[تحریر: لال خان]
واہگہ میں درجنوں معصوم انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالنے والے خود کش حملے کے کچھ ہی دنوں بعد کوٹ رادھا کشن میں ایک عیسائی جوڑے کو زندہ جلا ڈالنے کے واقعے نے ہر زی شعور انسان کو ایک بار پھر لرزا کے رکھ دیا ہے۔ ہلاک ہونے والی شمع اور اس کا شوہر شہزاد دونوں بھٹے پر مزدوری کرتے تھے۔ ہلاکت کے وقت شمع حاملہ تھی۔ قومی امکان ہے کہ بھٹہ مالک سے اجرت کا مطالبہ ہی ان کا ’’جرم‘‘ ٹھہرا ہوگا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے تسلسل اختیار کر لینے والے یہ واقعات اس نفسیاتی بیماری کی علامات ہیں جن کا شکار عمومی سماجی شعور ہو چکا ہے۔ معاشرت کا تانا بانا گل سڑ کر بکھر رہا ہے۔ رجعت، مذہبی جنون اور بنیاد پرستی سماجی زندگی کا گلا گھونٹی چلی جارہی ہے۔ اس سرزمین کے محنت کش بدترین جبر و استحصال کا شکار ہیں لیکن اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے لئے تو زمین ہی تنگ کر دی گئی ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرنے والا معاشی بحران اور ریاستی انتشار، محکوم ومجبور عوام کی ذلت اور محرومی میں اضافہ ہی کرتا چلا جارہا ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں میں یہ معمول بدل ڈالنے کی خواہش دہائیوں سے سلگ رہی ہے۔ یہاں کی بے حس اور پرفریب اشرافیہ کے ایک دھڑے نے ’’تبدیلی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ کے جو نعرے لگائے تھے وہ کئی دوسری سیاسی شعبدہ بازیوں کی طرح ایک دھوکہ اور سراب ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن آج استحصال اور رجعت کے اندھیروں میں میں سہمے یہ کھلیان اور فیکٹریاں، یونیورسٹیاں اور کالج، کوچہ و بازار، ان تاریخ ساز لمحات کے بھی چشم دید گواہ ہیں جب اس ملک کے مزدور، کسان اور نوجوان انقلابی فتح کی منزل کے بہت قریب جا پہنچے تھے۔ خزاں کے ہی دن تھے جب یہ طوفانی واقعات حکمران طبقے کے محلات اور اقتدار کے ایوانوں کو لرزا رہے تھے۔
نومبر کا پہلا عشرہ ملکی اور عالمی سطح پر تاریخ کا دھارا موڑ دینے والے کئی واقعات کی یاد سمیٹے ہوئے ہے۔ چھیالیس سال قبل، 6 نومبر 1968ء کے دن اس انقلابی ابھار کا آغاز ہوا تھا جو اس کے بعد آنے والے مہینوں میں ملک کے طول و ارض میں سرایت کرتا چلا گیا۔ محنت کش عوام کی اس بغاوت میں اتنی شکتی موجود تھی کہ جسے درست راستہ اور لائحہ عمل فراہم کرتے ہوئے سرمایہ داری اور جاگیر داری کو اکھاڑ پھینکا جاسکتا تھا۔ ریاست اور حکمران طبقے کی ’’سرکاری تاریخ‘‘ میں اس انقلابی تحریک کا ذکر شاید ہی کہیں ملتا ہو۔ دائیں بازو کے دانشور تو ایک طرف، نام نہاد ’’لیفٹ لبرل‘‘ تاریخ دانوں نے بھی اس تحریک کے کردار کو محدود اور ’’بے ضرر‘‘ بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کہیں اسے ’’ایوب مخالف ایجی ٹیشن‘‘ بنا دیا گیا تو کہیں ’’جمہوریت‘‘ کے لئے مزدوروں کی ہڑتالیں اور طلبہ کے مظاہرے کہہ کر بات سمیٹ دی گئی۔ یہ توجیہات اور اختراعات، حکمران طبقے کے حق میں تاریخ کو مسخ کرنے کی مکروہ کوشش ہیں۔
