روس: سرمایہ داری کی بربادیاں

| تحریر: لال خان |
پچھلی صدی کے اواخر میں دیوار برلن اور بعد ازاں سوویت یونین کا انہدام ایک عالمی سیاسی زلزلے کے مترادف تھا جس نے سامراج، سرمایہ داروں،حکمران طبقے کی صحافت اور دانش کو سوشلزم، کمیونزم اور مارکسزم کے خلاف نظریاتی حملوں کے وسیع جواز فراہم کیے۔سوویت یونین اور مشرقی بلاک میں سوشلزم نہیں بلکہ اس کی قوم پرستانہ، آمرانہ اور مسخ شدہ شکل یعنی سٹالن ازم ٹوٹ کر بکھرا تھا۔’’سوشلزم کے خاتمے‘‘ کی بات کرنے والے کارپوریٹ میڈیا کے ’’تجزیہ نگار‘‘ اس حقیقت کو بڑی عیاری سے چھپاتے ہیں کہ ولادیمیر لینن، لیون ٹراٹسکی اور بعد ازاں ٹیڈ گرانٹ جیسے مارکسی نظریہ دانوں نے سٹالن ازم کے انہدام کی مشروط پیش گوئی دہائیاں پہلے کی تھی۔1917ء کے بالشویک انقلاب سے لے کر 1980ء کی دہائی تک، سرمایہ داری کا کوئی دانشور نہ ہی سامراجی ممالک کی کسی یونیورسٹی میں شائع ہونے والا کوئی تھیسس سوویت یونین کے انہدام کا سائنسی تناظر پیش کر پایا تھا۔ 1991ء کے واقعات سوویت بیوروکریسی کو قبلہ و کعبہ ماننے والے سٹالن اسٹ بائیں بازو سے زیادہ سی آئی اے کے لئے حیران کن تھے۔
ukraine-russia-eu-usa-altagreerمغربی سرمایہ دار اور ملٹی نیشل اجارہ داریاں جب سابقہ سوویت یونین کی وسیع منڈی کو دیکھ کر رالیں ٹپکا رہے تھے تو ٹیڈ گرانٹ نے1992ء میں بیلجیم میں تقریر کرتے ہوئے واضح پیش گوئی کی تھی روس میں مافیا سرمایہ داری استوار ہوگی۔ ٹیڈ نے ’’سرد جنگ میں فتح‘‘ کے نشے میں مست سامراجیوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ایک سرمایہ دارانہ روس ان کے لئے عذاب بن جائے گا۔ 25 سال گزر گئے ہیں اور آج ٹیڈ کے الفاظ پتھر پر لکیر معلوم ہوتے ہیں۔ مغرب اورروس کی سفارتی چپقلش اور مالیاتی تضادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یوکرائن اور شام میں دونوں اطراف کھلی پراکسی جنگ لڑ رہی ہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیوٹن کی وحشی حکومت ترقی پسند یا سامراج مخالف ہے۔ منصوبہ بند معیشت کے خاتمے اور سرمایہ داری کی بحالی کے بعد سے روس مسلسل سماجی اور معاشی خلفشار کا شکار ہے۔سابقہ ’’کمیونسٹ‘‘ حکمران طبقے نے دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن روس کے محنت کش عوام کو حاصل سوویت عہد کی مراعات اور سہولیات ایک ایک کر کے چھین لی گئی ہیں۔ پیوٹن کی جانب سے ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ کا مغربی پرپیگنڈا حسب روایت منافقت پر مبنی ہے۔ نومولود روسی طبقہ ملک کے وسائل کی لوٹ مار میں ایک دوسرے سے بھی برسر پیکار ہے اور مغربی میڈیا پیوٹن ٹولے کے مخالف دھڑوں کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ اپوزیشن رہنما بورس نیمٹسوو کے قتل کے بعد مچایا جانے والا شور شرابا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مغربی کارپوریٹ میڈیا مقتول کو پیوٹن مخالف ’’لبرل‘‘ اپوزیشن رہنما اور ’’ہیرو‘‘ کے طور پر پیش کررہا ہے۔ درحقیقت وہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ابھرنے والے کرپٹ سرمایہ دار طبقے کا ہی حصہ تھا لیکن لوٹ مار کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کے بعد پیوٹن حکومت کا مخالف بن گیا۔بورس نیمٹسوو نے بورس یلسن کے عہد میں اقتدار کے ایوانوں میں قدم جمائے تھے۔ 1991ء میں یلسن کے مشیر سے ترقی پا کر وہ ’نزنی نووگوروڈ‘ کا گورنر بن گیا اور بعد ازاں 1997ء میں روس کا پہلا ڈپٹی وزیر اعظم بنا۔
کالے دھن پر مبنی روس کی حالیہ معاشی بنیادیں استوار کرنے کا آغاز بورس نیمٹسوو نے ہی کیا تھا۔ نووگوروڈ کا گورنر بننے کے بعد مافیا باسز سے اس کے یارانوں کے قصے اخباروں میں ہر روز شائع ہوتے تھے۔ بینکنگ فراڈ اور ریاستی اثاثوں کو برباد کر کے کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرنے میں بھی مغربی میڈیا کا یہ ہیرو خاصا ماہر تھا۔ ڈپٹی وزیر اعظم کے طور پربھی اس نے کئی بڑے ہاتھ مارے اور وزارت توانائی کے فنڈز میں بڑا خورد برد کیا۔ دسمبر 1997ء میں دوما (روسی پارلیمنٹ) نے نیمٹسوو کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے پیش نظر یلسن سے اسے معزول کرنے کی اپیل کی۔ صدر یلسن بھی سمجھ چکا تھا کہ نیمٹسوو، اس آمرانہ ڈھانچے کو ملک کے دوسرے حصوں میں پھیلانے کے قابل نہ تھا جو اس نے نزنی نووگوروڈ میں قائم کیا تھا۔ اس مقصد کے لئے بالآخر ایک اور شخص کا انتخاب کیا گیا جس نام ولادیمیر پیوٹن تھا!

