پاکستان میں مزدور تحریک کی صورتحال

تحریر: چنگیز ملک

برصغیر میں سرمایہ دارانہ نظام کسی انقلاب کے نتیجے میں نہیں آیا بلکہ بیشتر نوآبادیاتی ممالک کی طرح یہاں بھی اس نظام کاکردار سامراجی رہاہے، جسکا مقصد لوٹ مار اور استحصال کرنا تھا۔ اس لیے پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں قومی جمہوری انقلاب کے وہ فرائضادا نہیں ہوسکے جو بورژوا انقلاب نے ترقی یافتہ ممالک میں کیے تھے۔ جس کے نتیجے میں یہاں کے حکمران طبقات کا کردار سامراجی گماشتگی سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اپنی تاریخی نااہلی کے باعث پاکستان کے حکمران طبقات اپنے جنم دن ہی سے بیرونی امداد اورقرضوں پر انحصار کرتے آرہے ہیں۔ ہرنئی سویلین یا ملٹری حکومت سابقہ حکومتوں کو موردالزام ٹھہرا کر خود کو عوامی مسائل سے بری الذمہ کرتی رہی ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان میں ٹریڈ یونینز، فیڈریشنز اور کنفیڈریشنز کی قیادتوں کاکردار بھی حکمران طبقات کی گماشتگی سے بڑھ کر کچھ مختلف نہیں رہا۔ لیکن اس کے باوجود محنت کش طبقے کی ایسی تحریکیں بھی رہی ہیں جنہوں نے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ پاکستان آرڈیننس فیکٹری (POF) کے مزدوروں کی 1954ء سے 1957ء تک ایک شاندار جدوجہد رہی ہے جس کو خون میں ڈبو دیا گیا، 20 سے زائد مزدوروں کو گولیاں برساکر شہید کردیا گیا۔ لیکن ان شہدا کی جدوجہد اور قربانی سے POF کے محنت کشوں کو بہت سی مراعات حاصل ہوئیں۔ اسی طرح ایوب آمریت کے خلاف اٹھنے والی بغاوت نے حقیقی معنوں میں 68-69ء میں ایک انقلاب برپا کیا۔ جنرل ایوب اپنی یاداشتی ڈائری میں لکھتا ہے کہ’’ آج پاکستان کے عوام کے فیصلے کسی ایوان صدر میں نہیں بلکہ چوکوں، چوراہوں، سڑکوں اور فیکٹریوں میں ہورہے ہیں ‘‘ لیکن اس انقلاب کو حقیقی لینن اسٹ، مارکسسٹ قیادت میسر نہ آسکی جس کی وجہ سے زوال پذیری شروع ہوئی اور139 دن بعد ردانقلاب کا آغاز ہوا۔ یہ 68-69ء کے انقلاب کا دباؤ ہی تھا کہ 1972ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں محنت کشوں کوسب سے زیادہ مراعات دی گئیں۔ یہاں کے مجبور ومحکوم لوگوں کو پہلی دفعہ اپنی طاقت کا احساس ہوا، اس کی بنیادی وجہ’’ جیھڑا واوے۔ ۔ ۔ اوہی کھاوے۔ ۔ ۔ سوشلزم آوے ہی آوے۔ ۔ ۔ ‘‘ کے وہ سوشلسٹ نظریات تھے کہ جن کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ لیکن بھٹو دور کی یہ اصلاحات سوشلسٹ منصوبہ بند ی کے تحت نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہوئیں تھیں جس کا لامحالہ نتیجہ چیئر مین بھٹو کے عدالتی قتل کے بعداصلاحات کے خاتمہ کی صورت میں برآمدہوا اور ضیاء آمریت کے سیاہ ترین دور میں ردانقلاب کا آغاز ہوا۔