1968-69ء کی تحریک ’’آمریت‘‘ کے خلاف ’’جمہوریت‘‘ کے لئے کی جانے والی ’’ایجی ٹیشن‘‘ نہ تھی۔ یہ ایک ملک گیر عوامی بغاوت تھی جس کا سماجی و معاشی کردار سوشلسٹ تھا اور جس نے انقلابی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ تحریک نے آمریت اور رائج الوقت سیاسی ڈھانچوں کے ساتھ ساتھ ملکیت کے رشتوں کو بھی چیلنج کر دیا تھا۔ انقلاب کے عزم نے اشتراک کا وہ جذبہ بیدار کیا تھا کہ مطالبات ایوب خان سے استعفیٰ سے بڑھ کر صنعت اور معیشت پر محنت کش عوام کے کنٹرول تک جا پہنچے تھے۔ فیکٹریوں، ملوں اور جاگیروں پر قبضے ہونے لگے تھے۔ 139 دن تک، سیاسی اور ریاستی طاقت اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ فیکٹریوں، جھونپڑ پٹیوں، دیہاتوں اور گلیوں میں قائم مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کی اجتماعی کمیٹیوں کے پاس تھی۔ تحریک کی شدت، طاقت اور حجم نے ملکی تاریخ کے مضبوط ترین فوجی آمر ایوب خان کو اقتدار چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن اپنی کتاب ’’پاکستان کے بحران اور ان کا حل‘‘میں مارچ 1969ء کے طوفانی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’7مارچ کو نیشنل بینک کے ملازمین نے ہڑتال کر دی اور ویسٹ پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے بڑی ریلی نکالی۔ 8 مارچ کو کراچی میں اساتذہ نے ریلی نکالی جس میں دیگر اداروں کی ریلیاں بھی شامل ہوگئیں۔ 9 مارچ کو واپڈا سنٹرل ہائیڈرو یونین نے مظاہرہ کیا اور کم از کم تنخواہ 150 روپے کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس دن پہلی بار بنیادی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا مطالبہ سامنے آئے۔ 11 مارچ کو واپڈا کے مزدوروں نے ہڑتال کی۔ اسی روز ٹیلی کمیونیکیشن کے مزدوروں نے ہڑتال کردی جو آٹھ روز تک جاری رہی جبکہ اسی دن کراچی میں پانچ ہزار اساتذہ نے ریلی نکالی جس میں ڈاک کے مزدور بھی شریک ہو گئے۔ 12 مارچ کو ٹیلیفون آپریٹروں نے ہڑتال کردی۔ 13 مارچ کو ٹیلی کمیونیکیشن کے مزدوروں نے مظاہرہ کیا جس کے بعد انجینئرنگ سٹاف نے بھی اظہار یکجہتی کے طور پر ہڑتال کر دی۔ 15 مارچ کو نیشنل بینک اور گرینڈ لیزنگ بینک میں ہڑتال ہوئی۔ 17 مارچ کو لاہور میں 12 اضلاع کے بیس ہزار پرائمری سکول اساتذہ نے ایک میل لمبا جلوس نکالا۔ 18 مارچ کو جوائنٹ لیبر کمیٹی کی کال پر ملک بھر میں 25 لاکھ مزدوروں نے ہڑتال کردی۔ 19 مارچ کو کراچی پورٹ ٹرسٹ کے چھ ہزار مزدوروں نے کوئی نوٹس دئیے بغیر ہڑتال کر دی۔ 21مارچ کو انڈیا فلور ملز اور کراچی سٹیم رولرز ملز کے مزدوروں نے ملوں کا کنٹرول سنبھال لیا اور انتظام چلانے کے لئے کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔ اسی روز اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کے بیس ہزار مزدوروں نے ہڑتال کردی۔ 21 مارچ کو ہسپتالوں کے گریڈ 4 کے ملازمین نے ہڑتال کر دی۔ اس سارے عرصے کے دوران مشرقی پاکستان میں گھیراؤ کے 24 واقعات پیش آئے جن میں مزدوروں نے کارخانوں پر قبضہ کرکے کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی کئی سرکاری ونیم سرکاری دفاتر پر قبضے کر کے مطالبات تسلیم کروائے گئے۔ 25 مارچ کو جوائنٹ لیبر کونسل نے مزدور مطالبات کا ہفتہ منانے کا اعلان کردیا۔‘‘
