انسان، سڑک اور گاڑی کا تضاد

| تحریر: لال خان |

ایک وقت تھا جب درمیانے طبقے کے کسی خاندان کے پاس گاڑی آتی تھی تو وہ اپنے آپ کو مراعت یافتہ سمجھنے لگتا تھا اور زندگی سہل ہونے کی کچھ امید پیدا ہوتی تھی۔ آج بھی پاکستان جیسے ممالک میں آبادی کی وسیع اکثریت گاڑیوں سے محروم ہے اور جن کے پاس نہیں ہے ان میں گاڑی سے متعلق خوش فہمی پائی جاتی ہے۔ تاہم پچھلی تین دہائیوں میں اپنے بحرانوں سے نکلنے کے لئے سرمایہ دارانہ نظام نے جس نیو لبرل طرز معیشت کو جارحانہ انداز میں مسلط کیا ہے اس سے جہاں امارت اور غربت کی خلیج میں تیز اضافہ ہوا ہے وہاں نسبتاً بڑے درمیانے طبقے نے بھی جنم لیا ہے۔ اس درمیانے طبقے کا سماجی کردار ہمیشہ یہی رہا ہے کہ یہ بالادست طبقات کے طرز زندگی کی طرف اندھی دوڑ میں بھاگتا ہے اور محنت کش طبقات میں بھی حکمرانوں کی سیاست اور ثقافت کو سرائیت کرواتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں اس میں درمیانے طبقے میں گاڑی (کار)، گھر اور موبائل فونز کی ہوس دوسری سب ترجیحات پر سبقت لے گئی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ٹیلیوژن یا اخبارات میں سب سے زیادہ اشتہارات انہی تین شعبوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سرمایہ داروں کے وہ تمام ذرائع جو منافع سے وابستہ ایسے ’’فیشن‘‘ اور عادات و اطوار کو سماجی رجحانات پر مسلط کرتے ہیں وہ کسی بڑے سیاسی اور طبقاتی تحرک سے عاری ایسے ادوار میں کسی حد تک کامیاب بھی رہتے ہیں۔
گاڑیوں کی بات کریں تو آج صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان کے شہروں بلکہ قصبوں اور دیہاتوں تک میں ٹریفک کے مسائل بشمول حادثات اور ٹریفک جام معمول بنتے جا رہے ہیں۔ بڑے شہروں میں پارکنگ کی جگہیں ختم ہو گئی ہیں، گاڑیاں تجاوزات بن گئی ہیں اور عام انسانوں کے لئے پیدل چلنا محال ہو گیا ہے۔
’’اپنا گھر‘‘ اور ’’اپنی ٹرانسپورٹ‘‘ وغیرہ کی نفسیات درحقیقت سماجی انفراسٹرکچر کے بحران کے ساتھ ساتھ معاشرے اوردوسرے انسانوں سے اجتناب اور بیگانگی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ اس عدم تحفظ کا اظہار ہوتا ہے جو سماجی نفسیات میں پایا جاتا ہے۔ لیکن گھروں میں بند ہو کر، دوستوں اور عزیزوں سے دور ہو کر اور انسانوں سے تعلق کاٹ کر بھی انسان کبھی خوش اور سہل نہیں ہو سکتا۔ انسان بنیادی طور پر سماجی جانور (Social Animal) ہے اور سماجی عمل سے وہ جتنی دوری اختیار کرتا ہے، وہ اتنا ہی تنہائی اور مایوسی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ انسان میں جتنی خود غرضی بڑھتی ہے اس سے وہ دوسروں کو تو دکھ دیتا ہی ہے لیکن خود بھی نفسیاتی اور ثقافتی طور پر گرنے لگتا ہے۔ یہی نفسیات اس اندھی دوڑ میں لگے رہنے کی بنیاد ہے جس میں دوسروں کو پچھاڑ کر خود آگے بڑھنے کے رجحانات کو مقابلہ بازی کے اس نظام نے معاشرے پر حاوی کیا ہوا ہے۔ جب اکثریت اس ڈگر کی راہی ہو تو پورا معاشرہ انسانیت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔
آج یہ نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ معاشرے کو اجتماعی اور مساوی بنیادوں پر ترقی دینے کی بجائے طبقاتی اور دوسرے سماجی تضادات بڑھاتا ہی چلا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی یا فوجی حکمران اس نظام کو نہیں چلاتے بلکہ وہ خود اس نظام کے تقاضوں کے تابع ہوتے ہیں اور ان کے مطابق اپنی پالیسیاں وضع کرتے ہیں۔
lahore road construction cartoonاگر ہم ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہی دیکھ لیں تو میٹرو بس اور دوسرے ایسے منصوبے جو بظاہر عام لوگوں کے اجتماعی سفر کے لئے بنائے جا رہے ہیں وہ دیوہیکل تقاضوں کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ سفر کی سہولیات اس قدر ناپید یا ناقص ہیں اور وسیع اکثریت کو ’’اپنی ٹرانسپورٹ‘‘ کی لت میں اس حد تک الجھا دیا گیا ہے کہ اشتراکی سوچ اور پلاننگ ناپید نظر آتی ہے۔ لیکن اس نظام میں یہ سب بے سبب بھی نہیں ہے۔ گاڑیوں سے لے کر رئیل اسٹیٹ تک، ان شعبوں میں سرمایہ کاری اس لئے کی جاتی ہے کہ شرح منافع بلند ہے اور جلد ریٹرن حاصل ہوتا ہے۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں وغیرہ کے اس پھیلاؤ میں یہاں کے سرمایہ داروں کے مختلف حصے خوب مال بنا رہے ہیں، بینکوں کی بھی چاندی لگی ہوئی ہے۔ جب سے کریڈٹ فنانسنگ سے گاڑیوں کی خریداری کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو پورے ملک میں گاڑیوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ ان شعبہ جات میں ریاست اور سیاست کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اقتدار میں آنے والی پارٹیاں انہی سرمایہ داروں اور ٹھیکے داروں کے پیسے پر چلتی ہیں اور انہی کے لئے منافع بخش پالیسیوں کو ناگزیر طور پر فروغ دیتی ہیں۔ سرمایہ داروں کے لئے گاڑیوں کی فروخت اور ٹھیکیداروں کے لئے سڑکوں، پلوں اور موٹر ویز سے دولت کمانے کے ذرائع پیدا کئے جاتے ہیں۔ اس سارے عمل میں ریاستی مشینری کے لئے بھاری کمیشن اور حصہ داری کی بھی کمی نہیں ہے۔
اس طرز معیشت سے ٹریفک کا نظام بری طرح بگڑ چکا ہے۔ سڑکیں اس رفتار سے بن نہیں رہیں جس شرح سے گاڑیاں سڑکوں پر آ رہی ہیں۔ جہاں تک سڑکوں کے پھیلاؤ یا چوڑا کرنے کا تعلق ہے تو اس کی بھی حدود ہیں اوراس مقصد کے لئے سبزے اور گریں بیلٹس کو برباد کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں ہر ماہ 16 ہزار سے زائد نئی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں سڑکوں پر آ رہی ہیں۔ لاہور میں یہ تعداد 3 ہزار ماہانہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس شرح سے سڑکوں کو بھلا کتنا اور کب تک چوڑا کیا جاسکتا ہے؟ ٹریفک جام بڑھتے جارہے ہیں، فضائی اور صوتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، ان شہروں میں ’’سموگ‘‘ (دھویں سے بننے والی دھند) اب واضح طور پر نظر آتا ہے، اربوں روپے کے ایندھن اور کام کے لاکھوں گھنٹوں کا ضیاں اس کے علاوہ ہے۔ شہری زندگی کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو چکا ہے۔
یہ بیماری صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ دنیا میں جہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی ’’کریڈٹ فنانسنگ‘‘ اور ’’ٹریکل ڈاؤن‘‘ کی معیشت چل رہی ہے، عوام اسی اذیت کا شکار ہیں۔ فرانس، برطانیہ، جرمنی اور امریکہ میں سالانہ 225 ارب ڈالر کا تیل اور دوسرے ذرائع ٹریفک کے ان مسائل کی نذر ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی پر بحث بھی محض فیشن بن گیا ہے کیونکہ اس مسئلہ کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس پر بات کرنے کو ’’سول سوسائٹی‘‘ تیار نہیں۔ سابق نو آبادیاتی ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے۔ میکسیکو میں آلودگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر انسان سانس کے ساتھ روزانہ چار ڈبیاں سگریٹ کے برابر کاربن مونو آکسائیڈ جسم میں لے جاتا ہے۔ اس نظام کے رکھوالے حکمران اس مسئلے کے عجیب و غریب حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً انڈونیشیا میں ’’بھکاری سواریوں‘‘ کا رجحان چل نکلا ہے، حکومت نے پابند لگائی ہے کہ تین سے کم افراد کے ساتھ گاڑی سڑک پر لانا منع ہے۔ اس لئے لوگ ’’بھکاری سواریوں‘‘ کو ساتھ بٹھا کر، ان کو بھیک دے کر گاڑی پر اپنی منزل پر پہنچ کر اتار دیتے ہیں۔ یعنی پیسے لے کر سفر کرنا ایک نیا پیشہ بن گیا ہے۔ اس سے پہلے ایسے قوانین اٹلی وغیرہ میں بھی نافذ کئے جاتے رہے ہیں لیکن مسئلہ بدستور موجود ہے۔ اسی طرح دہلی میں ہائی کورٹ نے ڈیزل گاڑیوں اور بسوں پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سے بھی غریب اور محنت کش ہی متاثر ہوئے ہیں، حکمرانوں نے تو الیکٹرک گاڑیاں رکھنی شروع کر دی ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ انسان کو انسان سے ملاتی ہے، کم خرچ ہوتی ہے، ایندھن کے بے جا استعمال اور آلودگی سے نجات دلاتی ہے اور ٹریفک جام جیسے مسائل نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی تناؤ اور وقت کے ضیاں سے بھی نجات ملتی ہے۔ علاوہ ازیں انسان کو ہر روز کچھ وقت چلنے کا موقع ملتا ہے جس سے صحت سے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔

car-vs-bike-vs-bus
سستی اور با سہولت پبلک ٹرانسپورٹ کے بغیر ٹریفک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے

ٹرین کا سفر سب سے تیز، محفوظ، آرام دہ اور ’کاسٹ ایفیشنٹ‘ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کے حکمرانوں نے ریل کا نظام برباد ہی کیا ہے، ریلوے کو بہتر بنانے کی بجائے سڑکوں اور موٹر ویز پر سارا زور لگایا ہوا ہے جس کی جہاں سیاسی اور مالی وجوہات ہیں وہاں ایک اہم وجہ ٹرانسپورٹ مافیا کا غلبہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں ریلوے بہت زیادہ سرمایہ کاری مانگتی ہے اور منافع آنے کا وقت طویل ہوتا ہے، پھر ایک غریب ملک میں ریلوے کے کرائے ایک خاص حد تک ہی بڑھائے جا سکتے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر پلاننگ کی گنجائش ہی سرمایہ دارانہ نظام میں ختم ہو چکی ہے۔ دور رس منصوبہ بندی اور منڈی کی معیشت کے درمیان نا قابل حل تضاد ہے۔ منڈی کی معیشت جہاں جائے گی غیرہموار سماجی ارتقا ہی لائے گی۔ بے ہنگم آبادیاں پھیلیں گی، ٹریفک چلتی رکتی رہے گی اور زندگی درہم برہم ہو گی۔ اس کے متضاد منصوبہ بند معیشت ہی درحقیقت سوشلسٹ معیشت ہے جس میں کسی بھی منصوبے یا معاشی سرگرمی کا مقصد منافع نہیں بلکہ انسانی ضرورت اور سہولت ہوتی ہے۔ ایسی معیشت پر مبنی اشتراکی معاشرے میں ہی پبلک ٹرانسپورٹ کا سستا، سہل، تیز اور باعزت نظام ملک گیر سطح پر تشکیل اور تعمیر کیا جاسکتا ہے تاکہ زندگی آلودگی، تناؤ اور تلخی سے آزاد ہو سکے۔

متعلقہ:

قاتل ٹریفک

شور

’کیٹ آئیز‘

نمائشی ترقی