| تحریر: لال خان |
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر اور سربراہ کرسٹین لیگارڈ کے دورہ پاکستان کے دوران یہاں کے حکمرانوں کی ایسی کاسہ لیسی نظر آئی جو کسی بڑی ریاست کے سربراہ کے دورے میں بھی نظر نہیں آتی۔ عوام پر دن رات ظلم و استحصال کے پہاڑ توڑنے والے یہ حکمران اس سامراجی مالیاتی ادارے کی سربراہ کے سامنے اتنے مطیع اور تابعدار بن کر پیش ہوئے کہ محسوس ہو رہا تھا کوئی عورت نہیں مقدروں کے فیصلے کرنے والی دیوی آئی ہے۔ صرف نواز لیگ ہی نہیں، دولت کی اس مسلط کردہ سیاست کا ہر نمائندہ اس کے آگے بچھا جا رہا تھا۔
کرسٹین لیگارڈ فرانس کی ایک کٹر دائیں بازو کی سیاستدان ہے۔ وہ دائیں بازو کے دو فرانسیسی صدور جیک شیراک اور نکولس سرکوزی کی حکومتوں میں وزیر خزانہ، وزیر تجارت، وزیر صنعت اور وزیر زراعت کے عہدوں پر فائز رہی ہے۔عوام دشمن نیو لبرل معاشی پالیسیوں کی علمبردار ہونے کی وجہ سے فرانس کے محنت کش اس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ فرانسیسی عوام میں وہ ’’دھنوانوں (پیسے والوں) کی ڈائن‘‘ کے حقارت آمیز لقب سے مشہور ہے۔ لیکن یہاں کے سیاسی ’رہنما‘، ریاستی اہلکار اور کارپوریٹ میڈیا والے اس کی ہر بات کو ایسے اہمیت دے رہے تھے اور یوں اجاگر کر رہے تھے جیسے کوئی آسمانی حکم نامہ اترا ہو۔
یہ سامراجی حکمران بڑے چالباز اور وارداتی ہوتے ہیں۔ کرسٹین نے جہاں پاکستانی معیشت کی ’ترقی‘ کی تعریف کی وہاں اس نام نہاد اپوزیشن کو خوش کرنے کے لئے ’شفافیت‘، ’احتساب‘ اور پاناما لیکس کی بھی بات کی۔ ’کرپشن کے خاتمے‘ پر بھی زور دیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے حکمرانوں کو اپنے اپنے ’پوائنٹس‘ مل گئے۔ میڈیا میں حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے اینکر اور تجزیہ نگار اپنے اپنے ’کلائنٹس‘ کے لئے شور شرابا کرتے رہے جس کا نہ تو کوئی آغاز ہے اور نہ کوئی انجام۔
لیکن اگر ہم آئی ایم ایف کے اپنے کردار کا جائزہ لیں تو اس کی شفافیت اور احتساب کی صورتحال شاید پاکستان سے بھی نازک ملے گی۔آئی ایم ایف کی بنیاد دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر 1944ء میں سامراجیوں نے ’بریٹن وڈز‘ معاہدے کے تحت میری لینڈ واشنگٹن (امریکہ) میں ڈالی تھی۔اس کے تحت جو پالیسیاں استوار کی گئیں ان کا مقصد سامراجی استحصال کو منظم، فعال اور وسیع کرنا تھا۔ ایک طرف طبقاتی بنیادوں پر اور دوسری جانب غریب ممالک میں لوٹ مار کو فروغ دینے کے لئے۔ اس ادارے نے پہلے مالیاتی طور پر امیر سامراجی ممالک کے پیسوں سے ایک فنڈ تشکیل دیا۔ اُس وقت اس فنڈ میں اربوں ڈالر اکٹھے کئے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سابق نوآبادیاتی ممالک میں پسماندہ سرمایہ داری کے اقتدار وہاں کے مقامی حکمرانوں کو اس وقت ملے جب عالمی معیشت پر سامراجی اجارہ داریوں کا مالیاتی، تکنیکی اور صنعتی غلبہ قائم ہو چکا تھا۔اس سے بہت پہلے 19ویں صدی میں کارل مارکس اور 20ویں کے آغاز میں لینن نے وضاحت کی تھی سرمایہ داری سامراجیت کے جس مرحلے میں داخل ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے اس میں پسماندہ ممالک معاشی خودمختیاری اور سیاسی و سفارتی آزادی (سرمایہ دارانہ بنیادوں پر) کبھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ یوں براہ راست نوآبادیاتی اقتدار ختم ہونے کے بعد سامراجی جبر و استحصال کم ہونے کی بجائے کہیں زیادہ شدید، گہری اور ظالمانہ شکل اختیار کر گیا۔ اس سارے کھلواڑ میں آئی ایم ایف کا کردار کلیدی تھا۔ پہلے تجارتی واردات اس طرح کی ترتیب دی گئی کہ غیر ترقی یافتہ ممالک کو مخصوص اشیا کی پیداوار اور برآمدات تک محدود کر دیا گیا۔اس سے ترقی یافتہ ممالک کو سستا خام مال میسر آیا لیکن دوسری طرف پسماندہ ممالک کے کسان غذائی اجناس کی بجائے ’کیش کراپس‘ کاشت کرنے پر مجبور ہو گئے اور یوں خود غذائی ضروریات سے محروم ہوتے چلے گئے۔ اسی طرح تجارت پر سامراجی اجارہ داری نے عالمی منڈی میں غریب ممالک کی معیشتوں کو کچل کر رکھ دیا۔ قرضوں کے چکر میں ان ممالک کو ایسا جکڑا گیا کہ آج تک نہیں نکل پائے۔ قرضوں کی شرائط تلخ تر ہی ہوتی جاتی ہیں اور آئی ایم ایف کی سب سے بنیادی شرط نجکاری ہوتی ہے جس کے تحت بنیادی عوامی ضروریات کے اداروں کو بھی سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