اس ردانقلاب کا شکار جہاں پیپلز پارٹی کے کارکنان ہوئے، وہیں ترقی پسند ٹریڈ یونین قیادتیں بھی زیر عتاب آئیں۔ نوکریوں سے برطرفیاں، قید و بند کی صعوبتیں، ٹریڈ یونینز پر پابندیاں اور احتجاج کرنے والے مزدوروں پر گولیاں برساکر مزدوروں کی آواز کو دبانے کی کوششیں معمول بن گئی۔ جس کی صرف ایک مثال ہی کافی ہے کہ فروری 1978ء ملتان کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدور اپنے مطالبات کے حصول کے لیے مل مالکان کے گھر کی جانب مارچ کرتے ہوئے پہنچے توان نہتے مزدوروں پر گولیا ں چلادی گئیں۔ جس میں مزدور قیادت سمیت بیسیوں مزدور وں کا خون ناحق بہادیاگیا۔ ضیا آمریت کی سیاہ رات کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے بنیادی سوشلسٹ منشور کی بجائے مصالحت پسندی کی پالیسی پر گامزن ہوگئی اور پھر 18 ماہ بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا اور بڑی فیڈریشنز، کنفیڈریشنز نے بھی جدوجہد کی بجائے مصلحت کی پالیسی ہی کو افادیت سمجھنا شروع کردیا۔
روس کے انہدام اور دیوار برلن گرنے کے بعد بالعموم پوری دنیا میں اور پاکستان میں بالخصوص مزدور تحریک پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے۔ بہت سارے نام نہاد کیمونسٹ، سوشلسٹ رہنماؤں کی طرح ٹریڈ یونین قیادتوں نے بھی ’فرانسس فوکویاما‘ کے تھیسس ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ یہ ٹریڈ یونین قیادتیں آج تک اس بات کوسمجھ نہیں پائیں یا شاید سمجھنا نہیں چاہتیں کہ جب تک معاشرے میں طبقات موجود ہیں طبقاتی کشمکش ختم نہیں ہو سکتی۔ اس نظریاتی انحراف یانا سمجھی کی بنا پر ان قیادتوں کا اعتبار محنت کش طبقہ کی سماج کو بدلنے کی طاقتپرختم ہو گیا ہے اورانہوں نے ذاتی مفادات کے حصول تک خود کو محدود کرتے ہوئے مزدور اشرافیہ کا روپ دھار لیا۔ جس کے سیاسی اثرات مزدور تحریک پر مرتب ہوئے ہیں۔ کسی ایک ادارے میں اٹھنے والی تحریک ’چاہے وہ نجکاری، ٹھیکیداری نظام، مستقل ملازمتوں کے خاتمہ یا دیگر ایشوز کے خلاف ہو ‘تنہائی کا شکار ہو کر ختم ہوگئی ہیں۔ طبقاتی جڑت کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کے مزدوروں کی نفسیات اس طرح کی بنادی گئی ہے کہ وہ خود کو مزدور ہی نہیں سمجھتے اور دیگر غیر مراعات یافتہ مزدوروں کے ساتھ ان کا رویہ خود کو بالاتر اور انہیں حقیر سمجھنا کی نفسیات میں نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ وہی نظریاتی انحراف ہے جس کی رو ش مزدور اشرافیہ نے اپنا رکھی ہے۔
لیکن 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعدکی صورت حال نے مارکس کی اس بات کو سچ ثابت کردیا ہے کہ’’سرمایہ دارنہ بحران کاشکار سب سے پہلے محنت کش طبقہ ہی ہوتا ہے ‘‘۔ اس زوال پذیر نظام کے عالمگیر نمائندے ‘ محنت کشوں کی مراعات میں کمی، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، ٹھیکداری نظام، مستقل ملازمتوں کا خاتمہ، نجکاری، اوقات کار میں اضافہ، پینشن کی عمر میں اضافے جیسے مزدور دشمن اقدامات کو بحران سے نکلنے کا حل بتارہے ہیں۔ یہ مراعات حکمران طبقات نے پلیٹ میں رکھ کر محنت کشوں کو قطعاً نہیں دیں تھیں بلکہ یہ تمام مراعات محنت کش طبقے نے مسلسل جدوجہد کے ذریعے لڑ کر حاصل کیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے عرصے میں ان مزدور دشمن اقدامات کیخلاف ہزاروں، لاکھوں محنت کشوں کے احتجاج نظر آتے ہیں۔ جو اس بات کی غمازی ہے کہ طبقاتی کشمکش ختم نہیں ہوئی۔ ۔ ہاں وقتی طور پر ماند ضرورپڑیہے۔
