ہندوستان: الیکشن یا پیسے والوں کی ’سلیکشن‘؟
انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہی ہے۔
انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہی ہے۔
جلیانوالہ کا قتل عام اس منظم نسل پرستی اور باضابطہ جبر کا نتیجہ تھا جو ہر سامراجی قوت کا خاصہ ہوتا ہے۔
اِس مذہبی و نسلی جنون، جو وقتاً فوقتاً دہشت گردی کی شکل اختیار کرتا ہے اور اپنے مخالف جنون پر پلتا ہے، کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟
مذہبیت کی زیادہ تر سماجی بنیادیں درمیان میں موجود تیس پینتیس کروڑ کی مڈل کلاس میں پائی جاتی ہیں جس کے وسیع ہجم اور ثقافتی اثر و رسوخ کی وجہ سے ہندوتوا کا غلبہ بظاہر زیادہ لگتا ہے۔
’جنگیں ان سیاسی نظاموں سے ناقابلِ علیحدگی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں۔‘
وقتی خلل یا رکاوٹوں کے باوجود حکمران اس بغاوت کو کمزور اور بے سمت نہیں کر سکتے۔
جس بڑے پیمانے پر صنعت اور زراعت کے طریقوں میں تبدیلی، صاف ستھری توانائی کی پیداوار اور شہروں کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے وہ منڈی کی اندھی قوتوں کے تحت ناممکن ہے۔
اتنی بربادی اور تباہی پھیلانے کے بعد یہ ’’مذاکرات‘‘ کروڑوں متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
یہ سامراجی اس قدر بدحواس اور پاگل ہو چکے ہیں کہ تاریخ سے کچھ سیکھنے کی اہلیت ہی کھو چکے ہیں۔
یہ سامراجی بوکھلاہٹ، ضد اور ہٹ دھرمی کے عالم میں اتنے آگے آگئے ہیں کہ انتہائی اقدامات کی جانب بھی جاسکتے ہیں۔
رپورٹ: حارث قدیر سعودی عرب میں سات ماہ کی تنخواہوں سے محروم محنت کشوں کے احتجاج پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے تشدد اور فائرنگ کے باعث آٹھ محنت کش زخمی ہو گئے جبکہ سینکڑوں گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبہ میں سرکاری آئل کمپنی سعودی […]
مودی جس ’چمکتے ہندوستان‘ (شائننگ انڈیا) کے نعرے کے ساتھ 2014ء میں اقتدار پر براجمان ہوا تھا وہ انڈیا صرف مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہی چمک رکھتا ہے۔
ہنستے بستے سماجوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ سامراجی خود دم دبا کے بھاگ رہے ہیں۔
’’پرولتاری انقلاب کے معروضی حالات نہ صرف پک کے تیار ہو چکے ہیں بلکہ اب تو گلنے سڑنے لگے ہیں۔‘‘
اِس تحریک نے نہ صرف یورپ بلکہ عالمی سطح پر مزاحمت اور جدوجہد کے نئے باب کا آغاز کیا ہے جو آنے والے دنوں میں سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ جاری رہے گا۔