[تحریر: قمرالزماں خاں]
گزشتہ برسوں میں پاکستان پیپلز پارٹی میں وزیر اعظم بننے کی خواہش بامراد نہ ہونے کے باعث مخدوم شاہ محمود قریشی اور نواز لیگ کے کسی نمایاں فریم میں نہ سماپانے والے مخدوم جاوید ہاشمی اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر میڈیا کے راکٹ پر بیٹھی تحریک انصاف میں جا شامل ہوئے، اس کے بعد پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونے کی ایک ریس شروع ہوچکی ہے تحریک انصاف میں آنے اور جانے والوں کا ذہنی تذبذب واضع ہے۔پانچ سال تک مرکز یا صوبو ں میں اقتدار میں شریک کار رہنے کے بعد اب بالکل آخری ہفتوں میں ’’لوٹا ازم‘‘ کا طریقہ کار پھر تیزی پکڑرہا ہے۔اتحاد ٹو ٹ رہے ہیں اور پارٹیاں بدلی جارہی ہیں۔
70ء کی دہائی میں پہلی سیاسی قلابازی جنوبی پنجاب کے علاقے بھونگ سے صوبائی اسمبلی کے رکن بننے والے مسلم لیگ قیوم کے رئیس شبیر نے لگائی تھی ‘جووزیر بننے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ پھر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کا مقابلہ شروع ہوگیا وہ جاگیر دار اور سرمایہ دار جو پی پی پی کے مزدور اور کسان امیدواروں سے اپنی ضمانتیں ضبط کروا کے ہارے تھے وہ جیتی ہوئی پارٹی میں شامل ہوگئے یا کرلئے گئے، جس سے پارٹی کا وہ کردار جس کا اظہار 1968-69ء کی انقلابی تحریک اور بعد ازاں 1970ء کے الیکشن میں ہوا تھا مسخ ہونا شروع ہوگیا۔سردار فاروق خاں لغاری اسی کھیپ کا حصہ تھے جو 1973ء کے بعد پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے، جب کہ ان کے طبقے اوران کے بوسیدہ نظریات کو شکست ہوچکی تھی۔1977ء میں مارشل لاء لگنے کے بعد فاروق خان لغاری پہلے آدمی تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کی زرعی اصلاحات کے خلاف عدالت میں گئے اور اس کے بدلے میں بلوچستان و دیگر علاقوں میں موجود ہزاروں ایکٹر زمین حاصل کی۔پاکستانی سیاست میں1967ء میں لگنے والی نظریاتی لکیر جو 1970ء میں اور گہری ہوئی تھی، کو مٹانے کی غرض سے پارٹی میں حکمران طبقے کے نمائندگان کو بھرتی کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی اپنے نظریاتی تشخص سے دور ہوتی گئی اور رد عمل میں عوام، بالخصوص محنت کش طبقہ پارٹی سے پرے ہونا شروع ہوگیا۔1977ء کے الیکشن کے لئے پارٹی قیادت نے الیکشن کے عمل کو سیاسی کارکنا ن کی بجائے طبقہ امراء اورڈپٹی کمشنروں کے ہاتھ دے دیا۔ ایک سازش کے تحت بھٹو جیسی عظیم الجثہ شخصیت کو لاڑکانہ کی نشست سے خواہ مخواہ بلا مقابلہ جتوانے کیلئے خالد کھر ل جیسے’’ کردار سے غازی‘‘ بیوروکریٹ کی خود ساختہ دھاندلی جیسے اقدامات سے اس رجعتی تحریک کا جواز پیدا کیا گیا، جس کو امریکہ اور اسکے بغل بچہ عرب ملک کی حمایت کی وجہ سے ’’پیٹرو ڈالر‘‘ تحریک کہا جاتا ہے۔ نتیجہ ضیا ء الحق کا مارشل لاء تھا جس نے اس ملک کو اس جہنم میں جھونک دیا جس میں آج بھی لوگ جل رہے ہیں۔اس سانحہ کاآغاز نظریاتی وفاداریوں کی تبدیلی سے ہوا تھا، محنت کش طبقے کی تحریک سے طاقت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے قوت فراہم کرنے والے طبقے کے مفادات سے منحرف ہوتے ہوئے اور اپنی وفاداریاں بدل کرکے اپنی محبت کا رخ دشمنوں کی طرف کرلیا تھا۔
اقتدار کے پجاریوں نے شیطان کو رحمان ثابت کرنا ہوتا ہے اوریہی ہوا۔’’جمہوریت پسندوں‘‘ نے اپنا ماتھا ضیاء الحق کی چوکھٹ پر ٹیکنا شروع کردیا۔1985ء کی غیرپارٹی اسمبلی میں ایک بار پھر فوجی جنتا نے مسلم لیگ کا ظہور کرایا، گمنام جونیجو کو وزیر اعظم بنا کراسکی بیعت کرائی اور پھراس کا دھڑن تختہ کرایا تو کوئی اس کانام لیوا نہ تھا۔بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد اور پھر ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعداس کی مجلس شوریٰ، پارلیمنٹ اور حکومت میں مزے اڑانے والے مارشلائی سیاست دانوں کی ایک کھیپ نے اپنی وفاداریاں بدلیں اور یکا یک ’’بچے جمہورے ‘‘ بن گئے۔ضیاء الحق کے مارشل لاء کی گود میں پرورش پا نے والے خواتین وحضرات اب جمہوری امرت دھارا بن کر عوام کے دکھوں پر آنسو بہاتے دکھائی دینے لگے۔1986ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی سے واپس آئیں توان کا لاہور میں استقبال کرنے کے لئے مبینہ طور پر دس سے پندرہ لاکھ غریب، مزدور، کسان اور پارٹی کارکنان ’’بے نظیر آئی ہے۔۔۔انقلاب لائی ہے‘‘ کے نعرے لگاتے جمع ہوئے مگر وہاں آکر پتا چلا کہ ’’انقلاب‘‘ کووائٹ ہاؤ س کے اہلکاروں نے قیادت اور ’’آقاؤں‘‘ کے لئے مہلک قراردیکر، بازرہنے کاحکم دیا ہے۔حکم تسلیم کرکے پارٹی کا کردار بدل دیا گیا۔جیسا کہ 11اپریل 1986ء کو بے نظیر بھٹو نے خود کہا کہ ’’کل اگر میں چاہتی تو اقتدار پر قبضہ کرسکتی تھی مگر میں ’محاذ آرائی ‘ کی بجائے’ مصالحت‘ کرنے آئی ہوں‘‘۔لہذا ایک ’’ہومیوپیتھک‘‘ سیاسی دور کا آغاز لولے لنگڑے اقتدار اور مصالحانہ معاہدوں سے شروع ہوا۔’’نئی پیپلز پارٹی‘‘ کی مرکزی کمیٹی کی غالب اکثریت ضیاء الحق کی کابینہ میں رہنے والے لوگوں یا پیپلز پارٹی مخالف عناصر پر مبنی تھی۔ انہی دنوں پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے ’’شریف برادران‘‘ نے ایک بڑی تعداد میں اراکین پنجاب اسمبلی کی وفاداریاں خرید کران کو بھیڑ بکریوں کی طرح ’’ چھانگا مانگا‘‘ میں اس وقت تک محبوس رکھا گیا جب تک معاملات کنٹرول میں نہیں آگئے۔اسی 1988ء کی اسمبلی میں مرکزی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران پھر ’’فرزند بھونگ شریف‘‘ رئیس شبیر احمداورہمراہ غلام محمد مانیکا، احمد عالم انور وغیرہ نے اپنی سیاسی پارٹیوں سے غداری کرتے ہوئے وفاداریاں تبدیل کیں اوربے نظیر بھٹوپر’’اعتماد‘‘ کرکے ’’جمہوریت اور حکومت ‘‘ بچائی۔کہا جاتا ہے کہ عدم اعتماد اور اسکا توڑ ایک ہی حکیم کے دو علیحدہ علیحدہ نسخے تھے۔ انہی سالوں میں حسین حقانی، نفیس صدیقی، کمال اظفر، خواجہ طارق رحیم جیسے حضرات شدید قلابازیاں لگا کرمتحارب کیمپوں میں آتے جاتے رہے مگر واپس آتے تو زیادہ عزت و تکریم پاتے اور تنخواہ بھی بڑھ جاتی۔قیادتوں کے خود اپنے نظریات اورعوام کے ساتھ وفادار ی مشکوک ہونے کی وجہ سے سیاسی زعماء کی لفظ ’’وفاداری‘‘ کے ساتھ کوئی زیادہ الفت نہ رہی‘ بلکہ وہ ’’وفادار‘‘ رہنے کی بجائے حاجی نواز کھوکھر بننا زیادہ پسند کرنے لگے۔ انہی دنو ں پیپلز پارٹی کی قیادت نے برسرعام کہنا شروع کردیا تھا کہ ’’نظریات پچھلی نشست پر چلے گئے ہیں‘‘۔