دولت والوں کی تکرار، عوام بیزار

[تحریر: آدم پال]
پاکستانی ریاست کے بحران کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور بکھرنے کا عمل تیز تر ہو چکا ہے۔ ریاست کے تمام اداروں اور اداروں کے اندر معاشی مفادات پر بنے ہوئے دھڑوں کاایک دوسرے سے ٹکراؤ اور لڑائی بڑھتی جا رہی ہے۔ ریاست کے ٹوٹنے کا عمل یہاں رہنے والا ہر شخص ہر روز محسوس کر سکتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا عذاب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے جس کی اذیت ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔ حکمران طبقے کا کوئی بھی فرد اس بد ترین اذیت سے نجات کا کوئی رستہ نہیں بتا رہا اور نہ ہی ان کے پاس کوئی حل موجود ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے لے کر صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں تک ہر جگہ ریاست ناکام نظر آتی ہے۔ اس پرعوام پر جبر کے لیے سب سے مشہور ادارے پولیس اور عدلیہ کا گھناؤنا کردار بھی مزید بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ ہر روز ظلم کی نئی داستانیں سامنے آتی ہیں اور حکمران عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ہر روز ان مظلوموں کی داد رسی کا ناٹک کر کے عوام کی نفرت اور غم و غصے کو مزید بھڑکاتے ہیں۔
ریاست کی ناکامی اور حکمران طبقے کے مظالم محنت کش عوام میں ایک بغاوت کو سلگا رہے ہیں جس سے خود حکمران طبقے کے اپنے اندر دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ حکمران طبقے کی موجودہ لڑائی کو کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے عوام کی وسیع تر پرتوں پر مسلط کیا جا رہا ہے اور انہیں باور کروایا جا رہا ہے کہ ان کا اصل مسئلہ روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی قراردادیں، آئین کی شقیں اور انتخابات کی دھاندلی ہے۔ محنت کش طبقے کے ساتھ تو کئی نسلوں سے دھاندلی کی جا رہی ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کے ہر موڑ پر محنت کش کے ساتھ دھاندلی ہوتی ہے۔ جب اسے خوراک مکمل نہیں ملتی اوراس کی جسمانی نشوونما ادھوری رہ جاتی ہے اس سے بڑی دھاندلی کیا ہو گی۔ جب بچپن میں ہی اسے کھیلنے کے لیے کھلونے اور پڑھنے کے لیے کتابیں دینے کی بجائے اوزار تھما دیے جاتے ہیں اور محنت کی منڈی میں دھکیل دیا جاتا ہے اس وقت دھاندلی پر شور کیوں نہیں مچایا جاتا کیونکہ اسی وقت دولت مند افراد کے بچے بیکن ہاؤس، ایچی سن اورامراء کے لیے مخصوص دوسرے تعلیمی اداروں میں اس طبقاتی نظام کو چلانے کی تربیت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ جب محنت کش کو بڑھاپے میں علاج کی سہولت نہیں ملتی اور وہ سرکاری ہسپتالوں کی دہلیز پر پیسے نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیتا ہے تو دھاندلی کا واویلا کیوں نہیں کیا جاتا کیونکہ دولت مند افراد پرائیویٹ ہسپتالوں کے ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں زیر علاج ہوتے ہیں۔ کس محکمے میں، کس سڑک پر، کس گلی میں اور کس گھر میں دھاندلی نہیں ہو رہی۔ جب محنت کش اپنی محنت کا معاوضہ طلب کرتا ہے تو سرمایہ دار اس کی حقیقی اجرت ادا کرنے کی بجائے اس کو زندگی کی سانسیں جاری رکھنے کے لیے چند روپے تھما دیتا ہے اور باقی ساری محنت لوٹ کر اپنی تجوری میں جمع کر لیتا ہے۔ اس دھاندلی پر آہ و بکا کیوں نہیں کی جاتی۔ جب مزدوروں کے قوانین کی دھجیاں اڑا کر ان کی یونینوں پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور انہیں سے کم تنخواہ پر کام لیا جاتا ہے تو کوئی عدالت دھاندلی کا نوٹس کیوں نہیں لیتی۔ جب سرکاری تعلیمی اداروں کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے محنت کشوں کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں تو دھاندلی کی آواز کیوں بلند نہیں ہوتی۔
