| تحریر: بن مورکن، ترجمہ:عمر شاہد |
گزشتہ چند دنوں سے وسطی افریقہ کے ملک برکینا فاسو میں تیز ترین واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ عام انتخابات سے چند ہفتے قبل ریاست کے انتہائی رجعتی اور رد انقلابی حصے فوج کی صدارتی حفاظت پر مامور رجمنٹ (RSP) نے عبوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعہ سے عبوری عہد تعطل کا شکار ہو گیا اور ریاست کا بحران مزید گہرا۔ ریاست نے اس بحران سے نکلنے کے لیے علاقے کی دیگر ریاستوں اور فرانس اور امریکہ کی سامراجی ریاستوں سے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کروانے کی کوشش کی۔ لیکن اس ’’معاہدے‘ ‘ کو سڑکوں پر نکلے ہوئے عوام نے رد کر دیا۔ اسی دوران ریاست کی باقاعدہ فوج نے دارلحکومت کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ RSP اپنے ہتھیار ڈال دے اورصدارتی محل سے باہر نکل جائے۔
واقعات کا آغاز 16 ستمبر کو ہوا جب RSP کے مسلح جتھے صدارتی محل میں جاری کابینہ کی میٹنگ میں داخل ہوئے اور عبوری صدر، وزیراعظم اور دیگر وزرا کو گرفتار کر لیا۔ بعدازاں ٹی وی پر ایک کرنل نے اس فوجی حملے کی تصدیق کر دی۔ کرنل نے عبوری حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا اور اپنے کمانڈر جنرل گلبرٹ ڈینڈرے کا ’’جمہوری نیشنل کونسل‘‘ کے سربراہ کے طور پر اعلان کیا۔
یہ واضح ہے کہ اس فوجی حملے کی تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ صدر اور وزیر اعظم کی گرفتاری کے بعد صدارتی محل کے گرد آہنی دیوار قائم کر دی گئی۔ گزشتہ سال اکتوبر میں برپا ہونے والے انقلاب کے مرکز کو بند کر دیا گیا۔ ایک مشہور ریڈیو اسٹیشن اومیگا کو بند کر دیا گیا۔ صدارتی محل کے قریب سڑکوں پر RSP کے مسلح افراد نے گشت شروع کر دیا اور کسی بھی اکٹھ کو سبو تاژ کرنے لگے۔ صدارتی محل کے باہر ہونے والے مظاہروں پر شیلنگ کی گئی۔ اس دوران تین افراد ہلاک جبکہ 60 زخمی ہو گئے۔
جیسے ہی اس بغاوت کی خبریں ملک میں پھیلی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ ٹریڈیونینوں نے فوری طور پر عام ہڑتال کا اعلان کر دیا جو جمعرات سے اب تک جاری ہے اور اس نے پورے ملک کو جام کر رکھا ہے۔ ہڑتال کے نتیجے میں ہفتے کے روز سے دارلحکومت میں پٹرول کی قلت کا آغاز ہو گیا۔ اس وجہ سے RSP کے مسلح جتھوں نے اپنے گشت میں کمی کر دی اور صدارتی محل کے قریب توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے بعد سے پورے شہر میں عوام نے مزید رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کر دیں۔
ملک کے دیگرشہروں میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ RSP صرف دارلحکومت تک محدود ہے۔ دیگر شہروں میں جیسے ہی یہ خبر پہنچی عوامی مظاہرے شروع ہو گئے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہر بوبو ڈیالوسو میں کرفیوکے باوجود بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر موجود رہے۔ اسی طرح دیگر تمام شہروں میں بھی عوام نے مرکزی چوراہوں پر قبضہ جاری رکھا اور پولیس اور فوج کی مزاحمت کے بغیر اپنا احتجاج جاری رکھا۔ بوبو شہر میں خواتین کی بڑی تعداد ایک جلوس کی صورت میں فوجی بیرکوں کی جانب گئیں اور سپاہیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عوام کی حمایت کریں۔ فوجیوں نے کہا کہ وہ اس فوجی حملے کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی وہ RSP کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔ انہوں نے احتجاجی مظاہرین کو نہیں روکا۔ یہی کچھ ملک کے دیگر تمام شہروں میں بھی ہوا۔
اس فوجی بغاوت کی اہم وجہ وزیر اعظم اسحاق زیدا کا 11 اکتوبر کے انتخابی عمل سے سابق معزول صدر کمپاؤرے کے حمایتی رجعتی ٹولے کو باہر رکھنے کا قدم ہے۔ اس نے یہ ا قدام اکتوبر 2014ء میں ریاست کے ایک دھڑے کا تختہ الٹنے والی عوامی تحریک کے دوبارہ ابھرنے کے ڈر سے کیا۔ اس بات کاا قرار RSP ترجمان نے ان الفاظ میں کیا، ’ہم نے جمہوری نیشنل کونسل کو جمہوری انتخابات کروانے کی ذمہ داری کے ساتھ ریاستی ڈھانچہ میں جگہ دی‘۔
لیکن اس فوجی بغاوت نے خاص طور پر عوام کو اہم قوت محرکہ فراہم کی۔ بلائی سٹرون گروپ جس نے گزشتہ سال اکتوبر میں انقلاب کی قیادت کی اس نے فوجی بغاوت کے بعد عوامی احتجاج کی کال دے دی۔ سپیکر شیرف سے نے بھی بغاوت کے خلاف لڑنے کی اپیل کی تھی۔
31اکتوبر 2014ء کو بلاز کمپاؤرے کی حکومت کا انقلابی خاتمہ برکینا فاسو کی تاریخ میں اہم موڑ تھا۔ اس انقلاب نے جہاں جابر حکمران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تو وہاں اس واقعہ نے عشروں سے مجتمع شدہ غم و غصہ کو سامنے لانے کا کام کیا۔ کمپاؤرے کی 27سالہ ردانقلابی آمریت کے بعد ’ایماندار لوگوں کی سرزمین ‘کے عوام ڈرامائی طور پر تاریخ کے منظرنامہ پر ظاہر ہوئے ہیں۔ کمپاؤرے کی رخصتی کے بعد بننے والی عبوری حکومت بھی نیچے سے عوامی تحریک کے دباؤ کی وجہ سے بے چینی اور بحرانات کا شکارتھی۔ بے چینی اور افرا تفری پر مبنی مہینوں کے بعد بھی حکمران طبقہ بورژواجمہوری طریقوں سے صورتحال کنٹرو ل کرنے کی کوشش کر تا رہا۔ 11 اکتوبر کو ہونے والے انتخابا ت بھی کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لانے والے تھے۔
ہڑتالوں کی لہر
کمپاؤرے کے زوال کے بعد ملک روزانہ ہڑتالوں، احتجاجات کی لپیٹ میں ہے جس سے بڑے پیمانے پر محنت کش، طلبہ اور غریب عوام بڑ ے پیمانے پر متحرک ہو رہے تھے۔ پورے ملک میں اہم مسائل جیسے کہ زمین تک رسائی، جبری بے دخلیاں، زراعت، زمین اور کان کنی کے تنازعات، کرپشن اور عوامی سہولیات کی حالت زار خود رو بغاوتو ں کے اہم اسباب ہیں۔ گزشتہ سال ہڑتالوں اور عوامی مظاہروں کی گونج ہر جگہ سنی جا سکتی تھی جن سے کسانوں اور محنت کشوں کے حوصلے کافی بلند ہوئے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگیوں کو بدلنے کے لئے ان عوامی بغاوتوں میں حصہ لیا۔ جنوری میں محنت کشوں نے ملک کی اہم بریوری بوکینا سوڈیبو میں 48 گھنٹے کی وارننگ ہڑتال کی۔ محنت کشوں کے مطالبات میں تنخواہوں میں اضافہ، 1994ء اور 2004ء میں غیر قانی طور پر برطرف محنت کشو ں کی بحالی او ر کا م کے حالات کار کی بہتری شامل تھے۔ ہفتوں کی جدوجہد کے بعد ان کے کافی مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔ ٹریڈ یونینز، طلبہ تنظیمیں اور سول گروپس پر مشتمل’ کرپشن اور بڑھتی مہنگائی کے خلاف اتحا د‘ نے 8 اپریل کو دارلحکومت اوگیڈوگو میں بڑا عوامی احتجاج منعقد کیا جس میں 50 ہزار لوگوں نے شہر کی سٹرکوں پر مارچ کیا جس کی وجہ سے سکول، یونیورسٹیوں سمیت پورا شہر بند تھا۔ پھر 22 اپریل کو مظاہرین نے زینائرے میں اوگیڈوگو کایا روڈ کو بلاک کر دیا جس سے دونوں اطراف کی ٹریفک جام ہو گئی۔ 30 اپریل کو دارلحکومت سے 90 کلومیٹر دور سابکے شہر میں رہائشیوں نے پرانے میئر کو بھگانے کے بعد نئے میئر کی تقرری کا مطالبہ کیا۔ یوم مئی کے موقع پر بڑے عوامی جلوس نے دارلحکومت کو مکمل جام کر دینے کے بعد عبوری حکومت سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ سونے کی کان کنی صنعت اس مغربی افریقی ملک میں تیزی سے پھیلی ہے لیکن پچھلے سال کئی تنازعات نے اس صنعت کو لرزا دیا۔ آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کل برآمدات کا تین چوتھائی حصہ سونے کی برآمد پر مبنی ہے جو کہ کپاس کو پیچھے چھوڑتا ہوا ملک کا سب سے بڑا آمدنی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ملک نے گزشتہ سال 36 میٹرک ٹن، موجودہ قیمتوں پر 1.4 ارب ڈالر کی مالیت کا سونا برآمد کیا لیکن اس ابھرتی ہوئی کان کنی کی صنعت کی آمدن علاقائی ترقی پر خرچ نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ا س نے سماجی گھٹن کوبڑھایا ہے۔ انقلاب نے مزدور وں اور برادریوں کی جدوجہد کو تازہ محرک بخشا ہے۔ دسمبر میں مزدوروں نے Avocet Inata سونے کی کان پر قبضہ کرکے انتظامیہ کو بے دخل کر دیا۔ دنیا کے میگنیشم کے بڑے ذخائر پر واقع ایک ارب ڈالر مالیت کی Tambao کان میں مظاہرین نے تو ڑ پھوڑ کے بعد سازو سامان اور گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ مظاہرین نے لندن کی ٹیمس مائننگ کارپوریشن سے الحاق شدہ پین افریقہ مینرلز کمپنی پر غیر قانونی طریقہ سے لائسنس لینے کا الزام لگایا۔ احتجاج کے بعدحکومت کو مجبوراً مارچ تک پیداوار کو روکوا کر لائسنس کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کرنا پڑا۔ ملک میں سونے کی کانوں میں اثاثے رکھنے والی دوسری بڑی کمپنی سیموفو انکا کے ڈائریکٹر نے کان کنی کی صنعت میں مزدوروں کے غم وغصہ کی عکاسی ان الفاظ میں کی، ’بغاوت واقعی کان کنی کے شعبے میں سنگین سماجی تحریکوں کے لئے عمل انگیز کا کردار ادا کر رہی ہے، یہ ہر ایک کے جذبات ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ’اب وقت آگیا‘۔ ان کا خیال ہے کہ اگر 27 سال سے اقتدار میں موجود فرد کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو ہم مینجنگ ڈائریکٹر کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں۔
معیشت میں دیگر اہم ہڑتالوں نے بھی پچھلے سال ملک کو جھنجھوڑا، جن میں 30 اور 31 مارچ کو ٹرانسپورٹ یونین UCRB کی طرف سے کی جانے والی ہڑتال شامل تھی جس نے پورے ملک میں تیل کابحران، بجلی کی بندش اور پورے ملک میں اشیاء کی ترسیل میں مشکلات پیدا کیں۔ اس ہڑتال کی وجہ دسمبر 2011ء معاہدہ کے مطابق ٹرانسپورٹ شعبہ میں بارگینگ ایجنٹ کا نفاذ عمل میں لانا تھادیگر مطالبات میں محنت کشوں پر سٹرکوں پر پولیس کی جانب سے کی جانے والی زیادیا ں، ٹوگو باڈر پر ٹرکوں کی پراسینگ کا موجودہ سات دنو ں کے وقت میں نمایاں کمی اور ڈرائیونگ لائسنسوں کی قیمت میں کمی شامل ہے۔ آخر میں محنت کشوں کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے گئے اس طرح کی ملک میں شاندار لڑائیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ پانچ سال تک تاریخی بلند اوسط معاشی ترقی کی شرح 6.5 فیصد رہنے کے بعد 2014ء میں تنزلی سے یہ شرح اب 4فیصد رہ چکی ہے جس کی اہم وجوہات میں ملکی دو اہم برآمد ات سونا اور کاٹن میں نمایاں کمی اور علاقہ میں ایبولا وائرس بحران کے باعث سیاحت کے شعبہ کازوا ل اور خصوصاً چینی کرنسی کی قدر میں کمی سے درآمدی قیمت میں اضافہ شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں کان کنی کے شعبہ میں مزید کمی اور 2014 ء میں عالمی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے کاٹن کی پیداوار میں بھی کمی واقعہ ہو گی۔ ان تمام پیش رفتوں کے باعث 2014ء میں مالیاتی آمدنیوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی جو کہ پچھلے سال بجٹ تخمینوں کا صرف 80 فیصد تھا۔ اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے حکومت نے عوامی فلاح عامہ کے پروگرامز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں کمی کرنا شروع کر دی جس کے نتیجے میں اقتصادی تنزلی مزید بڑھی لیکن انقلابی عہد میں کٹوتیاں اور محنت کشوں پر مزید حملے طبقاتی جدوجہد کو تیز کرنے کا باعث بنتی ہیں۔
اقتدار کا بحران
30 اکتوبر 2014ء کے واقعات حکمران طبقہ کے لئے زوردار دھچکا ثابت ہوئے جہاں چند گھنٹوں کے اندر انقلابی عوام نے کمپاؤرے اور اسکے کٹھ پتلی جانشین ہنورے ٹراؤ رے کا تختہ الٹ دیا۔ لیکن بلائی سیٹوین کے رہنماؤں کے پاس کمپاؤرے کی رخصتی کے بعد کے لئے کوئی تناظر نہیں تھا۔ بلائی سیٹوین بغاوت کے لئے نوجوانوں کو متحرک کرنے والے رہنماؤ ں کا اتحاد ہے۔ معزول لیڈر کی رخصتی کے بعد عوام کی تحریک کو روکنے کی اپیلیں ان کی کنفیوژن کا اظہار ہے جن کی وجہ سے ریاسست کوسماج میں وقتی بنیادیں بنانے میں مددملی۔ صدارتی سیکیورٹی رجمنٹ کے کرنل اسحاق زیدا نے اقتدار پر قبضہ کر کے آئین معطل کر دیالیکن اس کے خلاف انقلاب کے آغاز کے دو دن بعد تازہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کی وجہ سے اپنے پیروں تلے زمین سرکتی دیکھ کر وہ احتیاط سے معاملات طے کرنے لگ گیا۔ دو ہفتے بعد 19 نومبر کواپوزیشن پارٹیوں، سول سوسائٹی گروپس اور مذہبی رہنماؤں نے مل کر عبوری حکومت کا عارضی سویلین صدر میشل کافینڈو کی تعیناتی کی لیکن زیدا بد ستور وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے عہدوں پر فائز رہا۔ آئین کو بحا ل کر دیا گیا جس کے ساتھ عبوری حکومت کو اس سال 11 اکتوبر کو جمہوری انتخابات کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی، زیدا نے جمہوری لبادہ اوڑھنے کے لئے اپنی فوجی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر سویلین کے طور پر حکومتی امور چلانے لگا۔ کافینڈو اور زیداکی حکومت پہلے ہی روز سے بحرانات کا شکار تھی، عوامی تحریک کے دباؤ کی وجہ سے اس ریاستی ڈھانچہ میں تضادات سامنے آنے لگے۔ زیدا دھڑے نے عوامی خوف کے پیش نظر کمپاؤرے کی پچھلی حکومتی قیادت کے خلاف سخت ایکشن لیناشروع کر دیئے۔ حکمرانوں کے سنجیدہ دھڑے کے مطابق اگر کمپؤرے کے حواریوں کے ساتھ کوئی رعایت برتی گئی تو یہ ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہو گا کیونکہ ابھی تک عوام کے ذہنو ں سے اکتوبر بغاوت کے نقوش بھی ختم نہیں ہوئے تھے۔ لیکن اس عمل کے دورا ن ریاستی دھڑوں کی لڑائی مزید شدید ہو گئی جس سے موجودہ ریاستی ڈھانچہ مزید غیر مستحکم ہو گیا۔ اگست کے آخر تک آئینی کونسل نے ایک کرخت اور ملامت آمیز طریقہ کار کے بعدانتخابات کے لئے 16 اہل امیدواروں کی لسٹ جاری کی۔ اپریل میں عبوری حکومت نے انتخابی قوانین میں ترمیم کی جس کی رو سے وہ تمام جنہوں نے انقلاب کے آغاز سے پہلے کمپورے کے اقتدار میں طوالت کی حمایت کی وہ انتخابات کے لئے نااہل قرار دیئے گئے۔ اس ترمیم کی بنیاد پر آئینی کونسل نے ایڈی کونسٹیس کوبائنگو، کمپورے کی کانگریس برائے جمہوریت اور ترقی پارٹی کے رہنما سمیت 52افراد کو نااہل قرار دیا۔ اس قانون سے کمپورے مخالف قوتوں کو حمایت ملنی چاہیے تھے لیکن حقیقت میں اس کے برعکس ہوا۔ زیادہ تر امیدواروں کا تعلق پھر کمپورے دور سے تھایہ رسمی طور پر کمپورے کے مخالف تھے لیکن حقیقت میں ایک سکے کا محض دوسرا رخ تھامثال کے طور پر روک مارچ کوبیروریاست کا وفادار تھا تاہم انقلاب کے آغاز سے تھوڑا پہلے ہی اس نے علیحدگی اختیار کر کے عوامی تحریک برائے ترقی کی بنیاد رکھی۔ دوسرے اہم امیدوار میں زیپھرائن ڈیابرے شامل ہے جس نے اپنی یونین برائے ترقی او ر تبدیلی کی بنیاد 2010ء میں رکھی اس سے پہلے وہ کمپورے کا مالیاتی وزیر رہ چکا تھا۔ انتخابات کے قانون کے ساتھ عبور ی حکومت نے کمپورے انتظامیہ کے اہم ممبران کی گرفتاری عمل میں لائی۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ کی آڑ میں پبلک فنڈ ز میں غبن کے الزامات میں کمپورے دور کے وزراء کے خلاف بھی کاروائی کی، اگست میں جین بیرٹین اوگڈراؤگو سابق انفراسٹرکچر وزیر اور جیرومے باؤگوما سابق سیکیورٹی وزیر کو گرفتار کیا گیا۔
بغاو ت کا خطرہ
طاقتور افراد کو انتخابی عمل سے باہر کرنے سے زیدا دھڑے نے صدراتی حفاظتی رجمنٹ (RSP) سمیت تمام سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے گروہ کو ایک کونے میں لگادیا۔ یہی لوگ پچھلی حکومت میں معاشی اور سیاسی جرائم کے مرتکب تھے، قابل نفرت RSP یونٹ کو کمپیورے نے اپنے 27سالہ اقتدا ر کو حفاظت دینے کے تشکیل دیا۔ 1983ء کی بائیں بازو فوجی بغاوت تھامس سنکارا جیسے جونیئر آفیسر زکی زیر قیادت عام سپاہیوں نے کی تھی۔ کمپورے بذات خود بھی اس بغاوت میں شریک تھا، اس لئے اسکو پتا تھا کہ اپنے 1987ء کے ردانقلاب کے لئے اسکو جونیئر افسران کو زیر کرنا ضروری تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نے باقاعدہ فوج کو کم وسائل فراہم کر کے اسکو کمزور کیا۔ حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ 2011ء کی ناکام غدر کے دوران ایک عرصہ تک اس نے عام فوجیوں کا گولہ بارود ضبط کر لیا تھا۔ دوسری طرف اس نے فوج کے انتہائی رجعتی دھڑوں پر مشتمل RSP تخلیق کیا جس کوامریکی مدد سے عام فوج سے زیادہ بہتر تربیت اور زیادہ فوائد دیے۔ اس بات کا اعتراف حال ہی میں امریکی افریقی کمانڈ (AFRICOM) کے ترجمان نے انتہائی ڈھٹائی سے کیا۔ RSP کبھی بھی عام فوج میں مربوط نہیں ہوئی بلکہ یہ براہ راست صدر کے کنٹرول میں تھی۔ کمپورے کے دور اقتدار میں RSP محض حفاظتی یونٹس سے رد انقلاب کی علامت صدر کی ذاتی ملیشیا بن گئی تھی جس نے کئی نقاد صحافیوں کو اغوا، قتل یا غائب کیا۔ ان میں اہم مثال نوربٹ زونگو کی ہلاکت ہے جو کہ کمپورے کے چھوٹے بھائی کے ڈرائیور کی صدارتی محل میں ہلاکت کی تحقیقات کر رہا تھا۔ 13 دسمبر 1988ء کو زونگو کی گولیوں سے چھلنی لاش بمعہ چار دوسرے افراد کی لاشیں دارلحکومت سے 100 کلو میٹر دور جلی ہوئی گاڑی میں ملی۔ 2011ء کی فوجی بغاوتوں کے بعد بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ اس وقت برکینا فاسو پہلے ہی انقلاب سے پہلے کی صورتحال میں داخل ہو چکا تھا۔ اگست 2000ء میں RSP کے پانچ ممبران کو زونگو کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تا ہم ان پر الزامات بعد میں ختم کر دیے گئے۔ جب گزشتہ سال نومبر میں اسحاق زیدا بر اقتدار میں آیا تو عبوری حکومت کو پچھلے جرائم کے مرتکب ہونے والے افراد کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا عوام کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا تھا۔ جس کے جواب میں کمپورے عہد میں سیاسی کارکنوں کے قاتلو ں کو تختہ دار پر چڑھانے کے وعدے کئے جس کی وجہ سے زیدا کا ریاست کے طاقتور افراد سے ٹکراؤ ہوا۔
ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہر کوشش کو RSP کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس وجہ سے RSP اور زیدا کے مابین خلش نقطہ کھولاؤ تک پہنچ گئی جس پر زیدا نے پوری رجمنٹ کو ختم کرنے اور اس کے آفیسرز کو دوسری جگہوں پر تبادلہ کرنے کی دھمکی دی جواباً RSP کی طرف سے صدر میشیل کافینڈو سے زیدا کو فی الفور بر طرف کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 4فروری کو RSP نے صدارتی محل کے داخلی راستے بند کردیے اور کھل کر زیدا کو اقتدار سے ہٹانے کی دھمکی دے دی اس سے عبوری حکومت ایک سنگین بحران کا شکا ر ہو گئی۔ انقلاب کو درپیش خطرہ بھانپ کر 7فروری کو عوام نے شاندار مظاہروں کا انعقاد کر کے اسکا جواب دیا۔ ہزاروں افراد نے’RSP کو تحلیل کرو‘ کے نعرے سے سٹرکوں پر مارچ کیا۔ دارلحکومت میں انقلاب چوک پر انقلابی افراد کے مجمع کا نظارہ ہی RSP آفیسرز اور زیدا کے مابین تعطل ختم کرنے لئے کافی تھا۔ لیکن جلد ہی زیدا کی 28 جون کو تائیوان سے واپسی کے بعد فوجی اشرافیہ کی طرف سے اس کو گرفتار کرنے کی رپورٹس کے بعد زیداا ورRSP کے مابین اختلافات سامنے آگئے۔ ان رپورٹس کو سنجیدہ لیتے ہوئے ائیرپورٹ کی بجائے زیداکا جہاز ملٹری ایئربیس پر اترا بعد میں زیدا نے اعلان کیا کہ اسکے خلاف فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا ہے جبکہ RSP کی طرف سے زیدا پر ’جھوٹی بغاوت‘ کی افواہیں پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا۔
اس وقت سے ریاست سیاسی طور پر زیادہ احتیاط برتنے لگی ساتھ ہی صدر کوفینڈو کو صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے میدان میں آنا پڑا جس نے اپنے وزیر اعظم اور RSP کے مابین ثالث کے لئے ’عقل مند آدمیوں کی کونسل ‘ تشکیل دی۔ RSP نے اعلان کیا کہ وہ ’اپنے آپ کو مکمل طور پر صدر کے رحم و کرم پر چھوڑ رہی ہے‘لیکن ایک سینئر آفیسر نے خبردار کیا کہ، ’اگر وہ (صدر) بہتر یا دیر سے فیصلے کرتا ہے تو ہم اسے ہٹانے کے لئے مجبور ہو جائیں گے اور فوجیوں کو جو چاہے کرنے دیں گے کیونکہ ہم انہوں غیر معینہ مد ت تک روک نہیں سکتے‘‘۔ یہ انتباہ صرف زیدا کے خلاف نہیں بلکہ انقلاب کے خلاف تھا۔ جب تک واقعات کے پیچھے عوام ہوں تب تک انقلاب آگے کی طرف حرکت کرتا ہے لیکن اگر ریاست تحلیل نہیں ہوتی اور انقلاب جمود کا شکار ہوتا ہے تو یہ سنگین عدم استحکام کی طاقت بن سکتی ہے۔ اس میں مبالغہ آمیزی نہیں کہ 2014ء کی سر کشی میں RSP عوامی تحریک کے سامنے بے بس تھی۔ جب یہ عوام کو پارلیمانی گراؤنڈ میں داخلہ سے روک رہے تھے تو عوام نے ان کا صفایا کر دیا تھا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انقلابی صورتحال میں جب عوام فیصلہ کن طور پر بڑھتے ہیں تو کسی قسم کا ریاستی جبر ان کو روک نہیں سکتا۔
سنکارا کی میراث کی واپسی
مشہور انقلابی ہیرو تھامس سنکارا کو آئیوری کوسٹ اور فرانسیسی سامراج کے حمایت یافتہ بلیز کمپورے کی زیر قیادت فوجی بغاو ت میں 15 اکتوبر 1987ء کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اپنے چار سالہ اقتدار کے دوران سنکارا نے افریقی براعظم کے سب سے انقلابی پروگرام پر عمل درآمد کیا۔ اسکی زمین کو عوامی استعما ل کے لئے ضبطی اور معیشت کے اہم حصوں کی نیشنلائزیشن کی پالیسیوں نے ملک کے حکمران طبقہ کی کمر توڑ دی۔ زرعی اصلاحات سے گندم کی پیداوار دگنی ہو گئی جس سے ملک خود کفیل ہو گیا۔ ان اقدامات سے براعظم کے حکمران طبقات اور انکے سامراج کے آقا سنکارا کے بد ترین دشمن بن گئے۔
