سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!

(1991ء میں سوویت یونین کے انہدام پر لکھی گئی)

حسن کی مالا کے دانے منتشر
امن کا ہے پیڑ اب تک بے ثمر
حریت کی ہے سلاسل ہمسفر
رہزنوں کے مقتدی ہیں راہبر

سامراجوں کی شرارت اب بھی ہے!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!

موسمِ گُل کی خزاں سے دوستی
حبس کے موسم میں گھٹتی زندگی
شب کے فُٹ پاتھوں پہ مرتی روشنی
کونپلوں کی احتجاجاً خود کشی

کالے سورج کی حرارت اب بھی ہے!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!

آج بھی گلشن پہ گلچیں کا ہے راج
فاختہ کے خون کا کووں پہ تاج
چند کیڑوں کے ذخیروں میں اناج
دو دِلوں کے درمیاں ظالم سماج

بہری اور اندھی عدالت اب بھی ہے!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!

آج بھی محنت کا استحصال ہے
دندناتا زر کا یہاں دجال ہے
آج بھی انسانیت بدحال ہے
چھینا چھپٹی، بھوک ننگ اور کال ہے

دورِ وحشت کی روایت اب بھی ہے!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!

آج بھی انساں سے ہے انساں جدا
عدل کی طالب ہے مخلوقِ خدا
دین کے پیچھے منافع ہے چھپا
خوف اور لالچ کا ہر سو مافیا

زہر آلودہ حلاوت اب بھی ہے!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!

آج بھی عیسیٰؔ یہاں مصلوب ہے
آج بھی منصورِؔ حق معتوب ہے
جامِ سم سقراطؔ کو مطلوب ہے
اور برونوؔ آگ سے مغلوب ہے

غیر انسانی حکومت اب بھی ہے!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!

سِیم و زر کے بت گرانے کے لئے
رجعتی پتلے جلانے کے لئے
درجے طبقاتی مٹانے کے لئے
دیس کو جنت بنانے کے لئے

سرخ پرچم کی ضرورت کل بھی تھی!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!
سرخ پرچم کی ضرورت اب بھی ہے!

(کامریڈ شفیق احمد شفیقؔ )