کیا پاکستان ٹوٹ سکتا ہے؟

[تحریر:لال خان، ترجمہ: فرہاد کیانی]
پاکستان معرض وجود میں آنے ساتھ ہی شدید عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر بنائے گئے اس ملک کی بقا اور یکجہتی کے متعلق شکوک و شبہات جنم لیتے رہے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ملک ٹوٹ جانے کی اس بحث میں شدت آئی ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے دانشوروں کے اس حصے کے خیالات کو تقویت ملی جن کے اس ملک کی لمبے عرصے تک بقا کے متعلق شکوک و شبہات تھے۔ اس واقعے کے بعد سے پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کی قیاس آرائی زبان زد خاص و عام ہو چکی ہے خاص طور پران صوبوں میں جہاں قومی جبر واضح شکل میں موجود رہا ہے۔
اس قنوطیت کی بنیادی وجہ مسلسل بحران اور وہ عمومی تنزلی ہے جو معیشت،ریاست اور سماجی حالات میں جاری ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں یہ مصائب اس قدر شدید اور اذیت ناک ہو چکے ہیں کہ عمومی بے یقینی اور نا امیدی ملک کی سماجی نفسیات پر چھا چکی ہیں۔بلوچستان میں جاری تباہی، پشتون خواہ میں لگی خون کی آگ، کراچی میں خون ریزی، سیالکوٹ اور ٹنڈو آدم میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سرِ عام قتل، عورتوں اور اقلیتوں کی زندگی جہنم بناتا خوفناک تعصب، سماج کو غارت کرتافرقہ وارانہ قتل عام، موت اگلتے سامراجی ڈرون، دہشت گردی کے ہاتھوں انسانوں کا ذبح ہونا اور مذہب کے ٹھیکہ داروں کی لوگوں کی نجی زندگیوں میں بیہودہ مداخلت سے سماج گھٹتا چلا جا رہا ہے۔چھوٹی بچیوں کو زبر دستی ضیا الحق کے ظالمانہ قوانین کے تحت توہین رسالت میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ پاکستان پر پژمردگی چھا چکی ہے۔
بربریت کی یہ نشانیاں، بستر مرگ پر پڑی پاکستانی سرمایہ داری کے شدید بحران کی پیداوار ہیں۔اس جلتی پر تیل پہلے سے بدحال عوام پر معاشی اور سماجی حملوں کی یلغار ہے۔ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بڑھتی ہوئی بیروزگاری، حالاتِ زندگی میں انتہائی گراوٹ، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، رہائش، پانی، نکاس اور بجلی کے نظام میں اذیت ناک ابتری کے ساتھ بکھرتے ہوئے سماجی رشتوں سے ایک تباہی کا عالم ہے۔ یکم ستمبر سے پٹرولیم مصنوعات میں ہولناک اضافے سے ملک بھر میں سلگتے ہوئے عوام پر ایک اور وحشتناک وار کیا گیا ہے۔مہنگائی جو پہلے سے ہی ایک اذیت ناک روگ کی طرح معاشرے کو درد میں مبتلا کئے ہوئے تھی اس واردات سے مزید عذابوں اور زخموں کا باعث بنے گی۔ سوال یہ ہے کہ محنت کش اور نوجوان کب تلک اس ظلم و جور کو برداشت کریں گے۔لیکن پھر سیانے کہتے ہیں کہ غربت اور دکھوں میں ہی پلتے ہیں بغاوت کے جراثیم !
متروک اور فاضل سرمایہ دارانہ نظریے کی جکڑ بندیوں میں قیدتنگ نظر سوچ کے مالک منظر عام کے دانشور اب صرف بربادی کے پیمبر بن چکے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ وہ محض خونریزی اور تباہی، ٹوٹ پھوٹ اور خون ریز خانہ جنگی کے خوفناک تناظر سوچ سکتے ہیں۔لوٹ مار میں دھنسے ہوئے ارباب اختیار حاصلات کی ایسی جھوٹی منظر کشی کرتے ہیں جس پر انہیں خود بھی یقین نہیں آتا۔اپنی پھیلائی ہوئی بربادی کو چھپانے کے لیے سیاسی، عسکری، عدالتی اور میڈیا کی اشرافیہ اوچھے ایشوز اچھال کر عوام کی توجہ سماج کو اذیت دیتی بربادی سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان کے ٹوٹ جانے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا ، لیکن فوری طور پر اس کا تناظر نہیں ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ مختلف شکلوں میں ممکن ہے۔ نیو یارک ٹائیمز کے ڈیوڈ سانگر نے اپنی حالیہ کتاب ’Confront and conceal‘ میں لکھا ہے کہ ’’گزشتہ برس باراک اوباما نے اپنے سٹاف کو بتایا کہ قومی سلامتی سے متعلق اس کا سب سے سنگین خدشہ پاکستان کا ٹوٹ جانا اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے کشمکش کا شروع ہو جانا ہے‘‘۔ اس سے پہلے کی ایک کتاب ’The Inheritance‘ میں وہ ایک امریکی جاسوس کا بیان لکھتا ہے کہ ’’اگست2001ء میں سلطان بشیر الدین محمود نامی ایک ایٹمی سائنس دان نے بن لادن سے ملاقات کی۔ محمود ہمارے لیے ایک بھیانک سپنا تھا۔ اسے پاکستان کے تمام ایٹمی پروگرام تک رسائی حاصل تھی۔اسے بخوبی معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔اور اس کا دماغ مکمل طور پر خراب ہو چکا تھا‘‘۔ اربوں روپے خرچ کر کے ایٹمی ہتھیار بنانا بھی پاگل پن ہے جس رقم سے جہالت اور نومولود اموات کو ختم کیا جا سکتا تھا۔
سامراج کے خدشات مکمل طور پر بے بنیاد نہیں لیکن ان کو اپنے مفادات کے لیے بڑہا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔سامراجیوں نے پاکستان کو گھاؤ لگائے ہیں۔ فوجی اشرافیہ امریکہ کی خفیہ اور ظاہری لڑائیوں میں ملوث رہی ہے اور اس عمل میں اس نے افغان جہاد کی مالی اعانت کے لئے کی جانے والی منشیات کی تجارت سے اربوں روپے کا کالا دھن جمع کیا ہے۔ اب یہ مالی مفادات ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ امریکی پالیسی ساز پاکستان کی strategic depth کی پالیسی کو پسند نہیں کرتے جو ان کے منصوبوں کے کمزور کر رہی ہے۔ دونوں طرف سے ایک براہ راست تصادم سے بچنے کی شدید کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ تنازعات افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ پاکستان بھر میں اپنا اظہار کر رہے ہیں، بالخصوص بلوچستان میں جہاں امریکہ اور چین کی ایک پراکسی جنگ لڑی جا رہی ہے۔چینی ان سنگلاخ پہاڑوں میں موجود معدنی دولت کے حصول کی ہوس اور گوادر پورٹ پر اپنے کنٹرول کے لئے پاکستانی فوج کو استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکی اس منصوبے کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی بادشاہت اور ایرانی ملا اشرافیہ کے مابین اس خطے میں ایک اور خانہ جنگی چل رہی ہے جہاں معصوم ہزارہ افراد اور دیگر اقلیتوں کا ہولناک قتل عام ایک کربناک منظر پیش کر رہا ہے۔
اکانومسٹ کے مطابق ’’پاکستان کو انتہا پسندوں کے اقتدار پر قبضے کا فوری خطرہ لاحق نہیں۔ لیکن طویل مدت میں رجحان غلط سمت میں ہے‘‘۔ در حقیقت اور بہت سے ایسے ’رجحانات‘ ہیں جن کے طویل مدت میں امکانات موجود ہیں۔ قومی بنیادوں پر پاکستان کی تقسیم خارج از امکان نہیں ہے۔ لیکن قوی امکان ہے کہ ایک عوامی بغاوت کے پھٹنے تک نظام اور ریاست کے لگائے گھاؤ رستے رہیں گے۔پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاست قومی سوال کے حل اور ایک جدید قومی ریاست کی تشکیل میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔طبقاتی جبر کے ساتھ ساتھ محکوم قوموں، عورتوں اور مذہبی اقلیتوں پر ظلم میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن سامراج کی سرپرستی میں قومی آزادی سے محکوم قوموں کے محنت کش طبقات کے استحصام میں اضافہ ہو گا۔ ان خطوں کے وسائل کی لوٹ مار میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سامراجیوں نے ہمیشہ قومی استحصال کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیاہے۔ انہوں نے حاکم یا محکوم قوموں کی ان خطو ں میں اپنے مفادات کی خاطر حمایت کی ہے۔ محکوم قوموں کی حقیقی قومی آزادی صرف انقلابی بنیادوں پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس لڑائی کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑ کر عوام کو برباد اور حکمران طبقے اور سامراجیوں کے شرح منافع میں اضافے کی خاطر قومی جبر کو شدید کرنے والی ریاست اور نظام کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔
اصل سوال عوام کی تقدیر کا ہے۔لیکن ایک اور تناظر بھی ہے جسے یہ دنیا کے مالکان انتہائی آسانی سے چھپا جاتے ہیں۔یہ طبقاتی جدوجہد کی اٹھان اور انقلاب کا تناظر ہے۔ ریاستیں قائم ہوتی ہیں اور مٹ بھی جاتی ہیں۔اپنے وقت کی عظیم سلطنتیں آج تاریخ کا حصہ ہیں۔ریاست کی سا لمیت، یکجہتی اور خودمختاری کھوکھلے نعرے ہیں جو ریاستوں کے مالکان اور ان کی لوٹ مار کرنے والے لگاتے ہیں۔ایسے فریب لمبے عرصے تک نہیں چل سکتے۔حقیقی سوال ریاست کے باسیوں کی خوشحالی کا ہے۔ اگر ریاست اور سماج عوام کو مہذب حالات زندگی فراہم نہیں کر سکتے تو اس کا وجود ایک بوجھ اور بے سود ہو جاتا ہے۔ایسی ریاست کے وجود کا کوئی جواز اور حق باقی نہیں رہتا۔

ڈیلی ٹائمز، 2ستمبر 2012ء