[تحریر: لال خان]
حکومت یا حکمرانی کی سیاسی طرز کوئی بھی ہو، بلوچستان سے لے کر کراچی اور پختونخواہ تک، بے گناہ انسانوں کا خون بہتا رہتا ہے۔ سال میں کم ہی ایسے دن آتے جب ملک میں ’’ایمرجنسی الرٹ‘‘ کی کیفیت نہ ہو۔ امن اور استحکام پیہم ہوتا نظر نہیں آتا۔ جرائم ہوں یا مذہبی و لسانی بنیادوں پر کی جانے والی دہشت گردی، یا پھر ریاستی جبر، نشانہ ناگزیر طور پر محروم اور محنت کش عوام ہی بنتے ہیں۔
یہ صورتحال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر گرنے والی لاشوں کی تعداد کم زیادہ ہوسکتی ہے لیکن قتل و غارت گری انسانی سماج کا عالمگیر ’’معمول‘‘ بن چکی ہے۔ ہندوستان کی 29 میں سے 19 ریاستیں خانہ جنگی اور ریاستی و انفرادی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ افغانستان گزشتہ چالیس سال سے جل رہا ہے۔ ’’کمیونسٹ‘‘ پارٹی کے سرمایہ دار ہوجانے کے بعد امارت اور غربت کی سب سے بڑی خلیج اس وقت چین میں موجود ہے۔ پورے ایشیا میں کہیں مسلح تصادم جاری ہے تو کہیں حکمرانوں کی معاشی دہشت گردی عوام کو برباد کر رہی ہے۔ افریقہ کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ جنوبی افریقہ میں ’’آزادی‘‘ کے بعد کالے حکمرانوں کے حکم پر ہونے والے کان کنوں کے ریاستی قتل عام نے گورے آقاؤں کو بھی شرما دیا ہے۔ نائیجریا میں ’’بوکو حرام‘‘ نامی مذہبی جنونی گروہ بچیوں کے اجتماعی اغوا اور قتل عام میں مصروف ہے۔ روزانہ پچیس لاکھ بیرل تیل پیدا کرنے والے اس ملک میں پٹرول پمپوں پرگاڑیوں کی قطاریں شاید دنیا میں سب سے طویل ہیں اور 61 فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کانگو سے لے کر سیرالیون تک ہیروں اور معدنی وسائل کی لوٹ مار کے لئے سامراجی طاقتوں کی پراکسی جنگیں جاری ہیں۔ لاطینی امریکہ میں محنت کش عوام کی انقلابی تحریکوں، قیادت کی کنفیوژن اور سامراجی مداخلت نے اضطراب اور بے چینی کی فضا قائم کر رکھی ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور عسکری طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سب سے زیادہ مقروض ممالک میں بھی شامل ہے۔ ایک فیصد امیر 50 فیصد دولت پر قابض ہیں تو 50 فیصد عوام کو صرف پانچ فیصد وسائل میسر ہیں۔ جرائم کے لحاظ سے ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی فہرست میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ کل آبادی میں قیدیوں کی شرح (Incarceration Rate) کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے اور ہر 100واں امریکی جیل میں ہے۔ ’’آزاد منڈی‘‘ کی معاشی ناہمواری، سماجی بیگانگی اور نفسا نفسی نے امریکی معاشرے کو بحیثیت مجموعی نفسیاتی مریض بنا دیا ہے جس کی ایک واضح علامت سکولوں اور یونیورسٹیوں میں بڑھتے ہوئے شوٹ آؤٹ ہیں۔
