کیا چین ’سپر پاور‘ بن سکے گا؟

تحریر: لال خان

پچھلی چند دہائیوں سے چین کی معاشی اورصنعتی ترقی کابہت شور ہے۔ لیکن پاکستان میں تو 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں بھی چین کی ترقی کا نسبتی فرق بہت واضح تھاجبکہ اس وقت چین میں سرمایہ داری نہیں تھی اورمعیشت ریاستی ملکیت اورکنٹرول میں تھی۔ لیکن آج چین کا امریکہ کو زیر کر کے سپر پاوربننے کا تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے۔ سپر پاورکے تعین کی حدود صرف معاشی اورصنعتی ترقی تک نہیں ہوتیں بلکہ اسکی خارجی پالیسی کا دائرہ کار و اثررسوخ، اسکی فوجی طاقت اوراسکی دنیا بھر کے ممالک کی معیشتوں سے لیکر سیاست اورسفارتکاری تک کو ملحوظ خاطررکھ کرہی کیا جاسکتا ہے۔
امریکی سامراج کوئی قدیم سلطنت اورسپر پاور نہ تھا۔ حقیقی طور پر امریکہ سپر پاورکے طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد فیصلہ کن اندازمیں نمودار ہوا تھا۔ لیکن اسکی سپر پاورکو سوویت یونین کی سپر پاورکا چیلنج اور خطرہ مسلسل قائم رہا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد عمومی طور پر تاثر یہ ابھرا کہ اب امریکی سامراج کے لیے کوئی روک ٹوک والی طاقت نہیں ہوگی۔ لیکن آج امریکی سیاسی و اقتصادی اجارہ داری اتنی حاوی اور طاقتورنہیں رہی ہے کہ اس عالمی تسلط کو قائم رکھ سکے۔ امریکی سامراج دوسری عالمی جنگ کے بعد اس لیے سپر پاور بنا چونکہ جنگ کے دوران اسکی جنگی آلات کی صنعت کو بے پناہ منافع اورسرمائے کے اجتماع کاموقع ملا اور پھرجنگ کے بعد برباد ہونے والے یورپ، جاپان اور دوسرے خطوں کی تعمیر نو کے عمل سے اسکی تعمیراتی اوردوسری بے شمار صنعتوں کو بے پناہ دولت اورمنافع خوری کے مواقع میسرآئے۔ اسی عرصے میں اس نے فوجی اور سفارتی طاقت اورمعاشی ترقی حاصل کی۔ اس سے اسکو داخلی طور پر بھی سماجی ترقی کے مواقع میسر آئے اور امریکہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے معیارزندگی کی وجہ سے امریکی سرمایہ داری کو مزدوروں کے داخلی چیلنج اوربغاوتی تحریکوں کو کند کرنے کا بھی موقع ملا۔ اگر ہم آج کے امریکہ کی معیشت، معاشرت، عسکری اورسفارتی قوت کاجائزہ لیں توہمیں واضح طور پر یہ روبہ زوال ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اسکی جگہ سپر پاور کا مقام حاصل کر سکے گا؟
اگر ہم آج چین کی اقتصادی اورخارجہ پالیسیوں کاجائزہ لیں تو چینی اجارہ داریاں اورحکمران پھیلاؤ کی جانب مائل ہیں جبکہ امریکہ ایک پسپائی اختیارکرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ اس سال جنوری میں جب چین کے صدر شی جن پنگ نے ڈیوس سوئٹزر لینڈ میں مالیاتی اور سیاسی سربراہان کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے اس ارادے کا اظہار کیا کہ ’’چین معاشی عالمگیریت کو ’گائیڈ‘ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے‘‘ تو اسکے دو دن بعد صدر شی نے جینوا میں اقوام متحدہ کے ہونے والے اجلاس میں امریکہ کو یہ تنبیہہ کی کہ وہ عالمی تسلط کو ختم کرے کیونکہ اسکا انجام یہ ہو سکتا ہے کہ نئی ابھرنے والی طاقتوں کو دبانے والے پرانے یونانی کردارسپارٹا نے جب نئی ابھرتی ہوئی طاقت ایتھنز پر جبر کیا توخود ٹوٹ گیا تھا۔ یہاں صدر شی نے امریکہ کو ایک نئے عالمی نظم ونسق کو قبول کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ 2008ء کے عالمی سرمایہ داری کے اقتصادی کریش کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک میں چینی ماڈل (جو سرمایہ داری کے دو مختلف طریقہ کار کا ملغوبہ ہے) کو اپنانے کی بات ہونے لگی تھی۔ اب اسکو ’’چینی ماڈل‘‘ کی بجائے گلوبلائزیشن اور نئے عالمی نظم ونسق کا چینی ’’حل‘‘ گردانا جا رہا ہے۔ یہ ’’حل‘‘ چین میں پچھلے سال منعقد ہونیوالی چین کی ’’کمیونسٹ‘‘ ’’پارٹی‘‘ کی کانگریس میں سرکاری پالیسی کے طور پر پیش کیا گیا۔ گو چین نے عالمی طورپر اقتصادی، سیاسی اور سفارتی میدانوں میں وسیع مداخلت اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کے کافی اقدامات اٹھائے ہیں لیکن ایک سپرپاورکی اجارہ داری اور تسلط حاصل کرنے سے چین ابھی بہت دور ہے۔ چین اقوام متحدہ کو امریکہ اور جاپان سے کم مالیاتی امداد دیتا ہے۔ اس کے ایشین انفراسٹرکچر بینک اورنیوز ڈویلپمنٹ بینک، آئی ایم ایف کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور اسکو ابھی بھی یہ ضرورت ہے کہ چین کی کرنسی یوہان کو آئی ایم ایف 5 ریزرو کرنسیوں میں شامل رکھے۔ اسی طرح چین عالمی طور پر فوجی کاروائیوں میں بہت پیچھے ہے۔ فوجی طاقت کے پھیلاؤ اور دہشت کے بغیر کوئی سپرپاور نہیں بن سکتی۔ مشرق وسطیٰ میں داعش اورمذہبی دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں کی لفظی حمایت کی گئی لیکن چین نے عملی فوجی کاروائیوں میں شراکت سے اجتناب کیے رکھا ہے۔ چین میں اس وقت 16 لاکھ مزدور امریکی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں۔ چین آج بھی امریکی اجارہ داریوں کوسستی اورہنر مند محنت فراہم  کرتا ہے۔ مثلاً اگر ہم کپڑے کی صنعت کا جائزہ لیں تو چین میں امریکہ سے 46 فیصد کم پیداواری لاگت آتی ہے۔ جبکہ سمارٹ فونوں کی صنعت میں امریکی اجارہ داریوں کو یہ لاگت  37فیصد کم پڑتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکی اجارہ داریوں کی منافع خوری میں چین کے حکمران بھی اپنے مزدوروں کا استحصال کروا رہے ہیں۔ آج بھی چین کو 25 فیصد برآمدات کے لیے امریکی منڈی کی ضرورت ہے۔ اس سے امریکی منڈی پر چینی صنعت اور معیشت کے انحصار کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مجبوری کے عالم میں چین نے تقریباً تین سے پانچ ہزار ارب ڈالر کے امریکی بانڈ خرید رکھے ہیں۔ اس مجبوری کو امریکی ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر چلانے کے لیے امریکی وزارت خزانہ استعمال کرتی ہے۔ اگلے بیس سال میں چین نے بوئنگ سے 6000 نئے جہاز خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے جس سے بوئنگ کھرب ڈالر سے بڑی اجارہ داری بن جائے گی۔ چین کے کل دفاعی جنگی آلات اور فوجی اخراجات امریکہ کے اخراجات کا ایک چوتھائی بھی نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو اس وقت چین کی سرمایہ دارانہ معیشت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ امریکہ کو مات دے کر ایک سپر پاور کے طور پر غالب آجائے۔ لیکن دوسری جانب امریکی سامراج کی زوال پذیری بھی عیاں ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان دنیا کا سب سے اہم اور بڑا باہمی اقتصادی رشتہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ انکی سالانہ مشترکہ تجارت 600 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور ایک دوسرے کی معیشتوں میں 350 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ یہ ان مادی مفادات کا تعلق ہے جو کسی تنازعے کو تصادم میں بدلنے سے روک رہے ہیں۔ نہ ہی امریکہ اور چین کے درمیان اب کوئی نظریاتی تضاد موجود ہے۔ 1978ء سے قبل کے منصوبہ بند معیشت والے چین سے بہت تضادات پائے جاتے تھے، لیکن منڈی کی معیشت والے چین سے کسی فکر کا کوئی تضاد نہیں ہے۔ عالمی سرمایہ داری کا جریدہ اکانومسٹ لکھتا ہے ’’چین میں اب انقلاب برآمد کرنے کی نہ تو کوئی خواہش ہے، نہ ہی کوئی پالیسی پائی جاتی ہے۔ موجودہ نظام (سرمایہ داری) پر دونوں کے درمیان کوئی نظریاتی تکرار نہیں ہے۔ اگر کہیں اختلاف ہے تو اس (نظام) میں حصہ داری کے مسئلہ پر ہے۔‘‘ آج سے 50 سال پیشتر ’’اکانومسٹ‘‘ کے ماہرین بھی یہ نہیں سوچ سکتے ہونگے کہ مالیاتی سرمائے کے انکے اس جریدے میں چین کی کبھی یہ حالت بھی چھپے گی۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے سینئر افسر زیانگ جن نے فروری میں ہانگ کانگ کے جریدے کوانٹرویو میں کہا ’’میں یہ کہوں گا کہ چین آگے بڑھ جانے کی دوڑ میں نہیں ہے بلکہ سب سے آگے پہنچ جانے والے اب پیچھے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر چین نے (عالمی) قیادت کا کردار ادا کرنا ہے تو اس کو بہت ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں گی۔‘‘
چین کے سپرپاورنہ بن سکنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چین میں سرمایہ دارانہ صنعت کاری کا ابھاراس نظام زر کے عروج کی بجائے اسکے زوال کے دورمیں شروع ہوا تھا۔ اس زوال میں اسکی ترقی کا کردار ناہموار اور غیرمساوی شکلیں اختیار کرتا گیا۔ 1978ء میں چین میں سرمایہ داری کی دوبارہ استواری کا آغاز ماؤزے تنگ اور چو این لائی کی وفات کے بعد شروع ہوا جو بنیادی طور پر سامراجی اجارہ داریوں کی سستی محنت کے حصول کے لیے چین میں کی جانے والی بھاری صنعت کاری کا مرہون منت تھا۔ چین میں سرکاری طور پر 23 کروڑ لوگ بیروزگار ہیں اور 95 کروڑ 5 ڈالر سے کم پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں اور چین میں جنوبی افریقہ کے بعد امارت اورغریب کی سب سے بڑی خلیج ہے۔ چونکہ امریکہ، یورپ اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں 2008ء کے زوال سے بحالی ابھی تک نہیں ہوئی اور1974ء تک جیسا صحت مند سرمایہ داری کا اجرا اب ان ترقی یافتہ ممالک میں ممکن نہیں، اس لیے چین میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے آنے والے وقت میں چین میں داخلی انتشار بڑھنے کا زیادہ خدشہ ہے۔ چین کا مزدور طبقہ اس جدید ٹیکنالوجی میں کام کر کے حجم اورشعور کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو بیرونی دفاع کی نسبت داخلی سکیورٹی پر کہیں زیادہ اخراجات کرتا ہے۔ لیکن چین کی شرح نمو بھی اس زوال کا مقابلہ نہیں کر سکی اور2012ء میں 14 فیصد سے گر کر اب 6.7 فیصد ہوگئی ہے۔ اب جہاں پرانی سپر پاور گر رہی ہے وہاں چین ان کی جگہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ویسے کسی سپرپاور کی ضرورت ہی کیا ہے! ان سامراجی سلطنتوں کا کردار دنیا بھر کے محنت کشوں پر جبر واستحصال کے ستم ڈھانا ہی تو ہوتا ہے۔ اب شاید انسانی تاریخ میں محنت کشوں کی معاشی اورسماجی آزادی کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