| تحریر: ظفراللہ |
ماضی میں سرمایہ دارانہ انقلابات کے ذریعے امریکہ اور یورپ کے کئی سماجوں میں تیز ترین معاشی اور سماجی ترقی کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بالخصوص پچھلے ساٹھ سالوں میں ہونے والی ترقی حیران کن ہے۔ محنت کش طبقے کے ہاتھوں سے پیدا کی گئی دولت سے خلاؤں کو تسخیر اور سمندروں کوکھنگالا گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت عملی طور پر دنیا ایک اکائی بن گئی۔ لیکن سر مایہ دارانہ بنیادوں پر پیداوار کرنے کے ساتھ ایک مسئلہ جڑا ہوا ہے؛ ’’تمام پیداوار کا مقصد ذاتی اور نجی منافعوں کی بڑھوتری‘‘۔ سرمایہ داری کے عین شباب میں یہ مقصد اتنا برا بھی نہیں تھا بلکہ سماجوں کی ترقی کو موجودہ سطح پر لانے کے لیے یہ قوتِ محرکہ اور بنیاد کا پتھر تھا۔ ایک وقت میں ذاتی جائیداد اور شرح منافع میں بڑھوتری کی ہوس کے بغیر انسانی سماج یہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اور جاگیردارانہ طرزِ پیداوار کے مقابلے میں سرمایہ داری ایک انقلابی قدم تھا۔ لیکن جدلیات کا ایک اٹل قانون ہے کہ چیزیں جلد یا بدیر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور یہی قانون آج سرمایہ داری پرصادق آتا ہے جدید قومی ریاست اور نجی ملکیت اپنے آغاز میں سماجی ترقی کی بنیاد تھیں اور اب اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ان کو ختم کیے بغیر معاشرے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔
جدید سیکولر قومی ریاست کی تشکیل اور صنعتی اور سماجی ڈھانچے کی تعمیر جیسے انقلابی اقدامات سرمایہ داری کی ترقی کے بنیادی تقاضے تھے۔ جدید مشینری اور کارخانوں کے ذریعے پیداوار کرنے کے لیے بے پناہ سماجی اور تیکنیکی اقدامات کیے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرنے والے لاکھوں زرعی مزارعے فیکٹریوں کی تنگ عمارتوں میں صنعتی اجرتی مزدور کی شکل اختیار کر گئے۔ محنت کشوں کی تیکنیکی تربیت کے لیے ووکیشنل ٹرینینگ انسٹیٹیوٹ بنائے گئے۔ متعلقہ علم کے حصول کے لیے علم اور تعلیمی اداروں کو خواص سے نکال کر عام کیا گیا جس سے سائنسی تحقیق کا آغاز ہوا۔ اس طرح صنعت کے لیے پڑھی لکھی اور ہنر مند افرادی قوت تیار ہوئی۔ صنعتی پیداوار کی مختلف منڈیوں تک ترسیل کے لیے نقل و حمل اور رسد و رسائل کے ذرائع کوترویج ملی۔ تازہ دم اور صحت مند افرادی قوت کی بلا روک ٹوک فراہمی کے لیے ہسپتال بنائے گئے اور اس طرح جدید طب کی بنیاد رکھی گئی۔ قرون وسطیٰ اور ماضی بعید میں کشتوں کے پشتے لگا دینے والی بیماریوں کے علاج دریافت کیے گئے۔ نتیجتاً شرحِ اموات میں کمی ہوئی اور آبادی میں ہو شربا اضافہ ہوا مثلاً صنعتی انقلاب کے بعد 1804ء میں ایک ارب لوگوں پر مشتمل ایک سیارے کی آبادی کو دوگنا ہونے میں 123 سال لگے۔ لیکن 1927ء سے 1960ء کے 33 سالوں میںآبادی 2 ارب سے 3 ارب تک پہنچ گئی اسی طرح پچھلے 52 سالوں میں دنیا کی آبادی 3 ارب سے 7 ارب تک پہنچ گئی۔ صنعتی اور سماجی شعبوں میں ہونے والی بے مثال پیش رفت سرمایہ داری کی ترقی اور بقا کے لیے نا گزیر تھی۔ مثلاََ سرمایہ داری میں جب مستقل روزگار کا زمانہ تھا، اس میں محنت کشوں کی بنیادی ضرورتوں کو کسی حد تک مدِ نظر رکھ کر اجرت کا تعین کیا جاتا تھا۔ ’’Pay Structure‘‘میں بنیادی تنخواہ کے علاوہ رہائش، صحت اور ٹرانسپورٹ، بچوں کی تعلیم اور کئی دوسرے الاؤ نس شامل ہوئے تھے۔ تاکہ محنت کش بیماریوں سے محفوط رہیں اور فیکٹریوں میں انکی بلا تعطل حاضری رہے۔ بچوں کی تعلیم کے اخراجات کے مقصد بھی دراصل محنت کشوں کی نئی کھیپ کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا نہ کہ شعور اور آگاہی کا فروغ۔ آخری تجزیہ میں سرمایہ داری کا صرف ایک حتمی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے شرحِ منافع کی بڑھوتری مثلاً ملیریا کی ویکسین جب تیا رہوئی اس کا محرک پانامہ نہر کی تعمیر کے دوران ہزاروں مزدوروں اور محنت کشوں کی مچھروں اور زرد بخار سے ہلاکت تھی۔ چنداستثناؤں (انفرادی طور پر کچھ سائنسدان اور موجد) کے علاوہ سرمایہ دارانہ پیداوار کے لیے ایجادات، تحقیق، تعلیم اور ترقی کا مقصد چند امیر لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔
سرمایہ دار صرف دولت کے خدا کے پجاری ہیں۔ اس سب کے باوجود سرمایہ داری کی ترقی کے ضمنی فوائد انسانوں کی وسیع اکثریت کی زندگیوں کو مثبت انداز میں بھی متاثر کر رہے تھے۔ اور نسل انسانی بالواسطہ طور پر ان ایجادات سے مستفید ہو رہی تھی۔ یہ ساری کا میاب کہانیاں اچھے دنوں کی یادیں ہیں جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب شیطانی قوتیں بیدار ہوتی ہیں تو سب کچھ اتھل پتھل ہوجاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بڑھاپے میں پرانی بیماریاں جاگ جاتی ہیں۔ سرمایہ داری کا بحران اس کی داخلی کمزوری اور متروکیت کا اعلان ہوتا ہے۔ آج ہماری سماجی ضرورت کے ایک پہلو ’’صحت کی سہولیات‘‘ کی حالت کا جائزہ لیں تو صورتحال ماضی سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے عروج کے ادوار میں حکمران طبقات کم از کم بنیادی انسانی ضرورت کے اس پہلو پر بطورِ خاص توجہ دیتے تھے (چاہے کسی بھی وجہ سے)۔ جس کی وجہ سے بالخصوص یورپ کے لوگوں کو مفت علاج کی سہولت میسر ہوئی۔ البتہ امریکہ میں ابھی تک ہیلتھ کئیر کا سلگتا ہوا مسئلہ موجود ہے۔ اوبامہ کے پہلے دور کی انتخابی مہم کا بنیادی نعرہ صحت کی سہولت کی کچھ حد تک سرکاری انشورنس پر مبنی تھا۔ جس کو ڈرگ انڈسٹری کے طاقتور مافیا نے سختی سے ناقابلِ عمل بنایا۔ اب نظام کی بحرانی کیفیت میں یورپ میں بھی مفت علاج کی سہولت کی واپسی کا عمل شروع ہے۔ برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس کے ٹکڑوں میں نجکاری کی تیاری کی جارہی ہے جس سے زیادہ تر غریب اور کم آمدنی والے افراد متاثر ہوں گے۔ سٹیفورڈ شائر کے کینسر کے شعبے کو 700 ملین پاؤنڈز میں بیچا جا رہا ہے۔ جس سے براہ راست 8 لاکھ افراد اور بالواسطہ طور پر 30 لاکھ افراد متاثر ہوں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کو خریدنے والوں میں بیشتر پارلیمنٹ کے ارب پتی ممبر ز ہیں۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں ما سوائے بھٹو حکومت کے کچھ سالوں کے صحت کی سہولیات پر نہ ہونے کے برابر رقم خرچ کی گئی ہے۔ 18 کروڑ سے زائد کی آبادی کے لیے صحت پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے وہ بڑے شہروں کے چند ہسپتالوں کے لیے بھی ناکافی ہوتی ہے۔ در اصل سماجی ترقی کے مختلف شعبوں کے بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے ہزاروں ارب روپے کی رقم درکار ہے جو یہاں کے حکمران طبقات کے لیے اپنی تاریخی نا اہلی کی وجہ سے نا ممکن ہے۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور بجلی کے بنیادی ڈھانچوں کے لیے خطیر رقم درکار ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق بڑے شہروں میں بجلی کی زیرِ زمیں تاریں بچھانے کے لیے4200 ارب روپے کی رقم درکار ہے۔ جبکہ پاکستان کا کل بجٹ 4000 ارب روپے سے کم ہے اسی طرح ہسپتالوں کی تعمیر ادویات کی فراہمی جدید لیبارٹریاں اور اتنی بڑی آبادی کے لیے درکار ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی مد میں جتنے سرمائے کی ضرورت ہے یہاں کی سرمایہ داری وہ سرمایہ پیدا ہی نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں 1326 لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر، 22,662 لوگوں کے لیے ایک نرس موجود ہے۔ 44 فیصد عورتیں حمل کے دوران ایک دفعہ بھی ڈاکٹر سے معائنہ نہیں کرا سکتیں، 67 فیصدعورتیں دائیوں سے بچے پیداکرواتی ہیں، 1000 میں سے 86 بچے پانچ سال تک کی عمر تک پہنچنے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں، ہر تین میں ایک بچے کا وزن نارمل سے کم ہوتا ہے، 46 فیصد بچوں کی نشو و نما مکمل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے آنے والی نسل کا پچھلی نسل سے قد آدھا انچ کم ہو گا۔ یہ سارے مسائل غربت، خوراک کی عدم دستیابی اور صحت کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے ہیں۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات کے حوالے سے دنیا کا اٹھواں بڑا ملک ہے جہاں صرف 24 فیصدآبادی کو صحت کی مناسب سہولیات تک رسائی ہے۔ جن میں زیادہ تر سرکاری ملازم، افواج اور درمیانے طبقے کی پرتیں شامل ہیں۔ 73 فیصدآبادی ڈاکٹروں کی فیس نہ دے سکنے کی وجہ سے غیر سائنسی علاج کرواتی ہے۔ اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ میں ہر جمعہ والے دن نواحی علاقوں کے غریب لوگوں کا تانتا بندھا ہو تا ہے جو ایک پیر صاحب سے پھونک مروا کر ہہیپاٹائٹس کا علاج کروانے آتے ہیں کیونکہ پھونک 50 روپے کی ہے اور ڈاکٹر کی فیس 1000 روپے۔ یہی صورتحال باقی پورے ملک کی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ صرف ہسپتال بنانے سے بھی بیماریاں ختم نہیں وں گی اور نہ ہی ادویات کی ریل پیل کرنے سے کیونکہ 40 فیصد اموات گندہ پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ آلودہ پانی، ہیپاٹائٹس، پیٹ کی بیماریاں اور دیگر بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جبکہ 14 کروڑ سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی ہی میسر نہیں ہے۔ جا بجا گندگی کے ڈھیر اور نکاسی کے ذرائع نہ ہونا کئی مہلک بیماریوں کے موجب ہیں۔ سماج کے ہر شعبے کو نئے سرے سے تعمیر کیے بغیر ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکتا۔ حکمرانوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی دولت کو ضبط کرکے منصوبہ بندی کے ذریعے مسائل کے انقلابی حل کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں۔ مکمل غذا، صحت مند ماحول اور صاف ستھرے معاشرے میں نہ صرف بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے بلکہ انسان طویل زندگی جی سکتا ہے۔ یورپی ممالک سابقہ سوویت یونین اور کیوبا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ کیوبا میں دنیا کا سب سے بہترین صحت کا نظام ہے حتیٰ کہ حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کا واحد ملک جہاں پھیپھڑوں کے کینسر کی ویکسین موجود ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہاں صحت کا بیوپار نہیں ہوتابلکہ ریاست مفت جدید طبی سہولیات مہیا کرتی ہے۔ 1994ء میں سوویت یونین میں سٹالنزم کے انہدام کے بعد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ایک وفد قازکستان کے دورے پر گیا۔ وفد میں شامل افراد میں سے ایک کی طبیعت اچانک خراب ہونے پر دوائی لینے گئے تو وہ حیران ہوئے کہ شہر میں کوئی پرائیویٹ کلینک نہیں تھا، یہ سوشلسٹ معیشت کی حاصلات تھیں۔ آج کروڑوں لوگ قابلِ علاج بیماریوں سے صرف پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ٹی بی جیسی غربت کی بیماری ایک دفعہ پاکستان سے مکمل ختم ہونے کے بعد دوبارہ زیادہ شدت سے لوٹ آئی ہے، اس ملک میں خسرے سے لوگ مر جاتے ہیں اور پولیو کیسز کے حوالے سے پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ سائنسی ترقی کے اس دور میں جن بیماریوں کو قصۂ پارینہ ہو جانا چاہیے تھا آج وہ کروڑوں لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں۔ منافعے کے اس نظام میں یہ سب ممکن نہیں جہاں درد کے سوداگر موجود ہیں۔ مفت علاج پر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن آج اربوں انسان دنیا میں اس سے محروم ہیں۔ سوشلسٹ سماج میں علاج کا کاروبار ایک جرم ہوگا، سماج کے ہر شعبے میں بے پناہ ترقی کے ذریعے ایک صحت مند معاشرہ تعمیر ہو سکتا ہے جس میں لوگ حقیقی خوشی سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ انسان کی اوسط صحت مند اور سر گرم عمر سو سال سے زیادہ ہو سکتی ہے ایسے امکان ہیں کہ افراد سو سال سے زیادہ کی متحرک اور خوش زندگی گزار سکیں۔ ایسا صرف سوشلزم میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
متعلقہ:
دوائیوں کی صنعت اور زخموں کا دھندہ