پی آئی اے کی نجکاری اور حکمرانوں کے جھوٹ

| تحریر: چنگیز ملک |

موجودہ حکومت اپنی مزدور دشمن پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مختلف اداروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیچنے کی پلاننگ کے بعد پی آئی اے کو ایک ’’لمیٹڈ کمپنی‘‘ قرار دینے کا مقصد بھی اس کو اپنے منظور نظر افراد کو بیچنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جس کے لئے صدارتی آرڈیننس بھی لایا جا چکا ہے۔ اخباری ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی باقاعدہ نجکاری سے قبل ہی 59 منافع بخش انٹرنیشنل روٹس اتحاد ائیر لاینز کو بیچ دیئے گئے ہیں، جن میں یورپی، افریقی اور خلیجی ممالک کے روٹس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 17 مقامی روٹس بھی اتحاد ائیر لاینز کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ پی آئی اے کی باقاعدہ نجکاری کا عمل ابھی تک تکمیل پذیر نہیں ہوا لیکن حکمران محنت کشوں کی تحریک کو کسی خاطر میں لاتے نظر نہیں آ رہے اور بہر صورت پی آئی اے کو بیچنے پر بضد نظر آتے ہیں۔
PIA privatizationسرمایہ دارانہ نظام میں صنعتی انقلابات کے نتیجے میں ذرائع پیداوار، سائنس، ٹیکنالوجی کو جو ترقی ہوئی وہ گزشتہ 8 ہزار سال کے تہذیبی ادوار سے کئی گناہ زیادہ ہے لیکن ان تمام مراحل میں پہنچنے میں اس نظام نے انسانیت پر کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے۔ استحصال پر کھڑے اس نظام میں پیداوار کا بنیادی مقصد شرح منافع کا حصول ہے نہ کہ لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کرنا۔ ان مقاصد کی حصول کیلئے دو عظیم جنگیں انسانیت پر مسلط کی گئیں جس نے کروڑوں انسانوں کو نگل لیا اور یہ سلسلہ اس نام نہاد امن کے دور میں بھی جاری اور ساری ہے۔
کسی نظام کے خاتمے کا اعلان اُس وقت تک نہیں ہوتا جب تک اُس کے اندر یہ سکت موجود ہو کہ وہ سماج کو ترقی دے سکے۔ مسئلہ اُس وقت جنم لیتا ہے جب پیدواری قوتیں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور پیداواری رشتے اُن کے رستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے بعد Rehablitation کے ذریعے سرمایہ داری نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا عروج 1948ء سے 1974ء تک دیکھا، لیکن 50ء کی دہائی میں امریکی وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلس اپنی ’’جنگ یا امن‘‘ نامی کتاب میں یہ دُہائی دیتے ہوئے نظر آتا ہے؛ ’’اب تک ہم نے کروڑوں اربوں ڈالر جنگوں، بمبوں اور ہتھیار بنانے پر لگا دیئے ہیں لیکن نظریاتی میدان میں کچھ نہیں کیا ہمیں علما کو کرائے پر لینا چاہئے جو سرمایہ داری کو خوبصورت الفاظ کا چوغا پہنا سکیں۔‘‘ فاسٹرڈلس کے ان الفاظ کے پیچھے وہ خوف دکھائی دیتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں سب سے زیادہ قتلِ عام سوویت یونین کے لوگوں کا کیا گیا، اس جنگ میں دو کروڑسے زائد لوگ صرف سوویت یونین کے مارے گئے، اتنی بڑی تباہی و بربادی کے باوجود منصوبہ بند معیشت کے تحت ناصرف تمام تر بحالی کی گئی بلکہ 1955ء میں ’’ سپوتنک‘‘ نامی خلائی جہاز اُڑا کر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت اپنی تمام تر مسخ شدہ شکل میں بھی بے لگام سرمایہ دارانہ معیشت سے کئی گنا بہتر ہے اور آج 2008ء کہ مالیاتی بحران کے بعد بھی سرمایہ دار دانشور خوبصورت الفاظ کے ذریعے ہی نظام کو چلانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام اور دیوارِ برلن کے گرنے نے سرمایہ دار دانشوروں کو دوبارہ زندہ کیا اور انہوں نے تاریخ کے خاتمے کا اعلان کر دیا، انہی نظریات کی روشنی میں نیو لبرل اکنامکس یعنی آزاد منڈی کی معیشت متعارف کروائی گئی کہ سرمایہ دار جب چاہیں جہاں چاہیں سرمایہ کاری کریں اور جب چاہیں اپنا سرمایہ دوسری جگہ منتقل کردیں۔
