| تحریر: فاطمہ افضل |
انسانی تاریخ کے ارتقاء کے عمل میں آرٹ کا کردار دیکھیں توآرٹ اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسانی معاشرہ۔ قدیم سماج میں آرٹ کو انسانی ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا تھا۔ اپنی ابتدا میں آرٹ کا کردار انفرادی کے بجا ئے سماجی تھا۔ فرانس اور سپین میں قدیم دور میں غاروں میں بنا ئے گے مصوری کے شاہکار غار کا ہی حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ انکا مقصد شکار پر گرفت حاصل کرنا تھا اور شکار کے کمزور حصوں کی نشاندہی کرنا تھا۔ اسی طرح سنگیت اور رقص کے بھی سماجی مقاصد تھے۔ سائنس، فلسفہ، موسیقی، ادب، اچھی گفتگو کا فن مرد و زن کی مشترکہ ملکیت تھے۔ لیکن محنت کی تقسیم اور ذرائع پیداوار پر اقلیت کے کنٹرول نے تاریخ کا دھارا ہی بدل دیا۔ سائنس، فلسفہ اور آرٹ پر بھی اقلیت کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ قدیم اشتراکی سماج کے بعد کی تاریخ طبقاتی معاشرے کی تاریخ ہے۔ حاکم طبقے نے ہمیشہ محکوم طبقے کو محکوم بنانے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کیے۔ سیاست، ثقافت، سائنس، آرٹ اور مذہب کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیااور انسانوں کی اقلیت کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج اور محکوم بنانے کے لیے ہر چیز کو استعمال کیا گیا۔ لیکن ارتقا کا عمل رکا نہیں انسان نے ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور بہتر نظام کے لیے جدو جہد جاری رکھی، اسی انقلابی عمل کی وجہ سے ہر نیا سماجی نظام پہلے کی نسبت بہتر ہوتا گیا۔ اپنے آغاز میں سرمایہ دارانہ نظام بھی جاگیردارانہ نظام کے خلاف مثبت قدم تھا۔ اس نے اپنی مخصوص طبعی عمر تک سماج کو ترقی دی۔ لیکن کوئی بھی نظام جب آبادی کی اکثریت کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تووہ الٹ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسکا ترقی پسند کردار ختم ہو جا تا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام خود کو بچانے کی خاطر ہر طرف عدم استحکام اور بربریت پھیلا رہا ہے۔
اپنے عروج کے عہد میں سرمایہ دارانہ نظام نے جہاں سائنس، طب، تکنیک اور صنعت کو فروغ دیا وہاں تمام فنون لطیفہ کو بھی ترقی دی۔ کسی بھی سماج میں تمام فنون لطیفہ (فن تعمیر، ادب، مصوری وغیرہ) رائج الوقت سماج کی عکاسی کرتے ہیں۔ آج سرمایہ داری کے بحران کے عہد میں ہمیں گرتی ہوئی اقدار ، گلا سڑا کلچر اور آرٹ کا بحران نظر آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانیت کی اکثریت کو ایک مشینی زندگی میں دھکیل دیا ہے۔ انسان کی حیثیت ایک اوزار کی سی ہے۔ جو کہ ہر طرح کے لطیف جذبات سے عاری ہے۔ طویل ترین اوقات کار اور سخت جسمانی مشقت کی بدولت انسان خود کو انسان نہیں سمجھتا بلکہ مشین کا ہی ایک پرزہ سمجھتا ہے۔ ایسے حالات میں کام کرتے ہوئے انسان کے لطیف جذبات اور وقار بری طرح مجروح ہو جاتے ہیں۔ اس سارے عمل میں فن کے خلاف ایک جارحانہ رویہ نظر آتا ہے۔ فن کو درمیانے طبقہ کی مراعات کے طور پر لیا جاتا ہے۔ فلسفہ اور آرٹ پر با ت کرنا بھی ایک بے کا ر اور احمقانہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ سرمایہ کے تسلط میں انسان کی تخلیقی صلاحیتیں دب کر رہ گئی ہیں۔
ولیم ڈیوس اپنی ایک نظم ’’فرصت‘‘ میں لکھتا ہے کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے کہ ہم کائنات کی خوبصورتی کو دیکھ سکیں۔ ہمارا مشینی معمول ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم نظاروں اور دلکش پہاڑوں کو دیکھ سکیں یا غور کر سکیں۔ فرصت ایک ایسا قیمتی عنصر ہے جو قدیم سماجوں میں سائنس، فلسفہ اور تمام فنون لطیفہ کی ترقی کا باعث بنا۔ ایک انسان کے طور پر نشوونما پانے کے لئے وقت اور ضروریات زندگی کے حصول کی جدوجہد سے آزادی بنیادی ضرورت ہے۔
ہر انسان اپنے لطیف جذبات کا اظہار مختلف طریقے سے کرتا ہے۔ جب اسکے پاس اپنی محسوسات کے اظہار کا ذریعہ نہ ہو تو زندگی اسکے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ آرٹ کے بغیر ایک لمحے کے لئے بھی ہم دنیا کا تصور کریں تو وہ ایک بے رنگ دنیا ہو گی۔ ایک غیر انسانی اور کٹھن دنیا۔ آرٹ سب کے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ جن حالات میں ہم کام کرتے اور رہتے ہیں وہ نا قابل برداشت ہیں۔ لوگوں کی اکثریت موسیقی، رقص اور مصوری میں دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔ یہ سب آرٹ کا اظہار ہے۔ یہ لوگوں کی بے رنگ زندگی میں رنگ لاتا ہے اوران کی جمالیاتی حس کو تسکین پہنچاتا ہے۔ لوگوں کو یہ ادراک کراتا ہے کہ ایک ایسی زندگی بھی ہو سکتی ہے کہ جو اس سے بہتر ہو۔ ایک آرٹسٹ بھی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور اسکے اثرات سے باہر نہیں ہوتا۔ آرٹسٹ پر بھی اردگرد کا ماحول، کلچر، اس کے سماجی رشتے اثرانداز ہوتے ہیں۔ 1917ء کا انقلاب آرٹ میں بھی انقلاب تھا جہاں تمام فنون لطیفہ کو زبردست ابھار ملا تھا۔ بہت سے ادیب انقلاب سے متاثر ہوئے اور انکی لکھتوں اور نظموں میں ہمیں وہ انقلابی جوش نظر آتا ہے۔ گو کہ وہ ساری حاصلات سٹالنزم کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔ انقلاب کے دنوں میں عوامی شعور میں ایک جست آتی ہے اور وہ خود کو انسان کے طور پر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں اپنی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ سماج سے خود غرضی، لالچ اور بیگانگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور صحیح معنوں میں انسانی کلچر کا آغاز ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ سماج میں جہاں ہر چیز بیچنے کے لئے بنا ئی جاتی ہے وہاں فن کو بھی اس مذموم مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر اس فلسفے و فن پر پہرے ہیں جو اس استحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کرے، اسکو بے نقاب کرے۔ علم اور ادب و دیگر فنون کو سرمائے کے تسلط سے آزاد کرنے کے لئے اس نظام کی تبدیلی ضروری ہے۔ اور ایک طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ضروری ہے جس میں کلچر، سائنس اور فلسفے پر اقلیت کی اجارہ داری نہ ہو بلکہ سب کی دسترس ہو۔ تب ہی فن کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے۔ آرٹ کا انفرادی نہیں بلکہ سماجی پہلو سامنے آئے گا۔ اور یہ سب تب ہی ممکن ہے جب انسان کو فراغت کے لمحات میسر آئیں گے۔ کام کے اوقات کار کم ہوں گے۔ انسان جو وقت سرمایہ دار کے لئے قدر زائد پیدا کرنے میں لگاتا ہے وہ اپنے لئے استعمال کرے گا۔ تب اسکی تخلیقی صلاحیتیں سامنے آئیں گی اور اس کے تخیل کو تحریک ملے گی۔ تب صحیح معنوں میں صحتمند انسانی معاشرے کی تعمیر ہو گی۔ علم و فن کے عظیم معیار دیکھنے کو ملیں گے۔