قیادت کے اس اعتراف کے بعد پھر کوئی ایسی وجہ نہیں رہ گئی تھی کہ بے اصولی، لالچ، اورغداری کو اگلی نشست پر بیٹھنے سے باز رکھا جاسکتا! 1999ء کو سافٹ مارشل لاء کے اگلے دن ہی دو تہائی والا نواز شریف تنہا کھڑا تھا اور ہر کوئی ’’رسم وفا‘‘ سے منحرف ہوچکا تھا۔وفاداریاں بدلنے والوں کے پاس اپنی غداری کے کئی جواز تھے۔پوری ن لیگ تب صر ف کلثوم نواز شریف کی شکل میں ہی باقی بچی تھی۔ان دنوں ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے نوازشریف اور شہباز شریف کبھی پاکستان کی سیاست کا حصہ ہی نہ رہے ہوں۔
2002ء میں بہت بڑے پیمانے پرلوٹے بنانے کی فیکٹری قائم ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور لاڑکانہ دھاندلی فیم خالد کھرل کے گھر پیٹریاٹ بنائی گئی، جس میں خالد کھرل نے اپنے رشتہ دار فیصل صالح حیات کے لئے اہم رول حاصل کیا، اسی طرح مخدوم یوسف رضا گیلانی کا بھانجا اسد گیلانی اور مخدوم شہاب الدین کا فرسٹ کزن مخدوم اشفاق احمد اپنے بزرگوں کی آشیر باد سے پیٹریاٹ کا حصہ بنے۔یادش بخیر اس غداری، وفاداریوں کی تبدیلی یا ’’سیاسی بصیرت‘‘ کی کاروائی میں پھر بھونگ شریف کے رئیس شبیر احمد کے صاحب زادے رئیس منیر احمد اگلی صفوں میں نظر آئے۔کچھ عرصہ بعد طارق بشیر چیمہ، ظفر وڑائچ، علی اکبروینس، ممتاز متیانہ کی کھیپ بھی پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پرویز مشرف اور ق لیگ کے اقتدارکا نگینہ بن گئی۔ ا۔’’اقتدار میں رہ کر مال بنانا ہی کامیاب نظریات ہیں‘‘ کے نئے اصول مارکیٹ میں متعارف کرائے گے، اپنے اپنے کیمپ میں تمام سیاسی قیادتیں اس نقطہ نظر کی حوصلہ افزائی کرتی پائی گئیں۔
اب شور بے جا ہے، چونکہ نظریات کی لکیر نہیں ہے تو پھر کسی عظمیٰ بخاری، سمیع اللہ اور دیگر بھگوڑوں کی راہ میں کونسا سیفٹی والو یا رکاوٹ رہ گئی ہے کہ وہ پارٹی تبدیل نہ کریں۔کسی کے پاس کون سی دلیل ہے کہ ثابت کرے کہ پیپلزپارٹی، نواز لیگ میں کوئی فرق ہے؟ موجودہ لوٹا ازم پرخودوفاداریوں کے ضمن میں ’’بے اعتبارے‘‘ منظور وٹو کا یہ بیان کہ پارٹی چھوڑنے والے گم نامی کی کھائی میں گر جائیں گے، نا مکمل فقرہ ہے۔ درست بات یہ ہے کہ غیر نظریاتی اور بے اصولی کی سیاست میں (بے وفا قیادت سے) وفاداری نبھانے والوں کا مقدر بھی گم نامی کی کھائی ہی ہے ! حقیقی طور پر وفاداریوں کا ان دنوں شدت سے تبدیل کیا جانا اور پارٹیاں بدلنا قیادتوں اور پارٹیوں کی نظریاتی زوال پذیری، اپنے پروگرام سے انحراف اور کارکنان سے غداری کا رد عمل ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی ذہانت کی بلندی اور اسکو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت کا تاثر درست نہیں ہے، بس بے وفائی اوردغابازی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ضروری ہے اور اسکا حرف آغاز انہی کارکنان اور ورکروں کو دھوکہ دے کر کرنا ہوتا ہے جو قیادتوں کو طاقت اور اقتدار دلوانے کے لئے اپنی زندگی، وسائل، مستقبل اورجوانی تک دان کردیتے ہیں، انہی کارکنان کے بارے میں سرائیکی وسیب کے ایک بڑے جاگیردار اور موجود ہ گورنر پنجاب کے دادا مخدوم غلام میراں شاہ ’’بھٹی کابالن‘‘ کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، غیر نظریاتی سیاست کی اس سے واضح کیا تشریح ہوسکتی ہے!