اگرچہ برکینا فاسو ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن سنکارا کے انقلاب نے دوسرے افریقی ممالک پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے۔ براعظم کے نوجوانوں میں سنکارا تیزی سے مقبول ہوتا گیا۔ وہ جہاں گیا لاکھوں کے مجمع نے اس کا استقبال کیا۔ لیکن اس کے سرمایہ داری پر حملوں نے اسکو فرانسیسی اور امریکی سامراج سمیت رجعتی افریقی بورژواکا حلیف بنا دیا۔ ان حکمرانوں کی ہولناکی میں اضافہ کے لئے سنکارا نے دوسرے افریقی ممالک میں انقلاب پھیلانے کے اعلان شروع کر دیے۔ اس نے ایسی عدالتیں تشکیل دیں جو کہ ایسے رد انقلابیوں کو سزائیں دیتی تھیں جن کو دوسرے افریقی ممالک چھوڑ دیتے تھے۔ 1987ء میں ادیسا بابا میں افریقی اتحاد کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں تمام افریقی ممالک کو برکینا کی مثال پر عمل کرنے اورآئی ایم ایف قرضوں کی ضبطگی کے لئے اپیل کی جس سے وہ سامراج اور افریقی اشرافیہ کا بد ترین دشمن بن گیا۔ اس کی عوامی حمایت میں اضافہ دیکھ کر انہوں نے اپنے ممالک میں اسکا داخلہ بند کر دیا۔ اپنی ایتھوپیا کی مشہور تقریر کے تین ماہ بعد اسکو شہید کر دیا گیا۔
لیکن حکمران طبقہ کے لئے سنکارا کو مار دینا کافی نہ تھا اسکی تذلیلکی ہر کوشش کی گئی اور آخر کار برکینا کے عوام کے ذہنوں سے اس کے نقوش ختم کر دیے گئے۔ جو کوئی بھی سچائی جاننے کی کوشش کرتا اسکو بدترین تشدد کے بعد قتل کر دیا جاتا۔ اس طرح سنکارا کی موت کے اسباب کبھی سامنے نہیں آئے اور اس واقعہ کو جاننے کے تمام کوششیں ختم کردیں گئی۔ انقلاب کا اہم مطالبہ سنکارا کے قتل کا انصاف عوام کے لئے بہت اہم ہے۔ 25 مئی کے عدالتی حکم کے بعد ڈاگنیون قبرستان میں سنکار اور فوجی بغاوت کے دوران مرنے والوں کی باقیات کے لئے 13 قبریں کھودی گئیں۔ سنکارا کی لاش کو لمبی گمنامی کے بعد منظر عام پر لانا اسکی میراث کی بحالی کی جانب اہم اقدامہے۔ دارلحکومت اویگو یڈوگو میں اب سنکارا کے پوسٹر، ویڈیوز اور تصاویر کی بھر مار ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اب صرف برکینا فاسو تک محدودنہیں رہا، پورے افریقی براعظم میں سنکارا کی میراث کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔ بیلائی سیٹرین کے کارکن اپنے سینیگال، کانگو اور برونڈی میں موجود ساتھیوں سے باہمی اشتراک سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کانگو میں 15مارچ کو صدر جوزف کیبیلا کے خلاف مظاہروں میں ملک بدر اور گرفتار ہونے والے طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق سینیگال کی ین آ میرے اور برکینا فاسو کے بیلائی سیٹرین سے تھا۔ ین آ میرے نے 2012ء کی سینیگال کے صدر عبدولائے واڈے کے خلاف شاندا ر تحریک کی قیادت کی۔ اس تحریک نے سینیگال کے زیادہ آمرانہ طرز پر حکومت کرنے والے صدر کا تختہ الٹ دیا تھا، بلائی سنٹرین کی طرح یہ آمیرے بھی تھامس سنکارا کو انقلابی مثال کے طور پر پیش کر تے ہیں۔
سنکرسٹ پارٹیاں
