[تحریر: آدم پال]
جون کا مہینہ آتے ہی اعداد و شمار کی سالانہ جگالی کا وقت بھی آجا تا ہے جسے عرفِ عام میں بجٹ کہتے ہیں۔ ہر وزیر خزانہ اپنی تقریروں میں ترقی اور خوشحالی کی ایسی تصویریں پیش کرتا ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ عنقریب ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنی شروع ہو جائیں گی۔ لیکن جب محنت کش اپنے بھوکے پیٹ، تن پر لپٹے چیتھڑے اور سر پر کھلا آسمان دیکھتے ہیں تو انہیں بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ حکمرانوں کے بیانات کس قدرجھوٹے اور مضحکہ آمیز ہیں۔
بر سر اقتدار جماعتوں کے علاوہ رائج الوقت اپوزیشن پارٹیاں بھی انہی پالیسیوں پر عملدرآمد کا ڈھول پیٹتی ہیں جن سے عوام برباد ہو رہے ہیں صرف یہ اضافہ کرتے ہوئے کہ ہم زیادہ تابعداری سے ان پالیسیوں پر عملدرآمد کر سکتے ہیں اس لیے عالمی مالیاتی ادارے اور سامراجی قوتیں ہمیں موقع دیں۔ یعنی اسی عطار کے لونڈے سے شفا طلب کی جاتی ہے جس سے بیماری پھیلی ہے۔ 11مئی کو اسلام آباد میں ہونے والی نوٹنکی میں بھی یہی دہرایا گیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری وہ معجون ہے جس سے تمام مسائل حل ہوں گے یعنی سامراجی مالیاتی اداروں اور سرمایہ کاروں کی کاسہ لیسی ہی اس ملک کے حکمران طبقات کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے اور ان میں اس سے باہر کسی دوسرے حل کا ذکر کرنے کی بھی جرات نہیں۔
بیرونی سرمایہ کاری کا سیلاب چین، بھارت اور دیگر بہت سے ممالک میں محنت کشوں کو غربت کی گہرائیوں میں دھکیلنے کے جوگل کھلا چکا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری صرف وہاں آتی ہے جہاں اسے سستی مزدوری مل سکے یعنی اپنی زندگی سے تنگ ایسے ہنر مند محنت کش مل سکیں جو انتہائی کم اجرتوں پر اپنا بد ترین استحصال کروانے کے لیے تیار ہوں جس کے باعث سرمایہ کار ہوشربا منافع کما سکے۔ اسی طرح اس ملک میں ایسے قوانین موجود ہوں جہاں سرمایہ کار اس استحصال سے کمائی ہوئی رقم بغیر کسی ٹیکس کے باآسانی محفوظ مقامات پر منتقل کر سکے۔ اس تمام عمل میں سرمایہ کار کی دولت میں تو کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے لیکن محنت کشوں کے حالات مزید بد تر ہو جاتے ہیں نیز مذکورہ مملکت میں بہتر ی آنے کی بجائے مزید ابتری آتی ہے۔
معاشی پہلوؤوں کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی سماجی خرابیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کارل مارکس نے واضح طور پر کہا تھا کہ اس نظام میں بتدریج سماج کے ایک قطب پر آسائش، تعیش اور دولت کی فراوانی مرتکز ہوتی ہے جبکہ دوسرے قطب پر غربت، محرومی، بھوک اور ننگ۔ اس کی واضح مثال پاکستان کا موجودہ سماج ہے جس میں جہاں ایک جانب بھوک اور محرومی کا سمندر نظر آتا ہے وہاں خوشحالی کے جزیرے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انہی جزیروں میں رہنے والی سیاسی قیادتیں محنت کش عوام کو قناعت کا صبر دیتے ہوئے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو آخری نظام اور مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کا درس دیتی ہیں۔ اسی برباد معیشت پر ہونے والی سیاست بھی دھوکہ، فریب، بد عنوانی کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے سکیورٹی ادارے اور بے گناہوں کے گلے کاٹنے والوں سے مذاکرات کا ڈھونگ رچانے والے سیاست دان بھی ایسے ہی معاشی سماجی نظام کی پیداوار ہیں جسے سرمایہ داری کہا جاتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں معاشی شعبدہ گروں نے ہاتھ کی ایسی صفائی دکھائی ہے کہ بہت سے ’ذی شعور‘ بھی معیشت کی ترقی کے دعووں پرسچ کا گمان کرنے لگے ہیں۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں کمی ان میں سے ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کسی معاشی ترقی کا نتیجہ نہیں بلکہ مصنوعی ہتھکنڈوں کے ذریعے ہوئی ہے۔ یہ تمام ہتھکنڈے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اصولوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں بلکہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کے سامراجی آقاؤں کے تجویز کردہ نسخے کے بھی خلاف ہیں۔ ایک صحت مند سرمایہ دارانہ معیشت میں کرنسی اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب نئی صنعتیں تیزی سے لگیں اور برآمدات میں اضافہ ہو، روزگار میں اضافہ ہواور سرمایہ کاروں کا معیشت پر اعتماد بڑھے۔ جبکہ یہاں ہزاروں کی تعدا د میں صنعتیں لوڈ شیڈنگ اور دیگر وجوہات کے باعث بند ہورہی ہیں یا دوسرے ممالک میں منتقل کی جا رہی ہیں، بیروزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے، برآمدات میں کمی آ رہی ہے اور عدم استحکام اور انتشار کے باعث سرمایہ کاروں کا اعتماد روز بروز تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ ایسے میں ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر گرانے کے لیے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر استعمال کئے گئے اور انہیں کرنسی کی منڈی میں پھینک کر ڈالر کو موجودہ سطح پر لایا گیا۔ اس کے بر عکس آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق پاکستان کو اپنے زر مبادلہ کے ذخائر میں گراں قدراضافہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مختلف ذرائع سے زیادہ سے زیادہ ڈالر لے کر اسٹیٹ بینک کے پاس محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ڈالر کی قیمت میں کمی سے پاکستان کی مصنوعات عالمی منڈی میں دیگر ممالک کے مقابلے میں مہنگی ہو گئی ہیں جس سے برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔ یعنی اس اقدام سے برآمدات میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان کو ہونے والی آمدن کا 40 فیصد درآمدات پر ٹیکس لگا کر حاصل کیا جاتا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی سے درآمدات پر امپورٹ ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن میں بھی کمی ہوئی ہے جو ریونیو کے سالانہ ٹارگٹ پورے نہ ہونے کی ایک وجہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کی زر مبادلہ کی آمدن کا بڑا ذریعہ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم ہیں۔ اس رقم میں حالیہ سالوں میں اضافہ حکمرانوں کی کامیابی بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اس کی بڑی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہے جس کے باعث بڑی تعداد میں محنت کش ملک سے باہر جا کر روزگار حاصل کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے اس مد میں آمدن میں بھی کمی کے امکانات ہیں کیونکہ معاشی عدم استحکام کے باعث لوگ ڈالر کی واپس اپنی اصل قیمت تک واپسی کا انتظار کریں گے اور ممکنہ طور پر اس وقت تک زیادہ بڑی رقوم نہیں بھیجیں گے۔
اس مصنوعی ہتھکنڈے کو کامیابی بنا کر پیش کرنے والے وزیر خزانہ کے حکم کے باوجود مہنگائی میں کوئی کمی نہیں آئی اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں اپنی رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔ پولیس اور سکیورٹی اداروں کی طاقت پر بے تحاشابھروسہ کرنے والے حکمرانوں، میڈیا، ججوں اور دانشوروں کو سمجھانا شاید مشکل ہے کہ تھانیدار کے حکم پر مہنگائی کم نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے انتظامی طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک معاشی عمل ہے اور معاشی اقدامات سے ہی حل ہوتا ہے۔ اس لیے حکمرانوں کے دعووں کے باوجود محنت کش عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے بدتر ہوتے جائیں گے۔
دوسری جانب ملک کی معیشت جتنی لاغر اور بیمار ہوتی جارہی ہے ان حکمرانوں کی ہوس اور منافع اتنے ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس معیشت اور سماج کو لاحق ایک اہم بیماری لوڈ شیڈنگ ہے جس سے ہر محنت کش کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور یہ ملک ایک سلگتی ہوئی جہنم کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ یہ حکمران اس بیماری کا علاج کرنے کی بجائے اس کو مزید کھرچتے ہیں اور اس سے منافع کماتے ہیں۔ موجودہ ن لیگ کی حکومت نے آتے ہی گردشی قرضے کی مد میں آئی پی پیز کو 480 ارب روپے ادا کیے۔ یہ روپیہ تو یقیناًعوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیا گیا تھا جو بجلی، پانی سمیت ضرورت زندگی کی ہر شے پر لگائے گئے ہیں لیکن اس بہتی گنگا سے مستفید ہونے والوں کے نام سامنے نہیں لائے گئے۔ ان پردہ نشینوں میں اس ملک کے وزرا سمیت اہم شخصیات شامل ہیں جو ایک طرف ادائیگی کے لیے دستخط کرتی ہیں اور دوسری جانب وصولی کی دستاویز پر۔ کمیشن کھانے والے اس کے علاوہ ہیں۔ ایک سال گزرنے کے بعد یہ گردشی قرضہ 350 ارب روپے تک دوبارہ پہنچ چکا ہے۔ ہر گزرتا دن اس مد میں ایک ارب روپے کا اضافہ کر دیتا ہے جس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈلتا ہے۔ اسی طرح اس مد میں ہونے والا اضافہ اور کی جانے والی کرپشن کا سد باب کرنے کی بجائے عوام کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ اس لیے ہے کہ گردشی قرضہ ادا کرنا ہے اور وہ عنقریب ادا کر دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں 24 کلو گرام تیل سےKwh 100 بجلی پیدا کرتی ہیں جبکہ عالمی سطح پر بجلی گھر 14 کلو گرام تیل سے اتنی بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں گیس کے 12 ہزار BTU سے بجلی کا ایک یونٹ پیدا ہوتاہے جبکہ بھارت میں وہی یونٹ 5 ہزار BTU سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن حکمران اس بد عنوانی پر آئی پی پیز کا محاسبہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کے شئیرز بھی ان میں ہیں۔ اسی طرح بجلی چوری کا وقتاً فوقتاً واویلا کیا جاتا ہے اور میڈیا میں بجلی چوری کو مسئلے کی بنیاد بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر تمام تر چوری پر قابو پا بھی لیا جائے تو 90 فیصد گردشی قرضے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یعنی میڈیا اور کرائے کے دانشوروں کے ساتھ مل کر جعلی حل پیش کیے جاتے ہیں جبکہ اصل منافع خوری اور بد عنوانی کو ہوشیاری کے ساتھ چھپایا جاتا ہے۔ اس بیماری کا علاج کرنے کی بجائے اس کو جوں کا توں رکھنا حکمرانوں کے مفاد میں ہے جبکہ دوسری جانب عوام پر لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کا عذاب بھی اسی بیماری کا نتیجہ ہے۔ اس بیماری نے تو اب چھوٹے سرمایہ داروں اور تاجروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آہستہ آہستہ سماج کے بڑے حصوں کو نگلتی جا رہی ہے لیکن یہ حکمران ہر وقت یہاں سے بھاگنے کی تیاری میں موجود ہوتے ہیں اور خود عدم استحکام کا شکار ہیں اس لیے ان سے خیر کی توقع رکھنا بیوقوفی ہے۔ گردشی قرضے کی ادائیگی کے باعث بجٹ خسارے میں کمی کا ٹارگٹ کا حصول بھی مزید مشکل ہو جائے گا جس کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی ہدایات ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ اس گردشی قرضے کو آئندہ مالی سال کے لئے مؤخر کر دیا جائے اور گرمی کے مہینے میں عوام کا مزید خون نچوڑنے کا فیصلہ کیا جائے۔
یہی لوٹ مار کا سلسلہ تھری جی اور فور جی لائسنس کی فروخت میں نظر آیا جہاں انتہائی کم قیمتوں پر یہ لائسنس بیچے گئے۔ کمیشنوں اور حصوں کی لڑائی میں جہاں اس ٹیکنالوجی کو کئی سالوں تک عوام کی پہنچ سے دور رکھا گیاوہاں آخر کار جب اسے فروخت کیا گیا تو عالمی سطح کے مطابق اس کی انتہائی کم قیمت اس میں موجود کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح عالمی منڈی میں بانڈ ز کی فروخت پر واویلا کیا جا رہا ہے اور اسے معاشی ترقی کا نمونہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2ارب ڈالر کے بانڈ پاکستان نے 8.25 تک کی جس شرح سود پر فروخت کیے ہیں وہ عالمی معیار کے مطابق بہت زیادہ ہے جس سے لاچار معیشت مزید برباد ہونے کی جانب جائے گی۔ عالمی منڈی میں پاکستان جیسی ناکام معیشت کے بانڈ میں دلچسپی کی ایک وجہ عالمی منڈی میں بڑی مقدار میں Liquidity (نقد رقم) کی بہتات ہے جس میں امریکہ کی جانب سے ڈالر چھاپنے کی تیز رفتار ہے جو ماہانہ 80 ارب ڈالر چھاپ رہا ہے۔ دوسری وجہ عالمی معیار سے تقریباً دگنی شرح سود ہے جس کے باعث یہ بانڈ فروخت ہوئے۔ ایک اور وجہ کمیشن ایجنٹوں کی ہوشیاری بھی ہے، جن میں میرل لنچ، بارکلے، ڈیوٹشے بینک اور سٹی گروپ شامل تھے اور انہوں نے حکومت کو 500 ملین ڈالر کی بجائے چار گنا زیادہ مالیت یعنی 2 ارب ڈالر کے بانڈفروخت کرنے پر ’راضی ‘کیا اور نتیجتاً چار گنا کمیشن حاصل کیا۔
ایسی آمدن سے مصنوعی طور پر زر مبادلہ کے ذخائر میں اضا فہ تو ہوگا جو آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ضروری ہے لیکن اس سود کی ادائیگی کہاں سے ہو گی اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔ دوسرا زرمبادلہ کے یہ ذخائر آئی ایم ایف کے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں صرف ہو جائیں گے جس کے بعد پاکستان کے خزانے میں صرف ادائیگیوں کی رسیدیں موجود ہوں گی اور اس کا بوجھ مزید قرضوں کے ذریعے پورا کرنے کی ناکام کوشش جاری رہے گی۔ لیکن اس سارے عمل میں معیشت کی تباہی کے ساتھ ساتھ ریاست کے مالیاتی اداروں کی تباہی کا سفر بھی جاری ہے جس میں اسٹیٹ بینک کا نسبتاً آزادانہ کردار پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ اسی طرح معاشی کامیابیوں کے نعرے مارنے کے لیے حکمرانوں نے اعداد و شمار کے ساتھ زنا بالجبرکا وطیرہ اپنا رکھا ہے۔ بجٹ خسارے کو کم دکھانے کے لیے بہت سی ایسی رقوم آمدن کے طور پر دکھائی جا رہی ہیں جو پہلے کبھی بھی نہیں دکھائی گئیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے کے باوجود ہدف نہ پورا ہونے کے باعث ٹیکسوں کے علاوہ آمدن کی مد کوکھینچ تان کر ہدف تک لایا جا رہا ہے۔ غیر ملکی امداد کو پہلی دفعہ نان ٹیکس ریونیو کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح سرکاری اداروں کی آمدن، اسٹیٹ بینک کے منافع، گیس ڈویلپمنٹ سرچارج سمیت بہت سے ایسی آمدن کو نان ٹیکس ریونیو میں شامل کیا جا رہا ہے جسے پہلے 67 سالوں میں کبھی نہیں کیا گیا۔ اس بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بجٹ خسارہ کم ہو رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ جولائی سے فروری تک بجٹ خسارہ 1005 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 3.9 فیصد ہے۔ تمام ہیر پھیر کے باوجود پورے مالی سال کا متوقع بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.7 فیصد ہے جو 5.8 کے ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر آئی پی پیز کو گردشی قرضہ ادا کیا جا تا ہے تو یہ خسارہ جی ڈی پی کے 7.6 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
اسی طرح زر مبادلہ کے ذخائر کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے متعین کردہ ہدف کا حصول بھی مشکل ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کے متعلق بیانات میں کمرشل بینکوں کے اکاؤنٹ میں موجود ذخائر کو بھی شمار کیا جا رہا ہے اس لیے وہ زیادہ نظر آتے ہیں اور اسی پر وزیر خزانہ کی اچھل کود بڑھتی جاتی ہے۔ 2 مئی تک اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر 7.2 ارب ڈالر تھے۔ اس میں یہ ’’خوشخبری‘‘ بھی سنائی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف یکم جون تک 550 ملین ڈالر مزید جاری کرے گا۔ جبکہ آئندہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے کل 2.2 ارب ڈالر ملیں گے۔ لیکن اسی دوران آئی ایم ایف کو 3ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ یعنی جتنے آئیں گے اس سے زیادہ واپس چلے جائیں گے جبکہ سود کے چکر کے باعث ادائیگیوں کا بوجھ موجود رہے گا۔ معیشت کو برباد کرنے والی ان پالیسیوں کو آئی ایم ایف کی جانب سے سراہے جانے کا راز بھی اسی امر میں پوشیدہ ہے۔ ساتھ ہی عالمی معاشی بحران اور سرمایہ داری کے زوال کے باعث عالمی مالیاتی ادارے بھی زوال پذیر ہیں اور معاشی پالیسیوں سے زیادہ اپنی پھنسی ہوئی رقم کی وصولی کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔ اس لیے وہ ایک طرف وزیر خزانہ کی اچھل کود کو سراہتے ہیں اور دوسری طرف اس پر زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے پر زور دیتے ہیں تا کہ وہاں سے انہیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جا سکے۔ اس سارے گھن چکر میں عوام کی حالت اس شخص کی سی ہو گئی ہے جو سود کے چکر میں اپنی نسلوں تک کو گاؤں کے بنیے کے پاس گروی رکھوا چھوڑتا ہے لیکن پھر بھی قرضہ ادا نہیں ہو پاتا۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت نے ایک سال میں 15.3 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا اضافہ کیا ہے۔ اس مالی سال کے اختتام تک پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 72 ارب ڈالر ہو جائے گا جو گزشتہ سال 57 ارب ڈالر تھا۔ اس سال قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے27.7 فیصد تک پہنچ جائے گا جو گزشتہ سال 24.9 فیصد تھا۔
اس صورتحال میں آئندہ سال بھی تمام تر معاشی سرگرمی کا مقصدغیر ملکی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی ہو گا اور اس کے لیے 18 کروڑ عوام کو محنت کی چکی میں پیسا جائے گا۔ آئندہ سال کے لیے مختص 3.9 کھرب روپے کے بجٹ میں سے 1550 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رکھے جا رہے ہیں جبکہ 720 ارب روپے دفاعی اخراجات کے لیے۔ ان 720 ارب روپوں میں فوجیوں کی پنشنیں اور دیگر بہت سے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ٹیکسوں کی مد میںآمدن کا ہدف 2.8 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ اس مد میں بھی ہدف پہلے کی طرح پورا نہیں ہو سکے گا۔ پہلے تو تمام تر ٹیکس بالواسطہ طور پر لگائے جاتے ہیں جن میں پٹرول، بجلی سمیت ہر قسم کی اشیائے ضرورت شامل ہیں۔ اس سے کھرب پتی افراد اور بیروزگار نوجوان سمیت ہر شخص ایک ہی جتنا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پاکستان بلاواسطہ (Direct) ٹیکس لگانے والے ممالک میں آخری نمبر پر آتا ہے جہاں آمدن، منافع، شئیرز کے لین دین اور کاروباروں پر ٹیکس لگانے کی بجائے چھوٹ دی جاتی ہے۔ مختصراً دولت مند افراد کے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ اور عوام کے لیے پکڑ۔ آئندہ مالی سا ل میں بھی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے گا۔
اسی طرح تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے جو حقیقی افراط زر سے کہیں کم ہے۔ آئی ایم ایف کے حالیہ بیان کے مطابق افراط زر 9.2 فیصد ہے۔ خوراک کی اشیا پر افراط زر کہیں زیادہ ہے۔ ایسے میں دس فیصد اضافے کے بعد بھی حقیقی تنخواہوں میں کمی ہو گی۔ اسی طرح نجی سطح پر محنت کش کی کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ ایک تولہ سونا پچاس ہزار روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ حقیقی اجرتوں میں یہی کمی سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کا باعث ہے۔ پاکستان میں درست اعدادو شمار ملنا نا ممکن ہے لیکن اندازاً کہا جا سکتا ہے کہ کم ازکم گزشتہ 30 سال سے حقیقی اجرتیں مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ ٹریڈ یونین کی زوال پذیری اور نجکاری جیسی مزدور دشمن پالیسیوں کا نفاذ بھی اجرتوں کو کم سطح پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں کھلے عام سرمایہ داروں اور لٹیروں کو نواز رہی ہیں جبکہ محنت کش ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
اسی دوران یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ صرف سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر سے زائد موجود ہیں۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے جبکہ دوسرے محفوظ مقامات پر بھی کئی ارب ڈالر موجود ہیں جو اس ملک کے بد نصیب افراد کی محنت کا پیسہ ہے۔ اگر صرف یہ 200 ارب ڈالر واپس آجائے تو نہ صرف دس سال تک ٹیکس فری بجٹ بنایا جا سکتا ہے بلکہ تمام غیر ملکی قرضے بھی سود سمیت ادا کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن موجودہ نظام میں رہتے ہوئے اس کی توقع کرنا جرم ہے۔ الیکشن کمیشن کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنا عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ہے تا کہ دولت مند افراد کی آمریت کا تسلسل جاری رہے۔
سینکڑوں نہیں ہزاروں ارب ڈالر کی اس دولت کے حصول سمیت ملک میں موجود تمام دولت اور معدنی ذخائر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے صرف اسی وقت استعمال ہو سکتے ہیں جب اس نظام کا خاتمہ کیا جائے اور ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت سے نکال کر محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت میں دے دیا جائے۔ ایساصرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جا سکتا ہے ورنہ یہ گدھ عوام کی ہڈیاں اور خون ایسے ہی نچوڑتے رہیں گے اور سرمائے کا شکنجہ ہر روز ہزاروں افراد کو نگلتا رہے گا۔