کرسٹین لیگارڈ اس وقت آئی ایم ایف کی سربراہ بنی جب عالمی سرمایہ داری زوال کی گہری کھائی میں گر رہی تھی۔ 2008ء میں مالیاتی کریش سے شروع ہونے والا عالمگیر معاشی بحران جولائی 2011ء تک، جب کرسٹین آئی ایم ایف کی سربراہ بنی، کہیں زیادہ شدت اختیار کر چکا تھا۔ معیشت کا توازن بگڑ چکا تھا اور سرمایہ داروں کی شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے دنیا بھر میں محنت کشوں پر وحشت ناک معاشی و اقتصادی جبر درکار تھا۔ ایسے میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں سے بحران کی شدت میں بھی سامراجی اجارہ داریوں اور سرمایہ داروں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا جب کہ عام انسانوں کی زندگی اذیت ناک بنتی چلی گئی۔ بحران میں پاکستان جیسی نحیف معیشتوں کو مزید قرضوں کا سہارا لینا پڑا جس سے آئی ایم ایف کے خونی پنجوں کی گرفت زیادہ گہری ہوئی ہے۔ قرضے نہ لینے کی صورت میں معیشت دیوالیہ ہوتی ہے اور لینے کی صورت میں ان کی ادائیگی، سود اور شرائط عوام کا بچا کھچا خون بھی نچوڑ لیتی ہیں۔ حکمرانوں کو کیا فرق پڑتا ہے؟ قرضے کا ایک ایک ڈالر آخر کار عوام نے ہی چکانا ہوتا ہے۔ شرائط میں صحت اور تعلیم کے پہلے سے برائے نام بجٹ میں جو مزید کٹوتیاں آتی ہیں،قرضوں کی واپسی کے لئے نئے ٹیکس لگا کر جو مہنگائی کی جاتی ہے، سرکاری شعبوں میں جو نوکریاں ختم کی جاتی ہیں اور جو نجکاری ہوتی ہے، یہ سارے گھاؤ بھی محنت کش عوام کو ہی سہنے پڑتے ہیں۔ کرسٹین کی ’شاباش‘سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس معیشت کا کردار محنت کش طبقے کے لئے کس قدر گھناؤنا اور وحشی ہے۔جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو آف شور کمپنیاں آئی ایم ایف کے علم اور ترغیب کے بغیر نہیں بن سکتیں اور نہ ہی ٹیکس ہیونز کی تجوریاں اس کی مرضی و منشا کے بغیر بھری جا سکتی ہیں۔
آج مسلم لیگوں سے لے کر پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت تک، ایم کیو ایم سے لے جماعت اسلامی تک اور اے این پی سے تحریک انصاف تک… سرمائے کی اس سیاست کی ہر پارٹی ’’ترقی‘‘ کا ایک ہی نسخہ پیش کرتی ہے: براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI)۔ بیرونی سرمایہ کاری کی یہ ساری واردات بھی آئی ایم ایف ہی منظم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سارے حکمران کرسٹین کے سامنے یوں گردنیں جھکائے ہوئے تھے جیسے لکشمی دیوی ہو۔ لیکن پاکستان اور دنیا بھر کے محنت کش عوام کے لئے وہ خون پینے والی کالی دیوی ہے۔
آئی ایم ایف کے پروردہ یہ بدعنوان، رجعتی اور نااہل حکمران طبقات ان سامراجی مالیاتی اداروں کی ایجنٹی ہی کر سکتے ہیں۔ وہ خود معیشت اور صنعت کو ترقی دے کر کوئی بہتری نہیں لا سکتے۔ اس نظام میں تاریخی طور پر اتنی سکت ہی نہیں ہے۔ اس لئے ان لٹیروں کو اپنی لوٹ مار کی واردات جاری رکھنے کے لئے آئی ایم ایف کی دلالی کرنی پڑتی ہے۔
کرسٹین لیگارڈ پاکستان کے دورے پر ایسے آئی ہے جیسے برطانوی راج کے دور میں ملکہ وکٹوریہ نے برصغیر کا دورہ کیا تھا۔ یہ ’آزادی‘ کی سات دہائیوں کی کل حقیقت ہے۔ یہاں کے حکمران طبقات اس وقت بھی دلال، کمیشن ایجنٹ اور غلام تھے۔ آج بھی ان کا یہی کردار ہے۔ جب تک یہ نظام رہے گا سامراج اور آئی ایم ایف جیسے اس کے ذیلی اداروں کی جکڑ بڑھے گی، کم نہیں ہو گی۔ لیکن یہاں کے محنت کش جو ساری دولت پیدا کر کے بھی محرومی میں غرق ہیں یہ غلامی ان کا مقدر نہیں۔ مارکس کے الفاظ میں ان کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور پانے کو سارا جہاں پڑا ہے۔
متعلقہ:
بیرونی سرمایہ کاری، تریاق یا زہر؟