عراق: ’چلکوٹ انکوائری‘ سامراجی جرائم کا ازالہ کر سکتی ہے؟

| تحریر: لال خان |

برطانیہ میں سات سال کی طویل ’چلکوٹ انکوائری‘ کے بعد جو پورٹ شائع کی گئی ہے اس میں 2001ء سے 2009ء تک کے عرصے میں عراق میں برطانوی مداخلت کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں غلط انٹیلی جنس اور سیاسی فیصلہ سازی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اور منصوبہ بند ی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ چند خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران، فوجی اشرافیہ کے افراد اور حکومتی وزیروں کے نام اس سلسلے میں سامنے آئے ہیں۔
’چلکوٹ انکوائری‘ یا ’عراق انکوائری‘ بنیادی طور پر ایک پبلک انکوائری ہے جس کی 26 لاکھ الفاظ پر مشتمل رپورٹ میں ٹونی بلیئر بطور خاص تنقید کی زد میں آیا ہے جو عراق پر جارحیت کے وقت برطانیہ کا وزیر اعظم تھا۔ لیکن برطانیہ جیسی قدیم ترین سرمایہ دارانہ ریاست اور سامراجی قوت کے اداروں کی عیاری اور منافقت اس رپورٹ میں بھی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹونی بلیئر کے بیشتر فیصلے درست نہیں تھے۔ تاہم اس کو عراق میں لاکھوں معصوموں کے قتل عام اور اب تک جاری تباہی کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرائے جانے سے بھی گریز کیا گیا ہے۔
اگر ہم برطانوی سامراج کی تاریخ کا جائزہ لیں تو صدیوں تک اس نے دنیا کے مختلف خطوں پرجارحیت کی، کروڑوں انسانوں کو محکومی میں جکڑا، نوآبادکاری کے ذریعے ان ممالک اور خطوں کی دولت اور وسائل کوبڑے پیمانے پر لوٹا ہے۔ اس سامراج کا کہیں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اس نے دنیا میں بربریت کے ریکارڈ بنائے۔ اس عمل کو جاری رکھنے کے لئے ایسے ادارے اور نظام ترتیب دئیے گئے جن سے داخلی طور پر ان جرائم کو قانونی، پارلیمانی اور اخلاقی جواز فراہم کیا جاسکے اور برطانیہ کے اندر بسنے والے محنت کشوں کا استحصال بھی جاری رکھا جاسکے۔ لیکن محض ایک چھوٹا سا جزیرہ ہونے کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے اس سامراج کو برطانوی عوام سے فوجی بھرتی اور سامراجی جارحیت اور پھیلاؤ کے لیے کئے جانے والے اقدامات میں ان کا استعمال درکار تھا۔ اگر ہم ماضی میں نہ بھی جائیں تو موجودہ دور میں بھی عراق میں امریکی قیادت میں ہونے والی سامراجی جارحیت میں شمولیت کے وقت برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی جس کی سربراہی ٹونی بلیئر کر رہا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ لیبر پارٹی برطانوی محنت کش طبقے کی روایتی سیاسی جماعت رہی ہے، لیکن لیبر پارٹی بھی دوسرے ممالک کی روایتی عوامی پارٹیوں کی طرح اپنا کردار بدلتی رہی ہے۔ ان پارٹیوں کی قیادتیں اصلاح پسندی پر یقین رکھتی ہیں، دوسرے الفاظ میں یہ سرمایہ داری میں ہی رہتے ہوئے عوام کو کچھ مراعات اور سہولیات دینے کے نظریات پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ جب بھی اس نظام میں تھوڑی بہت معاشی ترقی یا پھیلاؤ آتا ہے تو محنت کشوں کے حق میں کچھ اصلاحات کر کے ان کی طبقاتی جدوجہد کو کند کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب مغربی سرمایہ داری کو ایک نسبتاً طویل عرصے (جو تقریباً 25 سے30 سال پر محیط تھا) کا ابھار حاصل ہوا تو صحت کے شعبے میں ’نیشنل ہیلتھ سروس‘ (NHS) یعنی تمام لوگوں کے لئے مفت علاج سمیت بہت سی اصلاحات کی گئیں، ان کا مقصد انقلاب کے فوری خطرے کو ٹالنا تھا جس کے سائے دوسری عالمی جنگ کے بعد پورے یورپ اور دوسرے خطوں پر بھی منڈلا رہے تھے۔ یہ صورتحال ہمیں اس دورمیں تقریباً اسی طرز پر باقی یورپ میں بھی ملتی ہے۔
