کراچی: حبیب اوشن انڈسٹریز سالٹ ورکس میں اجرت سے محروم محنت کشوں کی روداد

| رپورٹ: PTUDC کراچی |
Labourer collects sea salt on the outskirts of Karachiحبیب اوشن انڈسٹریز سالٹ ورکس (جو کہ ہاکس بے روڈ ماڑی پور میں واقع ہے) کوپاکستان میں نمک تیار کرنے والا سب سے بڑا کارخانہ کہا جاتا ہے۔ یہ فیکٹری 1980ء تک علویہ تبلیغ ٹرسٹ کے نام سے کام کر رہی تھی۔ اس کے بعد فیکٹری کے مالکان مجیب الرحمان اور انیس الرحمان جو کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے نامور لیڈر ڈاکٹر عارف علوی کے بھائی ہیں، دونوں کے مابین فیکٹری کی ملکیت کے امور پر ایک شدیدتنازعہ ہوا۔ یہ تنازعہ جب عدالت میں حل نہ ہو سکا تو سندھ ہائیکورٹ نے اس فیکٹری کو براہِ راست اپنی نگرانی میں چلانے کا فیصلہ کیا اور اپنی طرف سے سپر وائزر تعینات کر دیا جس کا نام حاجی زردان گل ہے۔ ویسے تو فیکٹری کے صرف ایک دن کے اعدادوشمارہی کثیرمنافع کا ثبوت ہیں مگر کاغذات میں یہ ادارہ نقصان میں چل رہا ہے۔ مثال کے طور پر 8 اپریل کو جب پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کا وفد کمپنی کا وزٹ کرنے کے لیے پہنچا تو سہہ پہر 3 بجے سے قبل ہی 75000 کلو نمک اس روز تیار ہو کر منڈی کے لیے روانہ کیا جا چکا تھا۔ منڈی میں ایک کلو نمک کی قیمت 80 پیسے ہے۔ اس حساب سے یہ 60000 روپے کا نمک بنتا ہے۔ اگر روزانہ اوسطاً اتنا ہی نمک منڈی کو ارسال کیا جائے تو یہ ماہانہ 1800000 (اٹھارہ لاکھ) سے بھی زائد رقم بنتی ہے جبکہ دراصل اس سے کہیں زیادہ مقدار میں نمک تیار ہوتا ہے جس کا خام مال یعنی کہ پانی سمندر سے لیا جاتا ہے اور ورک فورس بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس پیداوار کی لاگت بھی بہت کم ہو گی۔ یعنی فیکٹری بے پناہ منافع بخش ہے اور خسارے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ در حقیقت نقصان صرف محنت کش ہی اٹھا رہے ہیں جن کی حالتِ زار دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کل کام کرنے والوں کی تعداد 80 ہے جن میں سے 19 مستقل تنخواہ دار گردانے جاتے ہیں۔ ان تنخواہ داروں نے بتایا کہ کئی کئی ماہ تک تنخواہ نہیں ملتی اس فیکٹری میں جو 19 مزدور تنخواہ دار ہیں ان میں سے ایک سے تنخواہ پوچھنے پر اس نے کہا کہ وہ 1987 سے تنخواہ پر ہے مگر اسے یہ نہیں پتا کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس محنت کش کو تنخواہ بھیک کی طرح ٹکڑوں میں دی جاتی ہے۔ اور جو محنت کش یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں ان کی حالت بھی ان سے مختلف نہیں ہے۔ چار ہزار کلو نمک نکالنے والے مزدور کوصرف 300 روپے اجرت دی جاتی ہے۔ جبکہ نمک کو پانی سے الگ کرنے کا کام انتہائی مشکل اور انسانی صحت کے لیے خطرناک اس لیے بھی بنا ہوا ہے کہ حفاظتی حوالے سے کسی قسم کے آلات میسر نہیں ہیں۔ زیادہ تر محنت کشوں کے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں اور جلد تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور تیزابی پانی کے اندر گھنٹوں رہنا ویسے بھی نا قابلِ برداشت ہوتا ہے۔ محمد رفیق نامی ایک محنت کش نے بتایا کہ اس کے دادا اس فیکٹری میں کام کرتے تھے ان کے بعد والدخان محمد کا پیشہ بھی یہی تھا جن کو آخری عمرمیں کینسر ہو گیا تھا جبکہ فیکٹری مالکان نے ان کے علاج میں کوئی مدد نہ کی۔ اب خود محمد رفیق کے گھٹنے کمزور ہو چکے ہیں اور کمر میں بھی تکلیف رہتی ہے۔ سرمایہ داری اپنی ہر صورت میں بھیانک اور ظلم سے لبریز ہے۔ اس فیکٹری میں نمک کے لیے جو پانی استعمال ہوتا ہے اس میں لیاری کی سیورج اور گٹرکا پانی بھی شامل ہے جس سے بننے والا نمک صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ نمک کھانے کے لیے فروخت کیا جا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں تیار کیاجانے والا نمک فیبرک اور گارمنٹس فیکٹریوں میں واشنگ کے دوران بھی استعمال کیا جاتا ہے جس سے ان مصنوعات کی کوالٹی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور ایکسپورٹ کوالٹی میں ڈیفکٹ کا باعث بنتی ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی نمک فیکٹری کا تعارف ہی یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ اس کے محنت کش اور ان کے بچے کئی کئی دن تک بھوکے رہنے کے عادی ہو چکے ہیں ان محنت کشوں کے ہاتھ اور پاؤں گرم اور کیمیائی پانی سے زخمی رہتے ہیں۔ پچھلی عید الضحیٰ کے موقع پر جب محنت کش کسی قسم کے بونس کی توقع اور امید میں تھے تو یہ واویلا کر کے کہ فیکٹری خسارے میں جا رہی ہے عید سے ٹھیک 15 دن قبل ہی محنت کشوں کو کام کرنے سے روک دیا گیا تاکہ بونس نہ دینا پڑے۔ بونس تو درکنار مزدوروں کو اجرتوں سے بھی محروم کر دیا گیا جس کی وجہ سے بہت سے مزدوروں کے بچوں نے فاقہ کشی کی حالت میں عید کی۔ یہ وہ موقع تھا جب محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور فیکٹری کے تمام ورکرز ہڑتال پر چلے گئے تھے۔ فیکٹری میں عام طور پر کام کے تین شعبے ہیں جن میں نوناری (پانی سے نمک نکالنے والا)، بوری بھرائی (کانٹے والا) اور ہمالی ( لوڈنگ والا)۔ اس موقع پر تمام شعبوں کے محنت کشوں نے کام چھوڑ دیا تھا۔ ہڑتال کے بعد انہیں بہت کم رقم دے کر خاموش کرا دیا گیا۔
ویسے تو فیکٹری میں پیپلز ورکرز یونین کے نام سے ایک ٹریڈ یونین رجسٹرڈ ہے مگر اس سے محنت کشوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا۔ اس یونین کے صدر حاجی خان، جنرل سیکرٹری منظور بلوچ، نائب صدر ہارون، جوائنٹ سیکرٹری رفیق اور خزانچی سلیمان نے باری باری پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے وفد سے بات کی اور وہ محنت کشوں کی حالتِ زار بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی مشینری نے ان کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ اگر مزدور مالکان سے رابطہ کرتے ہیں تو مالکان کہتے ہیں عدالت میں جائیں اور اگر عدالت میں جاتے ہیں تو عدالت مالکان کی طرف بھیج دیتی ہے۔ اس کیفیت میں مزدوروں کو ایک طرف تو سرمایہ دارانہ ریاست کے بھونڈے کردار اور دوسری طرف حکمران طبقے کی غلاظت سے واقفیت ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں اس فیکٹری کے محنت کشوں کے پاس سوائے اس کے اور کوئی آپشن نہیں بچا کہ وہ دوسرے اداروں کے محنت کشوں سے یکجہتی اور داد رسی کی اپیل کریں۔ ان مزدوروں نے سینہ کوبی کرتے ہوئے فریاد کی کہ میڈیا بھی ان کے مسائل پر آ واز بلند نہیں کرتا جبکہ ہر اخبار اور ٹی وی چینل پر ’نیا پاکستان ‘ کا بہت شور مچایا جاتا ہے۔ اس نئے پاکستان کے سرغنہ یعنی عارف علوی کا اپنا طبقاتی کردار ان کی اپنی فیکٹریوں کے محنت کشوں کی بربادی سے صاف عیاں ہے۔ PTUDC تمام اداروں کے محنت کشوں سے حبیب اوشن انڈسٹریز سالٹ ورکس کے محنت کشوں کے لیے آواز اٹھانے کی اپیل کرتی ہے۔