[رپورٹ: ز بیر رحمن]
کراچی میں اس سال یکم مئی کی دیگر ریلیوں کے علا وہ ایک پر جوش ریلی اور احتجاجی مظا ہرہ آئی آئی ایل (انٹرنیشنل انڈسٹر یز لمیٹڈ) کے محنت کشوں کی جا نب سے دیکھنے میں آیا۔ اس موقع پر یونین کے صدر ضمیر، جنرل سیکریٹری عا بد سلیم، شکیل، واجد الحق، لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کے آرگنا ئیزر منظور راؤ اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے ز بیر رحمن نے مظاہرین سے خطاب کیا۔
12 ستمبر 2013ء کو آئی آئی ایل کے مزدوروں نے 725 میں سے 514 ووٹ دے کر آواز لیبر یونین کو بطور سی بی اے منتخب کیا۔ عید سے پہلے ریکا رڈ سیل ہو نے پر پو ری انتظا میہ کے لئے گروس سیلری کا اعلان کیا، جسکی کل رقم کروڑوں میں بنتی ہے۔ دوسری طرف مزدوروں کو دو سال سے منافع میں قانونی طور پر مختص 5 فیصد حصے سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انتظا میہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام میں 600 ٹھیکے پر کام کر نے وا لے ملا زمین کو مستقل نہیں کر رہی۔ 22 اکتو بر 2013ء کو کمپنی میں ایک نہا یت افسوس ناک حادثہ ہواجس میں ایک ٹھیکے کے ملا زم عدنان کو جان سے ہا تھ دھونا پڑا اور کمپنی انتظامیہ نے کمپنی ایمبولینس میں میت کو ڈال کر یہ کہا کہ وہ زندہ ہے۔ سی بی اے نے اس دل دہلا دینے والے واقعہ پر ایک خط لکھا جس میں قانون کے مطا بق لیبر ڈیپارٹمنٹ کو آزاد تحقیق کروانے کا مطا لبہ کیا۔ لیکن تحقیق کی بجائے انتظامیہ کی جانب سے جبری برطرفیاں کی جانے لگیں اور مزدوروں کو جبری طور پر اذیت دینے کے لئے ایک پلانٹ سے دوسرے پلانٹ منتقل کیا جانے لگا۔ ان تمام معاملات کی شکا یت بذریعہ خطوط تمام متعلقہ اداروں اور سپریم کورٹ کودی گئی لیکن متعلقہ اداروں کی طرف سے ابھی تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ اس حادثے کے کچھ عرصے بعد علی نواز نامی مزدور کرین سے گر کر ٹانگوں سے معذور ہو گیا۔ ایک اور مزدور لوڈنگ کر تے وقت ٹرک سے گر کر سر میں شدید چوٹ لگنے سے آ ئی سی یو جا پہنچا۔ لیکن انتظامیہ اپنے مزدور دشمن رویے سے باز نہ آئی۔ 11 مزدوروں کو د سمبر 2013ء میں جبری طور پر بر طرف کر دیا گیا اور انتظامیہ نے علی الاعلان یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ ہم سے ٹکرانے کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد یونین کے صدر اور جنرل سیکریٹری نے سی ای او سے ملا قات کی جس میں مزدوروں کی بحالی کو سی ای او نے پروڈکشن بڑھانے سے مشروط کردیا اور واضح الفاظ میں کہا کہ مجھ پر یقین کریں کہ میں 11 مزدوروں کو بحال کردوں گا۔ دسمبر و جنوری کی پروڈکشن 14 ہزار ٹن سے بڑھا کر 18 ہزار ٹن سے بھی زیادہ کر دی گئی مگر جب ایچ آر منیجر کے ذریعہ سی ای او سے ملا قات کے لئے بات کی گئی تو اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔ ایک مزدور کے گھر جب جبری بر طرفی کا لیٹر پہنچا تو اسکی والدہ کی طبیعت شدید خراب ہو گئی اوروہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے برین ہیمریج سے انتقال کرگئیں۔ سی بی اے یو نین نے جب انتظا میہ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا تو جواب ملا کہ ’’جسکی آ ئی ہو تی ہے اس کو کو ئی بھی نہیں ٹال سکتا‘‘، یہ جواب متعلقہ افسر نے ہنستے ہوئے دیا۔ فروری میں سی آر سی پلانٹ کے 9 مزدوروں کو جبری لے آف پر یہ کہہ کر بھیج دیا کہ آ پ نے پروڈکشن بہت زیادہ کر دی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد یونین کے دباؤ کے تحت ان مزدوروں کو ایک خط پر دستخط کروا کے واپس رکھ لیا گیا جس میں درج تھا کہ ’’آئندہ ایسی صورتحال میں کمپنی آپ کو بر طرف کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔‘‘