17 مارچ 1969ء کو مزدور تنظیموں نے ملک گیر عام ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اس تاریخی ہڑتال نے ریاست اور معیشت کو جام کردیا۔ اس دن واپڈا کے مزدوروں نے اسلام آباد میں ایوان صدر، سول سیکرٹریٹ، سرکاری دفاتر اور جی ایچ کیو کی بجلی کاٹ دی۔ ویسٹ پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کے صدر بشیر بختیار کے الفاظ میں یہ صدر ایوب کے لئے واضح پیغام تھا کہ ’’تمہیں جانا ہوگا، نہیں گئے تو ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔‘‘ (فلپ ای جونز، ’’پاکستان پیپلز پارٹی کاابھار‘‘)
25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے اپنی الوداعی تقریر میں کہا تھا کہ ’’میں آخری بار بطور صدر آپ سے خطاب کر رہا ہوں…ریاستی ادارے مفلوج ہو چکے ہیں…عوام کے گروہ گھیراؤ کے ذریعے اپنے مطالبات منوا رہے ہیں…ملک کی خدمت کرنے والے لوگ (ریاستی اہلکار) اس جم غفیر کے ماتحت کام کرنے پر مجبور ہیں …میری خواہش ہے کہ سیاسی طاقت آئینی طریقے سے منتقل ہو لیکن ملک کے موجود حالات میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ممکن نہیں ہے۔ کئی ممبران اسمبلی تو سیشن میں آنے کی جرات ہی نہیں کر سکتے…میں یہ کہتے ہوئے بہت افسردہ ہوں کہ صورتحال اب حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہی ہے…تمام حکومتی ادارے خوفزدہ، مجبور اور محکوم ہو چکے ہیں…ملک کا ہر فیصلہ اب سڑکوں پر ہورہا ہے۔‘‘
پاکستان کو آج بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا گڑھ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک تھیوکریٹک ریاست کے طور پر اس کی پیدائش، مارشل لاکے طویل ادوار، ریاستی جبر، لا قانونیت، جرائم، فراڈ، کرپشن، مذہبی جنونیوں کے جتھے اور مسلسل عدم استحکام ہی عالمی سطح پر اس ملک کی پہچان بن کے رہ گئے ہیں۔ نئی نسل کا ایک بڑا حصہ بھی ایسے ہی پاکستان سے واقف ہے۔ اسلامی بنیاد پرست مسائل کا ’’حل‘‘ ماضی بعید کے اندھیروں میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں تو سامراج کے وظیفہ خوار ’’لبرل ڈیموکریسی‘‘ اور ’’گڈ گورننس‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے مجبور اور محکوم عوام نے یہ دونوں ’’نسخے‘‘ نسل در نسل آزمائے ہیں اور مرض بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ ’’سیکولر ازم‘‘ اور بنیاد پرستی، ’’جمہوریت‘‘ اور آمریت کے جعلی تضادات کی چکی میں انہیں پیسا جاتا رہا ہے۔ حکمران طبقے کے ان مختلف دھڑوں اور رجحانات کا ہر ’’حل‘‘ اس نظام میں شروع ہو کر اسی میں ختم ہوجاتا ہے جو غربت، ظلم اور بربادی کے سوامحنت کش عوام کو کچھ نہیں دے سکتا۔ سرمایہ دارانہ استحصال، جاگیر دارانہ غلامی اور سامراجی ڈاکہ زنی کے خلاف مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی خود رو تحریکیں اسی وجہ سے ابھرتی رہی ہیں۔ سوشلسٹ فتح کے بہت قریب پہنچ جانے کی وجہ سے 1968-69ء کی تحریک ان تمام تر چھوٹی بڑی بغاوتوں میں سب سے اہم ہے۔ پاکستان کے محنت کش عوام نے دہائیوں تک جبر و استحصال کو برداشت کیا ہے لیکن سیاسی جمود اور سماجی پراگندگی کے طویل ادوار کے بعد برداشت کا یہ آتش فشاں کئی بار پھٹا بھی ہے۔ سیاست سے لے کر ثقافت تک، ہر طبقاتی معاشرے کی طرح اس ملک کی سرکاری تاریخ بھی حکمران طبقے کے مفادات کے تحت مرتب ہوتی ہے جس میں محنت کشوں کی جدوجہد، بغاوت، انقلاب اور روایات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن روشنی کی ایک کرن ظلمت کو مٹا ڈالتی ہے، جھوٹ در جھوٹ کی فصیلوں میں سے سچ اپنا راستہ خود تراش لیتا ہے۔ یہ وقت تاریخ کے سچ کو محنت کشوں اور نوجوانوں کی نئی نسل کے سامنے آشکار کر ڈالنے کا ہے کہ یہی نسل ماضی کی میراث کو آگے بڑھائے گی اور 1968-69ء کے ادھورے فرائض کو مکمل کرے گی۔