یورپ عجیب پژمردگی سے دوچار ہے۔ حکمران ایک ایک کر کے فلاحی ریاست کی تمام مراعات چھینتے چلے جارہے ہیں۔ ریاستی کٹوتیاں عوام کا معیار زندگی اور قوت خرید گراتی جارہی ہیں۔ دوسری طرف کئی دہائیوں کے سیاسی جمود کو توڑنے والی انقلابی تحریک قیادت کے فقدان کے باعث خود ایک جمود کا شکار ہوگئی ہے۔ لیکن ان حالات میں بھی ایک مجہول سماجی مزاحمت موجود ہے جس کے بھڑک اٹھنے کے خوف سے حکمران کھل کر جارحیت کرنے سے قاصر ہیں۔ یورپی یونین کے ٹوٹ جانے کے واضح امکانات اب بھی موجود ہیں۔ یونان سے لے کر ناروے تک، یورپ کی سیاست شدید ہیجان کا شکار ہے۔ آسودہ زندگی قصہ ماضی بنتی جارہی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی دائیں بازو کی نئی حکومت ریاستی سہولیات کے اخراجات میں کٹوتیاں کر کے عوام کی نسبتاً پرسکون زندگیوں میں محرومی کا زہر گھولنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ غرضیکہ کوئی براعظم یا ملک ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں استحکام اور خوشحالی یا تناظر پیش کیا جاسکے۔
آج کل فلسطین اور یوکرائن کے تنازعات عالمی منظر نامے میں نمایاں ہیں۔ لیکن بڑے سے بڑا تنازعہ بھی حل ہوئے بغیر ہی کچھ عرصے بعد ایک زیادہ خونریز اور بھیانک تنازعے کے سامنے ماند پڑ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور پورا سیارہ سامراجی جارحیت، جنگ، پراکسی جنگ، خانہ جنگی، دہشت گردی، سیاسی انتشار اور معاشی بحران کی آگ میں سلگ رہا ہے۔ آخر اس سب کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ قہر خداوندی ہے؟ یا پھر ایک زوال پزیر اور متروک نظام نے پوری انسانیت کو اپنی موت کی اذیت میں مبتلا کررکھا ہے؟
مارکس نے کہا تھا کہ ’’زر اپنے ایک گال پر خون کا دھبہ لے کر آیا تھا لیکن سرمایہ جب تاریخ کے منظر پر ظاہر ہوا تو اس کے پور پور سے خون ٹپک رہا تھا۔‘‘ تین سو سال تک انسانیت کا خون چوسنے والا سرمایہ دارانہ نظام آج وہ درندہ بن چکا ہے جس کے منہ کو خون لگ چکا ہے اور جو اپنے بڑھاپے میں اور بھی زیادہ وحشی اور خونخوار ہوچکا ہے۔ سرمایہ داری اپنا ترقی پسندانہ سماجی اور معاشی کردار سو سال پہلے کھو چکی ہے۔ حکمران اور ان کے دانشور اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جنگ، دہشت گردی، معاشی حملے اور ریاستی جبر سرمایہ داری کی پیداوار ہی نہیں بلکہ وہ ’’سٹیرائیڈز‘‘ ہیں جن کے ذریعے اس نظام کو چلایا جارہا ہے۔ ہولناک جنگیں ہولناک حد تک جنگ منافع بخش ہوتی ہیں۔ لیکن جنگ کو مسلط کرنے کے لئے کسی جواز اور بہانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بہانہ کبھی مذہب میں تلاش کیا جاتا ہے تو کبھی قومیت میں۔ اگر کوئی جواز نہ مل پائے تو جنگ کو ہی جنگ کا جواز بنا لیا جاتا ہے۔ پہلے دہشت گردی کروائی جاتی اور پھر اس دہشت گردی کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی جاتی ہے۔ اسلحہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا بکتا ہے اور منافع سامراجی اجارہ داریاں کماتی ہیں۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری کے وظیفہ خواروں نے عوام کو ’’امن‘‘ اور خوشحالی کے خواب دکھائے تھے۔ روس، وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کے عوام کو کمیونزم کی ’’قید‘‘ سے ’’آزاد‘‘ کروا لیا گیا تھا۔ آج سابقہ سوویت بلاک میں کہرام مچا ہوا ہے۔ روس میں مافیا باس اپنے گینگ اور ’’جمہوریت‘‘ ساتھ ساتھ چلا رہے ہیں۔ عصمت فروشی کا تصور بھی سوویت یونین میں نہ تھا۔ آج غربت نے جسم کے کاروبار کو پوری دنیا میں اس خطے کی پہچان بنا دیا ہے۔ سوشلزم نے اپنی مسخ شدہ شکل میں بھی جن لسانی اور قومیتی تعصبات کو قصہ ماضی بنا دیا تھا آج سرمایہ داری انہیں بھڑکا کر عوام کو برباد کر رہی ہے اور سامراج اس آگ میں تیل انڈیل رہا ہے۔ سابقہ سوویت ریاستوں میں 1989ء سے اب تک لسانی بنیادوں پر ہونے والی 21 چھوٹی بڑی جنگوں یا خانہ جنگیوں میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی آبادیوں کو آپس میں لڑوا کر یوگوسلاویہ میں موت کا رقص کروایا گیا۔ یہی کچھ چیکو سلاواکیہ میں ہوا اور اب یوکرائن میں ہورہا ہے۔ نسل یا قوم کی بنیاد پر تقسیم کو اگر انتہاتک لے جایا جائے تو لاتعداد خونی لکیریں نمودار ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح مذہبی تعصبات کو ریاستیں یا سامراجی طاقتیں جب دانستہ طور پر ابھارتی ہیں تو مذہب کے اندر فرقے اور فرقوں کے اندر سے مزید فرقے برآمد ہوتے ہیں۔ آج نائیجیریا سے کر عراق، شام، پاکستان اور افغانستان تک یہی کچھ ہورہا ہے۔
فلسطین کا زخم گزشتہ 67 سال سے رس رہا ہے۔ سامراجیوں نے اپنے مکروہ عزائم کے تحت دانستہ طور پر صیہونی ریاست اس خطے میں ’’پلانٹ‘‘ کی تھی۔ ضرورت پڑنے پر اس تنازعے کو کبھی جنگ کی تیز آنچ پر رکھ دیا جاتا ہے تو کبھی ’’مذاکرات برائے مذاکرات ‘‘ کے کولڈ سٹور میں۔ اپنی سفاکیت کے لئے مشہور اسرائیل کے مشہور جرنیل موشے دیان نے 1955ء میں کہا تھا کہ ’’انتقام اور جوابی وار ہماری زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ اس کے بغیر ہم جنگ جو بن ہی نہیں سکتے۔ ایک جنگی اور لڑاکا حکومت کے بغیر عوام ہار جاتے ہیں۔‘‘ یہ ایک بیان اسرائیل کے صیہونی حکمرانوں کی مجموعی نفسیات کا عکاس ہے۔ اسی جنون کو مالی مفادات کے تحت وقتاً فوقتاً ابھارا جاتا ہے۔ نئے انکشافات کے مطابق حالیہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ تین اسرائیلی نوجوانوں کا قتل یا حماس کی راکٹ باری نہیں بلکہ غزہ اور متنازعہ علاقوں میں گیس کے زخائر پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔ عرب حکمران، فلسطینی قیادت، اسرائیلی ریاست اور امریکی سامراج، کوئی بھی اس مسئلے کا حل نہیں چاہتا۔ اگر حکمرانوں اتنے اچھے ہوتے تو یہ تنازعات پیدا ہی نہ کرتے۔ یہ مسائل حل ہونے لگیں تو حکمرانوں کے لئے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔
مارکس نے 1867ء میں شائع ہونے والی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں واضح طور پر نشاندہی کی تھی کہ سرمایہ داری انسانیت کو اس نہج پر لے آئے گی جہاں کم سے کم ہاتھوں میں زیادہ سے زیادہ دولت کا اجتماع آبادی کے وسیع ترین حصے کو غربت اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبو دے گا۔ آج کون سا ملک، کون سا خطہ ایسا ہے جس کے بارے میں یہ پیشین گوئی درست ثابت نہیں ہوتی؟ مارکس کے نزدیک انسانیت کے پاس اس نظام کی بربادیوں سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب تھا۔ مارکس کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی کوئی سماجی و معاشی سائنس دان اس سے بہتر اور قابل عمل حل پیش نہیں کرسکا۔ کیونکہ کوئی دوسرا حل ہے نہیں!
متعلقہ:
بکھرتا ہوا عراق!
برصغیر پاک و ہند کے بحران اور تنازعات
مشرقِ وسطیٰ: سامراجی کٹھ پتلیوں کا میدان جنگ
محرومی کب تلک مفلوج رکھے گی؟
ء