| تحریر: لال خان |
طبقاتی سماجوں کی تاریخ میں سلطنتیں مسلسل ابھرتی اور پھر بکھرتی رہی ہیں۔ ان کے گرنے کی بنیادی وجوہات جنگیں، انقلابات، معاشی تباہی اور نظام کی تنزلی ہیں۔ عالمی مالیاتی نظام کے 2008ء میں تباہ کن کریش کے بعد دنیا بھر کی سرمایہ دارانہ معیشتوں اور ریاستوں میں ایک خلفشار برپا ہے۔ معاشی بحالی کی کوششیں بے بسی سے دوچار ہیں۔ سرمایہ داری کے اپنے ماہرین کے مطابق مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور طویل مدتی تناظر بھی زیادہ خوش آئند نہیں۔ سخت کٹوتیوں اور محنت کشوں اور عوام پر ظالمانہ حملوں کے ذریعے معاشی توازن کو بحال کرنے کی کوششوں میں سیاست کا توازن بگڑ چکا ہے۔ ایسا محض طاقتور سامراجی طاقت امریکہ، یورپ یا جدید سرمایہ دارنہ ممالک میں ہی نہیں ہو رہا جو ماضی میں کبھی خوشحال ہوا کرتے تھے بلکہ مشرق وسطیٰ اور دوسرے خطوں میں تیل اور معدنیات کی وجہ سے امیر سمجھی جانے والی ریاستیں بھی سرمایہ داری کے بحران سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
جدید تاریخ میں تیل کی قیمتوں میں تیز ترین کمی کی وجہ سے سعودی عرب کو حکومت کی جانب سے لوگوں کو دی جانے والی مراعات میں سخت کٹوتیاں کرنا پڑ رہی ہیں۔ واضح رہے کہ اپریل 2011ء میں تیل کی قیمت 119 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر مختلف اتار چڑھاؤ سے ہوتی ہوئی اپریل 2016ء میں 40 ڈالر فی بیرل کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔ دنیا میں خام تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک اب معیشت میں ’’اصلاحات‘‘ کے ذریعے تیل پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سعودی حکومت کی دولت کا 80 فیصد تیل سے آتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر برائے ایشیا نے چھ ماہ قبل روزنامہ ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سعودی معیشت میں بڑے پیمانے کی بنیادی تبدیلی کرنا ہو گی… حکومت کو تیل کی سبسڈی کے شاہ خرچ نظام میں اصلاحات کرتے ہوئے کئی نئے ٹیکس نافذ کرنا ہوں گے، جن میں استعمال کی اشیا پر وی اے ٹی (VAT) جیسے ٹیکس بھی شامل ہیں۔ یہ ضروری ہے اور یہ دشوار بھی ہو گا…یہ کئی سالوں پر محیط ایڈجسٹمنٹ کے عمل کا حصہ ہو گا‘‘۔ آئی ایم ایف کے مطابق سعودی عرب کا خسارہ 140 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے، جو کہ حکومت کے اپنے اندازے 98 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کے 15 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ 21 اپریل 2016ء کو بی بی سی پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث سعودی عرب 10 ارب ڈالر کا قرضہ بین الاقوامی بینکوں سے لینے کے قریب ہے اور 1990ء میں کویت پر عراق کے حملے کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سعودی عرب نے اس سلسلے میں بین الاقوامی مارکیٹ کا رخ کیا ہے۔
آکسفورڈ اکنامکس کی تحقیق کے مطابق 1986ء میں تیل کی قیمتوں کے آخری بڑے کریش کے دوران تیل پیدا کرنے والے بڑے 25 ترقی پذیر ممالک میں سے17 اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں رہے اور دیوالیہ ہو گئے تھے۔ اس وقت تیل پیدا کرنے والے ممالک کے قرضوں میں اوسطاً 40 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ آکسفورڈ اکنامکس میں گلوبل اکنامکس ریسرچ کے سربراہ گیبریئل سٹرن کے مطابق ’’1980ء کی دہائی کی مثالیں بہت پریشان کن ہیں؛تیل پیدا کرنے والے ممالک کا دیوالیہ ہونا ایک معمول بن گیا تھا اور محض چند ملک ہی اس سے بچے تھے‘‘۔
اب چڑھتے ہوئے ڈالر کے مقابلے میں ریال کی فکسڈ قدر کو برقرار رکھنے کے لیے سعودی اپنے مالیاتی ذخائر کو ریکارڈ تیزی سے پھونکتے جا رہے ہیں۔ سعودی ریاست پانی اور بجلی پر سبسڈی کا خاتمہ کرنے جا رہی ہے اور آئی ایم ایف کی سفارشات کے مطابق انہیں تین کروڑ کی آبادی کو ایندھن میں دی جانے والی بڑی سبسڈی میں بھی بنیادی تبدیلیاں (کمی) کرنا ہو گی۔ تیل کی قیمت میں موجودہ گراوٹ کی بڑی وجہ بھی پیداوار بڑھانے کی سعودی پالیسی ہی ہے جس کا مقصد زیادہ پیداواری لاگت والے طریقوں سے نکلنے والنے تیل سے مقابلہ بازی میں سبقت حاصل کرنا ہے جس میں امریکہ میں شیل (Shale) کے طریقے سے نکالے جانے والا تیل بھی شامل ہے۔ مسٹر سٹرن کے مطابق’’اجناس کی قیمتوں میں گراوٹ حکومتوں کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔ اگر یہ تفریط زر چلتا رہا تو اس مرتبہ بہت برے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں‘‘۔
گزشتہ چالیس برسوں کے معاشی عروج کے دوران جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر ممالک سے لاکھوں محنت کش روزگار کے لیے سعودی عرب آئے اور تیل کی صنعت، تعمیرات اور خدمات کے شعبے میں نسبتاً کم اجرتوں کی نوکریوں کے ساتھ ساتھ درمیانی سطح کی مینجمنٹ اور پیشہ ور ملازمتیں بھی کرتے رہے۔ 2015 ء میں ملک کی 3 کروڑ80 لاکھ آبادی میں سے 1 کروڑ 10 لاکھ غیر ملکی تھے۔ ان کے بھیجے ہوئے پیسے انکے کے ممالک کے لیے بہت اہم تھے۔ سعودی مرکزی بینک کے شمار کے مطابق 2015ء کی تیسری سہ ماہی میں 9.1 ارب ڈالر ملک سے باہر بھیجے گئے۔ اب محنت کشوں کی یہ سعودی عرب آمد، واپسی میں بدل رہی ہے۔ سعودی معیشت کی شرح نمو سست ہوتی جا رہی ہے اور تیل کی کم قیمت کی وجہ سے ریاستی بجٹ سنجیدہ خسارے کا شکار ہے اور حکومت اخراجات میں کٹوتی پر مجبور ہے۔ 2006ء سے 2015ء کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو اوسطاً 5 فیصد سالانہ رہی، جو اس سال 2 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ معاشی گراوٹ کے ابتدائی مراحل میں برطرف کیے جانے والے تقریباً سب افراد ہی غیر ملکی تھے جس کی ایک وجہ لیبر قوانین ہیں جن کی رو سے سعودی شہری کو ملازمت سے برطرف کرنا مشکل اور مہنگا پڑتا ہے۔