6 نومبر اگر ایک ادھورے انقلاب کے آغاز کی تاریخ ہے تو 7 نومبر کا دن نسل انسان کی تاریخ کا دھارا موڑ دینے والے کامیاب سوشلسٹ انقلاب کی یاد دلاتا ہے، یخ بستہ روس کو جرات اور بغاوت کی حرارت سے گرما دینے والا 1917ء کا بالشویک انقلاب۔ آج سے 97 برس قبل انسانی تاریخ کے اس بے نظیر سماجی، سیاسی اور معاشی تجربے کا آغاز ہوا جس نے ثابت کیا کہ سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور بینکاروں کے بغیر بھی سماج کو چلایا جاسکتا ہے اور بہت بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔ اکیس سامراجی فوجوں کی یلغار، بدترین معروضی مشکلات، تکینکی اور اقتصادی پسمانگی اور عالمی سطح پر تنہائی کے باوجود منڈی کی معیشت کا خاتمہ کر کے استوار کی جانے والی منصوبہ بند معیشت نے سوویت روس میں پیداواری قوتوں کو وہ جلا بخشی جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ 1928ء سے 1970ء تک سوویت یونین میں فی فرد جی ڈی پی (Per Capita GDP) میں اضافے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ رہی۔ بالشویک انقلاب کے چشم دید گواہ، امریکی صحافی جان ریڈ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’دنیا کو ہلا دینے والے دس دن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’بالشویزم کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہتا رہے، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انقلاب روس انسانی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویک پارٹی کا اقتدار ایک عالمگیر اہمیت کا مظہر ہے۔‘‘
بالشویک انقلاب نے صدیوں تک مزدوروں اور کسانوں کا استحصال کرنے والے مٹھی بھر حکمرانوں سے اقتدار چھین کر اکثریتی محنت کش عوام تک منتقل کیا۔ پرولتاریہ کی رہنما پارٹی کی طرف سے سرمایہ دارانہ ریاست کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے تمام تر عمل میں محنت کشوں کی اکثریت شعور ی اور عملی طور پر شریک تھی۔ کلاسیکی مارکسسٹ خطوط پر چلنے اور مکمل ہونے والا یہ اب تک کا واحد انقلاب ہے۔ بالشویک پارٹی کے روح رواں ولادیمیر لینن نے انقلاب کے مقاصد بیان کرتے ہوئے دسمبر 1917ء میں لکھا کہ ’’اہم ترین فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ محنت کش اور استحصال زدہ عوام کو پراعتماد اور خودمختیار بنایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو سکے اس عمل کو تخلیقی تنظیمی کام کے ذریعے پھیلایا جائے۔ ہر قیمت پر ہمیں ان پرانے، نامعقول، وحشی اور گھٹیا تعصبات کو نیست و نابود کرنا ہے کہ صرف نام نہاد اشرافیہ، امیر طبقہ یا امیروں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ہی ریاست کو چلا سکتے ہیں…‘‘
