چین: معاشی زلزلہ دور نہیں!

| تحریر: راشد خالد |

چینی اسٹاک ایکسچینج اس وقت شدید ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔پچھلے تین ہفتوں میں شنگھائی اور شینزن کی سٹاک مارکیٹوں میں بالترتیب 32 اور 40 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں 1400 کمپنیوں، جو کل رجسٹرڈ کمپنیوں کا نصف ہیں، کو مزید نقصان سے بچنے کے لئے اپنے شیئرز کی مزید تجارت روکنا پڑی۔چینی ریاست کی کوششوں کے باوجود اسٹاک ایکسچینج کی گراوٹ میں کمی نہیں آئی اور 27 جولائی کو صرف ایک ہی دن میں 8.5 فیصد کی گراوٹ دیکھنے میں آئی جو 2007ء کے بعد سب سے تیز تر تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس گراوٹ کے نتیجے میں مجموعی طور پر 4 ہزار ارب ڈالر اب تک ڈوب چکا ہے۔
2015-07-11-China-Greece-Australia-flow-600عالمی سرمایہ داری 2008ء سے شدید بحران میں گھری ہوئی ہے، جس کے بعد بورژوا معیشت دان اور دانشور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو دنیا کے سامنے سرمایہ داری کی ناؤ کو پار لگانے والی طاقت قرار دے رہے تھے۔ سرمایہ داری کے تضادات اور ان تضادات کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے کا ان کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ مصنوعی بحالی اور معاشی نمو کے لئے امریکہ اور یورپ میں ریاستیں معیشت میں سرمایہ انجیکٹ کر نے کی پالیسی اختیار کر کے بھی دیکھ چکی ہیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ جوں کا توں ہے۔ سرمایہ داری کا بحران زائد پیداواریت کا بحران ہے، جس کی وجہ سے پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی کیونکہ سرمایہ داروں کو ان شعبوں میں شرح منافع نظر نہیں آ رہی، اسی وجہ سے غیر پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھتا اور مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ امریکی ریاست نے سرمایہ کاری اور منڈی میں طلب کو بڑھانے کے لئے مقداری آسانی (QE) کا جو پروگرام چھ سال تک جاری رکھا وہ بھی معیشت میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں لا سکا بلکہ اس کے ذریعے حاصل کیا جانے والا سرمایہ بڑی کمپنیاں اسٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی کی سٹہ بازی میں پھینکتی رہیں۔
چینی معیشت تمام تر ریاستی کنٹرول کے باوجود ایک سرمایہ دارانہ معیشت ہے اور سرمایہ داری کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا ایک منڈی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس میں کسی بھی ایک ملک کی معیشت باقی دنیا سے کٹی ہوئی نہیں ہے۔ جن خام خیالیوں کا اظہار بورژوا ماہرین کر رہے تھے اس کی بنیاد چینی معیشت کو باقی دنیا سے کاٹ کر دیکھنا تھی، چینی سرمایہ داری کی منڈی چین کے اندر نہیں بلکہ چین سے باہر، بالخصوص ترقی یافتہ مغربی ممالک تھے۔ جب مغربی مارکیٹ سکڑی تو اس کے اثرات ہمیں واضح طور پر چینی معیشت پر پڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بحران سے پہلے اور حتیٰ کہ 2010ء تک (ریاستی سٹیملس کے ذریعے) 10 فیصد کی شرح نمو کے باوجود اس میں گراوٹ ناگزیر تھی اور اس چینی جی ڈی پی کی شرح نمو صرف 7 فیصد سے بھی کم ہونے کا امکان ہے۔ ایک بڑی معیشت میں ہونے والی اعشاریہ ایک فیصد گراوٹ بھی دیوہیکل سماجی اثرات رکھتی ہے اور مزید گراوٹ چینی معیشت کو واقعی تباہی کے دھانے تک پہنچا دے گی۔
چینی حکمران طبقہ بحران سے بچنے کے لئے کچھ ویسے ہی اقدامات کر رہا ہے جیسے مغرب نے کئے ہیں اور جن کا نتیجہ ہم ماضی میں وہاں دیکھ چکے ہیں۔ کچھ ایسا ہی چینی اسٹاک ایکسچینج میں بھی ہوا۔ جون 2014ء میں چینی حکومت نے اسٹاک مارکیٹ کے ضوابط میں کچھ نرمی کرتے ہوئے مارجن ٹریڈنگ کی چھوٹ دیدی، جس کا مطلب تھا کہ آپ قرض کے پیسے سے شیئر ز خرید سکتے ہیں۔ لبرلائزیشن کی یہ پالیسی دیگر سرمایہ دارانہ دنیا کے جیسی ہی تھی، جو کسی بھی صورت اسٹاک مارکیٹ کی گہما گہمی کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ چینی ریاست بھی سٹے بازی کی اس چکا چوند کو ماند نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی، تاکہ وہ بیرونی سرمایہ جو اس کی اسٹاک مارکیٹ میں گردش کرتا ہے اس کے لئے مزید سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے اور مزید سرمائے کو اپنی جانب کھینچا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ داخلی منڈی کو مستحکم کرنے کے لئے بھی بڑے پیمانے پر قرضے دینے کا عمل جاری رکھا تاکہ زائد پیداوار کے اس بحران کو مزید ٹالا جا سکے۔
اس عمل نے اسٹاک مارکیٹ میں سرکاری بینکوں کے سستے قرضوں کی مصنوعی بنیاد پر شدید تیزی کا رجحان پروان چڑھایا اور جون 2014ء سے جون 2015ء تک ایک سال میں 150 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ اسی اثنا میں شرح نمو میں گراوٹ، یعنی حقیقی پیداواری معیشت کی تنزلی کا عمل بھی جاری رہا۔چینی پالیسی ساز سٹاک مارکیٹ کے پھیلتے ہوئے ببل کے خطرات سے آگاہ تھے۔ اس سال جون میں ضوابط میں کچھ سختی لانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔سٹے بازی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ میں خوف کا عنصر غالب آ گیا ، شیئربیچنے کا رجحان بڑھ گیا۔ منڈی کے اندھے اور بے رحم قوانین طلب اور رسد کے تابع ہوتے ہیں اور ہر کسی کی اپنے پاس موجود شیئرز کی فروخت کی خواہش سے رسد بڑھی تو مارکیٹ دھڑام سے گرنے لگی۔ ایسے میں پیسہ نکالنے کے لئے شیئرز بیچنے کا رجحان اور شدت پکڑ گیا اور سٹاک مارکیٹ گرتی ہی چلی گئی۔ تب سے اب تک مارکیٹ کا ایک تہائی حصہ ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں کمپنیوں نے اپنے شیئرز کا کاروبار بند کر دیا۔ اس کے بعد چینی ریاست کی مداخلت کے باوجود مارکیٹ میں کسی بحالی کے امکانات ابھی تک نظر نہیں آ رہے۔
چینی ریاست سرمایہ داری کو اپنے منصوبہ بند انداز میں چلانے کی کوشش کر رہی ہے، مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ سرمائے کو ریاستی پالیسیوں کے تابع نہیں کیا جا سکتا بلکہ سرمایہ داری میں ایک ہی محرک سب سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور وہ سرمایہ خود ہے۔ ابتدائی طور پر ریاست نے مداخلت کرتے ہوئے لوکل گورنمنٹس کو اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا ’’احکامات‘‘ جاری کئے جس کے نتیجے میں پنشنوں کا پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں پہنچ گیا اور پھر 5 جولائی کو سٹیٹ انوسٹمنٹ فنڈ نے بڑے پیمانے پر شیئرز خریدنا شروع کر دئے مگر تمام تر ریاستی اقدامات منڈی میں پھیلے انتشار کو کم نہیں کر سکے، بالآخر ریاستی ادارے چائنا سیکیوریٹیز ریگولیٹری کمیشن (CSRC) نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے یہ ’’حکم‘‘ صادر فرما دیا کہ کوئی بھی فرد جو کسی کمپنی کے 5 فیصد یا اس سے زیادہ شیئرز رکھتا ہے وہ اگلے چھ ماہ تک انہیں فروخت نہیں کر سکتا۔ جس کا نتیجہ واضح ہے کہ کوئی بھی کمپنی چینی اسٹاک مارکیٹ میں مزید تجارت نہیں کر سکتی یعنی عملی طور پر مارکیٹ منجمند ہو چکی ہے۔
آئی ایچ ایس گلوبل انسائٹ کے ایشیائی امور کے چیف اکانومسٹ راجیو بسواس نے کہا ہے کہ ’’حالیہ بحران اس بات کا اظہار ہے کہ بحران کے بعد اسٹاک مارکیٹ کو مستحکم کرنے کی بیجنگ کی کوششیں، جن میں حصص کی خریداری کے لئے بڑے پیمانے کے قرضے بھی شامل ہیں، نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہیں۔ یہ موجوں کو اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ اسٹاک مارکیٹ کا بحران ہے اور ان کی کوششیں یہ بتاتی ہیں کہ انہیں بالکل اندازہ نہیں کہ اس سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے۔‘‘ کیپٹل اکنامکس کنسلٹنسی کے ایک تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ ’’چین میں حالیہ اسٹاک مارکیٹ کے بلبلے کے تجربے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک بار جب مارکیٹ میں کوئی احساس پختہ ہو جائے تو ریاستی مداخلت کے سہارے دور رس ثابت نہیں ہوتے۔‘‘
یہ بیانات بورژوا ماہرین کے ہیں جو چینی اقدامات پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کی بحالی کے لئے چینی ریاست کی پالیسیوں کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ وہ اسٹاک مارکیٹ کے اس مصنوعی بلبلے کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، ویسے ہی جیسے باقی سرمایہ دارانہ ممالک کرتے ہیں۔ مگر انہیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اسٹاک مارکیٹ کے موجودہ بحران کی ایک بڑی وجہ خود چینی سرمایہ داری کی پالیسیاں ہیں، وہ سرمایہ جو چینی محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی تھا، اسے مارکیٹ کی خوشنمائی کو برقرار رکھنے کے لئے اندھے کنویں میں جھونک دیا گیا ہے۔
چینی حکمران اس وقت ایک خوفناک کیفیت سے دوچار ہیں۔ ایک طرف کھائی ہے اور ایک طرف سپاٹ دیوار۔ چینی ریاست صرف اسٹاک مارکیٹ کو زندہ رکھنے کے لئے ہی قرضہ بازی نہیں کر رہی بلکہ عالمی معیشت کی سست روی کے باعث داخلی منڈی کو بڑھانے کے لئے بھی بڑے پیمانے کا Stimulus جاری کر رہی ہے۔ بڑے بڑے پراجیکٹ بنائے جا رہے ہیں، تاکہ قوت خرید کو تقویت دی جا سکے اور گرتی ہوئی شرح نمو کو سہارا دیا جا سکے۔ مگر یورپ اور امریکہ کی منڈی کے مساوی قوت خرید کو جنم دینا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ مغرب میں بلند قوت خرید کے پیچھے سرمایہ دارانہ نظام کا دہائیوں طویل عروج کارفرما تھا، اس کے ساتھ عالمی منڈی پر اجارہ داری، ٹیکنالوجی کی ترقی اور پھر اس کے ثمرات کا سماج تک پہنچنا بھی شامل تھا جس کی بنیاد پر ایک بہتر معیار زندگی ترتیب پایا۔ چینی حکمرانوں کے پاس ان عوامل کا متبادل موجود نہیں ہے اور یہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس کے اہل بھی نہیں ہیں۔
chinas-stock-market-crash-has-got-people-worrying-about-social-stability - Copyمعاشی گراوٹ محنت کش طبقے کو سوچنے پر مجبور کر رہی ہے جو پہلے ہی چینی ریاست کے شدید جبر کا شکار ہے۔ چین میں میڈیا پر رجعتی ریاستی کنٹرول کے باوجود آنے والی خبریں محنت کش طبقے میں موجود شدید بے چینی کا عندیہ دے رہی ہیں، جہاں ہر سال ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہم عالمی طور پر ایک بالکل نئے اور دھماکہ خیز عہد میں داخل ہو رہے ہیں، جس کا اظہار دنیا کے مختلف ممالک میں ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ دنیا میں ابھرنے والے یہ نئے واقعات چین کے عوام پر بھی اپنے اثرات ڈال رہے ہیں۔ تیز ترین واقعات انسانی شعور کو جھنجوڑ رہے ہیں اور ماضی کی غلاظتیں ذہنوں پر سے چھٹ رہی ہیں، طبقاتی جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز ہے اور اس میں اگر چین کا محنت کش طبقہ ایک سیاسی اظہار کرتا ہے تو وہ پوری دنیا کی تاریخ کو از سر نو ترتیب دے گا۔

متعلقہ:

چین: منڈی کی مندی