[رپورٹ: مجید بانگا]
اندھیر نگری کا لفظ بہت سنا، پڑھا اور استعمال کیا گیا ہے لیکن اندھیر نگری کو اگر مجسم شکل میں دیکھنا ہوپنجاب کے پہلے شہر صادق آباد کے قریب واقع مختارگڑھ نامی قصبے میں واقع فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ آغاز یہ ہے کہ ایک چار دیواری کے اندر موجود یوریا کھاد، نائیٹروفاسفیٹ کھاد، گوارا کھاد اور نائیٹرک ایسڈ بنانے والے چار کارخانوں کو ایک ہی فیکٹری یعنی’’فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی‘‘ قراردیا جاتا ہے مگر یہاں پر کام کرنے والے تین ہزار مزدوروں کو بیسیوں قسم کے جعلی ٹھیکے داری نظام قائم کرکے علیحدہ علیحدہ کھاتے کے مزدور قراردے کر ’’فاطمہ فرٹیلائیزر‘‘ کا مزدور تسلیم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ یہاں پر صرف 465 مزدورمستقل قراردیے گئے ہیں اور باقی 2500 مزدوروں کوکام مستقل ہونے کے باوجود ’’کنٹریکٹ لیبر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ عام گمان یہ ہے کہ زیادہ تر’’ ٹھیکے دار‘‘ کمپنی کے سپروائیزر ٹائپ تنخواہ دار ہیں مگر ان کو لیبر فراہم کرنے والے ٹھیکے دار قراردیا جاتا ہے تاکہ جعلی ٹھیکے داری نظام کو جواز فراہم کیا جاسکے۔ فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی میں مزدور کی جان سب سے زیادہ سستی ہے اور متعدد جان لیوا حادثات قیمتی جانوں کی تلفی کا باعث بن چکے ہیں لیکن یہاں جینا مرنے سے زیادہ دشوار ہے۔ فاطمہ فرٹیلائیزرکمپنی کم سے کم افراد سے زیادہ سے زیادہ کام لینے والا ایک ایسا ادارہ ہے جس میں مزدوروں کو کم ترین اجرت اور بدترین حالات کارکے تحت کام کرنا پڑتا ہے۔ سیفٹی نام کی کوئی چیز اس فیکٹری کی حدود کے اندر نہیں ہے۔ بظاہر فیکٹری کے اندر تین یونینز موجود ہیں جن میں سے 465 مستقل مزدوروں کی ایک پاکٹ یونین ہے جس کو انتظامیہ نے اپنے کارندوں کے ذریعے بنوایا اور اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں، بیگنگ اینڈ لوڈنگ کے شعبے میں ایک دوسری کمزور یونین ہے جہاں مزدوروں کے حقوق کا تعین رسوائے زمانہ ٹھیکے دار مشتاق قریشی اور اسکے تنخواہ دار کارندے کرتے ہیں، بیگنگ یونین کے محنت کش اپنے حقوق کے حصول کے لئے کٹھن جدوجہد کے مراحل سے گزررہے ہیں۔ تیسری یونین آل کنٹریکٹرز لیبر یونین کے نام سے ہے۔ اس یونین کو بنے اور ضلعی رجسٹرار ٹریڈ یونین کے دفتر سے رجسٹرڈ ہوئے دو سال سے زائد عرصہ گزر گیا مگرفیکٹری مالکان کے دباؤ اوررشوت ستانی کی وجہ سے یونین کوابھی تک اجتماعی معاملہ کاری (سی بی اے) کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا گیا ہے۔ سی بی اے کے حصول کے لئے یونین میں موجود جتنے بھی دیانت دار کارکنوں اور راہنماؤں نے جدوجہد کی انکے لئے فیکٹری میں رہنا محال کردیا گیا، یونین میں وہی عہدے داراپنی ملازمت پر برقرار رکھ پائے جو کمپنی کے انڈسٹریل ریلیشنز آفیسر کی خفیہ گڈ بک میں درج ہیں۔ مورخہ 27 مئی فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی میں مزدوروں کے حقوق کے لئے مردانہ وار جدوجہد کرنے والے دو یونین کارکنوں غلام محی الدین اور علی گل کو ایک شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جس میں ان پر آپس میں بات چیت کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ آپس میں بات چیت کرنا اٹھارویں ترمیم کے بعد بننے والے ’’پنجاب انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائیز ایکٹ 2012ء‘‘ کے تحت ایسا جرم ہے، جسکی سزا نوکری سے نکالا جانا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس ظالمانہ قانون پر تما م فیڈریشنز اور دھانسو قسم کے مزدور راہنما ؤں نے چپ سادھ لی ہوئی ہے۔ ایک جعلی قسم کی ’’قانونی کاروائی‘‘ کے بعد علی گل اور غلام محی الدین کو فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی سے نکال دیا گیا ہے، تاحال انکے واجبات نہیں ادا کئے گئے، انکے سروس سرٹیفیکیٹ دینے سے بھی انکارکردیا گیا ہے۔ قبل ازیں پچھلے چند مہینوں میں پچاس سے زائد مزدوروں کو فیکٹری سے نکالا جاچکا ہے۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) اس صورتحال میں احتجاجی تحریک کو منظم کررہی ہے۔ پاکستان بھر میں مزدورتنظیموں اور راہنماؤں سے فاطمہ فرٹیلائیزرکمپنی کی ظالم انتظامیہ کے خلاف اور نکالے گئے مزدوروں کے حق میں یکجہتی کی توقع ہے۔
فیکٹری انتظامیہ کے مزدور دشمن رویے کے خلاف مذمتی پیغامات درج ذیل پتے پر بھیجیں:
فاطمہ گروپ، E-110 خیابانِ جناح لاہور کینٹ، پاکستان
فیکس نمبر: 04236621389
فون نمبر: 042111328462
انہی پیغامات کی ایک کاپی ہمیں اس ایڈریس پر ارسال کریں: طبقاتی جدوجہد، 105 منگل مینشن، سیکنڈ فلور، رائل پارک لکشمی چوک لاہور