دھاندلی کی آواز صرف اس وقت بلند کی جا رہی ہے جب حکمران طبقے کے ایک دھڑے کے مفادات کو ٹھیس پہنچی ہے اور وہ دوسرے دھڑے سے بدلہ لینے کے لیے شور مچا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ میڈیا اس کا مکمل ساتھ دے رہا ہے۔ اسی اسلام آباد میں جب پی ٹی سی ایل کے ہزاروں محنت کشوں نے مرکزی شاہراہ کو جام کر دیا تھا اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے تھے تو کسی اخبار میں ایک سطر کی خبر بھی نہیں لگی تھی اور کسی نیوز چینل پر ایک سیکنڈ بھی اس واقعے کو نہیں دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مطالبات اور تحریکیں اس نظام کو چیلنج کریں اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں رکاوٹ پیدا کریں انہیں دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جا تی ہے جبکہ وہ مطالبات اور جعلی تحریکیں جو اس نظام کو عوام کے شعور پر مسلط کریں انہیں ریاست اور حکمران طبقات خود ابھارتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی بد عنوان اور ظالم ترین حکومت کے خلاف ابھرنے والے ان مداریوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں۔ نواز شریف کی موجودہ حکومت میں عوام پر بد ترین حملے کیے گئے جن میں بجلی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ، لوڈ شیڈنگ، ٹیکسوں میں بے تحا شا اضافہ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور کم از کم اجرت میں انتہائی کم اضافہ اوربڑھتی ہوئی بیروزگاری شامل ہیں۔ اسی صورتحال کے باعث عوام میں شدید بے چینی اور نفرت موجود تھی۔ اگر حقیقی نعروں کے ساتھ اور ایک انقلابی پروگرام کے ساتھ کوئی سیاسی پارٹی اس حکومت کے خلاف تحریک چلاتی تو بہت بڑی عوامی حمایت حاصل کی جاتی تھی۔ لیکن رائج الوقت سیاسی جماعتوں کے قائدین جانتے ہیں کہ حقیقی نعروں پر تحریک کا آغاز تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا انجام پھر محنت کش عوام خود کرتے ہیں۔ اس لیے انتہائی محتاط طریقے سے ایسے مطالبات اور نعرے سامنے لائے گئے جن کا بنیادی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔
عمران خان اور طاہر القادری کا بنیادی تنازعہ 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے۔ ان کے مطابق اگر یہ دھاندلی نہ ہوتی تو آج نواز شریف وزیر اعظم نہیں بن سکتا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان میں ہونے والا انتخابی عمل کبھی بھی شفاف اور آزادانہ نہیں رہا۔ صرف 1970ء کے انتخابات نسبتاً شفاف تھے جس کی وجہ 1968-69ء میں ابھرنے والا انقلاب تھا۔ اس انقلاب کو زائل کرنے کے لیے ملک کے پہلے عام انتخابات کروائے گئے جس کے بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ بعد کے تمام انتخابات میں ریاست پر قابض گروہوں نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے اور مخصوص صورتحال میں عوامی غم و غصے کو وقتی طور پر تحلیل کرنے کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا۔ ریاست کی بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کے باعث انتخابات کی رسم بھی اتنی ہی غیر شفاف ہوتی گئی اور نتیجتاً 2013ء کے انتخابات میں تو سرکاری اہلکاروں نے ووٹ گننے کی بھی زحمت نہیں کی اور پہلے سے طے شدہ نتائج ووٹنگ کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی نشر کر دیے گئے۔ عمران خان کی جانب سے دیے گئے ثبوت اور عدالتوں میں جاری مقدموں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ انتخابات صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ایک طریقہ ہے۔ ان کے ذریعے عوام کو باور کروایا جاتا ہے کہ ان پر ظلم کرنے والے اور ان کی محنت کا پیسہ کرپشن کے ذریعے لوٹنے والے حکمران خود ان کے ہی منتخب کردہ ہیںیعنی محنت کش عوام کو ہر پانچ سال بعد موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اوپر کوڑے برسانے والے مختلف امیدواروں میں سے کسی ایک چناؤ کر سکیں۔
اگر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ ان کی اکثریت بڑے بڑے جاگیر داروں، سرمایہ داروں، رسہ گیروں، منشیات فروشوں اور قبضہ مافیا کے سرپرستوں یا ان کے ٹاؤٹوں پر مبنی ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے کا ان کا مقصد نہ صرف اپنے قانونی اور غیر قانونی دھندوں کا تحفظ ہے بلکہ اس نظام کا تحفظ کرنا جس کے باعث وہ یہ پر تعیش زندگی گزارتے ہیں۔ سیاست میں حصہ لینے اور اقتدار میں آنے سے ان دھندوں میں وسعت آتی ہے اور ان کے مزید تحفظ اور پھیلاؤ کے لیے سیاست میں حصہ لینا زیادہ ضروری ہوتا جاتا ہے۔ رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیاں بھی ایسے ہی افرادکو اہم عہدوں پر فائض کرتی ہیں اور انتخابات کے دنوں میں ٹکٹوں کی لوٹ سیل میں پارٹیوں کے سربراہان خوب پیسہ بناتے ہیں۔ نوجوانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان نے بھی گزشتہ سال کے انتخابات میں بھی ایسے ہی افرادکو ٹکٹیں دیں اور اب بھی اس کے گرد ایسے ہی افراد موجود ہیں جو سیاست اور کالے دھن کی بہتی گنگا سے متعدد دفعہ مستفید ہو چکے ہیں۔ اس طبقاتی نظام میں جہاں ایک جانب عیش و عشرت، دولت اور جاگیروں کے انبار ہوں اور دوسری جانب بھوک، بیماری اور غربت کے سمندر ہوں وہاں حقیقی جمہوریت کبھی پنپ ہی نہیں سکتی۔ پھر ایک ایسا ملک جس کی دو تہائی سے زیادہ معیشت کالے دھن پر مبنی ہو وہاں سیاست اور جمہوریت کا کردار کبھی بھی صحت مند نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں بہت سے لبرل اور جمہوریت کے تقدس کے گن گانے والے فوری طور پر آمریت کی حمایت کا لیبل لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جمہوریت آمریت کے مقابلے میں بہتر نظام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہی جمہوریت کوئی نظام ہے اور نہ ہی آمریت بلکہ یہ کسی بھی نظام کو چلانے کے مختلف طریقہ کار ہیں۔ بہت سے ممالک میں سرمایہ داری کو بادشاہت کے ذریعے بھی چلایا جا رہا ہے اور دیگر بہت سے طریقہ کار بھی رائج ہیں۔ لیکن جمہوریت میں عوام کو یہ دھوکہ ضرور دیا جاتا ہے کہ اس نظام کو وہ خود چلا رہے ہیں جوحکمرانوں کو لوٹ مار کے وسیع تر مواقع فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح آمریت میں بھی حکمران طبقے کے افراد ہی اہم وزارتوں اور منصبوں پر فائز ہوتے ہیں اور ان کی مراعات اور تعیش میں کمی آنے کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ محنت کش عوام دونوں طرز کی حکومتوں میں پستے چلے جاتے ہیں۔