Boris Nemtsov
بورس نیمٹسوو

مغربی میڈیا نیمٹسوو کے قتل کا الزام پیوٹن پر لگا رہا ہے تاہم 1999ء میں نیمٹسوو نے پیوٹن کے قصیدے پڑھتے ہوئے کہا تھا کہ ’’دائیں بازو کی قوتوں کے لئے پیوٹن سب سے قابل قبول شخصیت ہے۔صدر کے امیدواران میں سے وہ سب سے محنتی، تجربہ کار اور ذہین آدمی ہے۔‘‘ نئی حکومت کو نیمٹسوو کی کوئی زیادہ ضرورت نہ تھی۔ملکی سطح کی سیاست میں وہ اپنی حیثیت ویسے بھی کھو چکا تھا۔ 2003ء کے انتخابات میں اس کی دائیں بازو کی نیولبرل پارٹی شکست سے دوچار ہوئی جس سے بعد وہ مین سٹریم سیاست سے باہر ہوگیا اور غیر پارلیمانی اپوزیشن کے رہنما کا کردار ادا کرنے لگا۔ ماضی میں کلیدی عہدوں پر براجمان رہنے کے پیش نظر وہ ’’لبرل اپوزیشن‘‘ کا اہم رہنما بن کر ابھرا اور ’’جمہوریت‘‘ اور ’’کرپشن کے خلاف جنگ‘‘ کا ٹھیکیدار بن گیا۔
لبرل اشرافیہ میں وہ کافی مقبول تھا۔خفیہ محفلوں میں شراب کے نشے میں دھت ہو کر داد عیش دینے والے پارٹی کے سابقہ بیوروکریٹوں کے بر عکس وہ عوام میں گھل مل جانے کا ناٹک بڑا چھا کر لیتا تھا۔یہ الگ بات ہے ’’لبرل مافیا‘‘ کے یہ سیاستدان اپنی آپسی گفتگو میں سوویت عہد کی طرف رشک اور حسرت سے دیکھنے والے محنت کش عوام کے لئے ’’احمق سوویت لوگ‘‘ (Vatniks Soviets)جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔نیمٹسوو اپنی تقریباً تمام سیکرٹریوں کے بچوں کا والد اور بوقت ضرورت دبئی میں عیاشی کا خاصا شوقین تھا۔ اپنے یہ شوق پورے کرنے کے لئے پیسے وہ ان مغربی کمپنیوں سے لیتا تھا جن کی ’’مدد ‘‘اس نے ماضی میں ریاستی اثاثوں کی کوڑیوں کے بھاؤ نجکاری کے ذریعے کی تھی۔ آخری وقت میں بھی ایک 23سالہ دوشیزہ اس کے ہمراہ تھی۔
روس کے مافیا سرمایہ داروں کی آپسی لڑائی میں ایسے قتل ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اس گینگسٹرحکمران طبقے کا سب سے عیار سیاسی کھلاڑی فی الوقت پیوٹن ہے جو اپنی سماجی و سیاسی بنیادوں کو قائم رکھنے کے لئے مغرب دشمن لفاظی اور روسی قوم پرستی کا استعمال خوب جانتا ہے۔ جرمنی جیسی یورپی قوتوں کی حماقتوں اور امریکی سامراج کی کھوکھلی رعونت کا سب سے زیادہ فائدہ پیوٹن نے ہی اٹھایا ہے۔ کریمیا کی روس میں شمولیت اور یوکرائن کی مغرب نواز فاشسٹ حکومت کے خلاف جنگ نے پیوٹن کو اور بھی مضبوط کیا ہے۔ لیکن یہ عارضی استحکام زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں ہے۔ معاشی پابندیوں اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں تیز گراوٹ سے روسی سماج کے سماجی اور معاشی تضادات بہت جلد بھڑکیں گے۔

