| تحریر: ماہ بلوص اسد |
انسان کا جنم مادے کے ارتقا میں ایک انقلاب تھا جس میں ایک باشعور مادہ انسانی دماغ کی صورت میں وجود میں آیا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے انسان کو باقی جانوروں سے ممتاز کر دیا اور انسان آج اس سیارے کی سب سے زیادہ کامیاب نوع ہے۔ جس نے نہ صرف اس کرۂ ارض کو سمجھا بلکہ اس کے باہر موجود کائنات کے بارے میں بھی سمجھنے کی کو شش کی۔ جب ایک انسان سوالیہ نظروں سے آسمان پر موجود ستاروں کی طرف دیکھتا ہے وہاں اس کی آنکھ ہی اسے باقی جانداروں سے ممتاز کر دیتی ہے۔ باقی جانداروں کی نسبت انسان جسمانی طور پر حساس مخلوق ہے۔ لیکن اس کی اجتماعی محنت اور باشعور ہونے کی صلاحیت نے انسانی بقا کو ممکن بنایا ہے۔
انسانی سماج کی طبقات میں تقسیم نے پہلی بار ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کو جنم دیا جو کہ جسمانی محنت سے آزاد ہو کر صرف سوچ بچار یا پھر ذہنی محنت کے لیے ایک مخصوص طبقہ تھا۔ انسانی تاریخ میں یہ موڑ ایک انقلاب تھا جہاں انسان کو پہلی مرتبہ فطرت کے قوانین اورخود اپنے بارے میں جاننے کے لئے موقع ملا اور یہیں سے ہی جسمانی اور ذہنی محنت میں تفریق کا آغاز ہوا۔
لیکن اسی کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ طبقات میں تقسیم ہو گیا۔ اس لئے آج تک اس ذہنی مشقت یا علم پرایک مخصوص طبقے کا ہی قبضہ رہا ہے۔ آزادانہ سوچ وبچار اور طبقاتی کردار سے عاری علم آج تک پیدانہیں ہو سکا۔ البتہ مختلف سماجی نظاموں کے انقلابی ادوار میں ہی ایسا علم تخلیق کیا گیا جس نے انسانی سماج کوآگے پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور جو عروج کے ادوار میں دستیاب تھا۔ ہر سماجی نظام کے عروج کے ادوار میں سوچ اور علم کو زبردست جستیں لگیں لیکن انہی نظاموں کے ز وال کے ادوار میں روایتی علم کا کرداربالکل مختلف بلکہ اس کے الٹ ہوجا تا ہے جو کہ انسانی شعور اور سماج کو آگے لے کر جانے کی بجائے ماضی کی طرف دھکیلتا ہے۔
موجودہ نظام نے جہاں اپنے عروج کے دور میں علم کو فروغ دیا وہیں یہ نظام اپنے طبقاتی کردار کی وجہ سے تعلیم کو کاروبار بنا کر علم کا بازار گرم کر چکا ہے اور یہ عمل نہ صرف تیسری دنیا کے ممالک میں بلکہ جدید ممالک میں بھی جاری ہے۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران جو کہ سرمایہ داروں کی ہوس، معاشی بنیادوں کے کھوکھلے پن اور مالیاتی شعبے کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آیا،اس بحران کی قیمت کٹوتیوں کی صورت میں محنت کشوں اور نوجوانوں سے وصول کی جا رہی ہے۔
یورپ اور امریکہ میں بہت سے تعلیمی اداروں کی فیسوں میں سو فیصد تک اضافہ کیا گیا اور بہت سے تعلیمی اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ یہ عمل یونان سے لے کر سپین اور برطانیہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک سب ممالک میں ہو رہا ہے اور اس مسئلے کے گرد بہت سی طلبہ تحریکیں جنم لے رہی ہیں جو کہ آنے والے دنوں میں مزید شدت کااظہار کریں گی۔
ایسی صورتحال میں پاکستان جیسے ترقی پذیرملک میں سیاسی اور معاشی بحران اپنے عروج پر موجود ہے جس نے کئی ثقافتی بحرانوں کو جنم دیا ہے۔ اس صورتحال میں آبادی کی اکثریت بنیادی تعلیم سے محروم ہے اور درمیانے طبقے کی ایک خاص پرت تعلیم کے خرچے کو اگر برداشت بھی کرتی ہے تو جس طرز سے وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ اسے باشعور بنانے کی بجائے سماج سے مزید بیگانہ کر دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ’’حتمی ‘‘ ہونے کے فلسفے پڑھ پڑھ کر جب ایک نوجوان طالبعلم تعلیمی ادارے سے باہر نکلتا ہے تو یہ نظام اس کی اپنی بقا کی ضروریات پر ضربیں لگانے کیلئے کھڑا ہوتا ہے۔
جہاں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد، شعور حاصل کرنے کی بجائے روزگار حاصل کرنا بن جائے وہاں اس علم سے بیگانگی اور نفرت ایک ناگزیر امر ہے۔ اس میں قصور طالبعلم کا نہیں ہے بلکہ اس رشتے کا ہے جو علم کا سرمائے کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن اس پر بھی لعن طعن طلبا کو ہی سننی پڑتی ہے کہ وہ تعلیم میں اگر کمزور ہے تو اس کی ذہنی کمزوری یا نااہلی کے سبب ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں تعلیمی اور امتحانی بورڈ اس طرز اور طریقے سے امتحان لیتے ہیں، جیسے یہ زندگی اور موت کی جنگ ہو۔ ہر سال جب مختلف تعلیمی ادارے نتائج کا اعلان کرتے ہیں، اسی دن بہت سے طالب علم چند نمبروں سے محروم رہنے کی وجہ سے خودکشی کرلیتے ہیں یا خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔ گھریلو دباؤ جہاں طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتوں کو ماند کرتا ہے وہاں بہت سی نفسیاتی بیماریوں کو بھی جنم دیتا ہے۔
اس وجہ سے تعلیمی ادارے طالبعلموں کی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے کی بجائے، ان کی قتل گاہ بن گئے ہیں۔ پورا سال ایک نوجوان کو تعلیمی ادارے میں بھیج کر مختلف اکیڈمیوں میں پڑھا کر بھی والدین کو اپنے بچوں کی صلاحیتوں پر یقین نہیں آتا اور وہ چند گھنٹوں کے حامل امتحان کے نتائج کا انتظار کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کی قابلیت کو جان سکیں۔
ساری عمر بچوں کے پاؤں کاٹ کر ان سے اپنے پاؤ ں پر کھڑا ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ اس جبر کے باوجود جو طالبعلم کامیاب ہو جاتے ہیں ان کیلئے زندگی آسان ہونے کی بجائے مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے سے باہر نکلتے ہی بیروزگاری کا دیو اپنا منہ کھولے ان کا استقبال کررہاہوتا ہے۔
خاندان کے علاوہ تعلیمی ادارے کے اندر کا ماحول طالبعلم کیلئے بوجھ سے کم نہیں ہوتا۔ بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والے پروفیسر حضرات جب انہیں اس نظام کے قصیدے سناتے ہیں تو وہ طالب علموں کو کسی اور ہی دنیا کی دیو مالائی کہانیاں معلوم ہوتی ہیں، جسے ان طالبعلموں کو یاد کرنا ہوتا ہے۔ ان کہانیوں کی اکثریت ان پر اسی وقت عیاں ہو جاتی ہے جب انہیں اپنے والدین سے ’’فیس‘‘ مانگنی پڑتی ہے یا پھر فیس ادا کرنے کیلئے نوکریاں یا قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ہر سال پاکستان کے بڑے تعلیمی اداروں کی فیسوں میں 50 فیصد سے 100 فیصد تک اضافہ کیا جاتا ہے۔
تعلیمی اداروں سے ہٹ کر گزشتہ کچھ سالوں میں ایک اور ’’بازار‘‘ سامنے آیا ہے جو کہ پرائیویٹ اکیڈمیوں کا بازار ہے اور جو آج پاکستان کی ہر دوسری تیسری گلی میں موجود ہے۔ ان تعلیمی دکانوں کی فیسیں تعلیمی اداروں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اپنے آغاز میں یہ عمل یوں تھا کہ سکولوں کے اساتذہ کچھ بچوں کو خاص توجہ دینے کیلئے اپنے گھروں میں پڑھایا کرتے تھے اور اس کی کوئی علیحدہ فیس بھی نہیں ہواکرتی تھی۔ لیکن آج بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے اسے باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دی ہے جہاں ’’ علم‘‘ اور ڈگریاں بیچی جاتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ اساتذہ دانستہ طور پراپنے تعلیمی اداروں میں کم پڑھاتے ہیں اور اپنے طالبعلموں کو اپنی اپنی اکیڈمیوں میں آکر پڑھنے کا دباؤ ڈالتے ہیں۔ اس طرح ایک طالبعلم کو مزید کئی گھنٹوں اکیڈمیوں میں پڑھنا پڑتا ہے جن کی فیسیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ پورا دن اور شام تک ان اداروں کے جنگل میں بھٹکنے کے بعد طالبعلموں کے پاس کسی ادبی، ثقافتی، سماجی اورسیاسی سرگرمی کیلئے کوئی وقت ہی نہیں بچتااور جب وہ اپنی تعلیم سے ہٹ کر سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
طالب علم خود کو سیاست سے دور رکھنا یا اس سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ سیاست یا جدوجہد نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کی وجہ پاکستان کی زوال پذیرسیاست ہے۔ جو کہ طالبعلموں کے کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ چاہے کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو، وہ نوجوانوں کی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن کسی کے پاس بھی طالبعلموں کے مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی پروگرام موجود نہیں ہے۔
فیسوں میں اضافہ کرکے طالبعلموں کے پیسوں سے ہی لیپ ٹاپ دے کر ان کی محرومی کی تذلیل کی جاتی ہے۔ تعلیم مفت کرنے کی بجائے لیپ ٹاپ دے کر طالب علم کو مزید ذلت کا شکار کیا جا رہاہے اور طالب علم ان لیپ ٹاپوں کو بیچ کر اپنی فیسیں ادا کررہے ہیں۔
انقلابی نظریات سے عاری پی ایس ایف اس وقت تعلیمی اداروں میں بھتہ خور مافیا بن چکی ہے۔ ماضی میں طلبا سیاست میں بائیں بازو کے رجحانات ہمیشہ طلبا کی روایت کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مختلف ترقی پسند قوم پرست طلبا تنظیمیں بھی ماضی میں طلبا کے مسائل کے حوالے سے سرگرم رہی ہیں۔ مگر ایسے تمام تر رجحانات اب یا تو موجود ہی نہیں ہیں اور اگر کہیں موجود ہیں بھی تو انتہائی نحیف حالت میں۔ چند ایک تنظیموں کو چھوڑ کر طلبا سیاست اب محض بھتہ خوری کا ہی دوسرا نام ہے۔ اس خلا میں پی ٹی آئی کا ایک بلبلہ بنا جس کی طرف طلبا کے کچھ حصے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی غرض سے راغب ہوئے، لیکن یہاں پر بھی نوجوانوں اور طالبعلموں کے لیے کوئی واضح پروگرام نہیں تھا اور بالآخر یہاں سے بھی طالبعلم اور نوجوان تیزی سے مایوس ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ نظریات سے عاری اور محض مفادات پرمشتمل سیاست سے طلبا کو کبھی اپنے مسائل کا حل مل بھی نہیں سکتا۔ یہ ایک ایسا جبر ہے جس نے طلبا کو ششدر اور خاموش کر رکھا ہے۔ لگ بھگ تیس سالوں سے طلبا تحریک تعطل کا شکار ہے۔ لیکن یہی خاموشی ایک بڑے طوفان کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔
غیر سیاسی اور بیگانگی کا شکار یہ نوجوان نسل جب بھی میدانِ عمل میں اتری اور اس نظام کو چیلنج کرے گی تو تمام تر سیاست کا رخ ہی بدل جائے گا۔ اس امکان کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سنجیدہ حصے محسوس بھی کر رہے ہیں۔ 16 دسمبر 2014ء کے دن پشاور کے نہتے طلبا کا قتل جہاں پورے معاشرے پر ایک چوٹ تھا، وہیں طلبا کے شعور پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس کا اظہا ر 17 دسمبر کو تعلیمی اداروں میں خود رو احتجاجی مظاہروں کی صورت میں ہوا۔ حکمرانوں نے اس چنگاری کو آگ میں بدلنے سے روکنے کے لیے اگلے ہی دن تعلیمی اداروں میں چھٹیاں کروا کے انہیں بند کروا دیا۔ یہ چھٹیاں طالبعلموں کی سکیورٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی سکیورٹی کی وجہ سے کی گئی تھیں۔ پشاور حملے کے بعد تعلیمی اداروں کی سکیورٹی، دہشت گردوں سے خطرے کی وجہ سے نہیں بلکہ طلبا تحریک کے خطرے کی وجہ سے بڑھائی گئی اور تعلیمی اداروں کو جیل خانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ بہت سے تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے نام پر فیسوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ لیکن اس تمام تر جبر کی کیفیت کے با وجود طلبا تحریک کمزور ہونے بجائے زیادہ شدت سے اپنا اظہار کرے گی۔ مختلف واقعات ہر لمحہ نوجوانوں کے شعور کو متاثر کر رہے ہیں اور کوئی بھی ایک واقعہ حالات کا رخ بدل سکتا ہے۔ معاشرے کے ہر ادارے سے دھتکارے جانے والے بیکا ر اور نا اہل کہلانے والے طلبا جب بھی اپنا سیاسی اظہار کریں گے تو اس نظام کا خاتمہ کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
طالبعلموں کی اس فوج کو اگر پاکستانی محنت کش طبقے کی قیادت اور ساتھ میسر آ گیا تو اس ملک کی تاریخ کے نئے باب رقم ہوں گے۔ اُس انقلاب کا آغا ز ہوگا جس کی ضرورت اس معاشرے کا ہر فرد لا شعوری طور پر محسوس کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں اگر اس انقلاب کو ایک مارکسسٹ لینن اسٹ قیادت میسر آ گئی تو نا صرف اس خطے کے نوجوان اور محنت کش سرمائے کی زنجیروں سے آزاد ہوں گے بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں اور طالبعلموں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔
فروری 2010ء میں جب مصر کے نوجوان طلبا نے اپنا سیاسی اظہار کیا تو قاہرہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’’اگر ایک ہفتہ پہلے مجھے کوئی یہ کہتا کہ تمہارے طلبا حکومت کا تختہ الٹ دیں گے تومیں یقین نہ کرتا اور کہتا کہ یہ تو ناکارہ اور غیر سیاسی ہیں، یہ ایسا کوئی کام نہیں کر سکتے، لیکن آج انہوں نے یہ کر دکھایا ہے!‘‘ مصر کے نوجوانوں اور محنت کشوں نے اپنے ملک کے جابر حکمرانوں کو دو سالوں میں دو مرتبہ تختِ حکمرانی سے الگ کر دکھایا تھا۔ اسرائیل سے امریکہ تک ایک ہی نعرہ تھا ’’واک لائیک این ایجپشین‘‘، ’’مصریوں کی طرح آگے بڑھو!‘‘ لیکن مصر میں انقلابی قیادت نہ ہونے کے سبب انقلاب ادھورہ رہ گیا۔ پاکستان میں اگر ایک مارکسسٹ پارٹی کی قیادت میں انقلاب کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ دنیا بھر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کرے گا اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کی طرف یہ پہلا قدم ثابت ہوگا۔ جوکہ انسانی تہذیب کا ایک نیا باب ہوگا جہاں صدیوں سے جاری طبقاتی استحصال کا خاتمہ ہوگا۔ جہاں علم کو ایک طبقے کی ملکیت سے آزاد کر کے معاشرے کے ہر انسان کے لیے عام کر دیا جائے گا اور انسانی شعور اپنی معراج کو پہنچتے ہوئے اس کائنات کی تسخیر کرتے ہوئے اس کے ہر کونے کو اپنا گھر کرے گا۔