1974ء کے بعد اور بالخصوص 1980ء کی دہائی سے جب سرمایہ داری کا بحران بڑھا، اصلاحات کی گنجائش نظام میں سے ختم ہونے لگی اور عالمی سطح پر سوویت یونین کے انہدام جیسے دیوہیکل واقعات رونما ہوئے تو اس کا اظہار لیبر پارٹی میں بھی ہوا۔ اس عہد میں جب مارگریٹ تھیچر نے انتہائی سفاکی، مکاری اور ٹریڈ یونین رہنماؤں کی محنت کشوں سے غداری کے ذریعے کانکنی کے مزدوروں کی بغاوتوں کوکچلا تو اس سے لیبر پارٹی کے اندر موجود انقلابی رجحانات پر بھی کاری ضربیں لگیں۔ لیبر پارٹی میں تقریباً 8 ہزارافراد پر مشتمل انقلابی سوشلزم اور مارکسزم کے ’’میلیٹنٹ‘‘ (Millitant) رجحان کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد خاص طور پر پارٹی انتہائی دائیں بازو کے رجحانات کے تسلط میں آنا شروع ہوگئی۔
1997ء میں لمبے عرصے کے بعد لیبر پارٹی کی حکومت ٹونی بلیئر کی سربراہی میں بنی۔ اس کو محنت کشوں اور نوجوانوں کی ہراول پرتیں ’’ٹوری بلیئر‘‘ کے بدنام زمانہ نام سے پکارنے لگیں کیونکہ ٹونی بلیئر کی پالیسیاں ٹوری پارٹی اور ماگریٹ تھیچر کی پالیسیوں کا ہی تسلسل تھیں۔ اس نے لیبر پارٹی کے قوانین، منشور اور قوائد وضوابط کو اس طرح تبدیل کیا کہ بائیں بازو کا اس پارٹی میں ابھرنے کا ہر امکان ختم کردیا جائے۔ اس عمل میں ٹونی بلیئر کی کامیابی کی بڑی وجہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد عالمی سطح پر بائیں بازو کے رحجانات کی تنزلی اور برطانیہ میں مزدور تحریک کا جمود اور کسی حد تک پسپائی تھی۔ ایسی کیفیت میں ہی ٹونی بلیئر یہ رجعتی اقدامات کرسکتا تھا۔ داخلی سطح پر ہونے والے ان عوام دشمن اقدامات کا تسلسل ہی ہمیں خارجی طور پر سامراجی جارحیت اور دنیا کے مختلف حصوں کے غریب عوام کی جانب سفاکانہ پالیسیوں میں نظر آتا ہے۔
صدام حسین کو ایک وقت میں بعث سوشلسٹ پارٹی نے اقتدار میں پہنچایا تھا۔ اسی پارٹی کی پالیسیوں کے تحت ہی عراق میں بڑے پیمانے پر معیشت کے نیشنلائز کئے جانے سے صحت، علاج، تعلیم، انفراسٹرکچر اور دوسرے شعبوں میں بیشتر عرب ممالک کی نسبت تیز ترقی ہوئی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تنگ نظر قوم پرستی اور افسر شاہی کی جکڑ میں ایسے ’سوشلسٹ‘ اقدامات لمبے عرصے تک پنپ نہیں سکتے۔ طبقاتی کشمکش کی بین الاقوامیت پر مبنی نظام، قومی ریاست کی قیود میں دم توڑ دیتا ہے۔ یہی سویت یونین اورچین میں ہواتھا۔ صدام حسین نے اپنی آمریت کے جبر کو تو مسلط کرنا شروع کردیا لیکن وسیع نیشنلائزیشن جیسے اقدامات بہرحال اسے برقرار رکھنا پڑے۔ سامراجیوں نے کردوں اور عراقی عوام پر مظالم کے دوران صدام کی پشت پناہی کی۔ ایران کے خلاف جنگ میں اسکی بھرپور فوجی مدد کی، لیکن جب صدام نے سامراجیوں کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کیں اور انکے مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہوا تو پھر جارج بش نے ’’وسیع بربادی کے اسلحہ‘‘ کے الزامات لگا کر عراق پر جارحیت کردی (یہ الزامات بعد ازاں بالکل جھوٹے ثابت ہوئے)۔ ٹونی بلیئر اس کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔ صدام کا تختہ الٹ دیا گیا۔ لیکن اس جنگ کے دوران لاکھوں بے گناہوں کو لقمہ اجل بھی بنا دیا گیا۔ لہو کے دریا بہائے گئے۔ اسلحے سے لے کر تیل تک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور امریکی جرنیلوں نے سینکڑوں ارب ڈالر کمائے۔ ان سامراجیوں نے بعث پارٹی کی فوج اور ریاستی مشینری کو برطرف تو کر دیا لیکن وہ عراق میں کوئی متبادل ریاستی ڈھانچہ اور قومی فوج کھڑی کرنے میں ناکام رہے۔ اس سے عراق میں شدید خلفشار، بحران، فرقہ واریت اور مختلف جنگجو گروہوں کے درمیان علاقوں کی بندر بانٹ اور خونریزی نے جنم لیا۔ امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت نے سنیوں کے خلاف متعصب رویہ اپنا کر فرقہ وارانہ تقسیم کو اور ہوا دی۔ ان حکمرانوں نے فرقہ وارانہ بنیادوں پرعوام کو تقسیم کر کے حکومت کرنے کی پالیسی اپنائی جو ان کے اپنے قابو سے باہر نکل گئی۔ پہلے مذہبی دہشت گردی القاعدہ کے روپ میں سامنے آئی اور آج یہ بربریت داعش کی صورت میں جاری ہے۔ عراق پر سامراجی جارحیت سے پہلے ایسے کسی دہشت گرد گروہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ داعش کے خلاف عراقی حکومت کی پشت پناہی سے شیعہ ملیشیائیں (مسلح گروہ) بھی اپنے تسلط اور دہشت کو فروغ دے رہی ہیں۔ آج عراق کی ریاست ٹوٹ پھوٹ گئی ہے اور پورا ملک عملی طور پر کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ سامراجی افواج دم دبا کر بھاگ چکی ہیں۔ دہشت، بربریت اور خونریزی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری و ساری ہے اور جو آگ سامراجیوں سے بھڑکائی تھی اس میں کروڑوں بے گناہ لوگ جل رہے ہیں۔ پورا خطہ عدم استحکام، خانہ جنگیوں اور خلفشار کا شکار ہو چکا ہے۔
لیکن مکافات عمل بھی تاریخ کا ایک جزو ہے۔ آج برطانوی لیبر پارٹی میں پھر سے بائیں بازو کا ابھار ہے۔ لیبر پارٹی کے نئے منتخب لیڈر جیرمی کوربن نے کہا ہے کہ ٹونی بلیئر ایک جنگی مجرم ہے اور پارٹی نے آفیشل سطح پر اس سامراجی جارحیت کے لیے عراق کے عوام اور برطانیہ کے سپاہیوں سے معافی مانگی ہے۔
لیکن عراق پر جو زخم یہ خونخوار سامراجی لگا گئے ہیں اس سے لہو رس رہا ہے۔ تاہم اس خانہ جنگی اور خونریزی کی انتہاؤں میں بھی عراق میں طبقاتی بنیادوں پر فرقہ واریت سے پاک محنت کشوں کی بکھری ہوئی تحریکیں اور مظاہرے ہمیں بغداد، بصرہ اور دوسرے شہروں میں نظر آتے ہیں۔ مزید کسی فوجی جارحیت یا مذاکراتی معاہدوں سے فرقہ واریت کی خونریزی عراق میں ختم نہیں ہو گی۔ آج اگرکوئی ان سامراجیوں، ان کے دلالوں اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا خاتمہ کر کے اس نظام زر کی ہولناک اذیت سے عراق کے معاشرے کو نکال سکتا ہے تو وہ عراق کے محنت کشوں اور پِسے ہوئے وسیع تر عوام کی یہی طبقاتی یکجہتی ہے جسے ایک تحریک میں ڈھل کر اس بربریت سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ ’چکلوٹ انکوائری‘ جیسی رپورٹیں اور ’ڈی کلاسیفائیڈ‘ دستاویزات حکمران طبقات اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور مستقبل میں لوٹ مار اور استحصال کی پالیسیاں زیادہ بہتر انداز میں مرتب کرنے کے لئے ہی شائع کرتے ہیں۔ انسانیت کے ان مجرموں کو نشان عبرت بنانے اور ان کے نظام کو مٹانے کا فریضہ محنت کش طبقے کو ہی ادا کرنا ہے!