article-2072427-0F20270A00000578-177_306x277
2011 میں پیوٹن حکومت اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف بڑے عوامی مظاہرے ہوئے تھے۔

نصف صدی سے زائد عرصے پر مشتمل سٹالن اسٹ افسر شاہی کے جبر اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد ’’آزاد منڈی‘‘ کی ڈاکہ زنی نے روس کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور پر خاصے منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ آمرانہ سٹالن ازم کے آسمان سے گر کر روسی کمیونسٹ پارٹی سرمایہ دارانہ اصلاح پسندی کی کھجور میں اٹکی ہوئی ہے۔ تاہم ماضی قریب کے واقعات ظاہر کرتے ہیں روس کے محنت کش عوام اب ماضی کی غداریوں کا بوجھ اپنی نفسیات پر سے جھٹک رہے ہیں۔ 2011ء میں لاکھوں لوگوں نے کالے دھن کی اس ’’آمرانہ جمہوریت‘‘ کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ یہ بغاوت مستقبل میں بلند پیمانے پر پھر ابھرے گی اور مغربی یورپ میں محنت کشوں کی تحریکیں روسی عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد عوام کو ’’جمہوریت‘‘ ، ترقی اور خوشحالی کے جو جھوٹے خواب دکھائے گئے تھے وہ اب ٹوٹ رہے ہیں۔سرمایہ داری کی ہی ’’برکات‘‘ ہیں کہ عصمت فروشی ، منشیات اور جرائم آج دنیا میں روس کی شناخت ہیں۔ روس اور وسط ایشیا کی اکثریتی آبادی آج بھی سوویت یونین کے دور کو بہتر سمجھتی ہے جہاں کم از کم روزگار، علاج، رہائش اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی ضامن ریاست تھی۔ لینن اور ٹراٹسکی کے وطن میں ابھرنے والی محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک زیادہ برق رفتار ہوگی۔ آخر کار یہ بالشویک انقلاب کی سرزمین ہے!

متعلقہ:

یوکرائن کی خونریز بندربانٹ!

جہاز کی تباہی اور یوکرائن کی چیر پھاڑ

یوکرائن: امریکی سامراج کی بے بسی

مشرقِ وسطیٰ: سامراجی کٹھ پتلیوں کا میدان جنگ

روس: بالشویک میراث کی نئی اٹھان