اب حکومت کے پاس سعودی شہریوں کے لیے سرکاری نوکریاں تخلیق کرنے کے لیے ماضی کی طرح پیسے نہیں ہیں۔ سعودی شہریوں میں بے روزگاری کی شرح 11.5 فیصد ہے جس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ حکومت کے لیے تشویش ناک ہے اوروہ غیر ملکیوں کو حاصل نوکریوں پر سعودیوں کو رکھنے کے لیے لیبر مارکیٹ میں بڑی مداخلت کر رہی ہے۔ ایک بڑی سعودی کمپنی کے اعلیٰ افسر نے جنوری میں رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہ سال کے آخر تک ایک کروڑ غیر ملکی محنت کشوں کا ملک چھوڑ جانا اس کے لیے حیران کن نہیں ہو گا۔ ممتاز سعودی معیشت دان فضل ال بوعینین کے مطابق ’’معاشی تبدیلیوں کا دباؤ لیبر مارکیٹ پر پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں غیر ملکی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد واپس لوٹنا شروع ہو گئی ہے۔ کارپوریٹ شرح منافع میں گراوٹ سے غیر ملکی محنت کش مینجمنٹ کے اقدامات کا نشانہ بن رہے ہیں جو مستقل مالیاتی ادائیگیوں میں کمی لانا چاہتی ہے‘‘۔ ابھی تک زیادہ تر برطرفیاں تعمیرات کے شعبے میں ہوئی ہیں جہاں 45 فیصد غیر ملکی کام کرتے ہیں۔ سرکاری ٹھیکوں میں کمی اور حکومت کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر کی بنا پر کنسٹرکشن کمپنیاں پچھلے سال سے ہی ہزاروں محنت کشوں کو برطرف کر رہی ہیں۔
لیکن اس انتہائی مطلق العنان حکومت میں جہاں غیر ملکی محنت کش سب سے زیادہ جبر کا شکار ہیں، لیکن اب یہاں بھی یہ غلاموں جیسے تارکین وطن محنت کشوں کی ہڑتالیں اور بغاوتیں ہو رہی ہیں۔ سعودی عرب کے سب سے بڑے آجروں میں سے ایک بن لادن گروپ کے محنت کشوں نے30 اپریل کو صوبہ مکہ میں کمپنی کے دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے کمپنی کی بسوں کی نذر آتش کر دیا۔ انہیں کئی مہینوں کی تنخواہ دئیے بغیر برطرف کرکے ملک سے نکالا جا رہاہے۔ سعودی روزنامہ عکاظ کے مطابق آگ پر قابو پا لیا گیا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کمپنی نے50,000 غیر ملکی محنت کشوں کو برطرف کر دیا ہے۔ سعودی روزنامے الوطن کے مطابق بن لادن گروپ نے ان برطرف شدہ محنت کشوں کے ملک سے نکلنے کے لیے مستقل ایگزٹ ویزا جاری کیا ہے لیکن ان میں سے بہت سے واپس نہیں جانا چاہتے کیونکہ ان کے مطابق انہیں پورے پیسے ادا نہیں کیے گئے۔ کئی محنت کشوں کو چار ماہ سے اجرت نہیں ملی اور اب وہ روزانہ کمپنی کے دفتر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔
بن لادن گروپ کی جانب سے کی جانے والی یہ برطرفیاں کمپنی کی کل افرادی قوت 200,000 کا پچیس فیصد ہیں۔ یہ کمپنی القاعدہ کے سابق سرغنہ اسامہ بن لادن کے والد نے 1931ء میں قائم کی تھی۔ اس نے بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے ہیں جن میں دارلحکومت ریاض میں بلند عمارتیں اور مغربی بندرگاہ جدہ میں یونیورسٹی اور ائیر پورٹ شامل ہیں۔ بن لادن گروپ کے ایک عرصے سے محنت کشوں کے ساتھ اجرتوں پر تنازعات چلے آ رہے ہیں اور مارچ میں ریاض میں کمپنی کے دفتر کے سامنے احتجاج ہوا تھا۔ گزشتہ برس مکہ میں حج کے دوران گرنے والی کرین بھی اسی کمپنی کے پراجیکٹ کا حصہ تھی جس کی تباہی سے107 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس سانحے کی وجہ سے بھی کمپنی کو کافی دباؤ کا سامنا ہے۔
