رپوٹ: عمران کامیانہ:-
کانگریس کے پہلے دن ہونے والے شاندار سیشنز کے بعد ڈیلیگٹس اور شرکاء رات گئے تک تناظروں ، سیاسیات اور کمیشنز میں ہونے والی بحثوں پر تبصروں میں مصروف رہے۔ دوسرے دن کانگریس کا ماحول آغاز سے ہی انقلابی جوش و جذبے سے بھرپور تھا۔
سخت ترین سماجی و معاشی حالات کے باوجود کانگریس میں 2600سے زائد کامریڈز کی شرکت کسی معجزہ سے کم نہیں تھی۔اس سال کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے کانگریس کے انتظامات کے لئے بھاری فنڈ درکار تھاجسے اکٹھا کرنے کیلئے کامریڈز نے دن رات ایک کئے۔سوشلسٹ انقلاب کی امید دل میں لئے بے شمار سیاسی ہمدردوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور ہر ممکن حد تک مالی و انتظامی معاونت فراہم کی۔
تیسرا سیشن: پاکستان سوشلسٹ انقلاب کے بعد
تیسرے سیشن پر بحث کا آغاز کامریڈ لال خان نے کیا جب کہ اس سیشن کو کامریڈ ریحانہ نے چیئرکیا۔اپنی لیڈ آف سے پہلے کامریڈ نے سامعین کی توجہ اتوار کی اخباروں میں لگنے والی ایک اہم خبر، کامریڈ ارسلان غنی کی کیمبرج یونیورسٹی کی گریجویٹ یونین میں شاندار جیت کی طرف دلائی۔
اپنی شاندار لیڈ آف نے کامریڈ لال خان نے ایک ایسے موضوع پر انتہائی شاندار انداز میں روشنی ڈالی جو شاید اس سے پہلے پاکستان میں کبھی زیرِ بحث نہیں آیا۔پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں سرمایہ داری کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے کے بعد کیا حالات پیدا ہو سکتے ہیں؟ان حالات سے نمٹ کر کس طرح سے سوشلزم کی طرف سفر شروع کیا جائے گا؟مہنگائی ، غربت، بھوک، بیروزگاری، ٹرانسپورٹ، توانائی وغیرہ سے مسائل کس طرح حل ہو ں گے؟کامریڈ لال خان نے ان تمام موضوعات کو اپنی لیڈ آف میں سمیٹ کر رکھ دیا۔
لیڈ آف کے بعدکامریڈ الیاس خان، کامریڈ قمرالزماں، کامریڈ یاسر، کامریڈ راشد شیخ،کامریڈ راشد خالد، کامریڈ ماہ بلوص، کامریڈ عمران نے مجوزہ دستاویز اور متعلقہ موضوعات پر انتہائی شاندار کنٹری بیوشنز پیش کئے ۔سیشن کے آخر میں کامریڈ لال خان نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا۔
چوتھا سیشن: تنظیم
چوتھے سیشن کا آغاز کامریڈ آدم پال کی لیڈ آف سے ہواجبکہ اس سیشن کو کامریڈ حنیف نے چئیر کیا۔سالانہ رپوٹ کے ساتھ ساتھ کامریڈ آدم نے آنے والے بارہ مہینوں میں تنظیم کی بڑھوتری کے ٹارگٹ پر بھی روشنی ڈالی۔
کامریڈ آدم پال نے اپنی رپوٹ میں بتایا کہ عالمی مارکسی رجحان پاکستان کے ہر ریجن میں مضبوط بنیادیں قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔تنظیم کا ڈھانچہ اس وقت 12ریجنز اور سینکڑوں متحرک برانچوں پر مشتمل ہے اور آنے والے دنوں میں مقداری اور معیاری حوالے سے بڑھوتری کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
اس کے علاوہ فنانس ، پرچہ اور پبلیکیشنز کی رپوٹ الگ سے پیش کی گئیں او رایک سال کے دوران تمام شعبہ جات میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں آئی۔اردو پرچے ’’طبقاتی جدوجہد‘‘ کے علاوہ سندھی پرچہ اور ’ایشین مارکسسٹ ریویو‘ باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔
اس کے بعد پہلے دن ہونے والے تینوں کمیشنز(خواتین، یوتھ اور ٹریڈ یونین) کی رپوٹس پیش کی گئیں جن سے تینوں شعبہ جات میں ترقی اور بہتری کے واضح اشارے ملے۔خواتین میں کام کی رفتار تیز کرنے اور زیادہ سے زیادہ خواتین کو تنظیم کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
پانچواں سیشن: انٹر نیشنل رپوٹ
پانچویں سیشن میں کامریڈ راشد خالد نے چئیر مین کے فرائض انجام دئے جبکہ انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے کامریڈ آنا منوز نے رپوٹ پیش کی۔
کامریڈ آنا نے کہا کہ دس سال پہلے سوائے میکسیکو کے، براعظم امریکہ میں کوئی اور سیکشن موجود نہ تھا۔ اس وقت کینیڈا، ریاستہائے متحدہ امریکہ، میکسیکو، ایل سلواڈور،وینزیویلا، بولیویا، برازیل اور ارجنٹینا میں ہمارے مضبوط سیکشن موجود ہیں۔لیکن صرف اعدادوشمار ہمارے سیاسی اثر و رسوخ کو واضح نہیں کرتے۔ہماری ویب سائٹ marxist.comکو وزٹ کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور پچھلے ایک سال میں لاکھوں لوگوں نے اس ویب سائٹ کے مختلف صفحات پڑھے۔
عالمی مارکسی رجحان کے کئی سیکشنز نے پاکستانی کامریڈز کیلئے یکجہتی کے خطوط بھیجے تھے۔ سب سے اہم خط لیون ٹراٹسکی کے نواسے ایسٹیبن والکوو نے بھیجا جس میں انہوں نے لکھا ’’میں پاکستان کے انقلابی مارکسسٹوں کو برادرانہ سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ تمام لوگ میرے لئے انتہائی قابلِ ستائش ہیں جو ناقابلِ تسخیر مارکسی انقلابی لیون ٹراٹسکی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں‘‘۔
اختتامی الفاظ
کامریڈ ایلن ووڈز نے اختتامی الفاظ ادا کرتے ہوئے کانگریس کے اعلیٰ سیاسی معیار کو سراہا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستانی کامریڈز کو اس عظیم ذمہ داری کا احساس بھی دلایا جو ان کے کندھوں پر تاریخ نے ڈالی ہے۔انہوں نے کہا’’میں چاہتا ہوں کہ ایک لمحے کے لئے آپ سوچیں کہ ایسی کوئی تنظیم اگر 12مہینے پہلے مصر میں ہوتی تو وہاں کا محنت کش طبقہ اقتدار پر قابض ہو چکا ہوتااور تاریخ کا دھارا شاید کسی اور سمت میں گامزن ہوتا۔ جو کچھ مصر میں ہوا وہ بہت جلد پاکستان میں ہو گا۔ ہمیں تیاری کرنی ہوگی‘‘۔ان الفاظ پر تمام شرکا نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اور انقلابی نعروں نے پورا حال گونج اٹھا۔
اس کے فوراً بعد کامریڈ جواد کو سٹیج پر مدعو کیا گیا اور تمام کامریڈز نے درجنوں سرخ پرچم لہرا کر کامریڈ جواد کے ساتھ انٹرنیشنل گایا اور کانگریس کا باقاعدہ اختتام کیا۔