اس مالیاتی سرمائے کہ ’’دیو‘‘ کے سامنے امریکی صدر بارک اوبامہ سے نواز شریف تک تمام سربراہان بے بس و لاچار نظر آتے ہیں۔ دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ اس وقت بیس ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے، اپنی تاریخ کی سب سے بڑی بے روزگاری کا شکار ہے، معیارِ زندگی مسلسل گر رہا ہے اور اسی طرح کی صورتِ حال دیگر یورپی ترقی یافتہ ممالک میں بھی نظر آ رہی ہے۔ 2008ء کے مالیاتی بحران سے نکلنے کے جو حل پیش کئے گئے وہ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ اور ری سٹرکچرنگ وغیرہ ہیں۔ مارکس نے کہا تھا؛ ’’سرمایہ داری کے بحران کا سب سے پہلا شکار محنت کش طبقہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ موجودہ مزدور دشمن اقدامات نے مارکس کے تناظر کو درست ثابت کیا، مالیاتی سرمائے کہ سامنے تمام ممالک کے سربراہان سربسجود نظر آتے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان کی 68 سالہ مختصر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہاں کے حکمران اپنی تاریخی نااہلی اور خصی پن کی وجہ سے کبھی مالیاتی سرمائے کے چنگل سے آزاد ہی نہیں ہوئے اور بیرونی امداد و قرضوں سے ملکی معیشت چلانے کی ناکام کوششیں آج تک جاری ہیں۔ جس کے نتائج یہ ہیں 62 فیصد بچے سکول نہیں جا سکتے، پانچ سے چھ لاکھ مائیں دورانِ زچگی یا زچگی کے بعد ایک نئی زندگی کو جنم دیتے وقت اپنی زندگی ہار جاتی ہیں، روزانہ 1132 بچے خوراک کی ضروریات اور قابلِ علاج بیماریوں کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں، 15 لاکھ نوجوان ہر سال ہاتھوں میں ڈگریاں اُٹھائے منڈی کی معیشت میں داخل ہو رہے ہیں لیکن روزگار کے مواقع دور تک دکھائی نہیں دیتے اور اُس پہ طرہ یہ کہ عوامی اداروں کی نجکاری کے ذریعے برسرِ روزگار لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے۔ ضیا آمریت سے لے کر تمام جمہوری ادوار میں 240 چھوٹے بڑے ادارے بیچے جا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ پہلے سے موجود بے روزگاروں کی فوج میں شامل ہوچکے ہیں۔
موجودہ حکومت کے تمام حضرات بارہا یہ دُہرا چکے ہیں کہ حکومت کا کام ادارے چلانا نہیں یعنی دوسرے لفظوں میں حکومت کا کام صرف لوٹ مارکرنا ہے۔ اس لوٹ مار اور IMF کے حکم نامے پر عملدرآمد کرنے کیلئے 65 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے ان میں PIA اور واپڈا سرفہرست ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے PIA کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا۔پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائینز ایک ایسا ادارہ تھا کہ جس کے ملازمین نے اپنی شبانہ روز محنت سے ایک مکمل ادارے کو تشکیل دیا اور دنیا کی چند صفِ اول کی ائیر لائنز میں خود کو متعارف کروایا۔ PIA کے پاس تمام تر انفراسٹرکچر اپنا ہے، کچن کیٹرنگ، انجینئرنگ، پائلٹس، ایچ آرایڈمن، CRC IT، ریزویشن، کارگو، فلائٹ سروس، ہوٹل، ہسپتال، ڈاکٹرز، ٹرانسپورٹ، اندورن و بیرونِ ملک اربوں کھربوں مالیت کے اثاثہ جات انہیں ملازمین کی محنت کہ مرہونِ منت ہیں۔ PIA میں اس وقت کل 20 ہزار ملازمین ہیں جن میں 17 ہزار مستقل اور 3 ہزار دیہاڑی دار یا کنٹریکٹ پر ہیں۔ ان 17 ہزار مستقل ملازمین میں 8 ہزار گروپ ایک سے چار کے ملازمین ہیں جن کی اوسط تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ ہے جب کہ باقی آفیسر کیٹگری میں آتے ہیں۔ کل 43 جہازوں میں 37 جہاز ورکنگ کنڈیشن میں ہیں، 6 جہاز سپئرپارٹس کی عدم دستیابی کے باعث بیکار کھڑے ہیں، ان 42 جہازوں میں 10 جہاز A320 جو بارہ سال پرانے ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ شرح سود پر لیز پر لئے گئے ہیں۔

پی آئی اے ایک رفاعی ادارہ
آج کل میڈیا پر موجود تمام اینکر پرسن PIA کے ادارے کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے پی آئی اے ایک رفاعی ادارہ ہے، ایسے روٹس جن کا بنیادی مقصد عوام کو سفری سہولیات پہنچانا ہے نہ کہ منافع کمانا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی میتوں کو بلا معاوضہ پاکستان لایا جاتا ہے، کسی ملک میں جنگ ہونے کی صورت میں وہاں پھنسے پاکستانیوں کو بلا معاوضہ پاکستان لانے کی ذمہ داری بھی پی آئی اے سرانجام دے رہا ہے جس کی واضح مثال گزشتہ عرصے میں یمن کی ہے۔
پی آئی اے 58 فیصد فلائٹس اندرونِ ملک اور 42 فیصد فلائٹس بیرونِ ملک چلاتا ہے۔ پی آئی اے کی کل آمدن کا 18 فیصد ملازمین کو دیا جاتا ہے جبکہ پوری دنیا میں یہ شرح 23 فیصد سے 30 فیصد تک ہے۔ رہا سوال یہ کہ پانچ سو افراد ایک جہاز کیلئے مختص ہیں اور باقی ائیر لائنز میں دو سو کا سٹاف ہے۔ وضاحت یہ ہے کہ باقی ماندہ ائیرلائنز کچن، کیٹرنگ، انجینئرنگ، ڈاکٹرز، ریزرویشن، کارگو، فلائٹ سروس و دیگر تمام سہولیات آؤٹ سورسنگ کے ذریعے حاصل کرتی ہیں اگر اُس آؤٹ سورسنگ کی تعداد کو شامل کیا جائے تو وہ شاید پی آئی اے کے پانچ سو کے اسٹاف سے زیادہ ہی ہو گی۔ پی آئی اے ملازمین کو ملنے والی مفت سفری سہولت پر چھ ہزار روپیہ فی کس ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پی آئی اے ملازمین پوری تندہی کے ساتھ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

خسارے کے اسباب
ضیا آمریت سے جمہوری حکومتوں نے اپنے منظورِ نظر لوگوں کو نوازنے کیلئے نان پروفیشنل لوگوں کو پی آئی اے کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا اور وہ پی آئی اے کی افسر شاہی کے ساتھ مل کر پی آئی اے کو نوچتے چلے آرہے ہیں، جو ایک ایسا ادارہ ہے جس نے دنیا کی بیس ائیر لائنز کو اسٹیبلش کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صرف امارات ائیرلائن کو ہی لیجئے جس نے اپنی فلائٹس کا آغاز پی آئی اے سے دو جہاز لیز پر لے کر کیا اور آج دو سو جہاز ایمرٹس ائیر لائن کی ملکیت ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے بطور چیئرمین پی آئی اے ایک سال کے مختصر عرصے میں اپنی ائیر لائن ائیر بلیو بنا لی، موجودہ ایم ڈی چوہدری شجاعت عظیم رائل ائیرپورٹ سروسز کے مالک ہیں۔ ہر جہاز سے لوڈنگ اور ان لوڈنگ کرنے کے پانچ سو ڈالر وصول کر رہے ہیں جبکہ پی آئی اے کی اپنی ٹرانسپورٹ پر انتہائی قلیل رقم خرچ کرکے اُس ٹرانسپورٹ سروس کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ بیرون ملک ہوٹلز سے آنے والی آمدن کا کوئی پتہ نہیں کتنی آرہی ہے اور کہاں خرچ ہورہی ہے۔ حکمرانوں کے بیرونِ ملک دوروں پر پی آئی اے کے جہاز استعمال کیے جاتے ہیں اُس کے تمام تر اخراجات پی آئی اے برداشت کرتا ہے۔ کسی بھی اہم فیصلے میں محنت کشوں کی یونین کو مشاورت کیلئے کبھی نہیں بلوایا گیا بلکہ ہمیشہ افسر شاہی نے حکمرانوں کے ساتھ مل کر من مانے فیصلے کئے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پی آئی اے 240 ارب روپے کے خسارے سے دوچار ہے۔ پی آئی اے کو اس حالت میں جان بوجھ کر پہنچایا گیا تاکہ اس کے کھربوں روپے کے اثاثہ جات کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اپنے منظورِ نظر لوگوں کو بیچا جاسکے جس کی واضح مثال مسلم کمرشل بینک کی ہے، 57 ارب روپے مالیت کے بینک کو صرف 87 کروڑ روپے میں میاں منشا کو بیچ دیا گیا۔

حل کیا ہے؟
پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ نجکاری سے چند سرمایہ داروں نے تو یقیناًاربوں روپے کما لئے ہیں لیکن وہ ادارے آج برباد ہوچکے ہیں۔ KESC کی نجکاری نے ثابت کر دیا کے K الیکٹرک کمپنی بجلی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے نجکاری کے حملے ہوتے رہیں گے۔ نجکاری بیماری کی علامت ہے اصل بیماری سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے آج پوری دنیا کو وحشت اور بربریت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ محنت کش ساتھیو! سرمایہ داروں کی ان مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف امریکہ، یورپ، برطانیہ، افریقہ میں لاکھوں محنت کشوں نے علم بغاوت بلند کر چکے ہیں۔ اس سال کے ستمبر میں 15 کروڑ ہندوستانیوں نے ایک عام ہڑتال کے ذریعے مودی سرکار اور اُسکے حواریوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ آج کوئی بھی ادارہ اپنی لڑائی اکیلے نہیں لڑ سکتا بلکہ ہر ادارے کے محنت کشوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ واپڈا کے محنت کش اپنے ادارے کی بقا کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فیڈریشنز اور کنفیڈریشنز کی باہمی چپقلش نے مزدور تحریک کو کمزور کر دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ نظریاتی دیوالیہ پن ہے کہ جس کا شکار پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال ہمیں ٹریڈ یونین کی قیادتوں میں نظر آتی ہے جو سرمایہ داری کو حتمی نظام تسلیم کر چکے ہیں۔وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ تمام اداروں کے محنت کشوں کو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر بلاشرکتِ غیرے رنگ، نسل، مذہب، قوم اور جنس ایک طبقاتی جڑت بناتے ہوئے اس نظام کے خلاف ایک حتمی لڑائی لڑنا پڑے گی کیونکہ اس نظام سرمایہ داری میں محنت کش طبقے کو صرف اتنا دیا جاتا ہے کہ وہ زندہ رہ سکے اور اگلے دن پھر اپنی محنت کسی سرمایہ دار کے پاس فروخت کر سکے۔ لہٰذا ہمیں اپنے نظریہ کی طرف واپس لوٹنا ہوگا اور وہ نظریہ مارکس ازم سوشلزم کا ہے اس نظریے کہ ذریعے ہی ہم دیگر ادارے کے محنت کشوں کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے ناصرف نجکاری کے وار کو روک سکتے ہیں بلکہ اس نظام کو اُکھاڑ کر حقیقی معنوں میں مزدور راج قائم کر سکتے ہیں۔
محنت کش ساتھیو! ہمارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور پانے کیلئے سارا جہان پڑا ہے۔ مزدور اتحاد زندہ باد!