تحریر: لال خان
ڈانلڈ ٹرمپ جیسے شخص کا امریکی صدر بننا، اس کی متلون مزاج حرکات اور جارحانہ پالیسیاں کوئی حادثاتی عوامل نہیں ہیں۔ یہ خلفشار دراصل امریکی سامراج کے اپنے زوال اور جس سرمایہ دارانہ نظام کا وہ نمائندہ ہے اس کے موضوعی بحران کی شدت کا نتیجہ ہے۔ امریکہ کی سامراجی غلبے کے جبر کی روش اور اس کی معاشی کنگالی و بدحالی کے درمیان ایک گہرا تضاد موجود ہے جس سے وہ لرز رہا ہے۔ ٹرمپ محض ان عوامل کی ایک بدنما اور بے ہودہ شخصی عکاسی ہی ہے۔ اس کی ہلڑی بازیاں نہ صرف حریفوں کوکھجلا رہی ہیں بلکہ یورپی یونین اور نیٹو ممالک جیسے امریکہ کے روایتی حلیفوں کو بھی اشتعال دلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ ٹرمپ نے جس تجارتی جنگ کا آغاز کر دیا ہے وہ نہ صرف عالمی تجارتی اور سفارتی تعلقات میں بگاڑ پیدا کر رہی ہے بلکہ اس سے امریکہ کے بہت سے حلیفوں کیساتھ مل کر کیے گئے معاہدے اور الحاق بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ پہلے اس نے امریکی منڈی میں 32 ارب ڈالر کی چینی برآمدات پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کی۔ اب مزید 200 ارب ڈالر کی چینی برآمدات پر ٹیرف لگا دیا ہے۔ چینی برآمدات پر یہ وار وہ امریکہ کے دیوہیکل تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ چین کیساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ 375 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ لیکن یہ تجارتی جنگ عالمی سرمایہ داری کو 2008ء سے بھی بڑے کریش کا شکار کرسکتی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباً چار دہائیوں تک سرد جنگ کے باوجود عالمی تعلقات کا توازن اور نظم و نسق ایک نسبتاً استحکام کی کیفیت میں تھا۔ 1943ء اور 1945ء میں سوویت یونین کے روسی حکمران جوزف سٹالن، امریکی صدور فرینکلن روز ویلٹ اور ہیری ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کے درمیان تہران، یالٹا (کرائمیا) اور پوٹس ڈیم (مشرقی جرمنی) میں جو معاہدے طے پائے تھے ان میں دوسری عالمی جنگ کی دو بڑی فاتح طاقتوں امریکی سامراج اور سوویت یونین نے یورپ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں اپنے براہِ راست یا بالواسطہ اثرورسوخ کے ممالک کی بندر بانٹ کر لی تھی۔ اس دوران صرف 1962ء کا ’کیوبن میزائل کراسز‘ ایک ایسا واقعہ تھا جس سے ان سپر پاورز کے درمیان تناؤ خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا۔ لیکن کچھ سوویت حکمران نیکیٹا خروشیف اور کچھ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پسپائی اور لچک کا مظاہرہ کیا جس سے ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ لیکن ایسے واقعات کو بعض اوقات شعوری طور پر ’’سرد جنگ‘‘ کو گرمانے کے لئے بھی سامراجی اسلحہ ساز کمپنیاں استعمال کرتی تھیں تاکہ انسانی تباہی کے آلات کی مانگ برقرار رہے اور ان کے منافعے ماند نہ پڑیں۔ اسی طرح سوویت بیوروکریسی بھی دیوہیکل منصوبہ بند معیشت کا بہت بڑا حصہ بڑی بے رحمی سے اسلحہ سازی پر خرچ کر دیتی تھی۔ سوویت یونین کی معاشی زوال پذیری میں یہ بے دریغ اخراجات ایک اہم عامل تھے۔ سوویت یونین میں افسر شاہی نے بالخصوص لینن کی وفات کے بعد سٹالن کی قیادت میں اقتدار پر غلبہ حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ پارٹی اور سوویت ریاست میں جمہوریت کو کچل کر افسر شاہی کا یہ تسلط 1930ء کے وسط تک بہت حد تک مکمل ہو چکا تھا۔ اس کو ایک سیاسی جواز دینے کے لئے ہی ’ایک ملک میں سوشلزم‘ کا نظریہ گھڑا گیا۔ لینن کی تحریروں کو سیاق و سباق سے ماورا کر کے غلط رنگ دئیے گئے اور سرمایہ دارانہ قوتوں کیساتھ ’امن برائے بقائے باہمی‘ کی پالیسی اپنائی گئی۔ مذکورہ بالا معاہدوں کے لئے 1943ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کو ایک حکم کے ذریعے تحلیل کر دیا گیا اور کانگریس بلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ انہی معاہدوں کے تحت کئی ممالک میں انقلابات کو بھی زائل کروایا گیا تاکہ عالمی سطح پر ’’طاقتوں کا توازن‘‘ نہ بگڑے! سوویت حکمران سامراجیوں سے اس مصالحت اور سمجھوتوں کو شاید سنجیدہ لے رہے تھے۔ لیکن سامراجیوں نے سوویت یونین کو کمزور کرنے اور سوشلزم کو رسوا کرنے کی سازشیں اور وارداتیں جاری رکھیں۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے اور چین میں ڈینگ ژاؤ پنگ کی قیادت میں سرمایہ داری کی بتدریج بحالی پر مغربی ممالک کے حکمرانوں نے بڑے جشن منائے تھے۔ لیکن روس میں سابقہ’’ کمیونسٹ‘‘ خود مافیا سرمایہ دار بن بیٹھے اور جن بڑی منڈیوں کے لئے مغربی کارپوریٹ اجارہ داریوں کی رالیں ٹپک رہی تھیں وہاں انہیں ذیلی اور محدود سرمایہ کاری کی اجازت ہی مل سکی۔ اسی طرح چینی ’کمیونسٹ پارٹی‘ کی اشرافیہ نے بھی اپنی حصہ داری کی شرح مسلسل بڑھانی شروع کر دی۔ 1978ء کے بعد پہلے پہل تو سامراجی اجارہ داریوں نے چین کی ہنر مند اور سستی محنت کا استحصال کرکے بڑے منافعے کمائے۔ لیکن چینی اشرافیہ نے مغربی سرمایہ کاری کیساتھ آنے والی وسیع تر ٹیکنالوجی کے استعمال سے خود بڑی قوت بننے کی ٹھان لی۔ آج ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں چینی سرمایہ کاری کئی حوالوں سے مغربی سامراجیوں سے بھی بازی لے جا رہی ہے۔ اسی لئے سوویت یونین کے ٹوٹنے اور چین میں سرمایہ دارانہ استواری پر جشن منانے والے مغربی سامراجیوں میں ایک صف ماتم سی بچھی ہوئی ہے۔ لیکن ٹرمپ تو ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے نعرے کے تحت اپنے حلیفوں پر بھی تابڑ توڑ حملے کرتا چلا جا رہا ہے۔ پہلے اس نے پیرس ماحولیاتی سمجھوتے اور ایران کیساتھ جوہری معاہدے کو مسترد کیا۔ اب باہمی تجارت کے کئی سمجھوتوں سے امریکہ کو باہر نکال رہا ہے۔ اس نے یورپی یونین کو ’’تجارتی حریف‘‘ کا خطاب دے دیا ہے۔ یورپ کے خلاف ایسے جارحانہ رویے پر یورپی کونسل کا صدر ڈانلڈ ٹسک پھٹ پڑا ہے۔ اس نے جو انگریزی محاورہ استعمال کیا اردو میں اس کا ترجمہ بنتا ہے کہ ’’ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!‘‘ لیکن دیکھا جائے تو ٹرمپ سے بھی پہلے جارج ڈبلیو بش نے ان پالیسیوں کا آغاز اس وقت کر دیا تھا جب اس نے ’ایٹمی بلیسٹک میزائل معاہدے‘ اور کیوٹو پروٹوکول ماحولیاتی معاہدوں کو مسترد کیا تھا۔ تبھی ان روایتی الحاقوں کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی تھی۔ نیٹو کا وجود آج خطرے میں ہے اور ٹرمپ نے نہ صرف کینیڈا پر بھی سخت تجارتی پابندیاں لگائی ہیں بلکہ اس کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو ’’بددیانت اور کمزور‘‘ تک قرار دے دیا ہے۔ اب نئے نئے بلاک بن رہے ہیں۔ ان میں فرانس، بھارت آسٹریلیا اور جاپان کا ایک نیم فوجی تجارتی اتحاد بھی بنا ہے۔ اسی طرح یورپین یونین اور چین ایک علیحدہ بلاک بنا رہے ہیں۔ برکس (BRICS) ممالک کا اقتصادی اور تجارتی اتحاد بھی چل ہی رہا ہے جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ لیکن اب بھی امریکہ شدید بحران کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں اکیلے امریکہ کا حصہ آج بھی 24 فیصد ہے۔ چین کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو چین کے 11.2 ٹریلین کے مقابلے میں امریکہ کا جی ڈی پی 18.5 ٹریلین ہے جبکہ اس کی آبادی چین کی ٓٓآبادی سے چار گنا سے بھی کم ہے۔ امریکہ کے عسکری اخراجات فہرست میں اگلے سات ممالک کے مجموعی دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہیں۔ اس لئے ان اتحادوں میں امریکہ کو زیر کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لیکن پھر اس دیوہیکل اقتصادی اور عسکری وجود کو سنبھالنے کی معاشی طاقت امریکہ بھی کھوتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کا قومی شاونزم اور پروٹیکشنسٹ تجارتی پالیسیاں امریکہ کی معاشی شرح نمو میں عارضی اضافہ تو شاید کریں لیکن ان سے مستقبل کے تضادات اور مسائل بڑھیں گے اور پورے نظام کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
بین الاقوامی طاقتوں کے توازن میں یہ بگاڑ اس بحران کی خارجی سفارتی اور تجارتی شکل ہے جو اس سرمایہ دارانہ نظام کو دنیا کے ہر ملک میں داخلی طور پر لاحق ہے۔ مصنوعی ہتھکنڈوں سے یہ ٹلنا والا نہیں۔