[تحریر: راشد خالد]
چلی میں طلبہ کی تحریک کا آغاز مئی 2011ء سے ہوا لیکن اگست 2011ء کے بعد سے اس میں شدت آنا شروع ہوگئی جب یہ ملک کے تمام خطوں تک پھیل گئی۔ اس تحریک کا آغاز تعلیم کی ہر سطح پر مفت فراہمی کے مطالبات سے ہواجس کے ساتھ ثانوی تعلیم میں ریاستی اخراجات میں اضافے اور اعلیٰ تعلیم کے منافع پر مبنی نظام کا خاتمہ تھا۔ اس وقت چلی میں صرف 45فیصد طلبہ ریاستی ثانوی تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں جبکہ یونیورسٹیز کی اکثریت نجی شعبے میں ہے حتیٰ کہ 1990ء میں پنوشے آمریت کے خاتمے کے بعد ابھی تک ایک بھی یونیورسٹی پبلک سیکٹر میں نہیں کھلی۔اس تحریک نے اس قدر شدت اختیار کر لی کے جب حکومت کی طرف سے مطالبات پورے نہیں کئے گئے اور طلبہ پر تشدد کیا گیا تو تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور وہ تھا سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر قبضے۔ جن میں سے بہت سے ادارے تقریباََ 7ماہ تک طلبہ کے قبضے میں رہے۔تحریک کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے طلبہ کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا جس میں کئی موقعوں پر چلی کے صدر سبیسٹین پینیرا نے خود بھی ان میں حصہ لیا مگر ایک طویل لڑائی اور ریاستی یقین دیانیوں کے باوجود کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ابتدائی طور پر ایک نئے تعلیمی فنڈ کی تجویز دی گئی اور بعد ازاں اس وقت کے وزیر تعلیم جواکین لیوین کوتبدیل کر کے نیا وزیر تعلیم ہیرالڈ بیئر کو بنایا گیا۔ لیکن طلبہ نے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا اور تمام تر حکومتی تجاویز کو رد کر دیا گیا۔ اپریل میں ایک بار پھر نئے وزیر تعلیم ہیرالڈ بیئر نے ایک نئے یونیورسٹی فنڈنگ پلان کی تجویز دی جس میں قرضوں کے عمل سے پرائیویٹ بینکوں کو ہٹا کر شرح سود 6فیصد سے گھٹا کر 2فیصد کرنے کی تجویز دی گئی مگر یونیورسٹی آف چلی سٹوڈنٹس فیڈریشن(FECH) کے صدر گیبرئیل بورک نے یہ کہتے ہوئے اس تجویز کو رد کر دیا کہ ’’قرض کے لئے قرض کی تجارت نہیں کرنا چاہتے، جو حکومت ہمیں آفر کر رہی ہے۔‘‘
چلی لاطینی امریکہ کا ایک ملک ہے جو ایک طویل ساحلی پٹی پر مشتمل ہے۔جس کے مشرق میں ارجنٹائن، شمال مشرق میں بولیویا، شمال میں پیرو، مغرب اور جنوب میں بحرالکاہل واقع ہیں۔ تقریباََ 1کروڑ 74لاکھ کی آبادی کے اس ملک کی اکثریت (تقریباََ85فیصد) شہروں میں رہتی ہے جس میں سے صرف سانٹیاگو، جو چلی کا دارلحکومت بھی ہے، میں ملک کے 40فیصد لوگ آباد ہیں۔ جس کی وجہ سے تحریک کی شدت بھی سانٹیاگو میں زیادہ ہے۔ چلی مختلف تاریخی ادوار سے گزرا ہے جس میں جمہوریتوں اور آمریتوں کا سلسلہ رہا ہے۔ ماضی قریب میں چلی جنرل آگستو پنوشے کی خوفناک آمریت سے گزرا ہے۔ یہ آمریت 1973ء سے 1990ء تک جاری رہی۔ پنوشے نے 1973ء میں سوشلسٹ پارٹی آف چلی کے صدر سلوادور آلاندے کے خلاف ملٹری کُو کر کے حکومت پر قبضہ کیا تھااور پنوشے کا عہد چلی کے عوام کے لئے بہت حد تک پاکستان میں ضیاالحق کے دور کے مشابہے رہا ہے۔ اس وحشی آمریت کے خلاف، جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا قتل عام کیا گیا، 1983ء سے1988ء تک ایک بڑی عوامی مزاحمت کا دور چلا جس کی وجہ سے مجبوراََ 1989ء امیں انتخابات کروانے پڑے جن کے نتائج غیر معمولی تھے مگر اسی دور میں پنوشے نے ماضی کی عوامی مراعات کا خاتمہ کرتے ہوئے مارکیٹ کو عالمی سرمائے کے لئے کھول دیا۔ جس کے بعد عالمی سرمائے کا تسلط چلی کے عوام کا استحصال بھی اسی طرح کر رہا ہے جس طرح دنیا کے دیگر خطوں میں۔ْ