جیسا ہم نے دیکھا کہ تھامس سنکارا شہادت کے وقت دیگر افریقی ممالک میں انقلاب پھیلا رہا تھا۔ لیکن کسی انقلابی پارٹی کی تعمیر سے پہلے ہی اسکی زندگی نہایت مختصر اور پر انتشار تھی۔ جس کی وجہ سے اسکی شہادت کے وقت عوام مکمل طور پر غیر منظم تھے۔ اسی وجہ سے کمپورے کے رد انقلاب نے جلد اور منظم طریقے سے ہر طر ح کی مزاحمت کو ختم کر دیا۔ لیکن تھامس سنکارا کی موت کے وقت سے کئی سیاسی پارٹیاں سنکراسٹ نظریات پر عمل پیرا ہونے کی دعوے دار ابھری ہیں لیکن سیاسی منظر نامہ پر یہ زیادہ تقسیم ہیں۔ اسکی موت کے بعد درجنوں سنکرسٹ پارٹیاں برکینا فاسو میں قائم ہوئیں لیکن زیادہ تر یہ پارٹیاں محض سنکرسٹ فرقہ پرور ہیں۔ 25 مئی کو ان میں دس پارٹیوں نے اتحاد کا معاہدہ کیا اور بینوینڈے سنکارا (جس کا تھامس سنکرا سے کوئی تعلق نہیں) کو آئندہ انتخابات کے لئے صدراتی امیدوار منتخب کیا۔ تاہم سنکرسٹ روایات پر عمل پیرا اہم گروپ بلائی سیٹرون ہے۔ اس مشہور تحریک کی قیادت ریگے فنکار سمسک لی جاہ، ریپر سرجی بیمبارا سموکی اور دسرے فنکاروں، موسیقاروں اور سماجی کارکنوں پر مشتمل ہے۔ اس تحریک نے اکتوبر سرکشی کے لیے بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار اد اکیا۔ اگرچہ بلائی سٹرون کوئی سیاسی جماعت نہیں لیکن پھر بھی انہوں نے سماجی مسائل جیسے کرپشن، لوڈ شیڈنگ اور تیل کی برھتی قیمتوں کے خلاف عوام کو بیدار کرنے میں اہم کردار کیا اور آنے والی جدوجہد وں میں بھی اسکا اہم کردار بن رہا ہے۔
ایک نیا عہد
یہ تو واضح ہے کہ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات برکینا فاسو کی عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں کر سکیں گے۔ یہ ممکن ہے کہ گزشتہ 28 سال سے حکومت کرنے والا گلا سڑا گینگ دوبارہ بر سر اقتدار آجائے۔ لیکن یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام عوام کے بنیادی فوری مسائل حل نہیں کر سکتا۔ ان انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس خوراک کے بحران، رہائش اور روزگار کا پروگرام نہیں۔ دوسری جانبعوام لڑنے کے لئے پرعزم ہیں، انقلاب نے برکینابے معاشرے میں ایک نیا عہد کا آغاز کیا ہے۔ عوام کی امیدیں بلند ہیں اور وہ اپنی زندگیوں میں بہتری کے لئے جارحانہ طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ زبردست جدوجہد کے بعد محنت کشوں نے اپنے مالکان سے اہم رعایتیں حاصل کی ہیں۔ آبادی کے ایک بڑھے حصے خصوصاً نوجوانوں نے سنکارا کی انقلابی تاریخ کو دوبارہ دریافت کیا ہے۔ نوجوان نسل برکینا فاسو میں تبدیلی کے لیے برسر پیکار ہیں۔
اس وقت صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہر گھنٹے صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ انقلاب کے ایک سال بعد بھی عوام نے پھررد انقلاب کو شکست دی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انقلاب کی قوت محرکہ عوام کی براہ راست شمولیت ہوتی ہے۔ برکینا فاسونے اسے ایک بار پھر درست ثابت کیا ہے۔ بہت سے شہروں میں عوامی احتجاج کلیدی حیثیت کے حامل تھے۔ ان تمام شہروں میں خصوصاً بوبو میں طاقت عوام کے ہاتھوں میں تھی، لیکن انہیں اس کا ادراک نہیں تھا۔ یہ انقلاب کی سب سے بڑی کمزوری ہے، جو عوام کی انقلابی پارٹی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انقلاب کا عمل طوالت اختیار کرے گا اور کئی برسوں پر محیط ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود انقلاب نے غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام تیزی سے سیکھ رہے ہیں۔
متعلقہ: