برصغیر پاک و ہند کے بحران اور تنازعات

[تحریر: لال خان]
8 جون کو کراچی ایئر پورٹ پر پاکستانی طالبان کے حملے کے تانے بانے ریڈ کلف لائن کے اس پار سے جوڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ برصغیر میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس خونی لکیر کے دونوں اطراف میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں اور قدرتی آفات کا دوش ایک دوسرے کو دینے کا عمل گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری ہے۔ الزام تراشی کا آغاز انتہائی دائیں بازو کے مذہبی عناصر کرتے ہیں جس کے بعد ریاست کے کچھ حصے بھی اس عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ریاست سے گرین سگنل ملنے کے بعد میڈیا پر کھلم کھلا لعن طعن اور زہر آلود پراپیگنڈا کا آغاز ہوجاتا ہے۔ یہ ’’سرد جنگ ‘‘ کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک جاری رہ سکتی ہے جس میں قومی شاونزم اور مذہبی جذبات کو استعمال کرتے ہوئے ’’دشمن‘‘ کے خلاف نفرت کو ابھارا جاتا ہے۔ ہر نیوز بلیٹن اور ٹاک شو میں سرحد کے اس پار قائم ریاست کو ازلی اور ابدی حریف قرار دیتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا کے نقشے پر سے مٹا دینے کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں سے کونسی ریاست اور میڈیا جنگی جنون اور نفرت پیدا کرنے کے فن میں زیادہ ماہر ہے۔
المیہ یہ ہے کہ یہ الزام تراشیاں بالکل جھوٹ پر مبنی بھی نہیں ہیں۔ دنیا کے ہر Myth میں سچ کی تھوڑی سی آمیزش ضرور ہوتی ہے۔ لیکن سچ اور مبالغہ آرائی دو الگ چیزیں ہیں اور دونوں اطراف کے حکمران اپنے سیاسی اور سماجی مقاصد کے لئے مبالغہ آرائی کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ دونوں ریاستیں نام نہاد ’’نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی کاروائیوں کے لئے مذہب اور شہریت کی بنیاد پر ان عوام کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں جو خود غربت اور محرومی کی چکی میں پس رہے ہیں اور جن کا اس ساری دشمن داری سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات کا باہمی تعلق ہمیشہ سے ڈانواڈول اور متضاد رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ’’ساڑھے تین‘‘ خونی جنگیں ہوچکی ہیں اور ’’دوستی‘‘ کے مختصر ادوار کے درمیان تلخی کے طویل وقفے اب معمول بن چکے ہیں۔
منافقت پر مبنی بے دلانہ مصافحوں اور ادھوری جنگوں کا یہ تسلسل بالکل بے ترتیب نہیں ہے۔ اس ظاہری انتشار کے اندر بھی قاعدہ موجود ہے۔ خارجہ پالیسیوں کا یہ اتار چڑھاؤ آخری تجزئیے میں داخلی حالات اور واقعات کی پیداوار ہے۔ رعایا کو نفسیاتی طور پر مغلوب رکھنے کے لئے بیرونی دشمن کا خوف ناگزیر ہوتا ہے۔ استحصال اور محرومی کے خلاف عوام کی نفرت کار خ موڑنے کے لئے بھی قومی شاونزم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ حکمران طبقے کی ہزاروں سال پرانی وارداتیں ہیں۔ برصغیر کے حکمران بھی ان آزمودہ ٹوٹکوں کااستعمال گزشتہ 67 سال سے کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام میں ویزوں کے حصول اور سرحد پار سفر کرنے کی خواہش موجود ہے۔ یہ خواہش پوری ہونے کی امید ابھی ٹھیک سے قائم نہیں ہوتی کہ اس پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ آج کے عہد کی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے حکمران نہ تو معاشی اور عسکری طور پر ایک کھلی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، نہ ہی ایک دیرپا اور پائیدار امن قائم کرسکتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے رجعتی سیاسی کردار اور معاشی نااہلی کی جڑیں اس خطے کے تاریخی ارتقا میں پیوست ہیں۔ آج سے صرف 350 سال پہلے برصغیر کے عوام معاشی اورسماجی اعتبار سے یورپ کی نسبت کہیں زیادہ آسودہ تھے۔ اپنی مشہور کتاب ’’ہندوستان کی نئی تاریخ‘‘ میں سٹینلے وولپرٹ مغل سلطنت کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’یہاں کئی ثقافتیں بیک وقت پنپ رہی تھیں اور لوگ خوشحال تھے۔ آنے والی تمام نسلوں کے مقابلے میں 1577ء میں ایک اوسط ہندوستانی کسان کی آمدن زیادہ اور ٹیکس کم تھا۔ ‘‘
اسی عہد میں برطانیہ کے کل 25 لاکھ باشندوں کی اکثریت انتہائی پسماندگی اور غربت میں زندگی گزار رہی تھی۔ 90 فیصد آبادی دیہاتوں میں مقیم تھی جہاں قحط اور غذائی قلت معمول کا حصہ تھے۔ چیچک اور طاعون کی وباؤں سے بڑی تعداد میں اموات واقع ہوتی تھیں۔ اوسط عمر صرف 33 سال تھی۔ 1500ء میں عالمی سطح پر برصغیر کی معیشت چین کے بعد دوسرے نمبر پر جبکہ 1700ء میں پہلے نمبر پر تھی اور دنیا کی 25 فیصد پیداوار اس خطے میں ہوتی تھی۔ 1600ء میں ہندوستان کی کل آمدن 17.5 ملین پاؤنڈ تھی جو کہ برطانیہ کی 1800ء کی کل آمدن سے بھی 1.5 ملین پاؤنڈ زیادہ تھی۔ معاشی تاریخ دان اینگس میڈیسن اپنی کتاب ’’عالمی معیشت: ہزار سالہ جائزہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’سترہویں صدی عیسوی تک ہندوستان دنیا کا امیر ترین خطہ تھا جس کی معیشت دنیا میں سب سے بڑی تھی۔ ‘‘
اٹھارہویں صدی کے وسط میں شروع ہونے والے صنعتی انقلاب نے یورپ کا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا اوردو سو سال کے اندر برطانیہ دنیا کا ترقی یافتہ ترین ملک بن گیا۔ برطانیہ کی تیز صنعت کاری میں نوآبادیات سے لوٹی جانے والی قدر زائد نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک اندازے کے مطابق برصغیر پر گرفت مضبوط کر لینے کے بعد یہاں کے جی ڈی پی کا 70 سے 80 فیصد برطانیہ منتقل کر دیا جاتا تھا۔ صنعتی انقلاب برپا کرنے اور جدید سماج کی تعمیر میں مغل حکمرانوں کی ناکامی پر مقامی اور مغربی مورخین، معیشت دانوں اور ماہرین عمرانیات نے بہت کچھ تحریر کیا ہے۔ تاہم مغلیہ سلطنت کے زوال، تاریخی فرائض کو پورا کرنے میں ہندوستان کے حکمران طبقے کی نااہلی اور بعد ازاں برطانوی نوآباد کاروں کے ہاتھوں شکست کا سب سے مفصل اور عمیق تجزیہ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی تصانیف میں ملتا ہے۔ ’’ایشیائی طرز پیداوار‘‘ کی تھیوری اور ’’ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں چھپنے والے مضامین میں اس سارے عمل کا جائزہ سائنسی نقطہ نظر اور باریک بینی سے لیا گیا ہے۔ 1947ء میں برطانوی راج سے ملنے والی ادھوری آزادی کی قیمت مذہبی فسادات اور بربریت میں زبح ہونے والے 27 لاکھ افراد نے چکائی۔ یہ قتل عام تقسیم کرکے حکمرانی کرنے کی سامراجی پالیسی کا ناگزیر نتیجہ تھا جس کے لگائے گئے گھاؤ آج تک بھی نہیں بھر سکے۔ برطانوی سامراج نے جانے سے پہلے یقینی بنایا کہ براہ راست اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی ان کا قائم کیا گیا معاشی، سماجی اور سیاسی نظام برقرار رہے۔ یہ نو آبادیاتی ڈھانچہ ڈیزائن ہی بدترین استحصال، جبر اور عوام کو نفسیاتی طور پر مجروح رکھنے کے لئے کیا گیا تھا جس پر انگریزوں کے بعد انہی کے پیدا کئے گئے مقامی حکمران براجمان ہوگئے۔ مقامی اشرافیہ کے اہم سیاسی نمائندوں میں سے ایک، جواہر لال نہرو تسلیم کرتا ہے کہ ہندوستان کے بالادست طبقے کی سیاسی و نظریاتی تربیت ہی سامراجی نظام کو قائم اور جاری رکھنے کے لئے کی گئی تھی۔ یہ سیاسی رہنماایٹن، ہارو اور ونچسٹر جیسے برطانوی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے اورشعوری یا لا شعوری طور پر ہندوستانیوں کو انگریزوں کے مقابلے میں دوسرے درجے کا انسان سمجھتے تھے۔ نہرو لکھتا ہے کہ ’’یہ حقیقت حیران کن نہ تھی انگریز حکومت نے یہ نظام ہم پر مسلط کیا تھا۔ حیران کن بات تو یہ تھی ہم، یا ہماری اکثریت نے انگریز کے اس ڈھانچے کو قدرتی اور ناگزیر طور پر اپنی زندگی کا طریقہ کار اور قسمت تسلیم کر لیا تھا۔ ہندوستان میں برطانوی راج کی یہ نفسیاتی فتح دنیا کی کسی بھی فوج یا سفارتکاری کی کامیابی سے بڑھ کر تھی۔ ‘‘ (ایک خودنوشت، صفحہ 147)
نہرو کا یہ اعتراف دراصل مقامی حکمران طبقے کی رجعتی اور غلامانہ سوچ کو بے نقاب کر تا ہے جسے آج کے برصغیر میں قائم قومی ریاستیوں کا ’’بانی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ نام نہاد آزادی کے 67 سال بعد اس خطے کے عوام کی حالت اپنے پانچ سو سال پہلے کے آباؤ اجداد سے بدتر ہے۔ محرومی، نا خواندگی، غربت، بیروزگاری اور لاعلاجی کی تاریکی نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سماجی اور معاشی تفریق دنیا میں سب سے گہری ہے۔ ایک ہی خطے اور ملک میں رہنے والے امراء اور غریبوں کی دنیا الگ ہے۔ اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک کے مطابق بھارت سمیت اس خطے کے تمام ممالک شدید غربت اور بیماری کا شکار ہیں۔ دنیا کی آدھی غربت یہاں پلتی ہے اور پانچ سے کم عمر کے پچاس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ دوسری طرف درمیانے طبقے کا وسیع حصہ موٹاپے سے پریشان ہے۔ پاکستانی اسٹیٹ بینک کے سابقہ گورنر عشرت حسین کے مطابق ’’دنیا کی دو تہائی ناخواندگی جنوبی ایشا میں موجود ہے اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آدھے طلبہ بیروزگاری کے خطر ے سے دوچار ہیں جس کی وجہ فنی تربیت اور تعلیم کا ناقص معیار ہے۔ ‘‘ہر سال کئی ملین نوجوان بیروزگاری کے سمندر کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دوسرے خوفناک اعداد و شمار روز اول سے ان ریاستیوں کی سرکاری تاریخ، ترقی کے دعووں اور ’’قومی سالمیت‘‘ کا منہ چڑارہے ہیں۔ سرحد کے دونوں اطراف کے رہنما غربت کے خاتمے کے لئے اقدامات کی باتیں ماضی میں بھی کرتے آئے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں۔ نتائج ہمیشہ کی طرح الٹ ہی برآمد ہوں گے۔ ان کے ہرقدم، ہر معاشی پالیسی نے عوام کی ذلت اور محرومیوں میں اضافہ ہی کیا ہے۔ سرمایہ داری کے زوال اور معاشی و سماجی بحران کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس خطے کے حکمران طبقے کا کردار اور بھی بھیانک ہوگیا۔ ماضی کے سیاسی رہنماؤں کا کم از کم کوئی ثقافتی اور اخلاقی معیار ہوا کرتا تھا۔ ان میں اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کی تمیز بہرحال موجود تھی۔ آج ہر طرف نودولتیے، ٹھگ اور چور ہی نظر آتے ہیں جن کا پہلا اور آخری مقصد کرپشن اور بدعنوانی ہے۔ سیاست اور ریاست کی نظریاتی بنیادیں بھی سکڑتے سکڑتے مذہبی بنیاد پرستی تک محدود ہوگئی ہیں جس کا مقصد عوام کے شعور کو پسماندگی اور تعصب کی زنجیروں قید رکھنا ہے۔ BJP کا اقتدار میں آنا ہندوستان کی نام نہاد سیکولر اورلبرل اشرافیہ کے حقیقی کردار کو بے نقاب کرتا ہے۔
BJP کا آغاز نیو فاشسٹ ہندو بنیاد پرست تنظیم ’راشٹریا سویک سوائم سنگ‘ کے سیاسی فرنٹ کے طور پر ہوا تھا۔ سماج کی پسماندہ پرتوں اور نچلے درمیانے طبقے میں بنیادیں بنانے کے لئے یہ جماعت ہندو شاونزم کے ساتھ ساتھ ’’ترقی‘‘ اور غربت کے خاتمے کے نعرے بلند کرتی رہی ہے۔ ’’چمکتے ہوئے بھارت‘‘ کی اصطلاح سب سے پہلے اسی جماعت کے دور حکومت میں استعمال کی گئی تھی۔ عوام پر معاشی حملے کرنے، محنت کش طبقے سے مراعات چھیننے اور لیبر قوانین کے خاتمے میں BJP نے ہمیشہ کارپوریٹ سرمایہ داروں کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ اب کی بار BJP کو برسر اقتدار لانے کا مقصد آزاد منڈی کی معاشی پالیسیوں کے جارحانہ نفاذ کے ساتھ ساتھ خطے میں بھارتی سرمائے کا غلبہ قائم کروانا ہے۔ سرمایہ داری کے عالمی کریش کے بعد سے یورپ اور امریکہ میں منڈی مسلسل سکڑ رہی ہے اور مستقبل قریب میں بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان حالات میں بھارتی سرمایہ دار برصغیر کی منڈی کے ایک ایک انچ کے حصول کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ’’سخت گیر‘‘ نریندرا مودی کی جانب سے اپنی تقریب حلف برداری میں میاں صاحب کو مدعو کرنے یہ ایک اہم وجہ تھی
۔ میاں صاحب کی ڈوریاں ہلانے والوں کی نیت بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا ’لبرل‘ دھڑا عرصے سے بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ کئی معاشی ماہرین دو طرفہ تنازعات کے خاتمے اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کو معاشی شرح نمو، یعنی سرمایہ داروں کی شرح منافع بڑھانے کا نسخہ قرار دیتے ہیں۔ سابقہ وزیر خزانہ اور ورلڈ بینک کے معیشت دان شاہد جاویدبرکی 2007ء کی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’میرے اندازے کے مطابق مسئلہ کشمیر کی قیمت پاکستان کو ہر سال جی ڈی پی کی شرح نمو میں 2.25سے 3فیصد تک کمی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ پچھلی چھ دہائیوں میں اس نقصان کے حجم کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ اندازہ خالص معاشی حقائق کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ بھارت کی طرف رویے کے نتیجے میں ملک میں اسلامی بنیاد پرستی کے ابھار اور اس کے معاشی نقصانات کو اس تخمینے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ‘‘
برکی صاحب اور ان جیسے دوسرے دانشور یا تو واقعی سادہ لوح ہیں یا پھر ڈوبتی معیشت کے لئے تنکے کا سہارا ڈھونڈنے پر مجبور۔ اسلامی بنیاد پرستی کا ابھار بذات خود صحتمند سرمایہ دارانہ معیشت کے زوال اور سرکاری معیشت سے دو گنا بڑی کالی معیشت کا نتیجہ ہے۔ ریاست، میڈیا اور سیاست کو قابو کرنے کے لئے اس کالے سرمائے کی اپنی حرکیات اور چالبازیاں ہیں۔ ہندوستان دشمنی اس مظہر کا بنیادی حصہ ہے۔ قومی شاونزم اور مذہبی منافرت کے بغیر اسلامی بنیادی پرستی کی سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست کے کچھ طاقور حصوں کی مالی مراعات بھی ختم ہوجائیں گی۔ یہ سارا کھیل واضح کرتا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے درمیان معیشت اور خارجہ پالیسی جیسے بنیادی نقاط پر ہی اختلافات موجود ہیں۔ ریاست کے نام نہاد لبرل دھڑے کی امن اور ہندوستان کے ساتھ دوستی کی پالیسیاں خاص طور پر تذبذب اور عدم تسلسل کا شکار رہی ہیں۔ بھارت دشمنی اور پاکستانی قوم پرستی کا سب سے زیادہ سیاسی استعمال میاں صاحب ہی ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ ’’امن‘‘ کی یہ پالیسیاں ماضی میں بھی بدلتی رہی ہیں اور آج بھی ان کے علمبردار ’’بوقت ضرورت‘‘ انہیں کوڑادان میں پھینکنے میں ذرا سی دیر بھی نہیں کریں گے۔ ملک کی دوسری ’لبرل‘ اور ’جمہوری‘ قوتوں کا بھی یہی حال ہے۔ اس ملک کی خارجہ پالیسی کے فیصلے ویسے بھی سیاستدان اور ’جمہوری حکومتیں‘ نہیں کرتی ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان دشمنی اور امریکی مخالف نعرے بازی مذہبی جماعتوں کے وجود کی بنیادی شرط ہے۔ ان تمام تر حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو منافعوں کی چکر میں بھارت کے ساتھ دیرپا تجارت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکمرانوں کے آپسی تضادات سے قطع نظر، اس نفرت اور جنگی جنون کا استعمال ریڈ کلف لائن کے دونوں اطراف کی ریاستوں اور حکمران طبقات نے خطے کے محنت کش عوام کو تقسیم کرنے اور ان کے غصے کا رخ موڑنے کے لئے کیا ہے۔ جب بھی پاکستان کے عوام اس جابر اور استحصالی نظام کو اکھاڑنے کے لئے میدان میں اترے ہیں، پاکستانی شاونزم اور بیرونی جارحیت کے خوف کے ذریعے تحریک میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ اس معاملے میں بھارتی حکمران طبقے کا کردار شاید اپنے پاکستانی ’شراکت داروں‘ سے زیادہ بھیانک رہا ہے۔ سشما سواراج کے وزیرخارجہ ہوتے ہوئے کسی قسم کے مذاکرات کا عمل بہت کٹھن ہوگا۔ ترقی، خوشحالی اور کرپشن کے خاتمے کے وعدے پورے کرنے میں مودی سرکار کی ناکامی جلد ہی عیاں ہوجائے گی جس کے بعد پاکستان دشمنی کی سیاست کا آغاز ہوگا۔ ’ڈبل ڈیجٹ گروتھ‘کے دن قصہ ماضی ہوچکے ہیں۔ مودی صاحب کو آٹے دال کا بھاؤ اب تک پتہ چل چکا ہوگا۔ ان حالات میں کوئی امن معاہدہ تو دور کی بات، دوستی کے بالواسطہ اشاروں کے امکانات بھی مخدوش ہیں۔
دونوں ممالک کے حکمران طبقات کا انحصار جس بوسیدہ اور متروک نظام پر ہے وہ عوام کی معاشی مشکلات میں کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اور خارجہ پالیسی سمیت گورننس کے ہر پہلو کے عدم استحکام میں اضافہ کر رہا ہے۔ نتیجتاً آنے والے دنوں میں برصغیر میں سیاسی انتشار اور بڑھے گا۔ خطے کے عوام اگرچہ لمبے عرصے سے جمود اور مایوسی کی کیفیت میں ہیں اور کوئی بڑی تحریک نہیں چلی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے مختلف شعبوں کے محنت کشوں کی ہڑتالوں کا سلسلہ دونوں ممالک میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں گزشتہ تین سال کے دوران دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ عام ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ یہ چھوٹی تحریکیں دراصل بڑے پیمانے پر طبقاتی جدوجہد کے ابھار کے ابتدائی آثار ہیں۔ کسی ایک ملک میں محنت کش عوام کی بڑی تحریک کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ سوشلسٹ، کیمونسٹ، بائیں بازو کی جماعتوں اور محنت کش طبقے کی روایتی قیادتوں کو موقع پرستی، دغابازی اور نظریاتی انحراف کی روش ترک کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر عوام انہیں تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک کر نئی انقلابی قوتیں تراش لائیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے پاس جنگ، خونریزی، استحصال اور بربریت کے سواخطے کے ڈیڑھ ارب عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ دو متضاد اور متحارب طبقات کی یہ جنگ اس نظام کے خاتمے پر ہی منتج ہوگی جو انسانی تہذیب کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔

متعلقہ:
سلسلے یہ ملاقاتوں کے!
ویڈیو: پاک بھارت جنگی جنون۔ ۔ ۔ وجوہات کیا ہیں؟
پاک بھارت تعلقات: کشیدگی کی بیہودگی