یہ بچے کس کے بچے ہیں؟

[تحریر: قمرالزماں خاں]
’’بچپن زندگی کاانتہائی پر مسرت دور خیال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ بات ہمیشہ درست ہوتی ہے؟ ایسا نہیں ہے، محض چند لوگ ہی پر مسرت بچپن گزارتے ہیں۔ بچپن کومثالی بنا کر پیش کرنے کا رواج مراعات یافتگان کے پرانے ادب سے شروع ہوا۔ ایک محفوظ، خوشحال اور فکر وغم سے آزاد بچپن۔ موروثی دولت اورا علیٰ تہذیب وثقافت کے مالک گھرانے میں شفقت سے بھر پور کھیل کود میں گذرنے والا بچپن ہمیں زندگی کے سفر کے آغاز پر ایک ایسی ہری بھری چراہ گاہ کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ جس پر سورج کی چمکیلی کرنوں کی برسات ہو رہی ہو۔ ادب کے اعلیٰ منصب داروں کی عظمت کا دم بھرنے والے کم مرتبہ حضرات نے بچپن کے بارے میں اس نقطہ نظر کو کم وبیش قانون فقہ کادرجہ دے دیا ہے حالانکہ یہ خالصتاً اشرافیہ کا نقطہ نظر ہے۔ اس کے برعکس لوگوں کی اکثریت اگر پیچھے مڑکر دیکھنے کی زحمت کرتی بھی ہے تو اسے تاریکی، بھوک اور محتاجی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ زندگی کمزور کونشانہ بناتی ہے اور ایک بچے سے زیادہ کمزور کون ہوتا ہے؟‘‘ (لیون ٹراٹسکی، میری زندگی)
’’باخبر میڈیا‘‘ کی وجہ سے دنیا کو پتا چلا کہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں، غذائی قلت اور علاج معالجے کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نوازائیدبچوں کی تیز ترین اموات ہورہی ہیں۔ یہ خبر’’ نئے بھٹو‘‘کے موہنجوڈرو میں منائے جانے والے’’ ثقافتی جشن‘‘ کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے مترادف تھی۔ ثقافتی جشن کے مقام سے دوسوکلو میٹرجنوب میں موت کا رقص نہ تو اس سال کے آغازمیں شروع ہوا تھا اور نہ ہی اس دھماکہ دار، ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے آفٹر شاکس کے بعدرک سکا۔ تقسیم ہند کے بعد تھر پارکر، عمرکوٹ اور گردونواح کے ریگستان میں غذائی قلت حتیٰ کہ قحط کا عفریت باربار آیا، جس نے وہاں کے رہنے والوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ مصیبتوں، آفات، جنگوں اور قحط میں بچے سب سے آسان نشانہ ہوتے ہیں لہٰذا تھر کے قحط زدہ ماحول میں زیادہ اموات بچوں کی ہوتی چلی آرہی ہیں۔ مارچ 2014ء کی شدید لہر کے بعد اب اکتوبر اور نومبرسے بچوں کی ہلاکتوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ تادم تحریر 541 بچوں کی اموات کی رپورٹنگ منظر عام پر آچکی ہے، نومبر کے آخری عشرے میں روزانہ 6 اموات کا معمول بن چکا تھا۔ صحرائے تھر میں قحط، غذائی قلت اور اسکی وجہ سے جان لیوا امراض کاشکار ہونے والی آبادی کا بڑا حصہ غریب ہندو ذاتوں سے تعلق رکھنے والے بھیل اور مینگھوال دلتوں پر مبنی ہے۔ یہ برادری سندھ اور جنوبی پنجاب کے صحراؤں میں جہاں بھی رہائش پذیر ہے اسکو غذائی قلت، بیماریوں، جہالت اور پسماندہ زندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کی پیدائش سے لیکر انکی افزائش کے تمام مراحل میں انکو کم غذا، مضر صحت پانی، غیر مناسب نگہداشت اور علاج معالجے کی عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لاغر اور بیمار بچے بدترین ماحول میں کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں موت کا آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔ پچھلے ستاسٹھ سالوں میں تھرپارکر کے حالات میں بس(شوکت عزیز کو دھاندلی سے جتانے کے انعام میں بننے والی)’’ پکی سڑکوں‘‘کی تعمیر کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ دو بڑی ہجرتوں (1965ء اور1971ء)کی وجہ سے 80فی صد ہندوآبادی اب 38 فی صد سے بھی کم ہوچکی ہے۔ اس افلاس کی ماری مخلوق کے درد کا ساماں تو کسی کے پاس نہیں تھا مگر ایک طرف عیسائی اور قادیانی مشنریوں نے ان کے قدیمی مذہب بدلنے کے لئے روٹی کا آسرا کرایا تودوسری طرف این جی اوز نے ان کے فاقوں، بیماریوں اور اموات کی خوب سوداگری کی۔ مگراس شوروغوغے نے اگر کچھ نہ بدلا تو وہ ’’تھری‘‘ لوگوں کا مقدر تھا، جن کی نئی نسل ان کی جھولیوں میں دم توڑتی ہے اور وہ اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے یہ منظر بار باردیکھنے پر مجبور ہیں۔
تھر کے ریگستان سے کئی سو کلومیٹر دور پاکستان کے مانچسٹر کہلوانے والے فیصل آباد میں بجلی اور آکسیجن کی بندش، جان بچانے والی ادویات اور مسیحاؤں کی عدم توجہگی سے بچوں کی اموات کا سلسلہ روزانہ وار بریکنگ نیوز بننا شروع ہوا تو عقدہ کھلا کہ پورے ضلع تھرپارکر میں اگر سال میں 541 بچوں کی اموات ہوئی ہیں تو صرف فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال میں اس سال بچوں کی رجسٹرڈ اموات 2300 تک پہنچ چکی ہے۔ سرگودھا میں غریب گھرانوں کے بچوں کی سرکاری اسپتالوں میں اموات کا سلسلہ جاری ہے اور صرف ایک ماہ میں 70 کے قریب بچوں کی اموات میڈیا رپورٹنگ میں آچکی ہیں۔ اگر الیکٹرانک میڈیا کے کیمرے ہر شہر کے سرکاری اسپتالوں کو دیکھنے کی سکت رکھتے ہوں تو شاید سرکاری اسپتالوں کی حد تک اس نئی نسل کے مرنے کادرست اندازہ لگایا جاسکے۔ پیدا ہونے سے پانچ سال تک کی عمر کے دوران موت کا شکار ہونے والے بچوں کی تعدادچارلاکھ پچاس ہزار (450,000) سالانہ ہے۔ جو پچھلے ستاسٹھ سالوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے مابین لڑی گئی تمام جنگوں، زلزلوں، سیلاب اوردہشت گردی کے ذریعے ہونے والی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ بچوں کی اموات کی یہ شرح ہولناک ہے۔ بچوں کے متعلق نقطہ نگاہ پولیوکی بیماری اور اسکے تدارک کی مہموں سے لگایا جاسکتا ہے۔ ساری دنیا سے یہ مہلک بیماری ختم ہوگئی ہے مگر پاکستان، جہاں دوسری علتوں اور الزامات کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہے وہاں اب اس کی بری شہرت کی انتہا اپنے بچوں کو پولیوسے بچانے کی غفلت کے الزام سے پھیل رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ ویکسین تک جعلی اور زائد المیعاد استعمال کی جارہی ہے۔ امریکی جاسوسی نظام نے ’’شکیل آفریدی ‘‘اور اسکی ٹیم کو ’’پولیوویکسی نیشن‘‘ ٹیم کے طور پر استعمال کرکے بچوں کو بچانے کی اس مہم کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف قبائلی علاقوں، پختونخوا اور کراچی میں پختون آبادیوں میں دہشت گردی کے پیشے سے منسلک لوگوں نے پولیوویکسی نیشن کے خلاف مؤثر پراپیگنڈہ کرکے پولیو ورکرز کی زندگیوں کے لئے جانی خطرات پیدا کردئے ہیں۔ اب تک درجنوں پولیوورکرز کو دوران مہم قتل کرکے بچوں کو اس مہلک بیماری سے بچانے والی ویکسی نیشن مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
بچوں سے متعلق بے حسی اور بیگانگی بڑھتی جارہی ہے، اگر چہ اسکے پیچھے غربت اور بے بسی کا پہلو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس کے خوف سے بچوں کو مذہبی درسگاہوں کے بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے۔ ان درسگاہوں میں بچوں کو جدید تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے اور ماضی کے تعصبات کو بچوں کے معصوم ذہنوں میں’’ کندہ‘‘ کردیا جاتا ہے۔ پڑھنے والے بچوں کی کل تعداد کا 19 فی صد جو کہ ان مدرسوں میں ’’تعلیم ‘‘ حاصل کررہا ہے، کو روٹی اور چندہ مانگنے کے لئے استعمال کئے جاتا ہے، جس سے ان کے اندر بھیک، بے چارگی، تشدداورغصے کے متضاد جذبات پروان چڑھتے اور بالآخر اسکوتمام زمانے سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔ کراچی میں ایک مذہبی مدرسے میں پختون خواہ سے ’’تعلیم دینے‘‘ کی غرض سے لائی گئی 35 بچیوں کو’’معلم‘‘ کے 25000 روپے کے قرض کے عوض گروی رکھنے یا بیچ دینے کی شرمناک حرکت اور ملزمان کی دوسرے دن ہی ضمانت پر رہا ہوجانے کا معاملہ اس سماج کے قانون، اخلاقیات اور اقدار کے بارے میں سوالیہ نشان کو پیدا کرتا ہے۔ مدرسوں میں نہ صرف بچوں کی ذہنی نشوونما کو کند اور ارتقائی عمل کو روکنے کی شعوری کوششیں کی جاتی ہیں بلکہ ان پر جنسی حملے عام سی بات ہے۔ انہی بچوں کو دہشت گردی اور ’’جہادی مقاصد‘‘ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ خود کش حملوں میں استعمال کئے جانے والے بچوں کوبیچا جانا اور خریداری کا عمل ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ داری کی زوال پذیری کے عہد میں انسانی اقدار اور سوچ کس حد تک ظالمانہ اور سفاک ہوچکی ہے۔ جو خاندان اپنے بچوں کو روٹی، کپڑا اور تعلیم دینے کی مالی صلاحیت نہیں رکھتے وہ اپنی اسی مجبوری کے تحت بچوں کو اس سوچ کے ساتھ مذہبی مدرسوں میں بھیجتے ہیں کہ کم از کم ان کو وہاں سے روٹی تو مل جائے گی۔ مگر ایسا نہ کرسکنے والی ماؤں کا اپنے بچوں سمیت نہروں میں چھلانگ لگانا یا کسی اور طریقے سے خودکشی کرنے، یا پھرسرِبازار ’’بچے برائے فروخت‘‘ کا بورڈ لگا کر فٹ پاتھوں پر بیٹھنے کی روش بھی فروغ پارہی ہے۔ پاکستان سمیت برصغیر میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ’’چائلڈ لیبر‘‘ کرنے پر مجبورہے۔ دھاگہ، کپڑا، گارمنٹس، چمڑا، کھیلوں کا سامان بنانے والی فیکٹریوں، اینٹوں کے بھٹوں، ہوٹلوں، ورکشاپوں میں زیادہ تعداد میں بچے کام کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایسے بچے نہ صرف تعلیم اور کھیل سے محروم رہتے ہیں بلکہ قبل از وقت سخت کام اور بدترین ماحول اور اخلاقیات کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما میں خرابی پیدا ہونا لازم ہوجاتا ہے۔ مگر بظاہر محفوظ بچوں کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ اگر کل آبادی کا 73 فیصد حصہ غربت کی لکیر(یعنی 1.25ڈالر یومیہ سے کم کی آمدنی) سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے اور کل آبادی کا تین چوتھائی حصہ عالمی معیار کی غذا کھانے سے محروم ہے تو ان گھرانوں کے بچے کس طرح صحت مندہو سکتے ہیں۔ جن بچوں کے والدین کی آمدنی اچھی تعلیم خریدنے کی سکت سے محروم ہوگی انکی اولاد اگر سکول جائے گی بھی تو بھی عہد حاضر کے درکار علم سے محروم رہے گی۔
غریبوں سے سکول اور اسپتال چھنتے جارہے ہیں۔ نجی شعبے کی حوصلہ افزائی اور تعلیم اور صحت پر سالانہ اخراجات میں مسلسل کمی کئے جانے کی وجہ سے سرکاری سکولوں اور اسپتالوں کی عمارات کھنڈروں میں بدلتی جارہی ہیں۔ اسپتالوں میں انفراسڑکچر، جان بچانے والی مشینیں، بجلی کی بغیر تعطل کے فراہمی، آکسیجن، درکار ٹمپریچر، تمام شعبوں کے وارڈز اور ڈاکٹرز، اسپیشلسٹ، بطور خاص حسب ضرورت ادویات کی فراہمی کے بغیر اسپتال مریضوں کی توہین اوروقت ضائع کرکے زندگی سے محروم کرنے والی عمارات بن کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح اکثریتی غریب بچوں کی تعلیم کی فراہمی کے ذمہ دار سرکاری تعلیمی اداروں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا جاتا ہے تاکہ بیکن ہاؤس، سٹی سکول، الائیڈسکولز، پنجاب گروپ آف کالجزاور دیگر نجی شعبے کے ادارے مقابلے میں بہتر نظر آئیں اور لوگوں کا رجحان نجی سکولنگ سسٹم کی طرف ہوتا جائے۔ مگر نظام تعلیم بطور خاص سلبیس کی تشکیل نہ صرف غیر سائنسی اور دقیانوسی ہے بلکہ گزرے ہوئے زمانوں کی زندگی کو عہد حاضر پر دانستہ مسلط کرنے کی سوچ کا پرتو ہے۔ اس تناظر میں سکول جانے والوں اور نہ جانے والوں میں زیادہ فرق نہیں رہ جاتا۔ پھر امتحانی نظام طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو رٹابازی اور مقابلہ بازی کی بیمار ذہنیت کے علاوہ کچھ نہیں دیتا۔ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو نسل انسانی کا اثاثہ بنانے کی بجائے فیس اور پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھنے کی نفسیات، مستقبل کی نسل کو انسانی جذبوں اور ترقی پسند سوچ کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سیلز مین بنانے میں مصروف ہے۔
عالمی مالیاتی بحران کے تناظر میں نئی شروع کی گئی جنگوں اور خانہ جنگیوں میں سب سے متاثر ہونے والا فریق بچے ہیں۔ شام میں شامی حکومت کے مخالف بنیاد پرستوں کے ہاتھوں دوسو سے زائد شیر خوار اور معصوم بچوں کے گلے کاٹ کر انکے سروں کی نمائش کرنے کی مثال ماضی کے غیر متمدن دور میں بھی کہیں نہیں ملتی۔ نائیجریا میں بوکو حرام کی بظاہرجدید تعلیم کے خلاف وحشت پر مبنی خانہ جنگی جس میں سینکڑوں بچیوں کو اغوا کیا گیا ہے، عراق، افغانستان، کیمرون، وسطی افریقہ، فلسطین اورپاکستان میں بچوں کا اغوا اور گلے کاٹ کرماردینا، مغربی تعلیم سے روکنے کے لئے بچیوں کااغوا، میزائلوں، کیمیائی ہتھیاروں اور ہوائی حملوں میں اموات کے واقعات پر ’’عالمی ضمیر‘‘ خاموش تماشائی ہے۔ پاکستان میں کمسن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں تیزی آرہی ہے، جو سماجوں میں ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی بیماری کے گہرا ہونے کی علامت ہے۔ معصوم بچوں کو پیشہ ور بھکاری اپنے مذموم مقاصد کے لئے کھلے عام استعمال کرتے اور انہیں عمر بھر کے لئے ناکارہ بنا دیتے ہیں۔ راتوں رات کروڑپتی بننے کی خواہش نے ایسے عطائیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جو ’’سٹیرائیڈز‘‘(Steroids) کے بے دریغ استعمال سے فوری ’’صحت یابی‘‘ فراہم کرکے نوٹوں کی بوریاں بھر رہے ہیں۔ ان عطائیوں کا سب سے آسان ہدف غریب خاندان ہوتے ہیں جو مہنگا اور جدید علاج خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اور ’’تیر بہدف‘‘ علاج کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ یہاں بھی بچے سب سے زیادہ اس عفریت کا شکار ہوتے ہیں۔ سٹیرائیڈز سے ’’صحت یاب بچے‘‘ بہت جلد قوت مدافعت سے محروم ہوکر موت کا شکارہوجاتے ہیں۔ ’’عطائیوں‘‘کو موت کے بیوپار سے روکنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ ریاستی ادارے اور میڈیا، ان نئے ’’کروڑ پتیوں‘‘کے’’چند سکوں ‘‘کے سامنے سرنگوں ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ سرمایہ داری منافعوں کی حرص اوروحشت میں اندھی ہوچکی ہے۔ سرمائے کے حصول کے لئے پیدا کی گئی ثقافت، نفسیات، اقدار، تعلیم اورنظریات ایک بیماری کی شکل میں نسل انسانی کے شعو ر میں سرائیت کئے جارہے ہیں۔ اگرزمین کہلانے والے اس سیارے پر نئی نسل کو اسی بہیمانہ طریقے سے تلف اور ناکارہ بنایا جاتا رہا تو پھر آنے والے وقتوں میں صحت مند انسانوں کی نسل ناپید ہوجائے گی۔

متعلقہ:

ننھے چراغوں میں لَو کی لگن

جو بن کھلے مرجھا گئے۔۔۔

سرمایہ دارانہ نظامِ تعلیم؛ جو علم پڑھایا جاتا ہے، وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے!

قحط کے ماروں کا جرم؟