بہت سے لبرل محنت کشوں کی جہالت کی تضحیک اس انداز میں بھی کرتے ہیں کہ یہ اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں اس لیے ان پر ہر قسم کی مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ ان کا اپنا قصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ جمہوریت کی جانب محنت کشوں کا رویہ حقیقت پر مبنی ہے جبکہ درمیانے طبقے کے بہت سے افراد سمیت لبرل اور این جی اوز کے کرتا دھرتا کسی غلط فہمی اور ابہام کا شکار ہیں۔ محنت کش جانتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے ان کی حالت زار میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس نظام میں ان کا کوئی حقیقی نمائندہ منتخب نہیں ہو سکتا اس لیے ووٹ کا سب سے بہتر استعمال یہی ہے کہ فوری نوعیت کا کوئی کام کروا لیا جائے جس میں اشیائے خوردو نوش سے لے کر سیوریج کے پائپ تک شامل ہیں۔ لیکن عوامی تحریکوں اور حقیقی انقلابات میں صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے اور عوام سیاست میں براہ راست قدم رکھ کر اپنی تقدیروں کے فیصلے خود کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
شفاف اور آزادانہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن میں اصلاحات ایک ایسا خواب ہے جو اس نظام میں کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت اور آزاد پارلیمنٹ کا قیام جاگیرداری اور اس پر براجمان بادشاہتوں کے خلاف ابھرنے والے سرمایہ دارانہ انقلابات کے ذریعے ہوا تھا۔ اس دوران سرمایہ دارانہ انقلابات نے نہ صرف بادشاہتوں کو اکھاڑ کر پارلیمنٹیں قائم کیں جن میں فرانس کے بادشاہ کا سر نیزے پر رکھ کر پورے پیرس میں گھمایا گیا، بلکہ جدید قوم کا تصور بنایا، زرعی اصلاحات کی گئیں، آزاد منڈی کی معیشت قائم کی گئی اور ریاست کو مذہب سے علیحدہ کیا گیا۔ بر صغیر میں سرمایہ دارانہ نظام برطانوی سامراج کے بوٹوں تلے نافذ کیا گیا جس کا مقصد یہاں کے محنت کشوں کی دولت کو لوٹنا تھا۔ اس لیے یہاں کبھی بھی وہ ادارے ان بنیادوں پر قائم نہیں ہو سکے جن بنیادوں پر یورپ میں قائم ہوئے تھے۔ یہاں پر ہندوستان کی جمہوریت کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے حالیہ انتخابات میں مودی ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی انتخابی مہم کے بعد وزیر اعظم منتخب ہوا ہے جس میں ہندوستان کے بڑے سرمایہ داروں سمیت عالمی سطح کی اجارہ داریوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ ہندوستان میں کتنے لوگ ایک ارب ڈالر انتخابی مہم پر خرچ سکتے ہیں اس کی تفصیل بیان کرنا وقت کا ضیاع ہو گا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں حقوق اور فرائض کی فہرست خواہ کسی بھی قانون، آئین، عدالت یا پارلیمنٹ میں بنائی جائے اس میں امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کو مقدس ترین اورازلی اور ابدی سمجھا جاتا ہے اور اس کے خلاف بات کرنا سب سے بڑی توہین ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا پر جاری موجودہ ناٹک میں اس تفریق کے خاتمے کی نہ تو کوئی بات ہوتی ہے اورنہ ہی کوئی ایسا نعرہ بلند ہوتا ہے۔
عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کا اعلان بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کیونکہ اس کے طبقے کے افراد جن میں اس کے ساتھ کھڑے بہت سے لیڈر شامل ہیں پہلے ہی 68 سال سے سول نا فرمانی کر رہے ہیں اور بجلی، گیس، ٹیلی فون کے بل، ٹیکس اور دیگر ادائیگیاں صرف محنت کشوں کے ذمے ہیں جبکہ ان حکمران طبقات کے حصے میں صرف عوام کے پیسوں پر عیاشی کرنا ہی ہے۔ جب محنت کشوں کی حقیقی تحریکیں اور انقلابات برپا ہوتے ہیں تو کسی لیڈر کے اعلان کے بغیر ہی وہ ابتدائی مراحل طے کر کے ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کرنے کی جانب بڑھتے ہیں جس میں وہ کرائے دینے سے انکار کرتے ہیں، فیکٹریوں اور جاگیروں پر قبضے کرتے ہیں اور سرکاری املاک کو اپنی تحویل میں لیتے ہیں۔ انقلاب کا یہی کردار ہمیں 68-69ء میں نظر آیا تھا جس کو اس وقت کی قیادت نے انتخابات میں زائل کروا دیا۔ انقلاب کا ایک حتمی مرحلہ عام ہڑتال ہوتی ہے جس میں محنت کش سماج کا پہیہ جام کر دیتے ہیں اور ریاست کے اداروں کو روند ڈالتے ہیں۔
پاکستان کی آزادی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے پختونخواہ حکومت میں اپنے کردارکے متعلق مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ پختونخواہ کی پولیس سمیت کوئی بھی ریاستی ادارہ عوام کے حق میں اس وقت تک کام نہیں کر سکتا جب تک طبقاتی نظام موجود ہے۔ پولیس اور تمام ریاستی اہلکاروں کی ذمہ داری سرمایہ دار طبقے کی چاکری کرنا ہے اور اس کے لیے محنت کشوں پر مظالم ڈھانا ان کی ذمہ داری کا اہم حصہ ہے۔ ہر روز ہونے والے بم دھماکے، شمالی وزیرستان سے ہجرت کرنے والے لاکھوں لوگوں کی غم بھری داستانیں اور بغیر علاج کے مرنے والے ہزاروں لوگوں کا خون اسی صوبائی حکومت کے سر پر ہے جو اپنی ترقی کے متعلق جھوٹ بول رہی ہے۔ طاہر القادری کا کردار بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ضیاء الباطل سے لے کر مشرف تک کی غلامی کا طوق گلے میں پہننے والا ملا اب ریاست کے مختلف دھڑوں کی لڑائی میں اپنا حصہ وصول کرر ہا ہے۔ گزشتہ سال اس کا نعرہ سیاست نہیں ریاست کو بچانے کا تھا۔ یعنی عوام کا خون چوسنے والی ریاست کو بچانا اس کا اولین مقصد تھا جسے ہر انقلابی تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔
ایسے میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا گھناؤنا کردار بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ اپنی کرپشن اور لوٹ مار کو محفوظ بنانے کے لیے سندھ تک محدود ہونے کی ڈیل کرنے والی قیادت اب حکومت کی ڈولتی کشتی کو سہارا دینے کے لیے مرکزی حکومت میں بھی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جس خدمت کی وصولی کرنا یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ جبکہ گزشتہ انتخابات میں ہارے ہوئے سابق وزرا اور ممبران اسمبلی قیادت پر عمران خان کی جانب جھکاؤ کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سمیت ہر جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جماعت اسلامی ریاست سے اپنی وفاداری ثابت کر کے تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ اور آمدن کو بحال کرنا چاہتی ہے اور بچولیے کی خدمات مفت میں فراہم کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے نمائندوں کے چہروں پرشفاف انتخابات کے ذکر سے مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ بہت عرصہ سے کراچی کے لوگوں نے انتخابات صرف ٹی وی پر ہی دیکھے ہیں۔ بلوچستان میں انتخابات اور اس کے بعد بننے والی حکومت خود ایک مذاق بن چکی ہے۔ ایک طرف فوج کا آپریشن جاری ہے اور دوسری جانب رجعتی قوتیں ہر طرف دندناتی ہوئی پھر رہی ہیں اور معصوم لوگوں کا خون بہا رہی ہیں۔ ایسے میں اسلام آباد کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے چند ہزار لوگوں کے مطالبات ایک بیہودہ مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ محنت کش عوام کی ان کی جانب بے اعتنائی درست بھی ہے اور حق بجانب بھی۔
