| تحریر: راشد خالد |
واپڈا کی نجکاری کا عمل تمام تر دھرنوں اور احتجاجوں کے باوجود جاری و ساری ہے۔ فیسکو کی نجکاری کے لئے حکومت نے خواہش مند حضرات اور کمپنیوں کو مدعو کرنے کے اشتہار بھی اخباروں میں شائع کروا دیئے ہیں۔ نجکاری کا عمل جہاں حکومت کے لئے انتہائی مشکل اقدام ہے، وہیں پر واپڈا کی نجکاری کے خلاف آواز انتہائی نحیف اور فیصلہ کن اقدام سے گریزاں ہے۔ واپڈا کی نجکاری کے خلاف پچھلے آٹھ ماہ سے جاری تحریک میں قیادت کوئی واضح اور دو ٹوک موقف دینے سے قاصر رہی ہے۔ بار بار کے دھرنوں اور احتجاجوں کی وجہ سے واپڈا کے محنت کش تحریک سے اکتاہٹ اور تھکاوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ہائیڈرو قیادت نے دھرنوں سے ایک قدم آگے یعنی قلم چھوڑ ہڑتال کا آغاز کیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں محنت کشوں میں دوبارہ ایک امید کی کرن نظر آئی ہے۔ لیکن اس قلم چھوڑ ہڑتال کے بعد کیا ہو گا اس کا تعین ابھی تک قیادت نے نہیں کیا۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیادت ان جلسوں کے علاوہ اور کچھ کرنے کو بھی تیار نہیں تھی بلکہ محض وزیراعظم سے ملاقات کا مطالبہ بار بار دہرایا جا رہا تھا۔ قیادت کے بقول اسحاق ڈار نے ہائیڈرو قیادت سے وعدہ کیا تھا کہ نجکاری کا اعلان کرنے سے قبل وزیراعظم خود ہائیڈرو قیادت سے ملاقات کر کے اسے واپڈا کی نجکاری پر متفق کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن پی ٹی یو ڈی سی کی مداخلت اور واپڈا محنت کشوں کی اس مداخلت کی حمایت کی وجہ سے مجبور ہو کر قیادت کو ایسا اعلان کرنا پڑا۔ لیکن ہمیں واضح ہونا چاہئے کہ حکومت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور اگر وہ پیچھے نہیں ہٹتے تو تحریک کو آگے لے جانے کی کیا حکمت عملی ہو گی اور کس طرح حکمرانوں کو ان حملوں سے باز رکھا جا سکتا ہے؟ ہمارے لئے جہاں نجکاری کے سیاسی اور معاشی اثرات کو سمجھنا ضروری ہے وہیں ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ حکمران طبقہ اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے اس سے نکلنے کے لئے وہ کونسا راستہ اختیار کرے گا جس میں اس کے طبقاتی مفادات کو بھی ٹھیس نہ پہنچے اور وقتی طور پر نظام کو بھی سہارا دیا جا سکے۔ ان حکمرانوں کے پاس اپنے اور خزانے کے پیٹ بھرنے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے اس وقت نجکاری کے علاوہ اور کوئی آسان حل موجود نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیامیں بحران کا شکار ہے اور ایسی کیفیت میں تمام ممالک کے حکمران طبقات اپنی منافعوں کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے محنت کش طبقے کے اوپر پے در پے معاشی اور سیاسی حملے کر رہے ہیں۔ ان حملوں کے جواب میں بے شمار ممالک میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں نے شاندار اور جراتمندانہ مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2008ء کے بعد سے لے کر اب تک یورپ کے کئی ممالک میں ہونے والی محنت کشوں کی عام ہڑتالیں، عرب انقلابات، امریکہ میں طلبہ اور نوجوانوں کی مزاحمتی تحریکیں، چین میں ابھرتی ہوئی مزدور تحریک اور ہندوستان میں حال ہی میں ہونے والی پندرہ کروڑ محنت کشوں کی عام ہڑتال، سب عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استحصال کے خلاف محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی جراتمندانہ لڑائی کی عکاس ہیں۔
سرمایہ دارانہ بحران کی شدت اور طوالت پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک کے حکمران طبقات کو مزید وحشت ناک بناتی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو پاکستان کا حکمران طبقہ IMF اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے دلال کے طور پر محنت کش طبقے کے استحصال کو شدید کر رہا ہے تو دوسری طرف حکومت اور ریاست مقامی سرمایہ دار طبقے کے نمائندے کے طور پر محنت کشوں پر مسلسل معاشی اور سیاسی حملے کر رہی ہے۔ اہم قومی اداروں کی نجکاری، حقیقی اجرتوں میں کمی، مستقل ملازمتوں کا خاتمہ، اوقات کار کی طوالت، ٹھیکیداری نظام، ماضی میں جیتی گئی مراعات کا خاتمہ اور ٹریڈ یونین پر عملی طور پر پابندی حکمران طبقات اور عالمی مالیاتی اداروں کی انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ ان وحشت ناک معاشی اور سیاسی حملوں کے نتیجے میں سماج میں بڑے پیمانے پہ غربت، بیروزگاری، ناخواندگی اور لاعلاجی پھیل رہی ہے۔ چند سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور آبادی کی وسیع تر اکثریت دو وقت کی روٹی اور زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترس رہی ہے۔ امیروں کی اولادیں غریبوں کے لہو سے اپنی عیاشی کا سامان مہیا کرتی ہیں اور محنت کش طبقے کے پڑھے لکھے بیروزگار نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ IMF اور ورلڈ بینک کے سامراجی قرضوں کی واپسی کے لئے صحت اور تعلیم کا انفراسٹراکچر برباد کیا جا رہا ہے اور عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ موجودہ حکمران اپنی قابلیت کی ڈھنڈورے پیٹتے ہوئے بار بار اپنی معاشی حالت کی بہتری کے راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ شرح نمو میں بہتری کے دعوے ایک طرف تو زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اس کے علاوہ۔ فیکٹری مالکان کے منافعوں کو یقینی بنانے کے لئے ٹھیکیداری نظام کے تحت محنت کشوں کے ہاتھ پیر باندھ دیئے گئے ہیں۔ لیبر قوانین کی پاسداری ایک خواب بن چکی ہے جس کی وجہ سے آئے روز نجی پیداواری شعبے میں حادثات معمول بن گئے ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانے جو کل تک محنت کشوں کے لئے زندگی کی ایک امید ہوتے تھے آج نہ صرف قیدخانے ہیں بلکہ محنت کشوں کے قبرستان بھی۔ حال ہی میں لاہور میں سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں ہونے والا سانحہ اس کی تازہ مثال ہے۔ اس کے باوجود حکمران نجی شعبے کے گن گاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور بچے کھچے پبلک سیکٹر کو بیچ رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے الائیڈ بینک، حبیب بینک اور نیشنل پاور کنسٹرکشن کمپنی کی نجکاری کے ذریعے اربوں روپے کمائے ہیں اور ایسے ہی مزید ہزاروں اربوں کے حصول کے لئے یہ باقی اداروں کو بھی اونے پونے داموں بیچنے پر ہیں۔
امارت اور غربت کی خلیج اب بحرالکاہل بن چکی ہے۔ عوام غریب ہو رہے ہیں لیکن نجی بینکوں کے منافع بڑھ رہے ہیں۔ گندم اور کماد جیسی بنیادی فصلیں اگانے والے چھوٹے کسان خود بھوکے اور مقروض ہیں لیکن شوگر مل مالکان اور آڑھتیوں کی تجوریاں بھرتی جا رہی ہیں۔ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے محنت کش خود لاعلاجی سے مرجاتے ہیں، تعلیم کے شعبے کے محنت کشوں کے اپنے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، امیروں کے بڑے بڑے بنگلے اور محلات تعمیر کرنے والے خود کچی آبادیوں میں رہتے ہیں، طلبہ کے لئے ایک اچھا مستقبل خواب بن کر رہ گیا ہے، عام عورت کے لئے گھر کا چولہا جلانا مشکل ہو گیا ہے۔ چند درجن خاندان سماج کی تمام دولت پر قابض ہیں اور اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے زندگی ایک جہنم بن کر رہ گئی ہے۔ اس ذلت اور جبر کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ظلم جب حد سے گزر جاتا ہے تو اسے مٹانا پڑتا ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقے کا ماضی 1968-69ء کی انقلابی سرکشی سمیت جرات اور بہادری کی بے شمار داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔ آج پھر وقت نے ہمارے سامنے جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حکمران طبقات کبھی بھی بھیک میں کوئی مراعات نہیں دیتے۔ اپنے حق کو ان سے چھیننا پڑتا ہے۔ سرمایہ دارانہ سیاسی لیڈروں کے جھوٹے وعدے، عدالتوں کے گھن چکر، کرپٹ جرنیلوں کے منافقانہ اعلانات، میڈیا کے مداریوں کی شوبازیاں، یہ سب ایک دھوکا ہیں۔ ان سے آج تک محنت کش طبقے کو کچھ ملا ہے اور نہ کبھی ملے گا۔ محنت کش طبقے کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا، اسے اٹھنا پڑے گا، منظم ہونا پڑے گا، لڑنا پڑے گا۔
آج کا سوال یہ ہے کہ جہاں حکمران پے در پے معاشی حملے کر رہے ہیں ان کا جواب کیسے دیا جائے؟ ماضی میں ہونے والی نجکاری کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ کل تک کراچی کے عوام کو زندگی کی امنگ دینے والی کے ای ایس سی آج قاتل کے الیکٹرک بن چکی ہے، نجکاری کے بعد ہزاروں محنت کشوں کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونے پڑے۔ PTCL میں بھی یہی عمل دہرایا گیا۔ لیکن جہاں محنت کش طبقے کو مختلف اداروں میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں پچھلے کچھ عرصہ میں بے شمار سرکاری اور نجی اداروں و صنعتوں کے محنت کشوں نے حکمران طبقے کے اس جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بالخصوص OGDCL میں نجکاری کے خلاف کامیاب جدوجہد، بے شمار نجی صنعتوں میں اجرتوں میں اضافے، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے اور یونین سازی کے لئے لڑائی، ینگ ڈاکٹرز اور نرسز کی تنخواہوں میں اضافے اور مستقل ملازمتوں کی جدوجہد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حکمران طبقے کے دانشوروں کے دعوؤں کے برعکس پاکستان کا محنت کش طبقہ حکمرانوں کے معاشی اور سیاسی حملوں کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے ہمیں اپنی کمزوریوں کو سمجھنا اور ان کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمیں اپنے مقاصد اور مفادات کا تعین سب سے پہلے طبقاتی بنیادوں پر کرنا ہو گا۔ محنت کش طبقے اور سرمایہ دار طبقے کی لڑائی سب سے پہلے نظریات کی لڑائی ہے۔ محنت کش طبقہ مزدور نظریات کے بغیر حکمران طبقے کے سیاسی اور معاشی حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ماضی میں مزدور تحریک کی نظریاتی کمزوری اور مزدور نظریات سے بیگانگی نے مفاد پرست ٹریڈ یونین قیادتوں کو محنت کش طبقے سے خوفناک غداریاں کرنے کا موقع فراہم کیا جس کے نتیجے میں بے تحاشا قربانیوں کے باوجود کئی تحریکیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ مزدور تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ کرنے کے لئے مزدوروں کے سیاسی اور معاشی نظریات سے دوبارہ رشتہ جوڑنا ہو گا۔ محنت کشوں کی سب سے بڑی طاقت ان کا طبقاتی اتحاد ہے۔ جب تک محنت کش طبقہ رنگ، نسل، مذہب، قوم، پیشے اور ادارے کے تعصبات سے بالاتر ہوتے ہوئے ایک متحد فوج کی طرح لڑائی کے میدان میں نہیں اترے گا اس وقت تک حکمران طبقات اس کی چھوٹی اور بکھری ہوئی تحریکوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے کچلتے رہیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ محنت کش طبقہ متفقہ مطالبات اور نعروں کے تحت اپنی بکھری ہوئی تمام لڑائیوں کو یکجا کرتے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ آگے بڑھو محنت کش ساتھیو! فتح تمہاری ہے!