اسی پس منظر میں 2005ء میں PTCL کے محنت کشوں کی شاندار جدوجہد رہی، 2008ء اور 2013ء میں OGDCL کے مزدوروں نے نجکاری کیخلاف حکمرانوں کو شکست دی۔ اسی طرح واپڈا کی ممکنہ نجکاری کیخلاف جدوجہد مختلف اوقات میں دیکھائی دیتی ہے، فروری 2016ء میں PIA کے محنت کشوں کی شاندار جدوجہد رہی، پنجاب میں اساتذہ کی جدوجہد مختلف وقفوں سے چلتی رہتی ہے، ینگ ڈاکٹرز اور ینگ نرسزکی جدوجہد بھی رہی، ریل بانوں کی چھوٹی بڑی تحریکیں بھی رہیں، نجی شعبے میں بھی مختلف احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان تمام تحریکوں کے باوجود حکمران طبقات کی مزدور دشمنی کی روش میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کوعملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ بظاہر اپوزیشن جماعتیں تنقید کرتی ہیں لیکن اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ میں سب اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ تمام سنیٹرز کی تنخواہیں ایک ہفتے کے اندر 150 فیصد بڑھادی جاتی ہیں اورتنقید کا ایک لفظ بھی کسی کی زبان سے ادا نہیں ہوتا جبکہ محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافے اور مراعات کے لیے کمیٹیاں بنادی جاتی ہیں جس کے نتائج کبھی برآمد نہیں ہوئے۔
روایتی ٹریڈیونین قیادتیں اب فیکٹری گیٹ پر احتجاج کرنے کی بجائے عدالتوں کا رخ کرتی ہیں اور اس طویل مدتی دورانیہ میں محنت کشوں کی عمریں ختم ہو جاتی ہیں لیکن فیصلے کم ہی ہوتے ہیں۔ جبکہ محنت کش طبقے نے پاکستان میں بھی جو مراعات حاصل کیں وہ احتجاج، ہڑتالیں اور سڑکوں پر مظاہرے کرکے جدوجہد کے ذریعے حاصل کیں۔ محنت کش طبقہ نہ کبھی کمزور تھا اورنہ ہے بلکہ روایتی قیادتیں کمزور اور اصلاح پسند ہوئی ہیں۔ روایتی پارٹیوں اور ٹریڈ یونین قیادتوں کے نظریاتی انحراف کے باعث محنت کش طبقہ رائج الوقت سیاست سے بیزار اور بیگانہ ہوچکاہے۔ اسی سیاسی بیگانگی کی وجہ سے وقتی طور پر مزدور تحریک میں جڑت کا فقدان ہے۔ لیکن نجکاری کیخلاف جاری محنت کشوں کی مزاحمت نے کئی ایک مقامات پر حکمرانوں کو پسپا ہونے پر مجبور بھی کیا ہے۔ حکمران طبقے کی بڑے پیمانے پر عوامی اداروں کی نجکاری میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ خریدار کی عدم موجودگی ہے۔ پہلے سے بحران اور زائد پیداوار کی شکار عالمی سرمایہ داری میں اب ممکن نہیں کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے پاکستانی معیشت کو سنبھالا جا سکے اور حقیقت میں مزدور اشرافیہ نجکاری سے کمیشن بٹورنے کے لیے تیار بھی بیٹھی ہے۔ لیکن سطح کے نیچے مزدور طبقے میں نجکاری کے گرد ایک شدید غصہ اور نفرت موجود ہے جو کسی ایک چنگاری سے بھڑک کر زر کے اس نظام کو راکھ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی ادارے کو خریدنے کے لیے خریداروں کی عدم دلچسپی کے باعث موجودہ حکومت نئے طریقہ واردات کے ذریعے اداروں کی نجکاری کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کو 30 سال کی لیز پر دینے کے لیے ری سٹرکچرنگ کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔ سٹیل ملزکے خریداروں نے واضح کہہ دیا ہے کہ تمام خسارے حکومت اپنے ذمہ لے تو ہم خریدیں گے۔ PIA کی ملکیت روزویلیٹ ہوٹل نیویارک، جس کی مالیت 130 ارب ڈالر ہے، کو بیچنے اور کمیشن بٹورنے کی سر توڑ کوششیں جارہی ہیں جبکہ اس کی تخمینہ قیمت صرف 40 کروڑ ڈالر لگائی گئی ہے، اسی طرح سول ایویشن اتھارٹی کے زیر انتظام ایئر پورٹس کو آوٹ سورس کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ جبکہ یہ ادارہ اپنے 24 ہزار ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر تمام اخراجات کرکے سالانہ 74ارب روپے منافع دے رہا ہے۔
پاکستان آرڈیننس فیکٹری( POF) کے حصے بخرے کرکے نجی شعبے کے حوالے کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ POF واہ کیسب سے بڑی فیکٹری ’براس فیکٹری‘ کو نجی شعبے کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ کون خریدارہے؟ کس نے خریدی ہے؟ اس کی کوئی معلومات دستیاب نہیں اور POF ملازمین اس وقت غیر یقینی کی صورتحال میں کام کر رہے ہیں۔ نجی فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مستقل ملازمتیں و دیگر مراعات نجی شعبے میں قصہ پارنیہ ہو چکی ہیں۔ ناقص حفاظتی انتظامات کے باعث جان لیوا اور زندگی بھر کی معذوری کے حادثات معمول بن چکے ہیں۔ پھر ان کارخانوں میں یونین سازی ہی نہیں ہونے دی جاتی اور کہیں یونین ہے تو اکا دکا یونینز کو چھوڑ کے زیادہ تر فیکٹری مالکان کی پاکٹ یونینزہیں جو مالکان کے مفادات کو یقینی بناتی ہیں۔ 98 فیصد مزدوروں کی سوشل سیکیورٹی کے ادارے میں رجسٹریشن ہی نہیں ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار مالکان سے ماہانہ بھتے وصول کررہے ہیں۔ خدمات کے شعبے بالخصوص نجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ خصوصاً خواتین کا استحصال اپنے عروج پر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت کی اعلان کردہ کم از کم 14 ہزار روپے ماہوار تنخواہ 98 فیصد اداروں میں نہیں دی جاتی۔
محنت کشوں کی سیاست سے بیزاری اوراپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنے کے اجتناب سے وقتی طور پر حکمران طبقات اور ان کے حواری اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ روایتی پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف اور مزدور اشرافیہ کی غداریوں کو محنت کش طبقہ بڑے غور سے دیکھ بھی رہا ہے اور نتائج بھی اخذ کر رہا ہے۔ رائج الوقت سیاست سے عدم دلچسپی جہاں عوام اور محنت کش طبقے کی شعوری بلندی کی عکاسی کرتی ہے وہیں کسی واضح متبادل کی عدم موجودگی کی وجہ سے تحریک وقتی جمود کا شکاربھی ہے۔ محنت کش طبقہ اور عوام جلدیا بدیر اپنی زندگی کے تلخ تجربات سے اسباق سیکھتے ہوئے جب میدان عمل میں اتریں گے تو رائج الوقت سیاسی منظر نامے کو یکسر بدل کر رکھ دیں گے۔ بلکہ اس نظام کو اکھاڑ کر مزدور ریاست کا قیام عمل میں لائیں گے۔