محکوم طبقات کے لئے بالشویک انقلاب کے کیا معنی ہیں؟ اس سوال کا جواب جان ریڈ انقلابی سرکشی کی شام کا نظارہ بیان کرتے ہوئے دیتا ہے: ’’دارالحکومت کی جگمگاتی ہوئی روشنیاں افق پر پھیلی تھیں، رات کو یہ نظارہ دن کی نسبت کہیں زیادہ دل فریب تھا، جیسے بانجھ زمین میں کسی نے موتی جڑ دئیے ہوں۔ بوڑھا مزدور ایک ہاتھ سے ریڑھی کھینچتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے سڑک پر جھاڑو دے رہا تھا۔ ایک لمحے کے لئے اس نے دور دمکتے ہوئے دارلحکومت کو دیکھا اور خوشی سے بے قابو ہو کر بلند آواز میں بول اٹھا ’’میرا! میرا پیٹروگراڈ اب سارے کا سارے میرا ہے۔‘‘
اس سال 9 نومبر کے دن دیوار برلن کے انہدام کو 25 سال بیت جائیں گے۔ مشرقی یورپ کے یہ واقعات بعد ازاں سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوئے۔ ڈینگ ژاؤ پینگ کی قیادت میں سرگرم بیوروکریسی کے دھڑے نے 1978ء میں ہی چین میں سرمایہ دارانہ رد انقلاب کا آغاز کر دیا تھا۔ دیوار برلن کے گرنے اور مشرقی یورپ اور روس میں افسر شاہانہ سٹالن اسٹ ریاستوں کے انہدام نے مغربی سامراج اور عالمی سرمایہ داری کو نئی زندگی عطا کی۔ سامراجی پاگل پن کی حد تک خوش تھے۔ سٹالن ازم کی موت کو ’’سوشلزم کا خاتمہ‘‘ قرار دیا گیا۔ نیویارک سے لے کر ٹوکیو تک، ہر بڑے جریدے میں ’’آزاد منڈی کی حتمی فتح ‘‘ کا اعلان شہ سرخیوں میں کیا گیا۔ فوکو یاما نے تو ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کا ہی اعلان کر دیا، طبقاتی جنگ کو قصہ ماضی قرار دیا جانے لگا، ’’کمیونزم‘‘ کے خاتمے کے بعد اب سرمایہ داری نے سب کچھ ’’ٹھیک‘‘ کر دینا تھا۔ سامراجی پراپیگنڈا کی یلغار اتنی شدید تھی بڑے بڑے ’’کمیونسٹ‘‘ راتوں رات ’’لبرل‘‘ ہوگئے۔ ماسکو کو قبلہ و کعبہ ماننے والوں نے واشنگٹن کی طرف رخ پھیر لئے۔ دیوار برلن کا گرنا اور بعد ازاں سوویت یونین کا انہدام بلا شبہ غیر معمولی واقعات تھے جن سے عالمی سطح پر مزدور تحریک اور بائیں بازو کے سیاسی رجحانات کو شدید دھچکا لگا۔ اس سیاسی جمود اور مایوسی نے کم و بیش دو دہائیوں تک محنت کشوں اور نوجوانوں پر پژمردگی اور بددلی کی کیفیت طاری رکھی۔
اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیں یا مذاق، بالشویک انقلاب کے رہنماؤں نے سوویت یونین کی زوال پزیری کی مشروط پیش گوئی، ایک سے زیادہ بار خود کی تھی۔ 7 مارچ 1918ء کو لینن نے صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہم تنہا رہ گئے اور دوسرے ممالک میں انقلابی تحریکیں نہ ابھریں تو عالمی تاریخی نقطہ نظر کے حوالے سے ہمارے انقلاب کی حتمی فتح کی کوئی امید باقی نہیں رہے گی۔‘‘ دسمبر 1919ء میں لینن کہتا ہے کہ ’’ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہم خود کو صرف اور صرف عالمی پرولتاری فوج کے جتھوں میں سے ایک جتھہ سمجھتے ہیں… سوشلسٹ انقلاب کی فتح کو صرف اسی وقت حتمی سمجھا جا سکتا ہے جب یہ کم از کم کئی ترقی یافتہ ممالک کے پرولتاریہ کی فتح بن جائے۔‘‘ 1921ء میں اس نے واضح طور پر کہا کہ ’’برلن جرمنی کا دل ہے اور جرمنی یورپ کادل ہے۔ اگر جرمنی میں انقلاب نہیں ہوتا تو روس کا انقلاب ختم ہوجائے گا۔‘‘ لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں اپنی کتاب ’’انقلاب سے غداری‘‘ میں لکھا کہ ’’افسر شاہی کی اس آمریت کو اگر ایک نئی سوشلسٹ قوت سے تبدیل نہیں کیا جاتا تو سرمایہ داری بحال ہو جائے گی، صنعت اور ثقافت تباہ ہو جائیں گے۔‘‘
