[تحریر: آدم پال]
بجٹ 2013-14ء عوام پر عذابوں کے سلسلے کی نئی کڑی کے طور پر نازل ہو چکا ہے۔ ذلت اور استحصال کا یہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا بلکہ اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ نہ صرف عوام کی تلخ زندگیوں میں مزید زہر گھول دینے والا بجٹ سفاک حکمرانوں کی جانب سے ملسط کیا گیا ہے بلکہ ’’معاشی ماہرین‘‘ اس عوام دشمن بجٹ کو موجودہ حالات میں درست اور بہترین قرار دے کر زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ عوام کاخون تو یہ حکمران گزشتہ 65 سالوں سے نچوڑ ہی رہے ہیں لیکن اب اس بجٹ سے ہڈیوں کا گودا تک نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کاناٹک دیکھنے کے بعد عوام پر واضح ہو چکا ہے کہ صرف چہرے تبدیل ہوئے ہیں اور تما م رائج الوقت سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ موجودہ بجٹ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مشرف آمریت اور پانچ سالہ جمہوریت کے ادوار کے بعد اب ضیاء الحق کی سیاسی اولاد اقتدار پر قابض ہوچکی ہے جو پہلے سے جاری عوام دشمن معاشی پالیسیاں مزید شدت سے نافذ کرے گی۔ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی طرح سندھ اور خیبر پختونخواہ میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومتوں نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسوں کے تحت سرمایہ دارانہ نظام ہی کی غلام ہیں۔
وفاقی بجٹ میں آئی ایم ایف کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کے مزید پہاڑ توڑے گئے اور کشکول توڑنے کا جھوٹا نعرہ لگانے والے اب آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ پچھلا قرضہ اتارنے کے لیے 5ارب ڈالر کانیا قرضہ لینے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اسی سے واضح ہے کہ حکمران طبقے کا ہر برسر اقتدار ٹولا عوام سے کتنی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتا ہے اور اس جھوٹ کو سچ دکھانے کے لیے مزید کتنے جھوٹے اعداد و شمار اور دلائل دیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور ملکی معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ لوٹ مار کی انتہا کرنے کے باوجود سرمایہ دار طبقہ آج بھی اس ریاست کو کسی قسم کا کوئی ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں اور معیشت کی ناکامی کا تمام بوجھ پہلے سے تباہ حال عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔
یہ حکمران جو معاشی پالیسیاں عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر اس ملک کے عوام پر مسلط کر رہے ہیں ان سے معیشت کی بہتری کی خود انہیں بھی کوئی امید نہیں ہے اسی لیے وہ اپنا ذاتی سرمایہ اس ملک میں نہیں لاتے۔ پچھلے چھ دہائیوں میں پاکستان کے محنت کشوں سے لوٹے گئے کھربوں ڈالر بیرونی ممالک میں ذاتی اکاؤنٹس میں جمع کرائی جا چکے ہیں یا پھر وہاں مختلف کاروباروں میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ سامراج کے دلال اور چوروں کی ذہنیت رکھنے والے ان حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے تحت معیشت کی یہی بد تر حالت ہو سکتی تھی جو آج ہے اور اس میں مزید ابتری آئے گی۔
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جہاں عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے وہیں امیر افراد، اپنے عزیز و اقارب اور ان کی صنعتوں پر ٹیکسوں میں کمی کی گئی ہے اورکہا جا رہا ہے کہ یہ سب ’’عوام کے وسیع تر مفاد‘‘ میں کیا گیا۔ اس جھوٹ کی حمایت میں دلائل گھڑنے کے لیے بہت سے موقع پرست اور لالچی، دانشوری اور معاشی تجزہ نگاری کا بھیس بدل کر موجود نظر آتے ہیں۔ بجٹ کے مطابق کارپوریٹ ٹیکس میں ایک فیصد کمی فوری طور پرلاگوکی جائے گی جبکہ اس کمی کو بتدریج پانچ فیصد تک لایا جائے گا تا کہ منافع نچوڑنے والوں کی دولت میں مزید اضافہ ہو سکے۔ سپیشل اکنامک زون میں ٹیکس چھوٹ کی مدت پانچ سال سے بڑھا کر دس سال تک کر دی گئی ہے گو کہ وہاں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے یونین ساز ی اور دیگر حقوق کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ الیکشن مہم کے دوران ’’جوش خطابت‘‘ میں کئے گئے دوسرے وعدوں کی طرح کم ازکم تنخواہ پندرہ ہزار روپے کرنے کا وعدہ بھی ہوا ہو گیا ہے۔