دونوں جانب کمزور فریقین کے باعث یہ تصادم طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے جس میں ایک اہم عنصر امریکی سامراج کی کمزوری بھی ہے۔ معاشی بحران کے باعث امریکی معیشت زوال کا شکار ہے جبکہ امریکی سامراج افغانستان اور عراق میں اپنی شکست کے زخموں کو بھی چاٹ رہا ہے۔ شام اور یوکرائن میں بھی یہ سامراج خواہش کے باوجود مداخلت نہیں کر سکا جو اس کی کمزوری کا ثبوت ہیں۔ پاکستانی ریاست کے مختلف دھڑوں کی لڑائی میں امریکہ کی فیصلہ کن مداخلت کے نہ ہونے کے علاوہ سعودی عرب کا سامراجی کردار بھی پھیلتا جا رہا ہے۔ مصر، شام اور عراق کے واقعات سے خوفزدہ سعودی حکمران بھی موجودہ حکمرانوں کو اپنی کٹھ پتلی کے طور پر چلانے کے خواہشمند ہیں۔ لیکن ریاست کے دیگر دھڑوں کی ناراضگی رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے میں فوجی مارشل لاء کے امکانات کو بار بار بحث میں لا کر جمہوریت کے خاتمے کا خوف ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فوج پہلے ہی جمہوری حکومتوں میں ہمیشہ زیادہ مال کماتی رہی ہے اور اس وقت بھی بحیثیت ایک ادارے کے اس میں شدید انتشار موجود ہے جس کی وجہ سے براہ راست اقتدار میں آنے میں ہچکچاہٹ موجود ہے۔ اس کے باوجودبھی اگر فوج اقتدار میں آتی ہے تو لوڈ شیڈنگ سمیت ایک بھی مسئلہ حل نہیں کر سکے گی جس کے باعث اس کے خلاف پہلے سے موجود شدید نفرت حقیقی تحریک کوبھڑکانے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسے میں سامراجی بیساکھیوں پر چلنے والی موجودہ حکومت ایک طرف عوام پر معاشی حملے جاری رکھے گی اور دوسری جانب اپنے نحیف اقتدار کو بچانے کے لیے مسلسل ہاتھ پیر بھی مارتی رہے گی۔ عمران خان یا کسی بھی دوسری پارٹی کے اقتدار میں آنے سے مہنگائی، بیروزگاری، لا علاجی اور غربت میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ اس نظام کازوال زندگی کی تکلیفوں کو بڑھاتا رہے گا۔
ایسے میں محنت کشوں کی ایک حقیقی انقلابی تحریک اس بیہودہ سیاست اور لڑکھڑاتی ریاست پر فیصلہ کن حملہ کرے گی۔ اس میں جتنی تاخیر ہو رہی وہ اتنی ہی شدت سے ابھرے گی۔ جب پاکستان کے محنت کش انقلاب کے میدان میں قدم رکھیں گے تو کسی ٹی وی پر، کسی اخبار میں اعلان کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ اسی میڈیا کے خلاف انقلاب برپا ہو گا۔ کوئی بینر نہیں لگے گا اور کسی کنٹینرکا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہر گلی، ہر شہر، ہر فیکٹری، ہر تعلیمی ادارے، ہر کھیت اور کھلیان میں محنت کشوں کی ایک وسیع تعداد اس نظام اور اس کے بنیادی رشتوں کو چیلنج کرے گی۔ محنت کشوں کا حقیقی انقلاب کسی عدالت، کسی پارلیمنٹ، کسی قانون، کسی فوج اور کسی ریاست کے تقدس کا خیال نہیں کرے گا بلکہ ان تمام اداروں کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اس طبقاتی نظام کے خاتمے کی جانب بڑھے گا جو اس اذیت بھری زندگی سے نجات کا واحد رستہ ہے۔ انقلابی پارٹی کی موجودگی سے یہاں ایک ایسا سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جو ایک نئی مزدور ریاست کو قائم کرے جہاں استحصال، غربت، بھوک، بیماری اور جہالت کے الفاظ تاریخ کا حصہ بن جائیں۔

متعلقہ:
جمود کا خلفشار
لانگ مارچ: افلاس سے بے مہر ٹکراؤ!
انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟
انقلاب کے خلاف ’’انقلاب‘‘ کا ڈھونگ
انقلابوں کے سوداگر
سونامی کی ناکامی
ن لیگ کی حکومت: کیا عوام پچھتائیں گے؟