’سوکھا‘
انسانی زندگی کی تباہ کاریوں کے خلاف مدافعت نہ صرف ٹیکنالوجی کے منافع خوری کے اصراف کی وجہ سے کمزور ہورہی ہے بلکہ اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ سیارہ زندگانی کے لیے زیادہ ناگفتہ بہ ہورہا ہے۔
انسانی زندگی کی تباہ کاریوں کے خلاف مدافعت نہ صرف ٹیکنالوجی کے منافع خوری کے اصراف کی وجہ سے کمزور ہورہی ہے بلکہ اس سے آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ سیارہ زندگانی کے لیے زیادہ ناگفتہ بہ ہورہا ہے۔
عوام کی سیاست کی نعرہ بازی فریب اور دھوکہ دہی بن جاتی ہے جب تک اس کو طبقاتی تضادات اور تصادم کی سائنسی سوچ اور نظریات کے تحت انقلابی سوشلزم سے نہ جوڑا جائے اور حتمی فتح تک نہ لڑا جائے۔
پاکستان اور ہندوستان کے رجعتی میڈیا کی جانب سے تحریک پر ایک مذہبی اور متعصبانہ پردہ ڈالنے کی وارداتوں کے باوجود یہ تحریک آج بھی کسی مذہبی تعصب کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر استوار ہے۔
موجودہ بے یقینی کا عالم اس وجہ سے بھی پایا جاتا ہے کہ صرف چند دنوں میں چیف کی تبدیلی سے پیشتر کوئی ایسا دھماکہ، دہشت گردی کی واردات یا پھر کوئی بھاری واقعہ رونما ہوسکتا ہے جو فوجی مداخلت کروانے کا موجب بن سکتا ہے۔
اس منصوبے سے شاید عارضی طور پر ریاست اور نظام کو کچھ آسرا مل جائے لیکن لمبے عرصے میں تضادات شدید تر ہی ہوں گے۔ اس معاشی نظام میں پسے ہوئے عوام کے عذابوں میں کمی ممکن نہیں ہے۔
حکمران طبقے نے بہت چالاکی سے کراچی پر حکمرانی کرنے والے ظالموں کے پہلے گروہوں کی جگہ پردیگر ظالم گروہوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔
بحرانوں میں اپوزیشن پارٹیاں اپنے مجرمانہ کردار کے حامل قیدیوں کو چھڑاتی ہیں۔ دھرنوں اور لاک ڈاؤن کی دھمکیوں اور یلغار کی آڑ میں کئی طرح کی سودے بازیاں ہوتی ہیں۔
تحریک انصاف ایک ایسا غبارہ ہے جس کی ہوا کئی بار نکلنے کے بعد ریاست اور میڈیا کے کچھ حصوں کی جانب سے دوبارہ بھرتی جاتی رہی ہے لیکن یہ عمل ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔
ایسی کیفیات میں جھوٹ اور منافقت کا راج زوروں پر ہوتا ہے اور جن کے منہ سے حادثاتی طور پر بھی سچ نکل جائے وہ پہلا نشانہ بنتے ہیں۔
جب تک محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں نہیں اترتا، یہ ریاستیں ان کو برباد کرتی رہیں گی۔
صرف نواز لیگ ہی نہیں، دولت کی اس مسلط کردہ سیاست کا ہر نمائندہ اس کے آگے بچھا جا رہا تھا۔
سوال یہ ہے کہ پارٹی کے اتنے زوال کے بعد اس کی بحالی ہوسکے گی؟
اگرچہ اس صدی کے آغاز سے ہی ہزارہ کمیونٹی پر گاہے بگاہے حملے ہوتے رہے ہیں لیکن پچھلے کئی سالوں میں انہیں بڑے قتل عام کا سامنا ہے۔
مرتضیٰ بھٹو نے حکمران سیاست اور نظام سے دشمنی مول لی تھی۔ مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے والوں کو ایک کہیں زیادہ مسلح اوردیوہیکل حاکمیت کبھی فراموش کرتی ہے نہ کبھی چھوڑا کرتی ہے۔
مثبت سرگرمیاں معدوم ہو چکی ہیں، تعلیمی اداروں کے اندر جیل خانوں جیسا ماحول ہے، طلبہ سیاست پر پابندی ہے، پارک اور گراؤنڈ قبضہ مافیا کے نشانے پر ہیں۔