اسی طرح سرمایہ داروں کے لیے ٹیکسوں میں 3 ارب روپے کی کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی 11 مئی کے الیکشنوں میں سرمایہ کاری کرنے والے صنعتکاروں کو قطعاً فراموش نہیں کیا گیااور مخصوص شعبوں کے لیے کسٹم ڈیوٹی میں 150 ارب روپے کی چھوٹ دی گئی ہے، گزشتہ بجٹ میں یہ چھوٹ 119.71 ارب روپے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ کے بعد کراچی اسٹاک ایکسچینج میں 433 پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور سرمایہ داروں نے اس غریب دشمن بجٹ کو خوش آمدید کہاہے۔
سماج میں موجود امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی خلیج کو مزید گہرا کرتے ہوئے محنت کش عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کوئی نئی بات نہیں لیکن اس دفعہ تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے ہیں۔ صرف جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے سے مہنگائی میں 25 سے 30 فیصد اضافہ ہو گا جبکہ محنت کشوں کی اکثریت کی اجرتوں میں کوئی حقیقی اضافہ نہیں ہو گا۔ سرکاری طور پر مالی سال 2013-14ء میں افراط زر کا تخمینہ 9.5 فیصد لگایا گیا ہے، درحقیقت یہ شرح اس سے کہیں بڑھ کر ہوگی۔ مہنگائی اور افراط زر کی شرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں ہونے والا معمولی اضافے سے کہیں زیادہ رہے گی۔ اس سے آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا جائے گا۔
پاکستان میں امیر افراد پر ٹیکس لگانا حکمران اپنے لیے توہین سمجھتے ہیں جبکہ عوام پر ٹیکسوں میں اضافے کو فخر کے ساتھ میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب کہا جاتا ہے کہ ملک اس لیے غریب ہے کیونکہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ یہ ایک بیہودہ جھوٹ ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں باالواسطہ یا Indirect Tax کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد سے زائد آمدن باالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، یعنی بجلی، پٹرول، چینی غرضیکہ روز مرہ کے استعما ل کی تمام اشیا پر ٹیکس لگایا جاتا ہے جبکہ امیر افراد کی دولت اور آمدن پر کوئی ٹیکس نہیں۔ دوسری جانب ترقی یافتہ معیشتوں میں 70 فیصد سے زائد آمدن بلاواسطہ Direct ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہوتی ہے۔ وفاقی بجٹ میں ٹیکس ریوینیو کا حدف 2,598 ارب روپے رکھا گیا ہے جس میں سے 1622 ارب روپے بالواسطہ ٹیکس کے ذریعے حاصل کئے جائیں گے۔ دوسری جانب بلا واسطہ ٹیکسوں (Direct Taxes) کا تمام تر بوجھ بھی آخری تجزئے میں عوام پر ہی پڑتا ہے۔ سرمایہ داروں پر ٹیکس میں معمولی سا اضافہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں فوراً ظاہر ہو جاتا ہے۔
اس بجٹ میں بھی اسی تسلسل کو نہ صرف جاری رکھا گیا ہے بلکہ ببانگ دہل امیر افراد کو مزید سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ گو کہ اس پر کس بھی قسم کی شرمندگی یا جھوٹ بولنے سے ہونے والی ہتک ان کے چہروں پر نظر نہیں آتی کہ وہ صرف غیرت مند لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ بجلی کی قیمت میں 1.12روپے یونٹ کا اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ اگلے ماہ اتنا ہی مزید اضافہ متوقع ہے۔ پٹرول پر جی ایس ٹی میں اضافے کے علاوہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے باعث اس کی قیمت میں بھی فوری طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ کرتے ہوئے ان لوگوں پر بوجھ بڑھایا گیا ہے جو پہلے ہی اس بوجھ تلے پس رہے ہیں اور تنخواہ دار افراد خواہ سرکاری ہوں یا نجی کمپنیوں کے ملازم، اب مزید ٹیکس ادا کریں گے۔ ان افراد کو شامل کرتے ہوئے FBR کے مطابق پاکستان میں 8 لاکھ کے قریب افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ نادرا کے ڈیٹا بیس کے مطابق 38 لاکھ افراد پر بلا واسطہ ٹیکس لگایا جا سکتا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اسی طرح ٹیکسٹائل، چمڑے، آلات جراحت اور قالینوں پر سیلز ٹیکس 2 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا گیا۔ ایف بی آر ان شعبوں سے2 فیصد ٹیکس بھی اکٹھا کرنے میں ناکام تھا۔ اب 17 فیصد کا ٹیکس کیسے اکٹھا ہو گا اس کے متعلق نہیں بتایا گیا۔ گو کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔
ٹیکس نہ ادا کرنے والے افراد کو فہرست میں شامل کیے بغیر بجٹ میں ریونیو کے حصول میں 22فیصد اضافے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں میں بیش بہا اضافے کے باوجود خود بورژوا تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے نظر آتا ہے کہ یہ حکمران معیشت کا چلانے میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں اور ان کا مطمع نظر اپنی ذاتی دولت میں اضافہ ہے۔ ان ناقابل حصول اہداف میں جی ڈی پی کی شرح نمو کو 4.4 فیصد تک پہنچانا جبکہ اسی دوران افراط زر کو 8 فیصد تک رکھنا ہے۔ اول تو شرح نمو میں اتنا بڑا اضافہ ممکن نہیں دوسرا اگر یہ شرح حاصل ہو بھی جاتی ہے تو سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں کے مطابق افراط زر میں بہت بڑا اضافہ ہو گا۔ ایسے میں 8 فیصد کا ہدف خود سرمایہ دارانہ اصولوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کے لیے چاپلوسی کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے بجٹ خسارہ موجودہ 8.8 فیصد سے کم کر کے 6.3 فیصد تک لانے کا ہدف طے کیا گیا ہے جو موجودہ حالات میں کسی بھی طور ممکن نہیں۔ ایک اور ناقابل حصول ہدف ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب پانچ سال میں پندرہ فیصد تک کرنا ہے۔ اس شرح سے پتا چلتا ہے کہ جی ڈی پی کا کتنا حصہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ شرح افغانستان کے بعد دنیا میں سب سے کم ہے۔ صومالیہ اور وسطی افریقہ کے غریب ترین ممالک میں بھی یہ شرح پاکستان سے زیادہ ہے۔ امیر ترین افراد کو ٹیکسوں کی چھوٹ دینے سے یہ شرح قطعاً نہیں بڑھے گی گو کہ عوام پر 209 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں جو گزشتہ سال سے 23فیصد زیادہ ہیں۔
پاکستان میں بجلی کا بحران روز مرہ کی بحث کا حصہ بن چکا ہے اور ہر وقت سرکلر یا گردشی قرضے کو اتارنے کی بات کی جاتی ہے۔ اس بجٹ میں بھی 60 دنوں میں اس قرضے کو اتارنے کا ٹارگٹ لیا گیا ہے اور نجی بجلی گھروں اور پی ایس او کو 500 ارب روپے کی ادائیگی کا بندوبست کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ یقیناًنجی کمپنیوں کو یہ رقم ادا ہو جائے گی اور اس رقم کی ادائیگی بھی آئی ایم ایف کے لیے باعث مسرت ہو گی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے محنت کشوں کی خون اور پسینے سے کمائی ہوئی دولت ان منافع خوروں کو ادا کرنے کے بعد بھی بجلی کا بحران حل نہیں ہو گا اور شدید گرمی میں لوگ بغیر بجلی کے اٹھارہ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی اذیت سہنے پر مجبور ہوں گے۔ پورا مہینہ بجلی اور دیگر سہولیات کے بل ادا کرنے کے لیے محنت کش منڈی کی چکی میں پستے رہتے ہیں لیکن تمام بل ادا کرنے کے باوجود وہ شدید گرمی میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب بجلی پیدا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حبکو سمیت تمام کمپنیاں اربوں ڈالر ہر ماہ کما رہی ہیں۔ نیا وزیر پانی و بجلی بھی کہہ چکا ہے کہ اگلے دو تین سال تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ درحقیت منافع خوری پر مبنی نظام میں یہ مسئلہ اب ناقابل حل ہے۔ جب تک ان بجلی گھروں کو نیشنلائز نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ حکمران اسی طرح یہ اذیت عوام پر مسلط کرتے رہیں گے۔ نیشنلائز کرنے سے نہ صرف اربوں روپے ان کمپنیوں کے منافعوں کی مد میں غیر ملکی بینکوں میں جانے سے بچیں گے بلکہ چند گھنٹوں میں لوڈ شیڈنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔
یہ حکمران اتنے کمزور ہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سامراج کی غلامی میں خود اپنے آپ سمیت ملکی صنعت اور اس سماج کو تبا ہ کر رہے ہیں۔ وفاقی بجٹ کے مطابق اس مالی سال میں 1,153 ارب روپے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں ادا کئے جائیں گے، ہر بار کی طرح اس مالی سال کے اختتام تک اس رقم میں کئی سو ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہوگا۔ اسی طرح 760 ارب روپے ’’دفاعی اخراجات‘‘ اورفوجیوں کی پنشنوں کی مد میں ظاہر کئے گئے ہیں، لیکن یہ رقم ’’دفاع‘‘ پر ہونے والے اصل اخراجات کا صرف ایک حصہ ہے۔ دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ سویلین اخراجات میں چھپایا جاتا ہے۔ ایٹمی و میزائل پروگرام پر ہونے والے اخراجات، فوجی قرضوں پر سود کی ادائیگی اور ’’خفیہ فنڈز‘‘ وغیرہ شامل کئے جائیں تو کل دفاعی اخراجات بجٹ میں ظاہر کردہ اعداد و شمار کے دوگنا تک پہنچ جاتے ہیں۔ یوں کل حکومتی ریوینیو کا تقریباً 90 فیصد فوج اور حکومتی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی نظر ہوجاتا ہے، بجٹ خسارہ ہر سال بڑھتا ہے جسے پورا کرنے کے لئے مزید قرضے لئے جاتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال بجٹ خسارہ تقریباً 1100 ارب روپے ہے جسے پورا کرنے کے لئے اگلے سال 975 ارب روپے کے قرضے کمرشل بینکوں سے لینے کاتخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر نوٹ بھی چھاپے جائیں گے۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں 484 ارب روپے کے تخمینے کے برعکس 1576 ارب روپے کے قرضے لیے گئے تھے۔ ایسے میں بینکوں کے پاس صنعتوں کو دینے کے لیے قرضے نہیں ہو ں گے اور شرح نمو میں اضافے کے حدف کا حصول مزید دشوار ہو جائے گا۔ اسٹیٹ بینک جو پالیسی ریٹ میں کمی کے بارے میں سوچ رہا تھا مزید محتاط ہو گیا ہے۔ اگر قرضوں میں سہولت کے لیے یہ کمی ہوتی بھی ہے تو افراط زر کی وجہ سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو گا جو ٹیکسوں میں اضافے سے پہلے ہی بڑھ رہی ہے۔ لوٹ مار کے مواقع کو مزید تقویت دینے کے لیے 712 ارب روپے کی رقم ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کی گئی ہے تا کہ نئے ٹھیکوں کے ذریعے انتخابات میں ہونے والی سرمایہ کاری پر منافع کمایا جاسکے۔ موجودہ حکمران سڑکوں کی تعمیر سے مال بنانے میں مشاق ہو چکے ہیں اور اسی طریقہ واردات کو بڑے پیمانے پر جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے بھی وفاقی حکومت کی طرز پر مزدور دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے اور ہیلتھ انشورنش جیسی عوام دشمن اسکیمیں متعارف کرواتے ہوئے لوٹ مار کی راہیں کھولی ہیں۔ پنجاب کے بجٹ میں 30 فیصد اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں جبکہ موجودہ ٹیکسوں میں 48فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت پر پہلے ہی 450 ارب روپے کا قرضہ ہے لیکن حکمرانوں کے اللے تللے جاری و ساری ہیں۔ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کا روزانہ خرچ 11 لاکھ سے زائدہے جس میں بجٹ تقریروں کے دوران جھوٹ بولنے کا مقابلہ جیتنے کے لیے 30 فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ یاد رہے ان عیاشیوں کی مد میں گزشتہ سال 3 کروڑ ساٹھ لاکھ کا اعلان کر کے 4 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ کیے گے تھے۔ ہیلتھ انشورنس سے فوری طور پر حکمرانوں کی پروردہ کمپنیوں کو اربوں روپے سمیٹنے کا موقع ملے گا جن کا صحت کے انفرااسٹرکچر پر خرچ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ دوسری جانب مریضوں کو پہلے سے بدتر لیکن مہنگی صحت کی سہولیات بیچی جائیں گی جس سے موذی بیماریوں کے پھیلاؤ اور قابل علاج بیماریوں سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب صحت کے شعبے میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اجرتوں میں کمی اور مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
تین نئے دانش سکولوں کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ہزاروں سرکاری سکولوں کو نہ صرف یہ کہ مناسب رقوم فراہم نہیں کی جا رہیں بلکہ وہ بڑے پیمانے پر بند ہو رہے ہیں۔ لیکن میڈیا اور حکمران ایک طالب علم کی کا میابی کا ڈھنڈورا پیٹ کر لاکھوں کو علم کی روشنی سے محروم کر دیتے ہیں۔ دانش سکولوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والی پنجاب حکومت کی ’’علم دوستی‘‘ کا یہ حال ہے کہ صرف 2010ء میں ’’فنڈز کی کمی‘‘ کے باعث 5700 سکول بند کئے گئے۔ اسی طرح 17 جولائی 2012ء کو چھپنے والی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے 31 اضلاع میں 6200 سکول بند کئے جس کی وجہ سے 248,000 غریب طلبہ تعلیم سے محروم ہو گئے۔
اس تمام طبقاتی خلیج میں محنت کشوں کی بغاوتوں کے خوف سے پولیس کے لیے 63 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ گو کہ گزشتہ پانچ سالوں میں پولیس کی تنخواہ کئی گنا اضافے کے باوجود جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور پنجاب میں گزشتہ پانچ سالوں میں 30,000 سے زائدقتل ہوئے ہیں۔ جرائم کی شرح میں اضافہ معاشی سماجی بدحالی، غربت اور بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ حکمران اس بدحالی میں کمی کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں لیکن اپنی پر تعیش زندگیوں اور محلات کو عوام کے غیص و غضب سے محفوظ رکھنے کے لیے پولیس کی بھرتیوں اور مراعات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ گو کہ آنے والی طوفانی تحریکوں کے سامنے یہ بند خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔
اس تمام تر معاشی دہشت گردی میں عوام کی اکثریت مزید بھوک سہنے اور معیار زندگی میں گراوٹ برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ خود بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سروے کے طابق پاکستان میں خوراک کے حوالے سے غیر محفوظ آبادی کی شرح 58 فیصد ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ بجٹ سے کچن کے اخراجات میں کم از کم 10 فیصد اضافہ ہو جائے گا جس سے اس شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔ غربت میں اضافے کا مطلب یہی ہے کہ جو خاندان ایک وقت کی روٹی روزانہ کھاتے ہیں انہیں اب دو دن بعد کھانا نصیب ہو گا۔ علاج کی خرید و فروخت کی منڈی سے بھی وہ باہر نکلتے جائیں گے اور غیر سائنسی علاج یا دعاؤں پر بھروسہ ہی ان کا سہارا رہ جائے گا۔ نوازلیگ کے اپنے انتخابی منشور کے مطابق 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے۔ خط غربت سے نیچے رہنے والی آبادی میں اضافے کیلئے اس بجٹ میں بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں۔ بچ جانے والی آبادی کو تاجر وں کی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزوں کی ہوس برباد کر دے گی۔ پاکستان میں گندم اور دیگر غذائی اجناس کی پیداوار تمام لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اس کے باوجود بھوک سے دوچار افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