سی بی اے یونین اور کمپنی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے اور اس سلسلے میں 13 میٹنگ ہوئیں اور آخری میٹنگ 12 فروری کو ہوئی جس میں سی بی اے اور انتظامیہ کے درمیان ڈیڈ لاک ہو گیا۔ 24 فروری کو سی بی اے نے اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے سندھ انڈسٹریل ایکٹ 2013ء کی شق (3)35 کے مطابق کانسلیٹر کے پاس ہڑتال کا نوٹس جمع کرا دیا۔ اس کے بعد کانسلیٹر نے مداخلت کرتے ہوئے 4 مارچ کو کمپنی انتظامیہ اور سی بی اے کے درمیان مذاکرات اپنی نگرانی میں شروع کروائے۔ اس سلسلے میں مختلف تاریخوں میں کانسلیٹر اور جوائنٹ لیبر ڈائریکٹر کی نگرانی میں سی بی اے اور کمپنی انتظامیہ کے درمیان 8 اجلاس ہوئے جس میں انتظامیہ معاملات کو طے کرنے کے بجائے ٹالتی رہی۔ جوائنٹ لیبر ڈائریکٹر کی ہدایت کے مطابق سی بی اے یونین نے 23 اور 24 اپریل کو کمپنی سی ای او سے بھی مذاکرات کئے اور ان مذاکرات سے بھی کوئی حل نہیں نکل سکا۔ کمپنی انتظامیہ 25 اپریل کو اجلاس کے منٹس پر سائن کرنے سے انکار کر کے وہاں سے فرار ہو گئی اور کانسلیٹر نے قانون کے مطابق کاروائی کرتے ہوئے سی بی اے کو فیلیئر سرٹیفیکٹ جاری کر دیا۔ سی بی اے نے اس سلسلے میں مزدوروں کی جنرل باڈی کا اجلاس بلایا اور ان سے کمپنی کی دی گئی پیش کش اور فیلیئر سرٹیفیکٹ پر رائے لی گئی۔ مزدوروں نے کمپنی کی دی گئی پیش کش کو نا منظور کیا اور تمام جنرل باڈی بشمول سی بی اے نے ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہڑتال کی اطلاع قائد آباد تھانے اور متعلقہ اداروں میں کر دی گئی تھی لیکن اس سے قبل مزدور ہڑتال پر جاتے کمپنی نے ایس ایس جی گیس کے سپلائی پریشر میں کمی کا بہانہ بناتے ہوئے 28 ا پریل تک غیر قانونی لاک آؤٹ کر دیا۔ سی بی اے کی طرف سے اس کی شکایت جوائنٹ لیبر ڈائیریکٹر، لیبر ڈائریکٹر اور متعلقہ اداروں میں کی گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے یہ غیر قانونی تالا بندی تا حال جاری ہے۔ مزدوروں کو مختلف قسم کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ وہ اپنے اصولی اور قانونی حقوق سے دستبردار ہو جائیں ورنہ ان کو روزگار سے محروم کر دیا جائے گا اور وہ تنخواہ جس کا کام گزشتہ ماہ لیا جاچکا ہے، بھی روک لی جائے گی۔ یکم مئی کے موقع پر سینکڑوں مزدور کراچی پریس کلب پہنچے اور احتجاجی نعرے لگائے۔ آئی آئی ایل کے مزدوروں کا صبر اب جواب دے رہا ہے اور وہ راست قدم اٹھانے کی تیاری کررہے ہیں۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) نے ان تمام محنت کشوں کو بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے اور ان کی آواز پورے ملک کے محنت کش طبقے تک لے جانے کا عزم کیا ہے۔
طبقاتی جدوجہد کے قارئین سے گزارش ہے کہ وہ کمپنی انتظامیہ سے رابطہ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ رابطے کے لئے یہاں کلک کریں۔