[تحریر: لال خان]
کچھ دہائیاں پہلے تک سالانہ بجٹ کا اعلان ایک اہم اور مشہور واقعہ ہوا کرتا تھا۔ بجٹ تقریر کے وقت سڑکوں پر سے ٹریفک غائب ہوجاتی تھی۔ خاندان کے افراد یا پھر یاروں دوستوں کے گروہ بڑی خاموشی، انہماک اور دلچسپی سے ٹیلیوژن کے سامنے یا ریڈیو کے قریب بیٹھ کر وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سنا کرتے تھے۔ اس وقت بجٹ کی واقعی کچھ اہمیت ہوا کرتی تھی۔ یقین کرنا تو دور کی بات عوام نے حکمرانوں کی تقاریر، وعدوں اور دعووں پر کان دھرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ محنت کش طبقے کی پسائی، سماجی جمود اور حکمران طبقے کی جانب سے آئے روز کھڑے کئے جانے والے بیہودہ نان ایشوز کے باوجود بھی عوام زمینی حقائق سے بے خبر نہیں ہیں۔
ماضی میں ملک کی معیشت کسی حد تک مستحکم تھی جس کے پیش نظر حکمرانوں اور ریاستی پالیسی سازوں کے لئے کم از کم ایک سال کی معاشی منصوبہ بندی ممکن تھی۔ اس وقت بجٹ تقاریر میں پیش کی گئی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں پورا سال نہ سہی، کچھ مہینوں تک ضرور برقرار رہتی تھیں۔ علاوہ زیں روایتی ٹریڈ یونین اور سیاسی قیادتوں نے محنت کش طبقے کو اتنے دھوکے نہیں دئیے تھے۔ عوام میں سیاسی تحرک موجود تھا اور نیچے سے دباؤ کے پیش نظر سماج پر مسلط حکمرانوں بے حس ہوکر بڑے پیمانے کے معاشی حملے کرنے کے قابل نہ تھے۔ آج صورتحال کافی مختلف ہے۔ معیشت تباہی اور بربادی کی جس نہج پر پنچ گئی ہے وہاں دور رس معاشی منصوبہ بندی تو درکنار چند ہفتوں تک قیمتوں کو برقرار رکھنا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔ پورے کرہ ارض پر یہ نظام، کینشین ازم اور ریاستی سرمایہ داری سے لے کر مانیٹرازم اور ٹریکل ڈاؤن اکانومی سمیت، اپنی ہر شکل میں ناکام اور تاریخی طور پر متروک ہوچکا ہے۔
آج سیاست پر حاوی تمام تر سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک ہے۔ اقتدار اور اپوزیشن میں بیٹھی تمام بڑی پارٹیاں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور سرمایہ داری پر یقین رکھتی ہیں۔ لوٹ مار میں حصہ داری پر ان کے درمیان لاکھ اختلافات ہوجائیں لیکن اس استحصالی نظام کی حفاظت کے لئے یہ سب یکجا ہیں۔ سامراجی مالیاتی اداروں کی طرف سے رٹائی جانے والی ’’آزاد منڈی‘‘، بیرونی سرمایہ (FDI)، نجکاری، ری سٹرکچرنگ اور ڈاؤن سائزنگ کی گردان کے علاوہ اس سیاسی اشرافیہ کے پاس کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔ سب کے سب سرمایہ دار طبقے اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو دی جانے والی ’’مراعات‘‘ اور ٹیکسوں میں چھوٹ کو ہی معاشی نمو کا نسخہ قرار دیتے ہیں۔ 1970ء میں عوام کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی حکومت کے ابتدائی چند سالوں کے سوا، اس ملک کا ہر بجٹ امیر دوست اور غریب دشمن رہا ہے۔
عالمی سطح پر سرمایہ داری اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان جیسے سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں تو یہ نظام کبھی بھی صحتمند بنیادوں پر استوار ہی نہیں ہوسکتا لیکن اس عہد میں اس کی وحشت ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ عام انسان کا معیار زندگی تیزی سے گر رہا ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور آبادی کی وسیع اکثریت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی جارہی ہے۔ دو دن پہلے ہی اسحاق ڈار نے اعتراف کیا ہے کہ 50 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی حقیقی شرح 70 سے 80 فیصد تک ہے۔ اس معاشی بدحالی میں سماج، ثقافت، رشتے، اقدار، سیاست اور ریاست سب گراوٹ کا شکار ہیں۔
پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت ’’غیر محسوس‘‘ طریقے سے خساروں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی کوشش کرتی تھی لیکن اب کی بار سرمایہ داروں، کارپوریٹ آقاؤں اور بڑے صنعت کاروں کی ’’اپنی‘‘ حکومت ہے۔ موجودہ حکمران سرمایہ داروں کو نوازنے اور عوام کو نچوڑنے کی واردات کو پوشیدہ رکھنے کی زحمت میں گوارا نہیں کررہے ہیں۔ دوسری طرف مالیاتی بحران کے اس عہد میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی ادارے بھی زیادہ خونخوار ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے وفاقی بجٹ کا بڑا حصہ ریاستی قرضے پر سود کی ادائیگی کی نظر ہوجاتا ہے۔ اس بجٹ میں 1325 ارب روپے ملکی اور غیر ملکی قرضے کی واپسی یا سود کی ادائیگی کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ پچھلے مالی سال میں یہ رقم 1194 ارب روپے تھی۔ کچھ دن پہلے آئی ایم ایف کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے ہر شہری کے ذمے واجب الادا قرض، ایک سال میں نو ہزار روپے اضافے کے ساتھ 85 ہزار روپے ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ملک کی اکثریتی شہریوں نے اتنی رقم کبھی دیکھی بھی نہ ہوگی۔ 2013-14ء کے معاشی سروے کے مطابق حکومت کو تقریباً 5500 ارب روپے کا قلیل مدتی داخلی قرضہ ایک سال کے اندر ادا کرنا ہے۔ اس قرضے کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
قرضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد بجٹ کا دوسرا سب سے بڑا حصہ ’’دفاعی اخراجات‘‘ کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس مالی سال میں 11 فیصد اضافے کے ساتھ 700 ارب روپے ’’دفاع‘‘ کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ فوج کو 165 ارب روپے ’’ہنگامی حالات‘‘ میں خدمات فراہم کرنے کے بدلے میں بھی ملیں گے۔ ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کے 85 ارب اس کے علاوہ ہیں۔ یاد رہے کہ یہ فوج کا ’’قانونی بجٹ‘‘ ہے۔ ایٹمی پروگرام، میزائلوں کی تیاری و تجربات اور خفیہ ایجنسیوں پر کتنا خرچ ہوتا ہے، کسی کو نہیں معلوم۔ ’’جمہوری‘‘ حکومتوں میں دفاعی اخراجات کے حجم میں اضافہ فوجی آمریتوں سے کہیں تیز ہوجاتا ہے!