ایسے میں کوئی بھی ایسا لیڈر سیاس ی افق پرموجود نہیں جو اس سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑ بندیوں کو توڑنے کی بات کرے۔ تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگایا لیکن اپنے پہلے ہی بجٹ میں ان کے تمام دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔ تعلیم کے بجٹ میں 6 گنا اضافے کا سفید جھوٹ بول کر انہوں نے اپنے غلیظ اور دوغلے کردار کو واضح کر دیا ہے۔ اعلان کیا گیا کہ تعلیم کا بجٹ 10 ارب روپے سے بڑھا کر 66.6 ارب روپے کر دیا گیا ہے جبکہ حقیقت میں اسے11.2 ارب روپے سے بڑھا کر 13.83 ارب روپے کیا گیا ہے جو صرف ڈیڑھ ارب روپے کا اضافہ ہے۔ گزشتہ مالی سال میں اے این پی کی حکومت نے اس میں پونے دو ارب روپے کے قریب کا اضافہ کیا تھا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں کو تعلیم کے ترقیاتی بجٹ کے کھاتے میں ڈال کر تحریک انصاف عوام کو بیوقوف بنا رہی تھی کہ خود سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ نے ہی ان کا جھوٹ فاش کر دیا۔ اسی طرح پرائیویٹ سکولوں کے لیے 1.3 ارب روپے مختص کر کے اپنی سرمایہ دار نواز پالیسی کو عیاں کیا ہے۔
درحقیقت نجکاری کی پالیسی تمام صوبائی بجٹوں اور وفاقی بجٹ میں مشترک ہے۔ بلوچستان کے نام نہاد بائیں بازو اور قوم پرست وزیر اعلیٰ سے لے کر جماعت اسلامی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی تک تمام کا معاشی ایجنڈایک ہے۔ آنے والے عرصے میں پی آئی اے، واپڈا، سوئی گیس، اسٹیل مل اور دیگر سرکاری اداروں پر سرمایہ کار گدھ منڈلا رہے ہیں۔ ریلوے کی ری اسڑکچرنگ کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اسے کارپوریشن میں تبدیل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ انہی ہتھکنڈوں کے تحت پہلے ہی کئی سرکاری اداروں کو اونے پونے داموں بیچ کر سرمایہ داروں کی لالچ اور ہوس کی بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے۔ پی ٹی سی ایل سے 50 ہزار کے قریب ملازمین کو بیروزگار کیا جا چکا ہے۔ اور اب مزید اداروں کی باری ہے۔
مختصراً اس بجٹ اور آنے والی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں بیروزگاری اور مہنگائی بڑھے گی، روپے کی قدر میں کمی ہو گی، معاشی قرضوں کا چنگل مزید سخت ہو گااور دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھیں گے۔ لیکن دوسری جانب حکمران طبقے اور بڑے مگرمچھوں کی دولت میں اضافہ ہوگا، ان کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹ بڑھیں گے۔ ایسی صورتحال میں طبقاتی تحریکوں کا ابھرنا نا گزیر ہے جسے روکنے کے لیے مختلف رجعتی اور مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کے ذریعے مزید دہشت اور خوف پھیلایا جائے گا۔ سماجی تانے بانے کے بکھرنے اور ریاست کے ٹوٹنے کا عمل اس ملک میں تیزی سے جاری ہے۔ ریاست کبھی بھی دوبارہ اپنے پیروں پر اس طرح مضبوطی سے قائم نہیں ہو سکتی جس طرھ آج سے چند دہائیاں قبل موجود تھی۔ یہ ناگزیر طور پر مزید تباہ ہو گی۔ اسی لیے عوام پر جبر کرنے کے لیے اور تحریکوں کو دبانے کے لیے روایتی طریقوں کی بجائے منظم دہشت گردی، خود کش حملوں، فرقہ وارانہ، لسانی، قومی تعصبات کا استعمال کیا جائے گا۔ مزدور تحریک کو زائل کرنے کے لیے بھی بکاؤ ٹریڈ یونین لیڈروں کا سہارا لیا جائے گا جو نجکاری کے زہر کومیٹھا شربت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ماضی کے تجربات اور حکمران طبقے کی مکمل ناکامی عیاں ہونے کے باعث یہ دکانداری اب زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔
لاکھوں گلے سڑے ڈھانچے احتجاج کرنے کے لیے جب سڑکوں پر آئیں گے تو اپنے ظالم آقاؤں کی ہڈیا ں تک چبانے سے گریز نہیں کریں گے۔ عالمی سطح پر ابھرنے والی تحریکیں پاکستان میں ابھرنے والے انقلاب کا پیش خیمہ ہیں لیکن یہاں مارکسی قوتوں کی موجودگی اس تحریک کو چہروں کی تبدیلی کی بجائے نظام کی تبدیلی کی منزل تک لے کر جائے گی۔ اسی مارکسسٹ لینن اسٹ سیاسی قوت کی قیادت میں پاکستان کے محنت کش اور نوجوان ظلم و استحصال پر مبنی طبقاتی نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کریں گے۔