اس کے بعد آنے والی مختلف حکومتیں بھی عوامی مسائل کو حل نہیں کر سکیں۔اس وقت بھی اہم شعبے ریاست کی بجائے بیرونی سرمایہ کاروں کے پاس ہیں جن میں سرفہرست بجلی، گیس اور کان کنی ہیں۔ باقی شعبوں میں بھی ریاستی مداخلت بہت کم ہے۔ اسی وجہ ہمیں مختلف تحریکیں ابھرتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ جن میں 2007ء میں کاپر انڈسٹری کے محنت کشوں کی عام ہڑتال، 2010ء میں کان کنوں کی تحریک اور اب 2011ء سے طلبہ کی تحریک۔ مگر یہ تحریک باقی تحریکوں سے مختلف اس لئے ہے کہ اس سال اس تحریک میں طلبہ کے علاوہ سماج کی دیگر پرتوں کی شمولیت بھی موجود ہے۔ جون میں ہونے والے مظاہروں میں پبلک سیکٹر کے طلبہ کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کے طلبہ نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ کالج پروفیسرز اور یونائیٹڈ کونفیڈریشن آف ورکرز(CUT)بھی اس میں شامل ہوئی۔ اس کے بعد اب تک بار بار طلبہ کے بڑے مظاہرے دیکھنے میں آرہے ہیں۔
2012ء میں اگست کے مہینے میں ہی یونیوسٹیوں اور کالجز پر دوبارہ قبضوں کی مہم کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں Instituto Nacional، Carmela Carvajal اور Universidad de Chile جیسے بڑے تعلیمی اداروں پر ایک بار پھر طلبہ نے قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد حکومتی نمائندے اینڈرس شیڈوک نے نوجوانوں کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا جس کی بعد ایک بار پھر ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ منظم کیا گیا۔
28اگست کو سانٹیاگو کی سڑکوں پر 1لاکھ50ہزار لوگ امڈ آئے۔جب یہ ریلہ آگے بڑھا تو پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بے تحاشہ استعمال کیا لیکن اس کے باوجود مظاہرین کو منتشر کرنے میں ناکام رہی۔ جس کی وجہ سے پولیس اور مظاہرین میں مقررہ جگہ تک پہنچنے تک محاذ آرائی جاری رہی۔ ان مظاہروں کی شدت میں تا حال کمی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ مظاہرین پہلے سے زیادہ پر جوش ہیں اور میدان عمل میں اپنی شکتی میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔ ان میں شامل ایک پروفیسرپیڈرو سیوڈیڈ نے کہا کہ ’’پچھلے 14سال سے وہ اس پیشے سے منسلک ہے مگر تعلیم کا معیار لگاتار گرتا جا رہا ہے۔ بہت ہی کم لوگ سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ لے پاتے ہیں اور ریاست کی تعلیم کے شعبے میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘ وہ مزید کہتا ہے کہ ’’میں نے کبھی اپنی کلاس نہیں چھوڑی لیکن اس وقت میں چھوڑ رہا ہوں اور شعوری طور پر سمجھ رہا ہوں کہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے اور نوجوان کیا کر رہے ہیں۔اس لمحے میرا بطور پروفیسر یہی فرض بنتا ہے۔‘‘
جنرل پنوشے کے عہد کے خاتمے کے بعد سے چلی کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے ہیں۔ چلی میں فی کس آمدنی لاطینی امریکہ کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے مگردولت کی تقسیم کے حوالے سے دنیا کے غیر ہموار ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ چلی میں یونیورسٹی کی تعلیم باقی ممالک کی نسبت مہنگی ترین ہے جہاں یونیورسٹی کے ایک سال کے اخراجات 3400ڈالر ہیں جبکہ اوسط فی کس آمدنی 8500ڈالر سالانہ ہے۔ حد سے بڑھے ہوئے تعلیمی اخراجات نے طلبہ کے مسائل میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔
دوسری طرف موجودہ صدر سبیسٹین پینیرا جنرل پنوشے کے بعد اقتدار میں آنے والا پہلا دائیں بازو کا نمائندہ ہے۔ ارب پتی کاروباری پینیرا اس وقت ایک ٹیلی ویژن چینل اور ایک فٹ بال کلب کا یکتا مالک ہے اور اس کے ساتھ ہی چلی کی قومی ائر لائن ’’لین چلی‘‘ میں سب سے زیادہ شیئرز کی ملکیت بھی رکھتا ہے۔ اپنی الیکشن مہم میں پینیرا نے، جو ہارورڈ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے، اپنی کاروباری صلاحیتوں کو ملک کو سنوارنے اور ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے وعدے کئے تھے مگر اس طلبہ تحریک نے پینیرا کے تمام دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کیا ہے۔ گو کہ تعلیمی شعبہ جنرل پنوشے کی آمریت میں 80ء کی دہائی میں ہی انہدام کا شکار ہو گیا تھا مگر اس کے بعدآنے والوں میں سے کوئی بھی اس کی بہتری کے لئے اقدامات نہیں کر سکا۔ طلبہ کی اکثریت نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے اور اس کے اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی صورت میں بینکوں سے قرض لیتی ہے۔ چلی کے صدر نے اس تعلیمی نظام کی حمایت ان الفاظ میں کی کہ’’ تعلیم ایک اچھا کاروبار ہے‘‘۔ جس کے جواب میں یونیورسٹی آف چلی سٹوڈنٹس فیڈریشن(FECH)کی سابقہ صدر اور موجودہ نائب صدر کیمیلا ویلیجو نے کہا کہ’’تعلیم کاروبار نہیں بلکہ ہمارا حق ہے اور پچھلے 30سالوں کچھ لوگ چلی کے ہزاروں نوجوانوں اور خاندانوں کے خوابوں اور امیدوں کی قیمت پر اپنے آپ کو امیر سے امیر تر کرتے جا رہے ہیں۔‘‘
ایک اور موقع پر پینیرا نے کہا کہ ’’ہم سب چاہتے ہیں کہ تعلیم، علاج اور اس کے ساتھ دیگر بہت کچھ مفت ہو۔لیکن ایسا ہوتا نہیں اور کسی نہ کسی کو اس کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہو۔‘‘ جس کے جواب میں کیمیلا ویلیجو نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے کہ کسی کو اس کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے مگر وہ قیمت عوام کی بجائے ریاست کیوں نہ ادا کرے؟بڑی کارپوریشنز پر ٹیکس لگا کر، ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت میں لے کراور فوج کے بجٹ کو کم کر کے! ‘‘نوجوانوں نے صرف ایک مظاہرے پر فائر ہونے والے آنسو گیس کے شیل اکٹھے کئے جن کی مالیت تقریباََ 50ملین پیسو(پیسو چلی کی کرنسی ہے) بنتی تھی اور یہ وہ پیسہ ہے جو تعلیم اورعلاج پر صرف ہونا چاہئے تھا۔ مگر حکمرانوں کے خوف کی وجہ سے یہ حکمرانوں کی حکمرانی کو تحفظ و طوالت دینے والے اداروں اور ہتھیاروں پر خرچ ہو رہا ہے۔
چلی کی موجودہ تحریک گزشتہ عرصے میں عالمی سطح پر ابھرنے والی دیگر تحریکوں سے یقیناََ بہت متاثر ہے۔ بالخصوص لاطینی امریکہ میں ابھرنے والی وہ تحریکیں جنہوں نے ابھی تک خطے کے مختلف ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اداروں کو قومیانے کا مطالبہ لاطینی امریکہ کے عوام کی ایک بڑی خواہش ہے۔ جس کے تابع ہو کر وینزویلامیں ہوگو شاویزاور بولیویا میں ایوا مورالس نے نیشنلائزیشن کے عمل کا آغاز کیا تھا جو تا حال جاری ہے۔ گزشتہ عرصہ میں دیگر ممالک میں ابھرنے والی پاپولسٹ تحریکوں کے اثرات بھی اس تحریک میں بہت نمایاں ہیں جس کی وجہ سے ایک لمبے وقت تک یونیورسٹی آف چلی سٹوڈنٹس فیڈریشن(FECH)کی سابقہ صدر اور موجودہ نائب صدر کیمیلا ویلیجوکو ایک سحر انگیز لیڈر کے طور پر ابھارا جاتا رہا۔ گو کہ کیمیلا چلی کی کمیونسٹ پارٹی کی ممبر ہے لیکن اس کہ باوجود اس تحریک کو بڑے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا مطالبہ ہونا چاہئے کہ تعلیم ہر سطح پر مفت فراہم کی جائے اور تعلیم کے کاروبار کو ناقابل معافی جرم تصور کیا جائے۔ وہ تمام تر تعلیمی ادارے جن پر طلبہ نے قبضے کئے ہیں ان کو طلبہ، اساتذہ اور والدین کی مشترکہ کمیٹیوں کے ذریعے چلایا جائے اور مطالبہ کیا جائے کہ چند منافع کمانے والے افراد سے دیگر تعلیمی ادارے چھینتے ہوئے ان کو بھی ایسی ہی کمیٹیوں کے سپرد کیا جائے۔ تحریک کو مضبوط کرنے کے لئے فرد واحد کی بجائے ایک اجتماعی قیادت کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی قیادت جو طلبہ کی منتخب کردہ ہو۔ تحریک کے اندر سے ایسے عناصر جو حکومت کے ساتھ صلح جوئی کا درس دیتے ہیں ان کو نکال باہر کیا جائے اور قیادت میں زیادہ جرات مند اور لڑاکا پرتوں کو شامل کیا جائے۔ پروگرام اور مطالبات کو تعلیمی شعبے کی حد تک محدود کرنے کی بجائے ان کو پھیلایا جائے اور علاج، روزگاراور دیگر بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی کا مطالبہ بھی شامل کیا جائے۔ محنت کشوں کے ساتھ نوجوانوں کے تعلق کو مزید مضبوط کرتے ہوئے ایک عام ہڑتال کی کال دی جائے۔ یقیناََ اس تحریک میں اتنی طاقت موجود ہے کہ اگر یہ درست بنیادوں پر آگے بڑھتی ہے تو نا صرف موجودہ حکومت بلکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو بھی اکھاڑ کر پھینک سکتی ہے۔ ہم ہوں گے کامیاب!