سامراج کے زہریلے پراپیگنڈا اور نظریاتی حملوں کا جواب دیتے ہوئے ایلن ووڈز نے 1997ء میں لکھا تھا کہ ’’روس میں جو ناکام ہوا وہ سوشلزم نہیں بلکہ سوشلزم کی ایک مسخ شدہ شکل تھی۔ سوشلزم، مارکسزم اور کمیونزم پر کئے جانے والے اعتراضات کھوکھلے ہیں کیونکہ سرمایہ داری خود ایک گہرے بحران میں داخل ہونے جارہی ہے۔‘‘ یہ تناظر بالکل درست ثابت ہوا۔ سرمایہ داری کے ’’حتمی‘‘ہونے اور معاشی عروج و زوال کے سائیکل کو قصہ ماضی بنا دینے کے دعوے 2008ء کے مالیاتی کریش نے ہوا کر ڈالے۔ پہلے بینک دیوالیہ ہوئے اور پھر ریاستوں کی باری آئی۔ کئی دہائیوں تک زائد پیداوار کے بحران کو ٹالنے کے لئے کی جانی والی کریڈٹ فنانسنگ اور سٹہ بازی نے 2008ء کے مالیاتی کریش پر منتج ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کو عیاں کر دیا ہے۔ پال کرگمین جیسے سرمایہ دارانہ معیشت کے سنجیدہ ماہرین کے مطابق اس بحران سے نکلنے کی کوئی امید مستقبل قریب میں موجود نہیں ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں انسانیت اور تہذیب کے مستقبل کو اس نظام سے شدید خطرہ لاحق ہے جو منافعوں کی اندھی ہوس میں کرہ ارض کو برباد کرتا چلا جارہا ہے۔ بیروزگاری ایک وبا بن کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ بدترین غربت، استحصال اور خونریز جنگوں نے ’’تیسری دنیا‘‘ کی دوتہائی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک کے بعد دوسری خانہ جنگی کا آغاز ہو رہا ہے اور دہشت گردی ایک سیاہ دھبہ بن کر پورے سیارے پر پھیلتی جارہی ہے۔ امارت اور غربت کی خلیج تاریخ میں اتنی وسیع کبھی نہ تھی جتنی آج ہے۔ 2009ء کے بعد سے عالمی سطح پر ارب پتی افراد کی تعداد دوگنا ہو کر 1646 ہوگئی ہے۔ ان ارب پتیوں کے ذاتی اثاثے پچھلے چار سالوں میں 124 فیصد اضافے کے ساتھ پانچ ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ 85 امیر ترین افراد کے اثاثوں میں صرف ایک سال کے دوران 240 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور اب ان افراد کے پاس 3.5ارب لوگوں سے زیادہ دولت ہے۔ آکسفیم کی نئی رپورٹ کے مطابق ان امرا میں سے ہر ایک کی دولت پانچ لاکھ ڈالر فی منٹ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’بل گیٹس اگر دس لاکھ ڈالر روزانہ بھی خرچ کرے تو اسے اپنی دولت خرچ کرنے کے لئے 218 سال درکار ہوں گے۔ درحقیقت اس کی دولت کبھی ختم نہ ہوگی کیونکہ صرف دو فیصد کی شرح سود پر بھی وہ 4.2 ملین ڈالر ہر روز کما رہا ہوگا۔ ‘‘
ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 32 ہزار ارب ڈالر آف شور بینکوں میں چھپا رکھے ہیں، اسلحے اور جنگوں پر ہر سال دو ہزار ارب ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف غریب ممالک میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے صرف 70 ارب ڈالر درکار ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے تحت ’’ملینیم ڈویلپمنٹ گولز‘‘ کی تمام تر شعبدہ بازیوں کے برعکس دنیا میں غربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہر سال دس لاکھ خواتین صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے نئی زندگانی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی باز ہار جاتی ہیں۔ 82 کروڑ افراد صرف چین میں ایک ڈالر یومیہ پر زندگی گزار رہے ہیں، برصغیر اور افریقہ کو شامل کیا جائے تو بدترین غربت میں غرق انسانوں کی تعداد اربوں میں جا پہنچتی ہے۔
