کرپشن کی معاشیات
[تحریر: لال خان] کرپشن کا مسئلہ حکمران اشرافیہ کی سیاسی بحثوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اسے نظام کو لاحق شدید ترین خطرہ اور اس برائی کے خاتمے کو اس ملک کی سماجی و معاشی نجات کا راستہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
[تحریر: لال خان] کرپشن کا مسئلہ حکمران اشرافیہ کی سیاسی بحثوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اسے نظام کو لاحق شدید ترین خطرہ اور اس برائی کے خاتمے کو اس ملک کی سماجی و معاشی نجات کا راستہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
[تحریر: قمرالزماں خاں] حکمران کتنے بھولے بادشاہ ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ وقت ان کے ہاتھ میں رہے گا! ان کی حاکمیت ہمیشہ قائم رہے گی، ان کے اثاثے بڑھتے رہیں گے، ان کی رعونت اور تکبرکو دوام حاصل رہے گا، ان کے ایکڑوں اور مربعوں میں قائم عیاشی […]
[تحریر: لال خان] اگرچہ میڈیا میں غضب ناک سیاسی لفاظی اور بحثوں کے ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کا سیاسی شور و غوغہ عروج پر ہے لیکن عام عوام سیاست سے بالکل لا تعلق ہیں۔
[تحریر: لال خان] بلوچستان میں ہزارہ اہلِ تشیع کے ہولناک، بے رحم اور لامتناہی قتل عام نے اس خطے میں بھڑکتی ہوئی آگ، قومی سوال اور فرقہ وارانہ تصادم کی پیچیدگی کو ایک مرتبہ پھر انتہائی دلخراش انداز میں بے نقاب کر دیا ہے۔
[تحریر: لال خان] ریاست کے کچھ حصوں، سامراج اور حکمران طبقات کے دھڑوں کی جانب سے حقیقی انقلابی تحریک کو دبائے رکھنے اور اسے منقسم کرنے کے لیے تحریک کے نام پر ایک اور ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔
[تحریر: لال خان] عوام پاکستانی سرمایہ داری کے بحران کے بوجھ تلے کچلے جا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی لیڈروں کی برسیوں اور سالگرہوں کی سیاست میں لگی ہے۔ 27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کی برسی تھی اور 5 جنوری ذوالفقار علی بھٹو کا جنم دن منایا گیا۔
[تحریر: قمرالزماں خاں] سرمایہ دارانہ نظام اس حد تک کمزور ہوکر بوسیدہ ہوچکا ہے کہ اسکے تحت سیاست،حکومت اور فیصلے کرنے والا حکمران طبقہ اعتماد کی نعمت سے محروم ہوچکا ہے۔
2007ء میں آن کر پاکستان پر مسلط ایک نیم آمریت اورنیم جمہوریت کا ایک فرسودہ سیٹ اپ لڑکھرانے لگا تھا۔
[تحریر:پارس جان] 14دسمبر کو پشاور ائیرپورٹ پر ہونے والے طالبان کے حملے نے ایک دفعہ پھر اس ریاست کی کمزوری اور اس کے اندر جاری تضادات کو عیاں کر دیا ہے۔
[تحریر: لال خان، ترجمہ: نوروز خان] حالیہ عرصے میں سفارتی سرگرمیوں، وزرائے خارجہ اور خارجہ سیکرٹریوں کے باہمی دوروں اور تجارتی معاہدوں کی بھرمار کے ساتھ کاروباری افراد، بزرگوں، سرحد پار رشتہ داروں وغیرہ کے لیے ویزے میں نرمی کا بہت واویلا کیا جا رہا ہے۔
[تحریر: نہال خان] انسان اور انسانی ذہن بڑے خونی حادثات اور واقعات کو وقت کی وسعتوں میں کھینچ کر اُن واقعات کے ذہنی اثرات کو کم کرنے کا عمل ہزاروں سالوں سے کر تا چلا آرہا ہے۔
[تحریر: لال خان، ترجمہ: نوروز خان] 30نومبر1967ء کی دھندلی صبح پاکستان کے مختلف علاقوں سے تین سوکے قریب افراد ہر طرح کی مشکلات اور سماج کے جمود کا مقابلہ کرتے ہوئے سماجی و معاشی انصاف کی جدوجہد میں لاہور میں اکٹھے ہوئے۔
[تحریر: آدم پال] اس روئے زمین نے اتنے غلیظ انسان شاید ہی دیکھے ہوں جو اس ملک کے حکمران ہیں۔ ہر روز محنت کشوں کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ زندگی تیزی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے جبکہ موت سستی۔
30 نومبر 1967ء کو پاکستان میں بظاہر ایک سکوت تھا۔ لیکن سیاست میں نومولود ترقی پسند مفکروں کی نوجوان نسل میں اضطراب کی کیفیت تھی۔ ایوبی آمریت کی طاقت اور جاہ وجلال اپنے عروج پر تھا۔ معیشت میں تیز رفتار ترقی ہورہی تھی۔
پاکستان کے مجبور و محکوم عوام پر چھائی سیاسی بے حسی، سماج میں سرائیت شدہ گہری پژمردگی اور نا امیدی کا اظہار ہے۔ آج سے پانچ برس قبل 18اکتوبر2007ء کو بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی سے واپسی نے عوا م میں ایک نئی امید جگا دی۔