3900 ارب روپے کے بجٹ میں سے 2000 ارب روپے (50 فیصد سے زائد) سامراجی قرضوں اور ’’دفاع‘‘ کی نذر ہوجائیں گے۔ اس کے مقابلے میں صحت اور تعلیم کے لئے بجٹ کا صرف 2.3فیصد مختص کیا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار سے حکمران طبقے اور ریاست کی ترجیحات بالکل واضح ہوجاتی ہیں۔ سماجی خدمات کے ریاستی انفراسٹرکچر کی زبوں حالی صرف حکمرانوں کی بے حسی یا نا اہلی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی نجکاری کا منصوبہ کارفرما ہے۔ یہ دونوں شعبے اپنی ناگزیریت کے پیش نظر انتہائی منافع بخش ہیں اور حکمران طبقہ منافعوں کی ہوس میں پہلے ہی پاگل ہوچکا ہے۔
بجٹ کا سب سے مکروہ اور منافقانہ پہلو غریب خاندانوں کو دی جانے والی 1500 روپے کی بھیک ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی اور غربت کے وسیع حجم کے پیش نظر اس رقم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے ایک منٹ کا خرچ 1500 روپے ہے۔ یہ مدد نہیں، غریب کی تضحیک ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر بھیک اور خیرات کے یہ پروگرام اس ملک کے حکمرانوں کی نفسیات کو عیاں کرتے ہیں۔ کاسہ ہاتھ میں اٹھائے قرض اور امداد کے لئے در در پھر کے سامراج کی منتیں کرنے والے یہ حکمران، عوام کو تعلیم اور باعزت روزگار دینے کی بجائے اپنی طرح بھکاری بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ خیرات سے آج تک کوئی سماجی مسئلہ حل ہوا ہے، نہ ہی ہوسکتا ہے۔ اگر حکومتی بھیک کی یہ رقم پندرہ سو سے بڑھا کر پندرہ ہزار کر دی جائے تو بھی غربت میں ایک فیصد کی کمی نہیں آئے گی۔
بجٹ سے صرف ایک ہفتے پہلے حکومت نے بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں 477 ارب روپے کی چھوٹ دی تھی۔ 2014-15 کے مالی سال کے لئے کارپوریٹ ٹیکس مزید ایک فیصد کی کمی کے ساتھ 33 فیصد کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں کچھ ’مخصوص شرائط‘ کے تحت کارپوریٹ ٹیکس کو 20 فیصد تک گرا دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی 90 فیصد ٹیکس عوام ادا کرتے ہیں اور اب سرمایہ داروں کو مزید ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے۔ IPPs کے بلیک ہول میں اربوں کھربوں روپے پھینکنے کا عمل بھی جاری ہے اور آنے والے دنوں میں بجلی کے نرخ مزید بڑھائیں جائیں گے۔ افراط زر کی حقیقی شرح دیکھی جائے تو تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ بے معنی ہے۔ عوام کی قوت خرید در حقیقت سکڑ رہی ہے۔ پاکستان میں ستر فیصد روزگار کالی معیشت سے وابستہ ہے اور حکومت کے پاس ان کاروباروں اور ملازمین کا کوئی ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ لہٰذا سرکاری شعبے کے علاوہ کم سے کم اجرت کا قانون نہ پہلے کبھی لاگو ہوسکا ہے اور نہ اب ہوگا۔
میڈیا کے تمام تر شور شرابے کے باوجود سالانہ بجٹ بے مزہ رسم بن کے رہ گیا ہے۔ بجٹ اس لئے بھی بے معنی ہوگئے ہیں کہ ان میں صرف معیشت کے ایک تہائی حصے کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ پاکستان کی دوتہائی معیشت ’’کالی‘‘ ہے، جس پر ریاست کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ جرائم، کرپشن، ٹیکس چوری، منشیات اور سمگلنگ وغیرہ پر مبنی اسی کالی معیشت پر یہ ملک چل رہا ہے۔ سرمایہ داری عوام کو غربت، محرومی، بے روزگاری اور عدم استحکام پر مبنی ایک تاریک مستقبل ہی دے سکتی ہے۔ عوام کا شعور عام طور پر معیشت اور اس پر مبنی سیاست کے پیچھے چلتا ہے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ فاصلہ اب کم ہوتا جارہا ہے۔ ذرائع پیداوار اور تمام تر مالیاتی اثاثوں کو اشتراکی ملکیت میں لے کر منافع کی بجائے انسانی ضرورت پر مبنی منصوبہ بند معیشت کے علاوہ انسانیت کے پاس معاشی ذلت سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ فریضہ محنت کش عوام کے انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو پاش پاش کرنے کے بعد ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