرک، نیوزی لینڈ سے زیادہ امیر ہے…کونوکو فیلپس کی آمدن 184.97 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کا جی ڈی پی 174.87 ارب ڈالر ہے…ناروے دنیا کی 25 ویں بڑی معیشت ہے جس کا جی ڈی پی 414.46 ارب ڈالر ہے لیکن وال مارٹ (Walmart) کی آمدن اس سے 7ارب ڈالر زیادہ ہے…‘‘
2010ء کے بعد اعداد و شمار میں آنے والی کمی بیشی سے قطع نظر عمومی رجحان نہ صرف برقرار ہے بلکہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ رپورٹ میں شامل کی گئی کچھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آمدن اگر گری ہے تو کئی دوسری کمپنیوں کی آمدن میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً 2010ء کے بعد سے ایکواڈور کا جی ڈی پی اگر 58 سے 84 ارب ڈالر ہوا ہے تو ایپل کی آمدن 65 سے 182 ارب ڈالر پر جا پہنچی ہے۔ یہ دیوہیکل ملٹی نیشنل کمپنیاں کتنی امیر اور ہڈدھرم ہے اس کا اندازہ نومبر 2014ء میں RT پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں ایسی امریکی کارپوریٹ کمپنیوں کے نام گنوائے گئے ہیں جن کے چیف ایگزیکٹو افسران کی تنخواہیں ریاست کو ادا کئے ٹیکسوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
ملٹی نیشنل اجارہ داریاں نہ صرف امریکی کانگریس میں سیاستدانوں کو خریدتی ہیں بلکہ پاکستان جیسے ممالک کے حکمرانوں کو بھاری رشوت اور ’’کک بیکس‘‘ سے بھی نوازتی ہیں، تیسری دنیا کی ریاستوں کو قابو کرنے کے بعد محنت اور وسائل کے خونریز استحصال سے بلند شرح منافع حاصل کی جاتی ہے۔ ان سابقہ نوآبادیاتی ممالک کا حکمران طبقہ تاریخی طور پر تاخیر زدہ اور معاشی طور پر نحیف اور بدعنوان ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی، سماجی اور سیاسی طور پر قدامت پرست اور رجعتی ہے۔ اپنی نامیاتی کمزوریوں اور ریاست کی بے دریغ لوٹ مار کی وجہ سے پسماندہ ممالک کے یہ حکمران ایک آزاد اور مستحکم معیشت کبھی قائم کر پائے ہیں نہ کر سکتے ہیں۔ یہ طفیلی پرت ان سیاسی اور ریاستی کمیشن ایجنٹوں پر مشتمل ہے جن کا کام پسماندہ ممالک میں ’’سرمایہ کاری‘‘ کرنے والی سامراجی اجارہ داریوں کو استعمال کے لئے محنت کشوں کی شکل میں ’’خام مال‘‘ مہیا کرنا ہے۔ نجکاری، ڈی ریگولیشن، کنٹریکٹ لیبر، دہاڑی دار مزدوری، غیر انسانی اجرتیں، پنشن اور ہیلتھ الاؤنس کا خاتمہ، یونین سازی پر پابندی وغیرہ اسی نیو کالونیل ازم کی ’’معیشت‘‘ کے بنیادی پہلو ہیں۔ ملٹی نیشنل اجارہ داریاں صرف تیسری دنیا میں ہی لوٹ مار کا بازار گرم نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنے ممالک میں محنت کشوں کا بھی استحصال کرتی ہیں۔ مثلاً وال مارٹ کے اکثریتی ملازمین کی اجرت 9 ڈالر فی گھنٹہ سے بھی کم ہے، امریکہ جیسے ملک میں اس اجرت کا 80 فیصد کرایوں کی مد میں ہی خرچ ہو جاتا ہے اور ادارے کے محنت کش خوراک کے لئے ریاستی خیرات کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ وال مارٹ کے محنت کش گزشتہ کئی سالوں سے اجرت میں اضافے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
یہ عالمگیر کارپوریٹ کمپنیاں کسی ایک ملک سے تعلق رکھتی ہیں نہ ہی ان کا استحصال اور ڈاکہ زنی کسی ایک ملک یا خطے تک محدود ہے۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سامراجیت: سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں ولادیمیر لینن نے واضح کیا تھا کہ منافعوں کے لئے دوسرے ممالک میں سرمائے کی برآمد کے ساتھ ہی سامراجی رجحانات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران گہرا ہونے کے ساتھ اس کی وحشت بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آج کے عہد میں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑے بغیر کسی ملک کے لئے ’’آزادی‘‘ کا حصول ممکن نہیں ہے۔ عالمگیر سرمایہ داری کے خلاف طبقاتی جدوجہد تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب اسے تنظیمی اور نظریاتاتی طور پر بین الاقوامی خطوط پر استوار کیا جائے۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے یہ تاریخی نعرہ اسی لئے بلند کیا تھا کہ ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ۔‘‘
متعلقہ: