تحریر: احسن جعفری
جسمانی طور پر جدید انسان کو زمین پر زندگی گزارتے تقریباً سوا تین لاکھ سال کا عرصہ ہو نے کو ہے۔ زرعی انقلاب تقریباً دس ہزار سال پہلے وقوع پذیر ہوا اور سائنسی دریافتوں اور ایجادات کے ساتھ سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب اٹھارہویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ جس کا تسلسل آج انسان کو زمین کی طنابیں توڑ کر خلاؤں کی خاک چھاننے کے قابل بنا چکا ہے۔ ایک طرف جہاں سائنس اور تکنیک کی ترقی نے زندگی کو سہل بنایا وہیں دوسری طرف سرمائے کی ہوس نے وحشت اور بربریت کی تمام حدیں توڑ دیں۔ لیکن آج سرمائے کی ہوس صرف انسانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے کرہ ارض کی حیات کے لئے خطرے کا سبب بن چکی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں آج اس نہج تک پہنچ چکی ہیں کہ اگر جلد ان کو روکا نہ گیا تو زمین سے بڑے پیمانے پہ زندگی کا خاتمہ ہو نے کا خطرہ ہے۔
اگر زمین کی عمر 24 گھنٹے فرض کی جائے تو انسان کو زمین پر نمودار ہوئے دو منٹ سے بھی کم عرصہ ہوا ہے اور سرمایہ داری کو چند سیکنڈ سے بھی کم۔ لیکن اس انتہائی قلیل عرصے میں سرمایہ داری نے زمین کے وسائل کی بے تحاشہ لوٹ مار کی ہے اور اس کی خوبصورتی کو اجاڑ کے رکھ دیا ہے۔ منافع اور شرحِ منافع کی ہوس زمین کو بھیڑیوں کی طرح بھنبھوڑ رہی ہے۔ جنگلوں کی کٹائی سے لے کے کاربن کے بیشمار اخراج تک، تازہ پانیوں کے بے دریغ استعمال سے لے کے گہرے سمندروں میں ہونے والے بے تحاشہ شکار تک، معدنیات کو زمین کی تہوں سے نکال کے سرمائے کی بھٹیوں میں جلانے تک… دریاؤں، فضاؤں، وادیوں، جنگلوں، پہاڑوں اور بیابانوں کو تاراج کیا جا رہا ہے۔
زمین پر ماحولیاتی نظام (Ecosystem) میں جاندار ایک کمیونٹی کی طرز پر ایک دوسرے سے بے جا ن اجسام کے ذریعے سے جڑے ہوتے ہیں جس میں غذائی چکر اور توانائی کا تبادلہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ توانائی پودوں میں فوٹو سنتھیسز کے عمل سے داخل ہوتی ہے اور غذائی چکر کے ذریعے مادہ اور توانائی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے رہتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ ہر گزرتا دن حالات کی سنگینی میں اضافہ کر رہا ہے لیکن سرمائے کی زنجیروں میں جکڑی سائنس کے پاس ان مسائل کا حل نہ تھا نہ ہو سکتا ہے۔ جب سائنسی تحقیق اور جدید تکنیک کی ایجاد کا مقصد صرف اور صرف منافعے کا حصول ہو تو انسانیت کی بھلائی دیوانے کا خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ پیرس معاہدہ، جو 15 دسمبر 2015ء کو ہوا اور اب تک 195ممالک اس پر دستخط کرچکے ہیں، کے مطابق زمین کے درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ بڑھنے نہیں دینا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے سرخیل امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے الگ ہونے کا عندیہ دے دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات سرمایہ داروں کے مفاد میں نہیں جن سے کسی بھی طرح ان کے منافعوں پر ضرب پڑتی ہو۔
ماحولیاتی تبدیلی میں جو عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں ان میں زمین، ہوا اور پانی کی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، حیاتیاتی تنوع میں تبدیلی، گلوبل وارمنگ، کاربن کا اخراج، اوزون کی تہہ میں کمی، کان کنی، ایٹمی تابکاری، تیزابی بارش، زرعی ادویات، شور اور روشنی کی آلودگی اور ہسپتالوں کا فضلہ شامل ہے۔
کسی بھی مادے یا توانائی کا ماحول میں اتنی تیزی داخل ہونا کہ اسے گلنے اور ماحول میں جذب ہونے کا پورا موقع نہ مل سکے یا وہ کسی ایسی شکل میں تبدیل نہ ہو پائے جو کہ نقصان دہ نہ ہو‘ آلودگی کہلائے گا۔ مثال کے طور پر پلاسٹک ماحول کے لئے اس لئے نقصان دہ ہے کیونکہ اسے ماحول میں جذب ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔ جتنے وقت میں پلاسٹک گل سڑ کر تحلیل ہوتا ہے اتنے وقت میں اور بہت سا پلاسٹک ماحول میں شامل ہو چکا ہوتا ہے۔ پلاسٹک کی نوعیت کے حساب سے مختلف قسم کے پلاسٹک کو قریباً 10 سے 1000 سال تک ماحول میں جذب ہونے میں لگ سکتے ہیں۔ آلودگی قدرتی بھی ہوسکتی ہے جیسے جنگل کی آگ یا آتش فشانی۔ لیکن آج کل آلودگی سے مراد وہ عوامل ہیں جو براہ راست انسانی مداخلت کا نتیجہ ہوں۔ آلودگی قدیم سماجوں میں بھی پائی جاتی تھی لیکن اس کا ماحول پر اثر اتنا تیز اور وسیع نہیں تھا جتنا کہ سرمایہ دارانہ انقلاب کے بعد کے دور میں ہے۔ زمین کی آلودگی میں سب سے خطرناک صنعتی فضلہ ہے جو خطرناک کیمیائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے بغیر صاف کیے پھینک دیا جاتا ہے۔ فضلہ جس جگہ زیادہ دیر پڑا رہے وہاں میتھین گیس کا اخراج شروع ہو جاتا ہے جو صحت کے لئے خطرناک ہے۔ سرمایہ دار ایسے تمام اخراجات غیرضروری سمجھتے ہیں جو براہِ راست ان کے منافعوں میں کمی کا باعث ہوتے ہیں۔ یوں چند سرمایہ دار یا ایک اقلیتی استحصالی طبقہ اپنے منافعوں کے لئے پوری نسلِ انسان کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔
ہوائی آلودگی کا سبب صنعتوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں، گاڑیوں اور جہازوں کا دھواں اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر وغیرہ ہیں۔ ان تمام سے خطرناک گیسیں (سلفرڈائی آکسائید، نائٹروجن ڈائی آکسائید، اوزون گیس اور کاربن مونو آکسائید)، دھات اور مائع کے چھوٹے ذرات(جو دس مائیکرو میٹر سے چھوٹے ہوں) اور سیسہ ہوا میں شامل ہو جاتا ہیں۔ سلفر آکسائید ہوا میں بڑھنے کی وجہ سے ’’لندن سموگ‘‘ جبکہ نائٹروجن آکسائید بڑھنے کی وجہ سے ’’لاس اینجلس سموگ‘‘ پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے اور بڑے صنعتی شہروں میں سموگ کا پھیلنا معمول بنتا جا رہا ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں شہری علاقوں کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے لیکن صاف اور گرین توانائی کو گاڑیوں میں استعمال نہیں کیا جا رہا کیونکہ ایک طرف جہاں تیل کی فروخت سے اربوں ڈالر کے منافعے وابستہ ہیں وہیں تیل کی صنعت میں سرمایہ کاری اتنے بڑے پیمانے پر کی جاچکی ہے کہ اسے وقت سے پہلے واپس نکالنا سرمایہ داری کے مفاد میں نہیں ہے۔ سال 2017ء میں تیل، گیس اور کوئلے کی صنعت میں کی جانے والی سرمایہ کاری 795 ارب ڈالر رہی اور 10 بڑی کمپنیوں کا کاروباری حجم 2800ارب ڈالر سے زیادہ رہا۔ ہتھیار جہاں انسانوں کی فوری بربادی کا سبب بنتے ہیں وہیں ان کی تیاری، ٹیسٹنگ، تربیت اور پھر جنگوں میں استعمال بھی ہوائی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
پانی کی آلودگی کی بھی سب سے بڑی وجہ صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ ہے جسے بغیر صفائی کے ندی نالوں اور دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کے ٹکڑے، بوتلیں اور دوسری پلاسٹک کی بنی اشیا بھی پانی کی آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ پولیسٹر کا ریشہ بھی پانی کی آلودگی کی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ صفائی کے لئے استعمال ہونے والے مختلف قسم کے کیمیکل ہیں جو پانی میں شامل ہوکر اس کو زہریلا کردیتے ہیں۔ کپڑے کی صنعت بھی پانی کی آلودگی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ کپڑا بننے اور رنگنے کے عمل میں انتہائی خطرناک کیمیائی مادے ماحول میں چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ یہاں بھی سرمایہ دار منافع کی ہوس میں ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے۔ آلودگی قابلِ استعمال پانی کے ذخائر میں مسلسل کمی کا باعث بن رہی ہے اور ماحول کو مطلوبہ پانی دستیاب نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے انسان، جانور اور پودوں سب کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ سمندروں میں شامل ہونے والا تیزابی پانی سمندری حیات اور کورل ریفز کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔
صنعت اور ٹرانسپورٹ کا شور بھی انسانوں اور جانوروں کے لئے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ مسلسل شور میں رہنے کی وجہ سے انسانوں میں بلند فشارِ خون (ہائی بلڈ پریشر)، اعصابی تناؤ، چڑچڑا پن، قوتِ سماعت کی کمی، نیند کی کمی اور کئی طرح کے دوسرے نفسیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں جو آج عام نظر آتے ہیں۔ کام کی جگہ پر شور کی وجہ سے قوتِ سماعت میں کمی ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ مہنگی تیز رفتار کاروں اور بھاری بھرکم موٹر سائیکلوں کے انجنوں کی آوازوں کو عام گاڑیوں سے ممتاز کرنے کے لئے بھی بلند رکھا جاتا ہے۔
رات کے وقت مصنوعی روشنیوں کا استعمال انسانوں کو بہت سے کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن یہ مصنوعی روشنی حد سے تجاوز کر جائے تو رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔ دن کے وقت دھواں اور رات کے وقت آسمان پر روشنی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ بڑے شہروں میں رہنے والے لوگوں نے شفاف نیلا آسمان اور چمکدار ستارے شاید ہی کبھی دیکھے ہوں گے۔ حد سے زیادہ مصنوعی روشنیوں کا استعمال بڑے صنعتی شہروں میں عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ شہروں میں روز مرہ کی زندگی کا آغاز دیر سے ہوتا ہے اور رات دیر تک جاگنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ دیر تک جاگنے کی وجہ سے دیر تک مصنوعی روشنی کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ دفتروں میں دیر تک کام یا شفٹوں میں مسلسل کام کا کلچر بھی بڑے شہروں کا خاصہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شہروں میں بڑے بڑے اشتہاری بورڈ ہوتے ہیں جو کبھی چند لائٹوں پر مشتمل ہوتے تھے لیکن آج ان کی روشنیاں آنکھوں کو چندھیا دیتی ہیں۔ بے تحاشہ مصنوعی روشنیوں کے استعمال کا مطلب اتنی ہی مقدار میں توانائی کا استعمال ہے۔ تیز روشنیوں میں دیکھنے سے بصارت متاثر ہونے کے خطرات بھی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلسل سر درد، ذہنی تناؤ، جنسی عمل میں کمی اور بلاوجہ کی ذہنی پریشانی بھی روشنی کی آلودگی سے جنم لے سکتی ہے۔ روشنی کی آلودگی سے دوسرے جانداروں کی قدرتی روٹین بھی متاثر ہوتی ہے۔ بہت سے جانور اندھیرے میں باہر نکل کر غذا ڈھونڈتے ہیں یا پھر روشنی کے زاویوں کی مدد سے آنے جانے کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ اگر روشنی کا منبع تبدیل ہو جائے یا زاویہ بدل جائے توہجرت کرتے پرندوں کو پریشانی ہو سکتی ہے۔
سال 2000ء سے 2012ء تک 23 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے جنگلات کو کاٹ دیا گیا ہے۔ ایک کروڑ 60 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے جنگلات، جو زمین کے رقبے کا 30 فیصد ہے اور کبھی زمین کا حسن تھے، میں سے اب صرف 62 لاکھ مربع کلومیٹر کے جنگلات باقی بچے ہیں اور وہ بھی تیزی سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ہر ایک منٹ میں ایمیزون رین فاریسٹ کے ایک فٹبال گراؤنڈ کے برابر رقبے سے جنگلات کی کٹائی کی جارہی ہے۔ یہ جنگل پوری دنیا کی آکسیجن کا 20 فیصد پیدا کرتا ہے۔ اگر اسی رفتار سے جنگلات کی کٹائی جاری رہی تواگلے 100 سال سے بھی کم عرصے میں زمین سے تمام رین فاریسٹ کا خاتمہ ہو جائیگا۔ درخت گرین ہاؤس گیسوں کو جذب کرتے ہیں اور تیزی سے درختوں کی کٹائی گلوبل وارمنگ میں اضافے کا باعث ہے۔ جنگلات جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے میں مددگار ہیں وہیں پر جنگلات خشکی پر بسنے والے 80 فیصد جانوروں اور پودوں کی رہائش گاہ ہیں۔ جنگلات کی کٹائی حیاتیاتی تنوع میں تبدیلی کا باعث ہے۔ سالانہ 4000 سے 6000 جانداروں کی نسلیں جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے معدوم ہو رہی ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کی وجوہات میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا بننا، کاغذ اور فرنیچر کی صنعت، پام آئل کی پیداوار اور جانوروں کی فارمنگ شامل ہیں۔
کسی بھی عمل میں کاربن ڈائی آکسائید گیس کا اخراج اس کا ’’کاربن فٹ پرنٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ معدنی تیل کے جلنے میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائید گیس خارج ہوتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ کاربن کا اخراج کرنیوالا ملک چین ہے جس کا اخراج پوری دنیا کا 29.5 فیصد بنتا ہے۔ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جو چین کے آدھے سے بھی کم کاربن خارج کر رہا ہے۔ دس بڑے کاربن کا اخراج کرنیوالے ممالک مل کر پوری دنیا کا 67.6 فیصد کاربن خارج کرتے ہیں۔ کاربن کا اخراج گلوبل وارمنگ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائید چونکہ گرین ہاؤس گیس ہے اس لئے وہ سورج کی تپش کو روک کر واپس خلا میں جانے نہیں دیتی اور زمین کی سطح کا درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے۔ درجہ حرات بڑھنے سے سمندروں کی کاربن کو جذب کرنے کی سکت کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت مزید بڑھتا ہے اور یہ عمل مسلسل شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ کاربن کا اخراج تیزابی بارش کا باعث بھی ہے جو انسانوں، پودوں اور جانوروں سب کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔
اوزون گیس سطح زمین سے 15 سے 30 کلومیٹر اوپر قدرتی طور پر ایک ڈھال کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ بی مضر شعاعوں کو روکتی ہے۔ ایسی آلودگی جس میں کلورین اور برومین شامل ہو‘ اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنتی ہے۔ الٹرا وائلٹ بی شعاعیں زمین پر انسانوں میں جلد کے کینسر اور آنکھوں کے موتیا کا سبب بنتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ جانوروں کے لئے بھی نقصان دہ ہو تی ہیں۔ الٹرا وائلٹ بی شعاعیں یک خلوی جانداروں جیسی الجی کے تولیدی عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ الجی، جو غذائی کڑی میں سب سی نچلے درجے پر آتی ہے، کی تولید میں کمی دوسرے جانوروں کی آبادی میں کمی کا باعث ہوگی۔ جہاں الٹرا وائلٹ بی شعاعیں زیادہ پائی گئی ہیں وہاں مچھلیوں اور مینڈکوں کی تولید میں بھی کمی ہوئی ہے۔ اوزون کہ تہہ کو سب سے زیادہ نقصان ’’CFCs‘‘ یعنی کلورو فلوروکاربن پہنچاتے ہیں۔ جب یہ زمین کی اوپری سطح پر پہنچتے ہیں تو الٹرا وائلٹ کی وجہ سے ٹوٹ جاتے ہیں اور کلورین خارج کرتے ہیں۔ کلورین آکسیجن کے ساتھ عمل کرکے اوزون کے مالیکیول توڑ دیتی ہے۔ کلورین کا ایک ایٹم اوزون کے ایک لاکھ مالیکیولوں کو توڑ دیتا ہے۔ ماحول میں موجود 90 فیصدکلورو فلورو کاربن امریکہ اور یورپ کے صنعتی ملکوں کی وجہ سے ہیں۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں ان مادوں پر پابندی کے عالمی معاہدوں کے تحت اوزون کے نقصان میں کمی ہوئی ہے اور تازہ جائزوں کے مطابق اوزون کی تہہ میں پڑنے والے وسیع شگاف اب دوبارہ بھر رہے ہیں۔ لیکن شگاف بھرنے کا یہ عمل اگلے سو سال میں کہیں جا کے مکمل ہو گا۔ علاوہ ازیں ان مادوں کے اخراج سے ہٹ کے بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ گلوبل وارمنگ سے اوزون کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا انتہائی موثر شکلوں میں بھی ایسی پابندیوں اور معاہدوں کی اپنی حدود و قیود ہیں۔
کان کنی کی وجہ سے ماحول کو ہونے والے نقصانات میں سنک ہول (زمین کا ایک گول سوراخ کی شکل میں منہدم ہو جانا)، حیاتیاتی تنوع میں تبدیلی، زیرِ زمین اور زمین کی سطح کے اوپر پانی کی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔ کان کنی میں ملوث کمپنیاں خطرناک کیمیائی مادے استعمال کرتی ہیں جنہیں قرب و جوار کے ماحول میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی منافعوں کی ہوس انسان اور دھرتی‘ دونوں کے لئے خطرے کا سبب بنتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض دفعہ کان کنی زیرِ زمین پانی کی سطح سے بھی نیچے جا کر کی جاتی ہے اور اس دوران کانوں میں پانی بھر جانے کے خطرے کے پیش نظر مسلسل پانی باہر نکالا جاتا رہتا ہے۔ اس دوران اس پانی کے ساتھ دھات یا اس عنصر کے باریک ذرات جس کی کان ہو باہر ماحول میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔ پھر جب یہ کانیں متروک ہو جاتی ہیں تو انہیں باقاعدہ پتھروں سے بھرنے کے بجائے خالی چھوڑ دیا جاتا ہے اور دوبارہ ان میں پانی بھرنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ پانی زیرِ زمین رستا ہوا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے اور جہاں جہاں پہنچتا ہے وہاں وہاں زیرِ زمین پانی کو آلودہ کرتا جاتا ہے۔
ایٹمی تابکاری انسانوں اور جانوروں پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب کرتی ہے اور کینسر اور پیدائشی نقائص کا باعث بنتی ہے۔ ایٹمی تابکاری پودوں کے تولیدی ٹشوز کو بھی متاثر کرتی ہے اور پودے دو سے تین سال تک بھی تولیدی صلاحیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایٹمی پلانٹ کی تنصیب کے دوران کثیر مقدار میں کاربن ڈائی آکسائید گیس خارج ہوتی ہے اور پلانٹ کو چلانے کے دوران اسے ٹھنڈا رکھنے کے لئے بہت بڑی مقدار میں پانی استعمال کیا جاتا ہے جو قریبی پانی کے ذخیرے (دریا یا جھیل) سے لیا جاتا ہے اور پھر گرم پا نی واپس اس ذخیرے میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ پانی انتہائی گرم ہوتا ہے جو وہاں پہلے سے موجود آبی حیات کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔ ایٹمی فضلہ انتہائی ریڈیو ایکٹو ہوتا ہے جسے مناسب طریقے سے تلف کرنا ضروری ہے۔ اس دوران ذرا سی بے احتیاطی بہت خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ایٹمی فضلے کو تلف کرنے والے ورکر خاص قسم کا لباس پہنتے ہیں اور اس لباس پر بھی اثرات کئی سالوں تک باقی رہتے ہیں۔ اس کے علاہ ہتھیاروں کی دوڑ میں آگے سے آگے جانے کا جنون ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں تیزی لانے کا باعث بن رہا ہے۔ اس وقت تقریباً 14000 سے زائد ایٹمی ہتھیار دنیا بھر میں موجود ہیں جو کرہ ارض کو کئی بار تباہ کر سکتے ہیں۔
زرعی ادویات جن کیڑوں اور جڑی بوٹیوں کے خاتمے کے لئے بنائی جاتی ہیں ان کا اثر صرف وہیں تک محدود نہیں رہتابلکہ پانی اور ہوا کی وجہ سے یہ اثر بہت آگے تک چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی ادویات کے اثرات میں جانوروں کے انڈوں کے خول کی کمزوری، پرندوں اور مچھلیوں میں تھائی رائیڈ کا پرابلم، جنگلات میں رہنے والے حشرات کی آبادی میں کمی، فقاریہ جانوروں کے قوتِ مدافعت میں کمی، انسانوں اور چوہوں میں نظامِ تنفس ، قلبی نظام اور قوتِ مدافعت پر مضر اثرات شامل ہیں۔ زرعی ادویات کا بے تحاشہ استعمال زمین کے ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ بعض زرعی ادویات کا زمین پر اثر دہائیوں تک رہتا ہے۔ نائٹروجن کی کمی بھی زرعی ادویات کے استعمال کا نتیجہ ہو سکتی ہے جو کہ پیداوار میں کمی کا سبب بنتی ہے۔ زرعی ادویات کا سب سے خطرناک اثر شہد کی مکھیوں پر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی ہو رہی ہے جو پودوں میں زیرگی (Pollination) کی کمی کا بہت بڑا سبب ہے۔ شہد کی مکھیوں کی آبادی میں 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ زرعی ادویات کے اثرات سے صرف امریکہ میں7 کروڑ سے زائد پرندوں کی اموات سالانہ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں 10 مختلف قسم کے پرندوں کی آبادی میں ایک کروڑ پرندوں کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ زرعی ادویات سے آلودہ پانی جب واپس دریاؤں اور جھیلوں میں پہنچتا ہے تو آبی حیات کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔
اوپر بیان کیے گئے ماحولیاتی مسائل، جو کرہ ارض پر انسانوں سمیت ساری حیات کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں، کے کئی طرح کے حل پیش کیے جاتے ہیں لیکن ان میں بالعموم دو طرح کے نقطہ نظر دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے وہ لوگ جو ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو‘‘ کی عملی تفسیر ہوتے ہیں اور سارے سماجی ارتقا کا پہیہ ہی واپس گھمانا چاہتے ہیں۔ ان میں بہت سے انارکسٹ رجحانات کے لوگ بھی شامل ہیں جو سرمایہ داری مخالف تو ہیں لیکن یوٹوپیائی سوچ کے تحت انسان کو قبل از سرمایہ داری کے ’’غیر طبقاتی‘‘ سماجوں میں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر خیال پرستانہ اور رجعتی سوچ ہے۔ دوسری طرف وہ ہیں جو سائنسی پیش رفتوں کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن سرمایہ داری کی کاسہ لیسی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ یہ رجحان بھی ظاہر ہے کھلی رجعت پرستی پر مبنی ہے۔ مسئلہ جدید تکنیک اور صنعت کا نہیں بلکہ ان کے استعمال کے پیچھے کارفرما مقاصد کا ہے۔ انسانی تہذیب آج دوراہے پہ کھڑی ہے۔ آج وہ تکنیک اور ذرائع پیداوار موجود ہیں جن کے ذریعے ماحول کو برباد کیے بغیر بھی اشیائے ضرورت کی بہتات پیدا کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے نہ صرف سارا سماجی و معاشی نظام یکسر بدلنا پڑے گا بلکہ مادی انفراسٹرکچر میں بھی بڑے پیمانے کی اکھاڑ پچھاڑ کرنی پڑے گی۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس بڑے پیمانے پر صنعت اور زراعت کے طریقوں میں تبدیلی، صاف ستھری توانائی کی پیداوار اور شہروں کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے وہ منڈی کی اندھی قوتوں کے تحت ناممکن ہے۔ ان تمام مسائل کا حل ایک عالمگیر سوشلسٹ (منصوبہ بند) معیشت میں ہی ممکن ہے جہاں ہر طرح کی انسانی سرگرمی انسانوں کی بھلائی اور ماحول کی خوبصورتی کے لئے ہو گی۔