انسانیت پہلی بار امارت کی بلندیوں اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں کے اس تضاد کا شکار نہیں ہوئی ہے۔ کوئی سماجی و معاشی نظام اس وقت حتمی طور پر متروک قرار پاتا ہے جب وہ دستیاب مادی وسائل کو نسل انسان کی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے۔ سرمایہ داری دہائیوں پہلے اپنی تاریخی حدود کو چھو چکی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں اصلاحات تو دور کی بات، آج ترقی یافتہ ممالک میں ماضی کی اصلاحات اور مراعات بھی چھینی جارہی ہیں۔ اصلاح پسندی اور ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘ اپنی موت آپ مر رہی ہے۔ ’’فلاحی ریاست‘‘ کو رفتہ رفتہ ختم کیا جارہا ہے جس کے رد عمل میں یورپ اور امریکہ کے محنت کش اور نوجوان ایک بڑے طبقاتی معرکے کے لئے صف آرا ہورہے ہیں۔
افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اس نظام کے زوال نے لینن کے الفاظ میں ’’نہ ختم ہونے والی وحشت‘‘ مسلط کر رکھی ہے۔ ’’عرب بہار‘‘ کے بعد برکینا فاسو سے پھوٹنی والی ’’سیاہ بہار‘‘ پتا دے رہی ہے کہ آنے والا وقت دھماکہ خیز واقعات سے بھرپور ہے۔ یہ انقلابی تحریکیں بالشویزم کی روایات کو زندہ کر کے ہی فتح سے ہمکنار ہو سکتی ہیں۔
سامراج کے شاطر تجزیہ نگار آج ایک اور ’’بالشویک انقلاب‘‘کے تناظر سے کتنے خوفزدہ ہیں، اس کا پتا ’اکونومسٹ‘ کے تازہ شمارے میں یوکرائن سے متعلق شائع ہونے والے ایک مضمون سے چلتا ہے۔ مضمون میں لکھا ہے کہ ’’محاذ پر لڑنے والے لاکھوں یوکرائنی سپاہیوں ووٹ نہیں ڈال پائے ہیں۔ جنگ کے بعد واپسی پر ان کا سامنا ایسی حکومت سے ہوگا جسے انہوں نے منتخب نہیں کیا۔ اگر انہیں اس طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی جس سے ملک کو چلایا جارہا ہے تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے، ایک سال پہلے کی طرح ڈنڈوں کے ساتھ نہیں بلکہ بندوقوں کے ساتھ۔ اب کی بار تحریک کسی میلے کی بجائے اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب سے مماثل ہوگی۔ حکومت کو اس تشویشناک صورتحال کا ادراک ہونا چاہئے۔‘‘
کسی ایک ملک میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب، روشنی کا وہ مینار بن سکتا ہے جس کی روشنی کو دوسرے ممالک اور خطوں تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی قوت نہ روک پائے گی۔ یہ روشنی اس نئی سحر کا پتا دے گی جہاں سے نسل انسان تسخیر کائنات کا سفر شروع کرے گی۔ لیون ٹراٹسکی نے 1937ء میں جو لکھا تھا وہ آج کہیں زیادہ بامعنی ہو چکا ہے:
’’اگر ہماری نسل کرہ ارض پر سوشلزم تعمیر نہ کر پائی تو ہم یہ بے داغ پرچم اپنے بچوں کے حوالے کردیں گے۔ یہ انسانیت کے مستقبل کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد سخت ہوگی، طویل ہوگی۔ جو کوئی جسمانی استراحت اور روحانی سکون کا طلبگار ہے وہ پرے ہٹ جائے۔ لیکن وہ لوگ جن کے لئے سوشلزم کوئی کھوکھلا نعرہ نہیں بلکہ اخلاقی زندگی کی اساس ہے، آگے بڑھیں! دھمکیاں اور تشدد ہمارا راستہ نہیں روک سکتے! ہماری ہڈیوں پر ہی سہی، لیکن سچ فتح یاب ہوگا۔ میرے دوستو! خوشی کا بلند ترین معیار (موقع پرستی کے ذریعے) حال کا فائدہ اٹھانے میں نہیں بلکہ مستقبل کی تیاری میں پوشیدہ ہے۔‘‘