عورت: اذیتوں کی داستان!
حد یہ ہے کہ غیرت کے نام پر معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے والے اس ’غیرت مند‘ معاشرے میں کوئی لڑکی 10 منٹ تک سڑک پر کھڑی نہیں رہ سکتی جس سے اس معاشرے کی غیرت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جاتا ہے۔
حد یہ ہے کہ غیرت کے نام پر معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے والے اس ’غیرت مند‘ معاشرے میں کوئی لڑکی 10 منٹ تک سڑک پر کھڑی نہیں رہ سکتی جس سے اس معاشرے کی غیرت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جاتا ہے۔
دہشت گردی، جرائم، جنسی تشدد، قتل و غارت، استحصال وغیرہ، یہ سب کوئی الگ الگ مظاہر نہیں ہیں بلکہ اس گراوٹ، اذیت اور وحشت کے مختلف اظہار ہیں جس کا شکار یہ معاشرہ ہو چکا ہے۔
ہمیں صرف غلام رہنے کی آزادی ہے۔
محنت کش طبقے کے ان گنت گمنام شہیدوں کو ان کی زندگی اور موت سے بھرپور جدوجہد کا صلہ اس جدوجہد کا حصہ بن کر ہی دیا جا سکتا ہے۔
ساری عمر ناانصافیوں کے نظام کو قائم رکھنے والے ’ناصح‘ بن کر پورے سماج کو اپنے انداز میں چلانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے علمبردار امریکی سامراج کی مکمل حمایت ضیاالحق کو حاصل رہی۔
تعلیمی نظام میں طلبہ کے لئے طرح طرح کے سپیڈ بریکر لگے ہوئے ہیں تاکہ ان کی مخصوص تعداد ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔
غربت میں کمی کی باتیں نہ صرف جھوٹ ہیں بلکہ غربت اور ذلت میں سسکتے کروڑوں انسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
بنیادی طور جنسی تفریق اور جنسی بنیادوں پر استحصال اور جبر کا ذمہ دار کوئی فرد یا قانون سازی کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی یہ پورا نظام ہے۔
سماج ان سنگین اور اندوہناک جرائم، تشدد اور زندہ جلا کر ماردینے کے واقعات پر ’’معمول‘‘ کا ردعمل ظاہر کررہا ہے، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
لاہور میں نرسز کے دھرنوں کے دوران وزیرقانون رانا ثنا اللہ کی اخلاق سے گری ہوئی گفتگوہو یا سیکرٹری ہیلتھ پنجاب کا رویہ، ان میں واضح طور پر محنت کش طبقے سے تعصب اور نفرت جھلکتی نظر آتی ہے۔
| تحریر: لال خان | تلملاتی دھوپ اور جھلسا دینے والی گرمی میں اس کٹھن زندگی کو گزارنے کی ضروریات کی تگ و دو میں جہاں خلق لگی ہوئی ہے وہاں احتجاجی مظاہروں کے سلسلے بھی جاری ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز، ینگ نرسز، اساتذہ اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ […]
| تحریر: لال خان | پاکستان کی سر زمین پر افغان طالبان کے امیر کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کی خبر کے بعد سیاسی اور ریاستی اشرافیہ ملکی خود مختاری کا پرانا رونا پھر سے رو رہے ہیں۔ ہفتے کے روز بلوچستان میں ہونے والی اس کاروائی پر […]
| تحریر: لال خان | ایک وقت تھا جب درمیانے طبقے کے کسی خاندان کے پاس گاڑی آتی تھی تو وہ اپنے آپ کو مراعت یافتہ سمجھنے لگتا تھا اور زندگی سہل ہونے کی کچھ امید پیدا ہوتی تھی۔ آج بھی پاکستان جیسے ممالک میں آبادی کی وسیع اکثریت گاڑیوں […]
| تحریر: ظفراللہ | کئی دہائیاں ایسے گزر جاتی ہیں جب بظاہر یہ لگتا ہے کہ وقت رک سا گیا ہے۔ جیسے کچھ تبدیل نہیں ہورہا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ طویل جمود یا نیم جمود کی کیفیت سماج پر غالب ہوجاتی ہے۔ ان کیفیات میں سوچ اور شعور قدامت […]