[تحریر: لال خان]
1978ء سے پیشتر عالمی کارپوریٹ میڈیا چین میں ہونے والے کسی چھوٹے موٹے مظاہرے یا بدامنی کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتا تھا۔ سوویت یونین کی طرح چین میں بھی سامراجیوں کو ہمیشہ کسی گڑبڑ کی تلاش رہتی تھی تاکہ ’’سوشلزم کی خامیاں‘‘ دنیا کو دکھائی جاسکیں۔ لیکن ڈینگ ژاؤ پنگ کی زیر قیادت چین میں سرما یہ داری کی بحالی کی بعد سے یہی میڈیا چین کی ترقی اور خوشحالی کے گن گاتا نظر آتا ہے۔ چین کے محنت کشوں کی حالت زار، ان کی جدوجہد اور ہڑتالوں کی کوئی خبر شاید ہی کبھی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں کا حصہ بنتی ہو۔ تاہم عالمی سرمایہ داری کے سنجیدہ جریدے، جن کا مقصد ایک مخصوص طبقے کی دلچسپی کی اطلاعات اور تجزئیے شائع کرنا ہوتا ہے، میں چین کے زمینی حقائق سے متعلق رپوٹیں اور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اکانومسٹ اور ٹائم جیسے ان جریدوں کا مقصد سامراج کے پالیسی سازوں کو درست حالات اور اطلاعات سے آگاہ کر کے انہیں مستقبل کی پلاننگ کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا ہوتا ہے۔
چین میں سرمایہ داری کی بحالی سے نہ صرف ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ اور چین کی افسر شاہی کے وارے نیارے ہوئے بلکہ انتہائی سستی اور ہنر مند لیبر کی بدولت سامراجی اجارہ داریوں کی شرح منافع بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ اس صورتحال کو سامراج نے معاشی فائدوں کے ساتھ ساتھ سوشلزم اور منصوبہ بند معیشت کے خلاف بڑے پیمانے کا پراپیگنڈاکرنے کے لئے بھی استعمال کیا۔
1949ء میں جو انقلاب چین میں کسانوں پر مشتمل سرخ فوج نے برپا کیا تھا وہ 1917ء کے بالشویک انقلاب کی طرح کلاسیکی مارکسسٹ لینن اسٹ بنیادوں پر استوار نہیں تھا۔ ایک کلاسیکی مزدور انقلاب سے مختلف کردار کے حامل چینی انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی ریاست شروع سے ہی افسرشاہانہ کنٹرول میں تھی۔ مزدور جمہوریت کی بجائے یہ ایک نیم آمرانہ ریاستی ڈھانچہ تھا لیکن ان تمام کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ کرنے والا یہ انقلاب، بالشویک انقلاب کے بعد انسانی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا ترقی پسندانہ قدم تھا جس کے نتیجے میں چین کے عوام کو نوآبادیاتی اور سامراجی زنجیروں سے رہائی ملی۔ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے تعلیم، علاج، رہائش، ہنر اور دوسری بنیادی سہولیات تک آبادی کے وسیع حصے کو رسائی میسر آئی۔ 1949ء کے بعد چین نے پاکستان اور بھارت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ رفتار سے معاشی و سماجی ترقی کی۔ لیکن جمہوری منصوبہ بندی کی بجائے معیشت پرافسر شاہانہ کنٹرول کی وجہ سے رفتہ رفتہ منصوبہ بند معیشت کا دم گھٹنا شروع ہوگیا۔ جوں جوں معیشت کا حجم بڑھتا گیا بیوروکریٹک بد انتظامیوں کی وجہ سے معاشی بحران شدت اختیار کرنے لگا۔ ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر کے فرسودہ سٹالن اسٹ نظرئیے کی وجہ سے صورتحال اور بھی ابتر ہوگئی۔
بیوروکریٹک ریاستی ڈھانچے کو توڑ کر ایک سیاسی انقلاب کے ذریعے مزدوروں اور کسانوں کی جمہوریت پر مبنی معاشی نظام رائج کر کے مرتی ہوئی منصوبہ بند معیشت کو تازہ آکسیجن فراہم کی جاسکتی تھی۔ اس کے علاوہ مارکسی بین الاقوامیت کی پالیسیاں اپنا کر سامراجی جکڑ بندیوں کو بھی بڑی حد تک توڑا جاسکتا تھا لیکن چینی بیوروکریسی نے اپنی مراعات کا خاتمہ کرنے کی بجائے سرمایہ داری کی بحالی کا راستہ اپنایا۔ سرمایہ داری کی دوبارہ استواری کے بعد کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اور بالائی ڈھانچوں پر براجمان بڑے بڑے ’’کمیونسٹ‘‘ راتوں رات ارب پتی ہوگئے۔ آج چین کی نیشنل پیپلز کانگریس میں امریکی کانگریس سے کہیں زیادہ ارب اور کھرب پتی موجود ہیں۔ جنوبی افریقہ کے بعد امارت اور غربت کی سب سے بڑی خلیج آج چین میں موجود ہے۔
1978ء کے بعد سے چین میں میسر سستی، ہنر مند اور تعلیم یافتہ لیبر فورس کا استحصال کرنے کے لئے سامراجیوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جس کی وجہ سے تین دہائیوں میں چین عالمی سرمایہ داری کی ’’پیداوار کا انجن‘‘ بن گیا۔ تمام تر پیداواری عمل کو چین میں منتقل کر کے مغربی سرمایہ دار اور اجارہ داریاں خود سٹہ بازی کے ذریعے پیسے سے پیسہ کمانے میں مصروف ہوگئیں۔ مالیاتی شعبہ، صنعتی شعبے پر حاوی ہوگیا۔ مغربی سرمایہ کاری اپنے ساتھ جدید ٹیکنالوجی بھی چین لے کر گئی جس کی وجہ سے چین کا محنت کش طبقہ نہ صرف جدیدیت سے روشناس ہوا بلکہ حجم میں بھی بڑھ کر دنیا کا سب سے بڑا پرولتاریہ (صنعتی مزدور طبقہ) بن گیا۔ جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے مزدور کا شعور بھی بلند ہوتا ہے۔ یہی کچھ چین میں بھی ہوا اور چین کے محنت کشوں کو اپنی معاشی و سماجی حیثیت، طاقت اور سرمایہ دارانہ استحصال کی شدت ادراک ہونے لگا۔ گزشتہ چند سالوں سے چین کے طول و عرض میں ہونے والی ہزاروں ہڑتالوں کی لہر اب سامراجی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ چینی اشرافیہ کے لئے بھی ایک خطرہ بن چکی ہے۔
سرمایہ داری کے تحت چین میں ہونے والی ترقی کا کردار انتہائی غیر ہموار ہے۔ چین کے سابقہ وزیر اعظم وین جیاباؤ کے مطابق ’’چین میں معیشت کا ارتقا غیر مستحکم، غیر متوازی اور بے ترتیب ہے اور یہ صورتحال مسلسل جاری نہیں رہ سکتی۔‘‘ چین کی معاشی شرح نمو، جو ایک وقت میں 14 فیصد تک چلی گئی تھی، اس سال 5 فیصد تک گرجانے کا امکان ہے جس کی وجہ سے ریاستی ایوانوں میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ ریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے شرح نمو کو دوبارہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے کل قرضہ(جس میں ریاستی، کارپوریٹ اور گھریلو قرضہ شامل ہے)، مجموعی قومی پیداوار کے 215 فیصد سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔
ہڑتالوں کا حالیہ سلسلہ چین میں 1989ء کے بعد سب سے بڑی احتجاجی تحریک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے جریدے ’’چائنا لیبر بلیٹن‘‘ میں جیفری کروتھال کے تجزئیے کے مطابق ’’یہ حالیہ تاریخ میں غیر سرکاری شعبے کی سب سے بڑی ہڑتالیں ہیں۔‘‘ سب سے بڑی ہڑتال گوانگ ڈونگ صوبے میں کام کرنے والی تائیوانی کمپنی یویوان میں ہوئی ہے۔ اس کمپنی کی سات فیکٹریوں میں کام کرنے والے 4 لاکھ مزدور اپریل کے آخری ہفتے میں مکمل ہڑتال پر چلے گئے تھے۔ یہ ہڑتال پنشن کے حصول اور اجرت میں اضافے کے لئے تھی۔ یہ کمپنی Nike اور ریبورک برانڈ کے جوتے بناتی ہیں لیکن یہاں کام کرنے والے محنت کش اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے جوتے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔ اسی کچھ عرصہ قبل ’’فاکس کون ‘‘میں کام کرنے والی ایک خاتون محنت کش کا ویڈیو انٹرویو منظر عام پر آیا ہے جو آئی فون کی اسمبلی لائن پر روزانہ بارہ سے سولہ گھنٹے کام کرتی ہے لیکن اس نے آج تک چلتا ہوا آئی فون نہیں دیکھا!
چینی میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ کے باجود ہڑتالوں کو سلسلہ دوسرے صوبوں اور صنعتی شعبوں میں پھیل رہا ہے۔ ماضی کے برعکس ان ہڑتالوں میں دیہی پس منظر رکھنے والے مزدور بھی شریک ہیں۔ ایک ہڑتالی مزدور نے عالمی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ حکمران مکمل طور پر کرپٹ ہیں اور ہماری زندگیاں تلخ سے تلخ تر ہوتی جارہی ہیں۔ ‘‘ مزدوروں کی جانب سے سرکاری ٹریڈ یونینز کے سمجھوتوں کو آگ لگانے کے واقعات میں منظر عام پر آرہے ہیں اور ریاست اس تحریک کے سامنے بالکل بے بس نظر آرہی ہے۔ چین میں ’’سرمایہ داری کے معجزے‘‘ کی حقیقت اب ظاہر ہورہی ہے!
’’چینی ماڈل‘‘ کو جواز بنا کر محنت کش طبقے اور سوشلزم سے غداری کرنے والے ’’کیمونسٹوں‘‘ کو تاریخ کے مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرمایہ داری کی وحشت کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد میں دراڑ ڈالنے کے لئے تراشا جانے والے ’’چینی ماڈل‘‘ پوری دنیا کے سامنے ٹوٹ کر بکھرے گا۔ اسے چین کے محنت کش خود پاش پاش کریں گے۔ نپولین نے کہا تھا کہ ’’جب چین جاگے گا تو ساری دنیا کانپے گی۔‘‘ آج چین کا دیوہیکل مزدور طبقہ اگر جاگا نہیں تو انگڑائی ضرور لے رہا ہے۔ یہ سو کروڑ محنت کش جب بیدار ہو کر میدان میں اترے تو تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیں گے!