سعودی شاہی خاندان عیاشی، اوباشی اور بدمعاشی میں اپنی مثال آپ ہے۔ 1932ء میں باقاعدہ طور پر قائم ہونے والی یہ بادشاہت برطانوی سامراج کی خدمت گزاری کے عوض سعود خاندان کو عطا کی گئی تھی۔ اس کے کچھ سال بعد وہاں تیل دریافت ہوا جس کے بعد سعودی شاہی خاندان کی دولت اور طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔محنت کشوں کا بدترین استحصال اور دنیا بھر میں اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے اس خاندان کے افراد اربوں ڈالر ہر سال اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔ شاہی خاندان کی بیگمات کروڑوں ڈالر کے صرف زیورات اور میک اپ وغیرہ ہر سال خریدتی ہیں۔ دنیا بھر میں شاہی خاندان کے مختلف افراد کے سینکڑوں محلات اور عیاشی کے اڈے ہیں۔ان کی دولت اور عیاشی کا عالم کیا ہے اس کا اندازہ شہزادہ ولید بن طلال کے لائف سٹائل سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ موصوف کے محل میں 317 کمرے اور پانچ باورچی خانے ہیں جن میں کام کرنے والے درجنوں باورچی دنیا بھر کے کھانے تیار کرنے میں ماہر ہیں اور صرف ایک گھنٹے کے نوٹس پر دو ہزار افراد کا کھانا تیار کیا جا سکتا ہے۔ ولید بن طلال کے پاس 730 ملین ڈالر کے صرف زیورات ہیں، اس کے محل نما طیارے بوئنگ 747 کی مالیت 220 ملین ڈالر ہے جس میں دو بیڈ روم اور 14 نشستوں پر مبنی ایک ڈائننگ روم بھی موجود ہے۔ وہ اس وقت جدہ میں دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت ’’کنگڈم ٹاور‘‘ تعمیر کر رہا ہے جو دبئی کے برج خلیفہ سے بھی 568 میڑ بلند ہو گی۔اور یہ سب اس خاندان کے صرف ایک فرد کی داستان ہے۔ سعود خاندان کے ممبران کی کل تعداد 15 ہزار کے لگ بھگ ہے تاہم زیادہ تر دولت اور طاقت دو ہزار افراد کے ہاتھوں میں مرکوز ہے، آپسی دھڑے بندیاں اور محلاتی سازشیں معمول ہیں اور بڑھتے ہوئے بحران کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ کیفیت سعودی ریاست میں کسی بھی غیر معمولی صورتحال کو جنم دے سکتی ہے۔
2011ء میں بحر اوقیانوس کے ساحل سے لے کر بحیرہ عرب کے کناروں تک، پورے خطے میں پھیلے عرب انقلاب سے حکومتیں لرز کر رہی گئیں تھیں اور کئی ایک کا تو خاتمہ ہو گیا۔ انتہائی جبر اور بربریت کے ساتھ ساتھ کچھ خلیجی ممالک نے بغاوت کو زائل کرنے کے لیے عوام کو کچھ مراعات دینا شروع کر دیں۔ سعودی بادشاہ کی جانب سے عوام کو دی جانے والی مراعات سے ان کی معیشت پر کافی بوجھ پڑا۔ اب تیل کی قیمت میں گراوٹ اور اس کے نتیجے میں معاشی بربادی کی وجہ سے یہ بادشاہت نہ صرف مراعات کے خاتمے بلکہ ظالمانہ کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر ملکی محنت کشوں کی روزی کے لیے تباہ کن ہے بلکہ پاکستان جیسے ممالک کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو گی۔ لیکن ان اقدامات سے سعودی شہریوں کے مسائل بھی حل نہیں ہو پائیں گے۔ نسل در نسل معاشی سہل پسندی کے عادی لوگ سعودی معیشت کے بحران کی سختیوں کو نہیں جھیل پائیں گے۔ مشہور فرانسیسی سیاست دان الیکسس ڈی تاکویل (1805-1859ء) نے کہا تھا کہ ’’کسی بری حکومت کے لیے سب سے خطرناک لمحہ وہ ہے جب وہ اصلاحات کرنا شروع کرے‘‘۔ اور یہ عمل سعودی عرب میں شروع ہو چکا ہے!
متعلقہ: